ایک نومولود بچے کے دل میں والدین کے تئیں محبت ایک فطری امر ہے،پیدائش کے ابتدائی زمانوں میں اس کا تعلق صرف والدین سے ہوتا ہے ، انہیں کی گود میں سوتا ہے، روتا ہے اور انہیں سے چمٹا رہتا ہے، ماں باپ اس بچے کی پرورش اور اس کی دیکھ بھال میں اپنا سکون و آرام قربان کرتے ہیں جس سے ان کو غیر معمولی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو لاشعوری طور پر یہ نومولود بچہ اپنے بھائی، بہن اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ دوسرے رشتہ داروں اور پاس پڑوس والوں کو پہنچان جاتا ہے ان کی طرف لپکتا ہے، ان کی گود میں کھیلتا ہے انہیں دیکھ کر مسکراتا ہے اور چند منٹوں کے لئے اپنے ماں باپ سے جدائی اس کو نہیں رلاتی۔
غرض ایک بچے کی پرورش و پر داخت اور اسے شعوری زندگی تک پہنچانے میں صرف اس کے والدین کا ہی رول نہیں ہوتا ہے، بلکہ خدائے پاک و برتر ان کے علاوہ دیگر افراد کے دل میں اس بچے کے تئیں محبت ڈالتا ہے جو اسے اپنی گود میں لے کر ،اسے کھلا کر مسرور اور خوش ہوتے ہیں اور سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے انہیں متعارف کرانے میں گھر والوں کے معاون ہوتے ہیں اگر سماجیات کی زبان میں کہا جائے تو اس بچے کے سماجی کرن (Socialization) میں ان تمام افراد کا کردار ہوتا ہے۔
صالح اور شریف النفس اولاد صرف اپنے والدین اور گھر والوں کے لئے ہی باعث مسرت نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک اچھے پڑوسی ، قابل اعتماددوست، پاک طینت رشتے دار بھی ہوتے ہیں اور سماج میں باوقار اور سلیم الفطرت انسان کی حیثیت سے انہیں نمایاں مقام دیا جاتا ہے اس طرح وہ انسانی سماج کے لئے رحمت ہوتے ہیں جن کی کوششوں سے نیکیاں فروغ پاتی ہیں اور برائی و فساد کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف بد کردار اور شریر النفس اولاد نہ صرف یہ کہ اپنے اہل خانہ کے لئے بدنامی اور رسوائی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ وہ جھگڑالوپڑوسی ناقابل اعتبار دوست اور بدمزاج رشتے دار بھی ہوتے ہیں جن کو سماج میں ایسے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جو برائیوں کا ارتکاب کرتے اور اسے فروغ دیتے ہیں غرض یہ کہ فرد کی سیرت و کردار کی تعمیر اور تخریب میں اہل خانہ اور سماج دونوں کابہت اہم کردار ہوتا ہے اور ان دونوں میں اگر موازنہ کرکے دیکھیں تو گھر والوں کا رول کلیدی معلوم ہوتا ہے۔
اس مضمون میں راقم نے گھر (Family) اور باہر کے لوگ یعنی سماج کے مابین انقطاع گفتگو (Communication Gap) یا ان دونوں کے درمیان رشتوں کی نا ہمواری کے نتیجے میں مسلم بچوں کے اخلاق و کردار پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اور اس درمیان والدین کا عموماً طرز عمل کیسا ہوتا ہے اس حوالے سے گفتگو کی ہے۔
یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ فطرت انسانی تنہائی پسند نہیں ہے اجتماعیت اس کے خمیر میں ہے لوگوں سے ملنا ان سے مختلف نوعیت کے تعلقات استوار کرنا اس کی جسمانی اورذہنی تعمیر کے لئے ضروری ہے جس سے محروم رہ کر وہ انسانی صفات سے خودکو متصف نہیں کرسکتا انہیں تعلقات اور میل جول کے نتیجے میںوہ بہت سے چیزیںلوگوں سے سیکھتا ہے اور سماج کے افراد بھی بہت سی چیزیں اس سے سیکھتے ہیں یعنی علم سماجیات کے دو بڑے نظریات کے برخلاف جس میں سے ایک کا کہنا ہے کہ فرد کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے سب کچھ سماج ہے اور فرد نہ صرف یہ کہ سماج کا اثر قبول کرتا ہے بلکہ سماج جس طرح اور جیسے چاہتا ہے فرد کی شخصی تعمیر ویسے ہی ہوتی ہے۔ جب کہ دوسرے نظریہ کے مطابق فردکی شخصی تعمیر میں سماج کا کوئی رول نہیں ہوتا ہے چونکہ فرد عقل و شعور رکھتا ہے اور اپنے بھلے اور برے کا اسے بخوبی علم ہوتا ہے ا س لئے اپنے اخلاق و کردار کی تعمیر اور تخریب میں وہ سماج کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا یہ دونوں نظریات افراط و تفریط پر مبنی ہیں۔
ان دونوں افکار کے بر عکس یہ بات زیادہ قابل قبول ہے کہ فرد کے افکار و اعمال پر سماجی تبدیلوں کا اثر ہوتا ہے اور ایک فرد اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سماج کو متاثر کرسکتا ہے لوگ اس کی سوچ و فکر اور اس کے اخلاق و کردار کی روشنی میں اپنی شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں یعنی فرد متاثر ہوتا بھی ہے اور متاثر کرتا بھی ہے ۔
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دنیا میں جو بڑی بڑی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں مثلاً صنعتی انقلاب، فرانس کا انقلاب اور بہت سے دیگر نظریات و مباحث مثلاً جدیدیت ، ما بعد جدیدیت، تحریک حقوق نسواں، لبرل ازم اور کمیونیٹرینزم وغیرہ نے انسانی زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے ہیں اور انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس پر اس کے اثرات نہ پڑے ہوں۔ ان تحریکات اور افکار کے نتیجے میں انسانوں نے علمی اور مادی اعتبار سے تو خوب ترقی کی مگر انسانی روح فاقہ زدہ ہوگئی،رشتے اور تعلقات نہ صرف یہ کہ کمزور ہوگئے بلکہ بہت سے پاکیزہ رشتے اور سماجی ادارے (Social Institutions) جو اخلاق و کردار کی تعمیر میں معاون ہوا کرتے تھے اور برائیوں کا ارتکاب کرتے وقت سماجی رکاوٹ (Social Control) کا کام انجام دیتے تھے ان کے وجود اور جواز پر ہی حملہ کر ڈالا ہے اور بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انسان کی’’اخلاقی ذمہ داری‘‘ نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے ۔
مثال کے طور پر ہمارے سماج میں چند سالوں قبل تک لوگوں کا اخلاق کچھ ایسا تھا کہ جب کوئی شخص کسی بچے کو کوئی غلط کام کرتے پاتا تو وہ اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا کہ اسے منع کرے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے ساتھ سخت رویہ اپنائے یہاں تک کہ ایک محلے یا گاؤں کا کوئی فرد اپنے محلے یا گاؤں کے کسی بھی بچے کو جسے وہ جانتا ہو کوئی غلط فعل کا ارتکاب کرتے دیکھتا تو اسے روکنے کی کوشش کرتا اور والدین بھی کوششوں کو سراہتے اور اظہار تشکر کرتے تھے کہ انہوں نے ان کے بچے کو برائی کی طرف بڑھنے سے روکاہے اور ساتھ اس بچے کو ملامت اور اس کے ساتھ سخت رویہ اپناتے تاکہ اسے بگڑنے سے بچایا جاسکے۔
مگر اب حالات بالکل بدل گئے ہیں پاس پڑوس اور محلے کے لوگ تو بہت دور کے ہیں اپنے سگے چچا، پھوپھی، دادا ، دادی اور اس طرح دوسرے قریبی رشتے دار بھی اگر بچے کو ان کی برائیوں پر ٹوکتے اور منع کرتے ہیں تو والدین اپنے بچے کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کے بچے کے خلاف ہیں اور ان سے دشمنی نکال رہے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس بچے کے اندر برائی کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بنیادی رشتوں کی پاسداری کا احساس اس کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف والدین اپنے بچوں کے اخلاق اور ان کی حرکتوں سے نا بلد ان پر عنایات کرتے رہتے ہیںاور صاحبزادے بری عادتوں کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ۔
والدین کے اس رویہ سے سماجی رکاوٹ (Social Control) پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اب کوئی رشتے دار، پڑوسی اوردیگر لوگ جب کسی کو برے کاموں میں ملوث دیکھتے ہیں تو والدین کا ان کے ساتھ برے اور غیر ذمہ دارانہ سلوک کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنے میں ہی اپنی عزت کو محفوظ سمجھتے ہیں اور انہیں برائی سے نہیں روکتے۔ غرض بچوں کے تئیں والدین کا ایسا طرز عمل ، جس میں حد سے زیادہ ناز برداری ہو،ان کے غلطیوں پر انہیں تادیب کرنے کے بجائے ان کی حمایت میں کھڑے ہونے سے عموماً بچے بگڑ جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ایک بچہ جو غلط راستہ اختیار کرتا ہے وہ صرف اپنے والدین کا بیٹا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ سماج کا ایک حصہ بھی ہوتا ہے جس کی بری عادات و اطوار سے سماج کے دیگر افراد متاثر ہوتے ہیں۔
انسان جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہے نبی آخر الزماں ؐ نے افراط و تفریط کے مابین بھٹکتی ہوئی انسانیت کو عدل و توازن کا درس دیا اور آپ ؐ نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ جسم اور روح کے درمیان توازن قائم رکھا جائے جس میں ہماری فلاح و کامرانی مضمر ہے، مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہم مسلمانوں نے آپؐ کی پیاری تعلیمات کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کو ثانوی حیثیت دے رکھی ہے ، ہماری سعی وجہد ان تمام وسائل و ذرائع کے حصول میں صرف ہو رہی ہیں جن سے مادی اور جسمانی ضروریات کی تکمیل ہوسکے مگر روحانی پیاس بجھانے اور اس کے تعلق سے اس طرح فکرمندی ظاہر نہیں ہوتی جس طرح دنیوی معاملات میں ہوتی ہے اس سلسلے میں والدین کی ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ان کے کچھ حقوق ا ن کی اولاد پر عائد کئے ہیں وہیں ان پر کچھ فرائض بھی متعین فرمائیں ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے ورنہ وہ اللہ کے غضب سے بچ نہیں سکتے ہیں۔
ان حقوق و فرائض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پاکیزہ سماج کی تعمیر و تشکیل کرنا چاہتا ہے جہاں آسانی کے ساتھ اچھائیاں فروغ پا سکیں اور برائیوں کا ارتکاب مشکل سے مشکل تر ہوجائے۔ مگر اس میں بھی افراط و تفریط کے ہم شکار ہوگئے۔ حقوق تو یاد رہے لیکن فرائض کو فراموش کر چکے ہیں اور اگر والدین کو اپنے فرائض کا کچھ بھی ادراک ہے تو صرف اس حد تک کہ اپنے اولاد کو اس قابل بنا دیا جائے جس سے وہ دنیا میں آرام و سکون کی زندگی گزار سکیں اور جن سے وہ اپنے جسمانی لذتوں اور ضروریات کے سامان بہم پہنچاسکیں ، مگر بچوں کی آخرت بنانے ، ان کے دلوں میں اللہ اور رسول کی محبت پیدا کرنے ان کی تعلیمات پر عمل کرکے روحانی پیاس بجھانے کے تعلق سے ان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں جو کہ حقیقی فرائض ہیں ، اس کے تئیں یکسر غفلت اور سرد مہری کا رویہ عموماً والدین نے اپنا رکھا ہے نتیجتاً نئی نسل بے راہ روی اور مادہ پرستی کا شکار ہے اور انسانی سماج کو مکدر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
والدین کے اس طرز عمل کے پیچھے بہت سارے عوامل کار فرما ہیں جہاں ایک طرف ترجیحات کا غلط تعین ہے وہیں’’ اسلامو فوبیا‘‘ کا اثر بھی بہت غالب ہے۔ مغرب اور اس کے حواریین نے بالخصوص ۱۱؍۹ کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خوف ناک تصویر پیش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کا نام آتے ہی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں خوف و دہشت جیسی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس طرح کے تصور نہ صرف یہ کہ غیر مسلم ذہنوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ بہت سے مسلم ذہنوں پر بھی اس کے غیر معمولی اثرات پڑے ہیں مثال کے طور رپر راقم کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر بچہ لہو و لعب اور دوسرے غیر اخلاقی طور طریقوں کا عادی ہے تو والدین اتنی زیادہ ذہنی پریشانی محسوس نہیں کرتے ہیں جتنا کہ اس وقت جب کہ لڑکا نمازوں کی پابندی اور قرآن سے شغف اور اس طرح کے دوسرے دینی کاموں میں دلچسپی لینے لگتا ہے ایسے وقت میں ان کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات ابھرنے لگتے ہیں مثلاً آخر اس کے اندر اس طرح کی تبدیلی کیونکر واقع ہوئی؟ اس کا کیرئیر تو برباد نہیں ہو رہاہے؟ یا ایسے لوگوں کی صحبت میں تو نہیں ہے جو سماج کی نظر میں متشدد ہیں؟ ان کے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات اس لئے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ دشمنان اسلام نے مسلم نوجوانوں کی تصویرکو اس طرح پیش کیا ہے کہ ایک مسلم نوجوان اگر بددیانت اور عیاش ہے تو ملک کے لئے نقصان دہ نہیں ہے لیکن اگر وہی نوجوان اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا بن جائے تو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جاتا ہے، لہذا والدین عموماً بچوں میں اس طرح کی تبدیلی کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے ہیں ۔
مضمون کے ابتداء میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ انسان کی پرورش میں صرف والدین کا رول نہیں ہوتا بلکہ دیگر اعزہ و اقارب اورپوراسماج مل کر انسان کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے لہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ گھر اور سماج کے درمیان رشتے کو بہتر بنائیں، اگر سماج کا کوئی فرد کسی کے گھر ان کے بچوں کی شکایت لے کر پہنچتا ہے تو الٹا اسے بھی لعنت و ملامت نہ کرنے لگیں بلکہ اس فرد کی شکایت کو سنجیدگی سے لیں اور اسے اپنا ہمدرد و بہی خواہ سمجھیں۔
انسان سماجی عوامل سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے اخلاق و کردار سے انسانی سماج پر اثر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات کی ہدایت کی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سماج کو متاثر کر نے کی کوشش کریں تاکہ اچھائیاں فروغ پائیں اور برائیوں کا قلع قمع ہوجائے۔گھر جس سے انسانی سماج کی ابتداء ہوتی ہے اور والدین اس کے نگراں اور نگہبان ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی عادات و اطوار پر گہری نظر رکھیں ، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کا نظم کریں ، انہیں اسلام کا سچا فدا کار اور جانثار بنائیں تا بعد وفات ان کے بچوں کی دعائیں انہیں پہنچتی رہیں۔