فرقہ واریت اور ملکی سیاست

ایڈمن

ابوبکرسباق سبحانی۔ اے پی سی آر قدیم ہند کے عظیم سیاستدان آچاریہ چانکیہ بادشاہ وقت کو بے خوف و خطرومحفوظ راج پاٹ کرنے کا پاٹھ پڑھاتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ ’’ اگر عوام کو غلام بناکر حکومت کرنا ہے…

ابوبکرسباق سبحانی۔ اے پی سی آر
قدیم ہند کے عظیم سیاستدان آچاریہ چانکیہ بادشاہ وقت کو بے خوف و خطرومحفوظ راج پاٹ کرنے کا پاٹھ پڑھاتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ ’’ اگر عوام کو غلام بناکر حکومت کرنا ہے تو ان کو ہمیشہ دشمن سے ڈراکر رکھو‘‘، بادشاہ سوچنے کے بعد پوچھتا ہے کہ اگر دشمن موجود ہی نہ ہو تو؟ جس کے جواب میں چانکیہ مشورہ دیتے ہیں کہ’’ ایسی صورت میں ایک تخیلاتی یعنی خیالی دشمن کا خوف قائم کرو‘‘، موجودہ حالات میں دہشت گردی کے مکمل معمہ پر ایک باریک بیں نظر ڈالنے پر ہمارے سامنے ایک تخیلاتی خوف کا سایہ ہی دکھائی دیتا ہے جس کی بنیاد اس فلسفہ پر ہے جو آج بھی ہندوستانی سماج کے سوچ اور شعور میں پوری طرح پیوست ہے، آچاریہ چانکیہ آج بھی ہندوستانی نظام سیاست اور نصاب تعلیم میں اپنی منفرد اہمیت و حیثیت کے حامل ہیں۔
یہی آچاریہ چانکیہ اپنی مشہورکتاب چانکیہ نیتی میں ایک دوسری جگہ حاکم وقت کو مستحکم حکومت کے بنیادی اصول کے طور پر چار اہم اصول یا نکات بیان کرتے ہیں وہ ہیں ۔۔ ۔۔۔سام، دام ، دنڈ اور بھید۔ بھید کا اصول عام زبان میں ’’باٹو اور راج کرو۔ Devide and rule‘‘ کی مشہور پالیسی کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی ہندوستان میں یہ اصول بھی قدیم ہندوستان کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ آج کے ہندوستان میں اگر ہم فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب یا نتائج پر نظر ڈالیں تو اس اصول کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔ مظفرنگر فسادات کی شروعات اگرچہ ۲۷؍اگست کو موضع کوال کے حادثہ سے تقریبا دو ماہ قبل ہی ہوچکی تھی، تاہم کوال حادثہ نے آگ پر تیل کا کام کیا، ایک معمولی سڑک حادثہ پر اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی لڑکی کی عصمت و عفت پر دست درازی کی کہانی تیار کرکے ایک مخصوص اقلیتی طبقہ کے خلاف ’’ بہو بیٹی بچاؤ‘‘ مہم کے جذباتی نعرے کے ساتھ ایک قدیم دوستی و اعتماد کے مضبوط رشتے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرتے ہوئے نہ رکنے ونہ بھولنے والے قتل و خون کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہوگیا۔
فسادات شروع ہوگئے، پہلی دفعہ فسادات کی جڑیں مظفرنگر و متصل اضلاع کے دیہاتوں میں تیزی کے ساتھ پھیل گئیں، یعنی اس بار ٹارگیٹ شہری علاقے نہ ہوکر گاؤں ودیہاتوں کو بنایاگیا، جہاں نفرت کی اس آگ پر قابو پانا اس سرکار کے لئے محال ہوجائے جو اپنے ایک سالہ دور حکومت میں سو سے زائد مسلم مخالف فرقہ وارانہ فسادات کرانے کا الزام اپنے سر باندھ چکی تھی۔
فسادات شروع ہوتے ہی اقلیتی طبقہ کی ہنگامی ہجرت، مکمل بے سروسامانی کے ساتھ، ایسے حالات میں یقیناًکوئی بھی شخص اپنے ان کاغذات کو اپنی یا اپنے اہل خانہ کی زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتا جو ان کی شہریت کا ثبوت پیش کرسکیں مثلا راشن کارڈ و الیکشن آئی کارڈ وغیرہ، تاہم فسادات کے فورا بعد ہی ایک مخصوص فرقہ پرست سیاسی پارٹی کی جانب سے یہ آوازیں بلند ہو نی شروع ہوگئیں کہ مسلم فسادیوں میں ایک بڑی تعداد باہری افراد کی تھی جن میں زیادہ تر بنگلہ دیشی تھے، غرض وہاں کے مسلم فساد زدہ افراد کی شہریت سوالیہ نشان کا شکار ہونے لگتی ہے، قانونی و دستوری اصول وضوابط کے مطابق دستور میں درج بنیادی و شہری حقوق کے حامل صرف اور صرف ہندوستانی شہری ہی ہوسکتے ہیں، یہاں ایک منظم انداز میں شہریت ختم کرنے کی ایک سیاسی سازش کارفرما دکھائی دیتی ہے جس کا خطرناک تجربہ برما حکومت کرچکی ہے۔
فسادات کی آگ بھڑکتے ہی اقلیتی طبقے کی آبادی کو اپنا شکار بنالیتی ہے، جان ومال، عزت و آبرو ، غرض ہر طرح کا بے پناہ نقصان اٹھانے کے بعد حکومت متأثرہ افراد کو تسلی دینے یا سیاسی دباؤ کے پیش نظر متأثرین کی شکایتوں پر ایف آئی آر درج کرتی ہے، کچھ عرصے کے لئے کچھ افراد حراست میں لئے جاتے ہیں پھر کچھ عرصہ گزرجانے کے ساتھ وہی دیکھنے میں آتا ہے جس کی مثال کانپور کے فسادات ہیں، جہاں ۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کی شہادت کے دو دن بعد ہی فرقہ وارانہ فسادات بھڑک گئے، ۲۵۴؍ افراد کا قتل عام نیزہزاروں کروڑ کا مالی نقصان، سیکڑوں خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں، چار ہزار سات سو ایف آئی آر درج ہوئیں، صرف اٹھارہ ایف آئی آر میں چارج شیٹ جمع ہوئی ،جس میں سے صرف ایک معاملہ میں ہی ضلع عدالت اپنے کسی فیصلے تک پہنچ سکی، وہ بھی ۲۱؍ سال گزرنے کے بعد، جو ہمارے ملک میں رائج نظام عدلیہ پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ، بقیہ تمام ہی کیس ۱۹۹۴ میں ملائم سنگھ حکومت نے واپس لے لئے ، یقیناًاس پورے سیاسی ڈرامے سے حکومت کو دوطرفہ سیاسی مفاد حاصل ہوا ، تاہم اقلیتی فرقہ خصوصا اس کی لیڈرشپ ان تلخ حقائق سے مکمل ناواقفیت کے ساتھ ساتھ غیرسنجیدہ بھی ہے۔
فسادات کے نقصانات سے غم زدہ اقلیتی طبقے کو مطمئن کرنے کا ایک سیاسی حربہ جو بظاہر قانونی چولہ اوڑھے رہتا ہے وہ ہے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ایک انکوائری کمیشن کا قیام زیرعمل لانا۔ہر فساد کے بعد ہر حکومت کا پہلا ردعمل یہی قدم ہوتا ہے جس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ متأثرہ طبقے کا اپنی حکومت پر اعتماد کمزور نہ ہونے پائے۔اصولی طور پر اس انکوائری کمیشن کا کام فساد کی مکمل جانچ، ہر زاویہ سے اس کے اسباب نیز ذمہ دار افراد کی نشاندہی و موثر اقدامات کی طرف نشاندہی ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ طریقۂ کاراور انداز میں جس پر عوام خصوصا متاثرین کا بھروسہ قائم ہوسکے کہ انصاف کا عمل مبنی بر انصاف ہی ہوگا۔
آزادی سے اب تک پچاسی ہزارسے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں، جبکہ تقریبا۴۰؍بدترین فسادات میں ہی حکومت کی جانب سے انکوائری کمیشن بنائے گئے ، جن میں سے صرف اگیارہ کمیشن پر ہی ایکشن ٹیکن رپورٹ آسکی ہے۔یہ تمام ہی رپورٹیں حکومتی اداروں کی کوتاہیوں، اہم ثبوتوں کو نظرانداز کرنے کے سلسلے میں عوام و ماہر قوانین کی جانب سے سوالوں کے گھیرے میں رہی ہیں۔بھاگلپور فسادات کی انکوائری پر تشکیل کردہ کمیشن نے دو باہم متضاد رپورٹ پیش کی تھیں، ۱۹۹۳ ممبئی فسادات کی انکوائری کرنے والا شری کرشنا کمیشن ہو یا ۱۹۸۴ سکھ مخالف فسادات پر مبنی رنگاناتھ کمیشن، آج بھی اپنی سفارشات پر عمل درآمد کے انتظار میں سرکاری دفتروں میں گردوغبار کا شکار ہیں۔
۲۰؍ اکتوبر ۱۹۷۸ کو علی گڑھ فسادات کی انکوائری کی غرض سے جسٹس ششی کانت ورما کی قیادت میں کمیشن تشکیل دیا گیا، اس کمیشن کو ۲۰۰؍ گواہوں کے بیانات درج کرنے تھے، تاہم تقریباتین سال کے طویل عرصے میں یہ کمیشن صرف آٹھ گواہوں کے بیانات ہی درج کرسکا جس کے بعد اترپردیش حکومت نے کمیشن کو سردخانے میں ڈال دیا۔ تقریبا اب تک کے حکومت کے ذریعے تشکیل کردہ تمام ہی انکوائری کمیشن کی ناکامی کی وجوہات میں گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی رہی ہے۔ ان کمیشن کی جانب سے ٹھوس و پختہ ثبوتوں کو بذات خود یکجا کرنے کے لیے کوئی ایماندارانہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، اور نہ ہی انہیں حکومتی دباؤ سے آزادکیا گیا ہے، اور نہ ہی حکومتیں بذات خود کمیشن کی مقررہ میعاد کے درمیان انکوائری کی تکمیل کے سلسلے میں سنجیدہ ہوئی ہیں، غرض یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اب تک کے کمیشن صرف اور صرف ایک سیاسی حربہ رہے ہیں جن کا واحد مقصد انصاف کے عمل کو اتنا مؤخر کردینا ہوتا ہے کہ انصاف کی امید ختم ہوجائے، دیرپا انصاف اصولا ناانصافی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات ہوتے نہیں ہیں ہمیشہ کرائے جاتے ہیں، یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم و طے شدہ پالیسی پر سیاسی مقاصد کے تحت عملی اقدامات ہوتے ہیں، انتظامیہ کا کردار ہمیشہ یک طرفہ و جانبدارانہ رہتا ہے، انتظامیہ کی جوابدہی طے کرنے والا ’’پریونشن آف کمیونل وائلنس بل‘‘ فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہے، اس بل کے مطابق ’کوئی بھی فرد چاہے انفرادی طور پر یا کسی تنظیم سے منسلک ہوکر یا کسی تنظیم یا جماعت کے زیراثر آکر کسی دیگر مذہبی یا لسانی اقلیت کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کے ذریعے فساد، خطرات و زنا جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث پایا گیا تو وہ منظم فرقہ وارانہ فساد کا مجرم ٹھہرایا جائے گا‘، اس میں نفرت آمیز پروپیگنڈہ، فرقہ وارانہ فسادات میں مالی تعاون نیز سرکاری افسران یا افراد کی غیرذمہ دارانہ ڈیوٹی بھی شامل ہوگی۔
اس بل کے تحت وہ بیوروکریٹس اور انتظامیہ و پولیس افسران بھی اپنے غیر ذمہ دارانہ عمل و کوتاہیوں و سست روی کے لئے جوابدہ ہوں گے، ان کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوگی، اگر وہ فساد کو روکنے یا حالات پر قابو پانے میں ناکام ہوتے ہیں، یا دنگائیوں کا ساتھ دینے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ بل اعلی افسران کی جوابدہی بھی طے کرتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نظام میں ضلع انتظامیہ یا پولیس افسران کی اب تک ان کی غیرقانونی سرگرمیوں، جانبدارانہ اقدامات نیز فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں کی جانے والی کوتاہیوں کے سلسلے میں جوابدہی کے کوئی بھی اصول و ضوابط طے نہیں کئے گئے ہیں، یقیناًاگر اس سلسلے میں قانونی پیش قدمی کی گئیں، انتظامیہ کو قانونی طور پر ضلع میں لاء اینڈ آرڈر کے لئے ذمہ دار و جوابدہ بنایا گیا تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ضرور ہوگی، پولیس کی اکثریتی طبقہ کو حاصل بے جا و غیرقانونی پشت پناہی کو لگام لگے گی۔ افسوس کہ ہمارے ملک کی فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کا اس بل پر ہنگامہ و مخالفت یہ دعوی مزید مضبوط کردیتی ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات ان کی سیاست کا ایک بنیادی ایجنڈا ہیں نیز وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتی ہیں کہ ایسا کوئی بھی قانون ملک میں تشکیل دیا جائے جو ان کی فرقہ پرست سیاست یا فسادات کی سیاست پر قانونی شکنجہ کسے۔
فسادات میں بھی اقلیتی طبقہ خصوصا مسلم آبادیوں کو بربادیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، فساد کے بعد حکومت کے ذریعے نظام انصاف کو تاخیر کے عمل سے مزید دشوارتر بناکر انصاف حاصل کرنا محال،نیز تعصب و تشدد کا ایک نیا دور شروع کیا جاتا ہے، مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر کا شکار بناکر، بم بلاسٹ کے جھوٹے کیس تیار کرکے، ستم بالائے ستم ان جرائم کی سازش کے الزامات میں جو جرائم ہونے سے پہلے ہی ثابت کردیے جاتے ہیں، پولیس و تفتیشی اداروں کی ایک جیسی کہانی پر کہ فسادات میں ہونے والے نقصانات کا بدلہ لینے کی غرض سے سازش کی جارہی تھی، کچھ اسلحے یا دھماکہ خیز مادے ان کے پاس رکھ دیے جاتے ہیں، اور حکومتی ظلم و زیادتی کی ایک نئی داستان شروع ہوجاتی ہے ، ہم نے یہ مسلم مخالف پالیسی تقریبا ہر بڑے فساد کے بعد دیکھی چاہے وہ ۱۹۹۲ کا کانپور فساد ہو، ۱۹۹۳ کا ممبئی فساد یا ۲۰۰۲ کا گجرات فساد، مثالیں بے شمار ہیں۔
فرقہ وارانہ سیاست کا دوسرا ہتھکنڈہ یا سیاسی ایجنڈا ’’ دہشت گردی کی سیاست ‘‘ پر مبنی ہے، بم بلاسٹ سے زیادہ اس کے بعد ہونے والا پروپیگنڈہ عوام میں خوف وہراس پیدا کرتا ہے، انسانی نفسیات جان و مال کا تحفظ تلاش کرتی ہے، اگر آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگا تو یقیناًآپ اپنے دیگر تمام ہی انسانی و سماجی تقاضوں کو حتی المقدور نظرانداز کردیں گے، ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات شاذونادر ہیں تاہم ان پر کئے جانے والے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے یا سیاست کہیں زیادہ، آج جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ملک میں ہوئے بم دھماکوں کے حادثات میں تشددپسند ہندتوا طاقتیں ملوث تھیں، ان حادثات میں قید مسلم ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا تاہم آج بھی شک کی سوئی ہو یا تفتیشی ایجنسیوں کا نشانہ مسلم نوجوان یا مسلم نام ہی الزام کے کٹھگرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ دھماکے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلم نوجوانوں، مسلم جماعتوں کے نام، کچھ علاقوں کی طرف اشارے، پھر میڈیا کافرقہ پرستی پر مبنی شورشرابہ، مسلم گلی محلوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، تاہم ہزاروں گرفتاریوں کے باوجود آج بھی کم طاقت کے ٹفن بم دھماکوں کا سلسلہ نہیں رکتا، کوئی نقصان نہیں ہوتا، کسی کی طرف سے کوئی مطالبہ یا مکالمہ نہیں، صرف چھوٹے دھماکے اور زیادہ گرفتاریاں، یقیناًدہشت گردی کا یہ انوکھا چہرہ صرف اور صرف ہمارے ملک میں ہی دکھائی دیتا ہے۔
دہلی کی تیس ہزاری کورٹ کا حالیہ فیصلہ یقیناًچونکانے والا تھا اگرچہ وہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ نہیں تھا۔ معاملہ تھا جاوید احمد تانترے اور عاشق علی بھٹ کا، جن کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ۶؍ اگست ۲۰۰۹ کو دہلی میں گرفتار کیا تھا، الزام تھا آنے والے ۱۵؍ اگست پر دہلی میں خودکش بم دھماکوں کی سازش کا، دہلی اسپیشل سیل کے تمام ثبوت، گواہ نیز مکمل کہانی خودساختہ اور جھوٹی ثابت ہوئی، سیشن جج نے نہ صرف دونوں کو بری کیا بلکہ ان پولیس افسران کے خلاف کمشنر کو سخت اقدامات کی تلقین کرتے ہوئے پورے معمہ کو شہرت نیز ترقی و ایوارڈ حاصل کرنے کی غرض سے تیار کی گئی سازش قرار دیا، زندگی کی قیمتی چار سال جیل میں گزارنے کے بعد وہ دونوں رہا ہوئے۔
دوسرا اہم معاملہ پرویز احمد راڈو کا ہے، جسے ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶ کو دہلی اسپیشل سیل نے ایک خطرناک دہشت گرد کے طور پر ملک کے سامنے پیش کیا تھا، جس وقت پرویز کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جارہاتھا اسپیشل سیل کے ایک افسر نے پرویز کے کان میں کہا’’ میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ آج تم امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان سے زیادہ فیمس ہو‘‘۔ پرویز احمد راڈو گرفتاری کے وقت زولوجی سے پی ایچ ڈی کرنے نارتھ کوریا جانے والا تھا، جہاں اس کا ایڈمیشن ہوچکا تھا، اس کیس میں بھی پولیس کی کہانی پوری طرح جھوٹی ثابت ہوئی، حتی کہ کشمیر میں ایک ایسے گاؤں کا وجود ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں جس گاؤں کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔بالآخر اپنی زندگی کے قیمتی سات سال دہلی کی تہاڑ جیل میں گزارنے کے بعد تمام الزامات سے پرویزاحمد راڈوبری ہوا۔
بنگلور میں غیرقانونی سرگرمیوں نیز ملک مخالف دہشت گردی کے الزام میں نوجوان صحافی مطیع الرحمان نیز ڈی آرڈی او سائنسداں اعجاز مرزا کو پولیس نے گرفتار کیا ، یواے پی اے کی دفعات کے تحت جیل میں قید کردیا گیا ، چھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد این آئی اے نے ثبوتوں کے نہ ہونے کی بنیاد پر دونوں کو رہا کردیاگیاتھا۔
۲۰۰۷ مکہ مسجد دھماکہ کے الزام میں بائیس سالہ طالب علم عمران سید کو پولیس نے بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا ، پولیس کی کہانی کے مطابق عمران پاکستان میں ۱۰؍ سال دہشت گردی کی ٹریننگ لے چکا ہے، یعنی وہ ۱۲؍ سال کی عمر میں پاکستان میں ٹریننگ لینے پہنچ گیا تھا، ڈیڑھ سال جیل میں قید رہنے کے بعدوہ بھی باعزت بری ہوگیا۔
ہمارے پاس ایسی نہ جانے کتنی مثالیں موجود ہیں جس میں معصوم و بے قصور مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں قید کیا گیا، میڈیا نیز فرقہ وارانہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ان مظلومین کی مظلومیت پر حتی المقدور سیاست کی، اورطویل عرصہ گزارنے کے بعد یہ نوجوان باعزت بری ہوئے۔ عدالت نے پولیس افسران کی بدنیتی نیز غیرقانونی مقاصد کوبھی تسلیم کیا، بارہا مذمت بھی کی، تاہم افسوس ہماری ملک کی عوامی پارلیمنٹ نے کبھی اس پر معافی یا معذرت و ندامت کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
سرکاری رپورٹوں و عدالتی ثبوتوں کوسامنے رکھتے ہوئے وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے کی جانب سے ہندتوا شدت پسندی اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ملک کی داخلی سلامتی و امن و آشتی کے لئے خطرہ بتانے پر پورے ملک میں سیاست ہوئی، اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے کو معافی مانگنے پر مجبور کیا، یقیناًیہ تعصب اس فرقہ وارانہ سیاست کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو آچاریہ چانکیہ کی اس پالیسی پر مبنی ہے کہ’’ عوام کو ایک خیالی دشمن سے ہی ڈراؤ اگر کوئی حقیقی دشمن موجود نہ ہو‘‘،ہمارے ملک کی عام عوام کے دل میں یہ خوف پیدا کیا جارہا ہے کہ مسلمان ملک کی سالمیت و امن و امان کے لئے خطرہ ہیں، اور صرف ایک مخصوص فرقہ پرست سیاسی پارٹی ہی ان کو اس خطرے سے بچا سکتی ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں