انس ابو ہریرہ
اللہ تعالی نے اس کائنات کو نہایت اہتمام کے ساتھ تخلیق کیا،اور پھر اس میں اپنی ایک اہم اور خوبصورت مخلوق انسان کو بھیجا، اس کے لئے اس کائنات میں ساری سہولیات اور وسائل مہیا کئے، اور اس میں موجود تمام وسائل و ذرائع کو استعمال کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ انسان ابتداء سے زندگی گزارنے اور برتنے کے لئے ہدایات خداوندی کا محتاج رہا ہے لہذا اللہ تعالی نے انبیاء و رُسل اور اپنی کتابوں اور صحیفوں کو بھیج کر انسان کی اس ضرورت کی تکمیل کی، جب انسانیت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی تو اس نے آخری نبی کے ساتھ اپنی آخری کتاب کو بھیج دیا جو رہتی دنیا تک انسانی زندگی کا دستور بن سکے اور جس کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہر زمانے میں اٹھنے والے مسائل اور ہر دور میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کر سکے اور ان کا حل پیش کر سکے اور اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا کہ اگر انسان اس کتاب میں مندرج عقائد پر قائم رہے تو یہ کتاب انہیں زمین میں اقتدار بخشے گی اور عزت و سر بلندی سے ہمکنار کرے گی ”وَ انتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُّومِنِین“ (ترجمہ: اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے، سورہ آل عمران،آیت 139)
پروردگار عالم کے اس وعدے کی تصدیق تاریخ اسلام نے کر دی۔ چنانچہ چشم فلک نے دیکھا کہ چوپایوں کی گلہ بانی کرنے والی قوم نے اس کتاب سے منسلک ہو کر صدیوں تک قوموں کی جہانبانی کی۔مگر افسوس! آہستہ آہستہ مسلمانوں نے علم و حکمت کے اس خزانے سے منہ موڑنا اور اس سے پہلوتہی کرنا شروع کر دیا۔چنانچہ بتدریج ان سے عزت و سربلندی سلب کر لی گئی اور ان کی معاشرتی،اخلاقی اور تعلیمی شناخت مسخ ہو گئی۔
کسی قوم کے نوجوان اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے اجتماعی نظام کے ستون ہوتے ہیں۔در حقیقت کسی قوم کا عروج و زوال ان ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر امت مسلمہ کے نوجوان قرآن مجید سے استفادہ شروع کر دیں اور اس میں موجود اصول و ضوابط کو اپنی عملی زندگی میں کرنا شروع کر دیں تو یقینا امت کی یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے اور اسے اس کا کھویا ہوا ووقار واپس مل سکتا ہے۔ ذیل میں قرآن مجید سے استفادے کے تعلق سے چند باتیں پیش کی جا رہی ہیں جن سے دوران مطالعہ رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے
قرآن مجید سے استفادے کے وقت یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ کتاب کتاب ہدایت ہے۔اس سے ہمیں ہدایت حاصل کرنی ہے۔ اس سے ہمیں شاہراہ حیات پر گامزن ہونے کے لئے رہنما خطوط حاصل کرنے ہیں اور دنیا کی تاریکیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نور حاصل کرنا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:”ذَلِکَ الکِتَابُ لَا رَیبَ فِیہِ ھُدیً لِّلمُتَّقِین“(ترجمہ: یہ کتاب الہی ہے۔ اس کے کتاب الہی ہونے میں کوئی شک نہیں، خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے، سورہ البقرہ،آیت 02)۔ دوسری جگہ مزید تفصیل کے ساتھ فرمایا:”اِنَّ ھَذَا القُرآنَ یَھدِی لِلَّتِی ھِیَ اَقوَمُ“(ترجمہ: بے شک یہ قرآن اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھاہے، سورہ بنی اسرائیل،آیت 09)۔ قرآن مجید کے ہر بیان سے ہدایت حاصل کرناضروری ہے وہ اقوام و ملل کے عبرت انگیز قصے ہوں یا یہود اور منافقین کے مکر اور چالبازیوں کا ذکر ہو یا جنت و جہنم کا ذکر ہو یا مومنین و کفار کی صفات کا ذکر ہو یا اللہ تعالی کی طرف سے بندوں سے خصوصی خطاب ہو، تمام مضامین سے ہدایت حاصل کرنا اور ان سے آگے کی منزلیں طئے کرنا آپ کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ قرآن کو اگر آپ کسی اور مقصد سے پڑھیں گے تو اس کی روح سے فائدہ اٹھانا نا ممکن ہو گا۔
قرآن مجید کو تمام علوم پر فوقیت حاصل ہے
یہ بات لازما ذہن میں رہنی چاہئے کہ تمام علوم میں اولیت بہر حال قرآن کو دی جائے گی اور تضاد کی صورت میں بلا چوں وچرا اور بغیر کسی تکلف کے مقابل رائے کو مسترد کر دیا جائے گا، خواہ دوسری رائے کتنے ہی اہم اور با وثوق ذرائع سے کیوں نہ حاصل ہوئی ہو۔جدید سائنس کی تحقیقات اگر قرآن مجید کے بیان کی مخالف ہوں تو انہیں یکسر مسترد کر دیا جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس معاملے میں سائنس ابھی حقیقت تک نہیں پہنچی سکی ہے کیونکہ خالق کائنات کا اس کائنات کے سلسلے میں کوئی بیان غلط اور مہمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی حدیث قرآن مجید سے ٹکرا رہی ہو اور آیت اور حدیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو قرآن مجید کے بیان کی غیر ضروری تاویل نہیں کی جائے گی بلکہ حدیث پر توقف کیا جائے گا۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی بیان قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید کے مطالعہ کے وقت مسلک و مشرب کے تعصب سے کنارہ کش اور فرقہ وارانہ ذہن سے پاک ہونا نا گزیرہے یقینا یہ چیزیں قرآن مجید سے استفادے کی راہ میں حائل ہوں گی۔
قرآن کے مخاطب آپ ہیں
آیات قرآنی کا مخاطب صرف ماضی کے لوگوں کو سمجھ لینے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عہد حاضر کا مسلمان قرآن کے بڑے حصے سے خود کومستثنی کر لیتا ہے اور مشرکین مکہ،اہل کتاب یعنی یہود و نصاری اور مستضعفین ایمان سے خطاب اور ہلاک کی گئی قوموں کی داستانوں سے سرسری گزر جاتا ہے اورخود کو اس سے الگ سمجھ بیٹھتا ہے۔قرآن مجید کے مطالعہ کے وقت ذہن میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس کی ہر آیت آپ سے متعلق ہے بلکہ آپ ہی کے لئے نازل ہوئی ہے۔ ہر آیت کا مخاطب آپ خود کو سمجھیں۔ اگر قرآن میں منافقین کا ذکر ہو اور ان کی خامیاں بیان ہو رہی ہوں تو آپ اپنا جائزہ لیں کہ مبادا یہ خصلتیں خود آپ کے اندر تو موجودنہیں ہیں، اگر ایسا ہے تو انہیں دور کرنے اور مومنین کے لئے بیان کی گئی صفات سے خود کو متصف کرنے کی کوشش میں لگ جانا چاہیے۔انسانوں کی مثبت صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے اور منفی صفات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس طرز عمل کو اپنانے سے کفار سے خطاب آپ کے ایمان اور جذبہ شکر کو مزید مستحکم کرے گا۔مستضعفین ایمان سے خطاب آپ کے ایمان کو مزید تقویت بخشے گا۔ یہود و نصاری کی چالبازیاں آ پ کے اخلاص و للہیت کو پائیداری بخشیں گی اور ہلاک شدہ اقوام کے داستانیں آپ کو غلبہ و سر بلندی سے سرفراز کریں گی اور مومنین سے خطاب آپ کو بحیثیت مجموعی مقاصد حیات،فلسفہ حیات اور دستور حیات سے روشناس کرائے گا اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط اور گائیڈ لائنز بخشے گا۔
قرآن مجید کتاب عمل ہے
دور حاضر میں مسلمانوں کی جانب سے قرآن اور علوم قرآن میں تحقیق اور غور و فکر کے سلسلے میں تو خوب جوش و فکر نظر آتا ہے لیکن کتاب کے اصل مقصد سے بالکل صرف نظر کر لیا جاتا ہے لہذا قرآنی علوم اور احکام کے سلسلے میں تو خوب بحثیں اور گفتگوئیں ہوتی ہیں مگر اسے کتاب عمل کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جاتا، لازم ہے کہ آپ قرآن کو اس نیت سے پڑھیں کہ اس کے ذریعہ سے خداوند عالم ہمیں جو احکام دے رہا ہے اسے ہمیں اپنی زندگی میں نافذ کرنا ہے اور حتی الامکان قرآن مجید کی چلتی پھرتی تصویر بننا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہاکہ ”کَانَ خُلُقُہُ القُرآن“(ترجمہ: قرآن ہی ان کا اخلاق تھا،مسند احمد 24269) یہ قرآن مجید سے عقیدت کی انتہا تھی۔آپ سے بھی اس بات کا مطالبہ ہے کہ آپ کے اخلاق و کردار، عادات و اطوار، اور معاملات سے قرآن کی تعلیمات کا عکس جھلکنے لگے۔
قرآن مجید کی روشنی میں اپنا محاسبہ کیجئے
قرآن مجید کے مطالعہ کے وقت یہ بات مستحضر رہنی چاہیے کہ یہ ایک کسوٹی ہے جس میں آپ کو خود کو پرکھنا ہے، اس آئینے میں آپ کو اپنی تصویر کا جائزہ لینا ہے اور اگر پیشانی پر کوئی داغ نظر آئے تو اسے بہر صورت مٹانا ہے۔ اپنا محاسبہ بے لاگ ہونا چاہئے۔اس میں کسی قسم کی رعایت ہر گز نہ کیجئے۔بلکہ معمولی غلطیوں کا بھی سختی سے نوٹس لیجئے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کیجیے کہ اپنے اعمال زندگی کی وجہ سے کسی پہلو سے آپ قرآن کے منفی گروپ میں تو نہیں شامل ہو رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو قرآن مجید میں دئیے گئے نسخے کی مدد سے اپنی اصلاح کیجیے اور شخصیت میں بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کو نکال باہر کیجئے۔ انصاف کے ساتھ اپنی ذات کا محاسبہ کیجئے پھر غور کیجئے کہ ہماری صفات مومنین کی صفات ہیں یا راہ راست سے ہٹے ہوئے لوگوں کی؟ اگر جواب منفی ہو تو ان صفات کو مو منین کی صفات سے تبدیل کرنے کی حتی الامکان کوشش کیجئے۔ اگر انصاف کے ساتھ اپنی ذات کا محاسبہ کر کے اس کی اصلاح کر لیں تو یقینا آپ کی زندگی ایک مثالی زندگی بن سکتی ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ اگر ان باتوں کی روشنی میں کیا جائے تو قوی امید ہے کہ اس کتاب سے بڑی حد تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اس کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتاہے۔اس کتاب کے نزول کا اصل مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ورنہ عین ممکن ہے کہ تمام عمر قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کے باوجود پروردگار عالم کے
سامنے نبی کریم ﷺ ہمارے تعلق سے یہ کہ دیں کہ”یَا رَبِّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُو ھَذَا القُرآنَ مَھجُورَا“(ترجمہ:اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا، سورہ الفرقان،آیت30)
ANAS ABU HURAIRA
Madrasa al Islah, Sarai Meer,
Azamgarh, Uttar Pradesh
Email:[email protected]