قرآن مجید میں غوروفکر: قرآنی سوالات کی روشنی میں

ایڈمن

سوال‘ایسا لفظ ہے جسے ہم اکثر سنتے، بولتے اورواضح کرتے رہتے ہیں۔ جب تک کہ سوال کا قابل اطمینان جواب نہ ملے، دلچسپی اور جستجو باقی رہتی ہے۔ سنجیدہ، معقول اور فکر انگیز سوالات انسانی فطرت سے میل کھاتے ہیں۔اللہ…

سوال‘ایسا لفظ ہے جسے ہم اکثر سنتے، بولتے اورواضح کرتے رہتے ہیں۔ جب تک کہ سوال کا قابل اطمینان جواب نہ ملے، دلچسپی اور جستجو باقی رہتی ہے۔ سنجیدہ، معقول اور فکر انگیز سوالات انسانی فطرت سے میل کھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے، بولنے اور سمجھنے کی جن قوتوں سے سرفراز فرمایاہے، ہر سوال ان قوتوں کے وجود کا اظہار اوران کے بہتر استعمال کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
سوال‘ مخاطب پر اعتماد بھی ظاہر کرتا ہے اور اس کی علمی وعقلی قابلیتوں پر محیط بھی ہوتا ہے۔نہ والدین اور نہ ہی اساتذہ کوئی ایسا سوال کرتے ہیں جن کا جواب دینا بالکل ناممکن ہو۔ انسانی ضمیر کو مخاطب کرنے کا یہ طریقہ خود خالق ارض وسماء اختیار کرتا ہے، تاکہ انسان نہ صرف اپنی خودی سے بلکہ اس کائنات کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرلے اور نتیجتاً معرفت رب و خودی سے متعلق اس کے شعور و احساس میں پختگی آجائے۔
قرآن مجید اپنے دعوے’منزل من اللہ‘ (45:02) اور ’ھدی للناس‘ (2:185) کے ذریعہ ساری انسانیت سے ایک زندہ اور معنوی تعلق قائم کرلیتا ہے۔ مختلف موضوعات سے متعلق بحث، بنیادی عقائد کی پرزور وضاحت اور متنوع افکار و خیالات کے ذریعہ ان دعوؤں کی دلنشین پیرائے میں وضاحت قرآنی تعلیمات کا خاصہ ہے۔
قرآنی آیات کی تلاوت سے یہ تأثر بنتا ہے کہ یہ کتاب پڑھنے والے کو اپنے ہمراہ لے کر چل رہی ہے، کبھی کسی مرحلہ میں ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ اس کتاب کے منشأ و مدعا اور قاری کے درمیان کسی قسم کا پردہ حائل ہے،اور کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کتاب اپنی تعلیمات پر لازماً ایمان لانے کے لیے کسی قسم کا خارجی یا داخلی دباؤ بنارہی ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ کتاب قاری کے دل کے تار ضرورچھیڑ دیتی ہے اور فکر ونظر پر کچھ ایسا اثر ڈالتی ہے کہ قاری خود اپنی ذات پر اور اطراف کے ماحول پر ’’قرآنی نگاہ‘‘سے غور و فکر کرنے لگتا ہے۔
قرآن کے طرز تخاطب کا ایک انتہائی دلنشین باب ‘قرآنی سوالات ہیں۔ہر سوال‘ پڑھنے والے سے ہے‘ چاہے وہ کوئی بھی ہو اورچاہے کسی بھی زماں ومکاں کا ہو۔قرآنی سوالات کا باب ایک ایسی پرکشش دنیا پیش کرتا ہے جس میں معرفت کی پررونق بہاریں بھی ہیں اور قلب وذہن کوجھنجوڑنے کا سامان بھی۔ تلاش و جستجو کے بے انتہا امکانات بھی ہیں اور سابق و موجودہ حالات کے معروضی مطالعہ کی وسعتیں بھی۔ ان سوالات کے سلسلے میں حقیقت پسندانہ اور معقول رویہ قلب کو وہ مقام عطا کرتا ہے جہاں وہ اپنے خالق کی پسند وناپسند کے مطابق ڈھل جاتا ہے اور ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن ‘‘کے مصداق زندگی بن جاتی ہے۔
ذیل میں مضامین اور ان سے متعلق سوالات درج کیے جارہے ہیں۔اللہ کرے کہ یہ سوالات‘ کتاب اللہ سے ایک زندہ اور معنوی تعلق قائم کرنے میں ممد ومعاون ہوں۔
توحید
توحید‘ انسانی فطرت کا اظہار ہے۔اللہ تعالیٰ نے جس فطرت سلیم پر انسان کی پیدائش فرمائی ہے اس کی یاددہانی، اس کے تقاضوں کا استحضار اور ہر حال میں رب سے وابستگی‘ عقید�ۂ توحید کا سرچشمہ ہے۔قرآن مجید اس کے تفصیلی ذکر پر مشتمل ہے، اس عقیدہ سے متعلق تعلیمات کا بیان عقلی، منطقی اور سائنسی دلائل کے ساتھ ہوا ہے۔اس ضمن کے قرآنی سوالات ‘ اسی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ دیکھئے خدا خود بندوں سے کیا پوچھ رہا ہے:
2 ان سے کہو ‘ کیا تم اللہ کو چھوڑ کراس کی پرستش کرتے ہوجو نہ تمہارے لئے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ (المائدہ: ۷۶)۔
2 ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کاہے؟ (الانعام:۱۲)۔
2 ذرا غور کرکے بتاؤ ‘اگر کبھی تم پراللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یاآخری گھڑی آپہنچتی ہو تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟(الانعام:۴۰)۔
2 ان سے کہو ‘ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اورسماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہرکردے تو اللہ کے سوااور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو؟ (الانعام:۴۶)۔
2 ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندرکی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچالیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟ (الانعام:۶۳)۔
2 ان سے پوچھو‘ کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ (یونس :۳۱)۔
2 ان سے کہو‘ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے تو تم کیا کرسکتے ہو؟ (یونس: ۵۰)
2 کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (مریم: ۶۵)
2 کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ (الحج: ۷۰)۔
2 ان سے پوچھو‘ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ (المومنون: ۸۶)۔
2 کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے؟اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی(یہ کام کرنے والا) ہے ؟ (النمل: ۶۲)۔
2 ان سے کہو ‘ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو‘ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟ (الاحزاب: ۱۷)۔
2کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ (الزمر: ۳۶)
2 ان سے کہو‘ کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ (الفتح: ۱۱)
2کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ (التین: ۸)۔
قدرت
یہ کائنات انتہائی حسین و جمیل ہے۔ مخلوق کا حسن‘ خالق کے حسین و جمیل ہونے کا پتہ دیتا ہے۔چاہے آسمانوں میں تیرتی دلکش کہکشائیں ہوں کہ زمین میں موجود گہرے سمندر ‘وسیع وعریض جنگلات اور خوبصورت باغات ‘ ہر جگہ قدرت کی کاریگری کے جلوے نمایاں ہیں۔ انسان کی فنی ‘ تمدنی اور تہذیبی حس نے خدا کی اسی کاریگری کو نت نئے پہلوؤں سے اجاگر کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید زمین اور آسمانوں کے احوال سے متعلق تھیوریز پیش کررہا ہے اورساری کائنات اس کا مجسم بنی ہوئی ہے۔حسب ذیل قرآنی سوالات پر غور کیجئے کہ خدا نے کس خوبصورتی کے ساتھ یہاں موجود اشیاء کے وجود کاذکر کیا ہے۔ ان قرآنی آیات پرتوجہ مرکوز رکھئے‘ ایسا محسوس ہوگا کہ آپ کا وجود اور یہ ساری کائنات الہی تعلیمات کے ہمراہ ایک آفاقی سفر پر ہیں:
2کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟ (الرعد: ۴۱)۔
2کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ (النحل: ۷۹)۔
2کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے او راس کی بدولت زمین سرسبز ہوجاتی ہے؟ (الحج: ۶۳)۔
2کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کررکھا ہے جو زمین میں ہے ؟اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر گر نہیں سکتا؟ ( الحج: ۶۵)۔
2کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیج کررہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑرہے ہیں؟ (النور: ۴۱)۔
2کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے‘ پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے‘ پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنادیتا ہے‘ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں؟ (النور: ۴۳)۔
2تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلادیتا ہے؟ (الفرقان: ۴۵)۔
2کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟ (الشعرا: ۷)۔
2 بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اُگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ (النمل: ۶۰)۔
2 وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑدیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردےئے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدابھی (ان کاموں میں شریک ) ہے؟(النمل: ۶۱)
2کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتداکرتا ہے‘پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ (العنکبوت: ۱۹)۔
2 ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے؟ (العنکبوت: ۲۰)
2کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے‘ سب ایک وقت مقررتک چلے جارہے ہیں اور (کیا تم نہیں جانتے کہ)جو کچھ بھی تم کررہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے؟(لقمان: ۲۹)۔
2 کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے ؟ (لقمان: ۳۱)۔
2 کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا کہ ہم ایک بے آب و گیاہ زمین کی طرف پانی بہا لاتے ہیں‘ پھر اسی زمین سے وہ فصل اگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ ملتا ہے اور یہ خودبھی کھاتے ہیں؟ (السجدہ: ۲۷)۔
2 کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ (سبا: ۹)
2 ان سے پوچھو‘ کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ (سبا: ۲۴)۔
2 کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ ان کے مالک ہیں؟ (یس: ۷۱)۔
2 کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا ‘ پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا‘ پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں‘ پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں پھر تم دیکھتے ہوکہ وہ زرد پڑگئیں‘ پھر آخر کار اللہ ان کو بھس بنادیتا ہے؟ (الزمر: ۲۱)۔
2 کبھی تم نے غور کیا ‘ یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ‘ اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ:۵۹)۔
2 کبھی تم نے سوچا ‘ یہ بیج جو تم بوتے ہو‘ ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا ان کے اُگانے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: ۶۴-۶۳)۔
2 کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ‘ یہ پانی جو تم پیتے ہو‘اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: ۶۹-۶۸)۔
2 کبھی تم نے سوچا ‘ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو ‘ اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: ۷۲-۷۱)۔
2 کیایہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو؟ (الملک: ۱۹)۔
2 کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ (الغاشیہ: ۲۰-۱۷)۔
نعمتیں
اس حسین کائنات میں قدرت کے جلوے‘ دراصل نعمتوں کاایک طرح سے اظہار ہیں۔اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں‘ ان کا احاطہ ممکن نہیں۔قرآن مجید‘ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی طرح طرح سے یاد دہانی کراتے ہوئے ‘انسان کو منعم حقیقی کا مطیع و فرمانبردار بناتا ہے۔اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور جہتوں پر غور کیجئے:
2 ان سے کہو ‘ کس نے اللہ کی زینت کوحرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا تھااور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟ (الاعراف: ۳۲)۔
2 ان سے کہو‘ تم لوگوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لئے اتارا تھااس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرالیا‘ ان سے پوچھو ‘ اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افتراء کررہے ہو؟ (یونس:۵۹)۔
2 کیا ان کو دکھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ (النمل: ۸۶)۔
2 کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے(جس کا چاہتا ہے)؟ (الروم: ۳۷)۔
2 کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟کوئی معبود اس کے سوا نہیں آخر تم کہاں سے دھوکہ کھارہے ہو (الفاطر: ۳)
2 تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ (الرحمن: ۱۳)۔
2 بتاؤ تو صحیح کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر وہ اپنا رزق روک لے؟ (الملک: ۲۱)۔
2 کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا؟ ( المرسلات: ۲۵)۔
2 کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایااور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا؟ (النبا:۷-۶)
2 پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھو؟ (عبس:۲۴)
فطرت انسانی
انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی فطرت پر کی گئی ہے‘ایک خدا پر ایمان دراصل اسی فطرت کی جانب رجوع ہے (الروم:30)،چونکہ اس فطرت کے مطابق حق وباطل کا فرق کھول کھول کر بتادیا گیا ہے اور ہر انسان میں یہ بنیادی باتیں ودیعت کردی گئی ہیں‘ اس لیے‘ اسلام میں جبر اور زور نہیں۔بروقت یاددہانی اور ایک خوبصورت تذکیر سے انسانی قلوب واذہان بدل سکتے ہیں۔ دیکھیے رب کریم کیسے اپنے بندوں کو متوجہ کرتا ہے:
2 کہو‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ (الانعام: ۱۴)
2 ان سے پوچھو تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟ (یونس: ۳۵)
2 کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں، نہ نقصان؟ (الانبیاء : ۶۶)
2 اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار)ہے؟ (النمل: ۶۴)
2 کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ (العنکبوت: ۱۰)
2 کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنادیا ہے حالانکہ ان کے گردوپیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں؟ کیاپھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں؟ (العنکبوت: ۶۷)
2 کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غورو فکر نہیں کیا ؟ (الروم: ۸)
2 وہی جانتاہے کہ ماوؤں کے پیٹوں میں کیاپرورش پارہا ہے؟کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے؟ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے؟ (لقمان: ۳۴)
2 کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جو مطیع فرمان ہے‘ رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے‘آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب سے رحمت کی امید لگاتا ہے؟ ان سے پوچھو‘ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ (الزمر: ۹)
2 کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اورایک مقررہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ (المرسلات: ۲۱-۲۰)
2کس چیز سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا؟ (عبس: ۱۸)
2 پس انسان ذرا یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟ (الطارق: ۵)
2 کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پاسکے گا؟ (البلد: ۵)
2 کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟ (البلد: ۷)
2 کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دےئے؟ (البلد:۹-۸)
2 کیا وہ (شخص)نہیں جانتا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے؟ (العلق: ۱۴) (باقی آئندہ)

محمد عبد اللّٰہ جاوید، کرناٹک

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں