مسلمانوں کے اجتمائی ظہور کی جتنی کچھ عملی شکلیں ممکن ہو سکتی تھیں،نظم جماعت،قوم یا ریاست ان تمام سے متعلق غامدی صاحب کو جمہور علماء کے تصور سے اختلاف ہے۔نہ ہی وہ اجتماعت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قومیت کی بناء اسلام تسلیم کرتے ہیں۔اپنی کتاب ’مقامات‘ میں مسئلہ قومیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’رنگ ،نسل ،زبان،تہذیبی روایات اور وطن کی بناء پر اک قوم ہونے کا احساس انسان کی فطرت میں ودیعت ہے ۔تمام انسان اک ہی آدم کی اولاد ہیں لیکن اپنے رشتے سے جو قربت محسوس ہوتی ہیں وہ دوسرے انسانوں سے نہیں ہوتی۔یہی معاملہ قومیت کا ہے۔‘‘ آ گے اسلام میں قومیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اسلام قومیت کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان تمام بنیادوں کو تسلیم کرتا ہے جو علم سیاست میں اسکے لیے بیان کی جاتی ہیں۔قوموں کے مابین مسابقت کے جذبہ اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اسکے شائستہ اظہار پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہیں۔مسلمانوں کے مختلف گروہ اگر اپنی قومیت کے حوالے سے تعارف کرائیں حقوق کا مطالبہ کریں یا اپنی کوئی الگ ریاست قائم کرنا چاہے تو اسے بھی ناجائز نہیں کہتا لہٰذا یہ نقطہ نظر کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے، کسی طرح درست نہیں ہیں۔قرآن نے کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان اک قوم ہیں یا انہیں اک ہی قوم ہونا چاہئے ۔مسلمانوں کے اندر اقوام و ملل کا وجود وہ تسلیم کرتا ہے۔ اسنے جو بات کہی وہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں بلکہ اخوت کا ہے ۔ وہ دسیوںریاستوںاور بیسویوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اس لیے ان سے یہ تقاضا تو کیا جا سکتا ہے کہ اور کرنا چاہئے کہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں ،انکی مصیبتوں اور تکلیفوں میں انکے کام آئیںوہ مظلوم ہو تو انکی مدد کریں معاشرتی اور معاشی روابط کیلئے انکو ترجیح دیں اور ان پر اپنے دروازے کسی صورت بند نہ کریں۔مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور شناخت سے دستبردار ہو کر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں‘‘۔ـً
قومیت سے متعلق اسی طرح کے خیالات کا اظہار غامدی صاحب مختلف موقعوں پر کرتے ہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں ’’ اسلام اور ریاست ۔اک جوابی بیانیہ ‘‘ کہ نام سے انکا مضمون شائع ہوا ۔ جسکا تعارف وہ خود پوری دنیا میں گھوم گھوم کر اس اندازسے کروارہے ہیں گویا جوابی بیانیہ نہیں بلکہ نسخہ ٔ کیمیا ہے کہ جسکی اک چٹکی پھانکتے ہی امت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہو جائیںگے۔جوابی بیانیہ میں لکھتے ہیں ’’ اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے۔ جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآ ن و حدیث نے کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان اک قوم ہیں یا انہیں اک ہی قوم ہونا چاہئے‘‘۔
علوم سیاسیات کے مطا لعہ سے پتا چلتا ہے کہ افراد کے اشتراک و اجتماع سے خاندان وجود میں آتے ہیں۔ خاندانوں کے اجتماع سے معاشرہ بنتے ہیں۔ معاشرہ سے قومیں بنتی ہیں اور قوموں جب سیاسی پختگی کو پہنچتی ہیں تو ریاستوں کا قیام عمل میں آتا ہے۔ عام طور پر زبان، نسل، تہذیب و روایات، مخصوص جغرافیائی حالات،وطن اور مذہب کے اشتراک سے قومیت وجود میں آتی ہیں۔زبان، پیغام کے ترسیل کا سب سے قدیم ذریعہ ہے۔زبان مشترک ہو تو پیغام پہچانا آسان ہوتا ہے۔نسل کا اشتراک حمایت و حمیت کا سب سے بڑا محرک ہیں۔ تہذیب و روایات زندگی میں ہم آہنگی اور ہم رنگی پیدا کرتے ہیں۔جغرافیائی حالات سے تحفظ اور مدافعت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔یہ سب فطری عوامل ہیں۔ ان تمام سے اک خاص دائرے تک اسلام کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔انبیاء اکرام نے بھی اپنی دعوت میں ان فطری داعیات کو استعمال کیا ہے۔اسلام نہ ہی سرے سے تمام عوامل کو ردّ کرتا ہے اور نہ جوں کا توں پورے کا پورا ان کو قبول کرتا ہے۔ان میں سے جو عوامل جس درجہ عقل اور فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں ان کو اسی درجہ اہمیت دیتا ہے۔اور جہاں عقل اور فطرت سے انحراف پایا جاتا ہے اسلام اس کو وہیں روک دیتا ہے۔
جو قومیت ان بنیادوں پر اٹھتی ہیں تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ نہایت ہی تنگ نظر واقع ہوتی ہیں۔انسان کے ہر معاملہ کو اپنی نسل،رنگ،زبان اور وطن کے زاویہ سے دیکھتی ہیں۔معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے کا کوئی آفاقی نظریہ نہیں ہوتا۔اپنی قوم کے علاوہ دوسرے انسانوں کیلئے حسد اور رقیبانہ جذبات ہوتے ہیں۔قومی عصبیت کا جذبہ ترقی کرکے حق اور باطل کا معیار قرار پاتا ہے۔حق اور باطل کے فیصلہ سچائی اور انصاف کے بجائے قومی بنیادوں پر ہونے لگتے ہیں۔حق وہ ہوتا ہے جو میری قوم کیلئے مفید ہو ۔ اور اس جذبہ کی آخری انتہا وہ ہوتی ہے کہ خدا کے رسول کو جبکہ اس کا رسول ہونا واضح ہو چکا ہوتا ہے۔ اور اس کو اسطرح پہچان چکے ہوتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں ،لیکن صرف اس بناء پر اسکا انکار کردیا جاتا ہے کہ ہماری نسل میں کیوں نہیں بھیجا گیا۔اس لیے دنیا میں موجود تمام قومیت کے عوامل میں کسی نہ کسی درجہ کونی نہ کوئی فساد موجود ہے۔اس لیے اسلام ان میں سے کسی کو بھی قومیت کی اساس تسلیم نہیں کرتا۔پھر اسلام کے نزدیک قومیت کی اساس کیا ہے؟مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں۔ ــ’’اسلام میں قومیت کی بنیاد کیا چیز ہے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اسلام میں قومیت کی اساس خود اسلام ہے۔جو شخص اسلام کو قبول کرتا ہے وہ اسلامی قومیت کا جز بن جاتا ہے۔ اور جو اسلام کو قبول نہیں کرتا وہ اسلامی قومیت کا جز نہیں بن سکتا۔یہ حقیقت اگرچہ کہ بالکل واضح حقیقت ہے جس میں کسی شک اور شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہیں۔لیکن قومیت کے جدید نظریات اب دماغوں پر اس طرح مسلط ہو چکے ہیںکہ دوسرے تو درکنار خود مسلمان بھی اس میں شک کرنے لگیں ہیںکہ اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام ہے۔جب تک کوئی شخص کلمہ لا الہ الااللہ کا اقرار نہ کرے اس وقت تک اس کو اسلامی قومیت بحیثیت ایک شریک مساوی کے شامل ہو نے کی سعادت نہیں ملتی۔عرب قوم جس کو کہ خدا کہ اس آخری دین کے حاصل ہونے کا شرف حاصل ہوا سب سے پہلے دنیا میں اس حقیقت کا اعلان کرنے والی بنی تھی کہ اسلام میں قومیت کی اساس اسلام کے اصول و عقائد ہیں نہ نسل،زبان،وطن یا اسطرح کی کوئی اور چیز‘‘۔ قرآن مجید میںانبیائی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہیں کہ انبیاء کرام زبان،نسل، وطن اورتہذیبی روایات سے بنی قوموں کے درمیان ہی اٹھے ہیں اور ان فطری جذبات کو استعمال بھی کیا۔اپنی قوم کو ’’ اے میری قوم ‘‘ کے محبت بھرے لہجے میں بھی پکارا،لیکن کسی نبی کی دعوت یہ نہیں تھی کہ حق بس اب وہی جو میری قوم مانتی،یا قومیت کے نام پر جتھے منظم کرکے دنیا پر پل پڑے۔ بلکہ انبیا اکرام نے ان تمام جاہلی عصبیتوں کو توڑ کر ایمان اور عقیدہ کی بنیاد پر نئی قومیت کی بنیاد ڈالی۔ حضرت نوح علیہ السلام کا اسوہ تو دیکھئے کس درد اور سوز کے ساتھ اپنی قوم کو پکارا،’ اے میری قوم کے لوگو!میں تمہاری طرف خدا کی طرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ اور یہی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرواور میری بات مانو‘۔(سورہ نوح۔۳،۲)۔ اس دعوت کی تپش،سوز،درد محبت اور تڑپ کو خود قرآن اسطرح بیان کرتا ہے ’’ اس نے دعا کی کہ ،اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن رات پکارا مگر میری دعوت نے انکے گریز ہی میں اضافہ کیا۔ میں نے جب ان کو مغفرت کی دعوت دی تاکہ تو ان کو بخشے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ،اپنے اوپر اپنی چادر لپیٹ لی،ضد اور گھمنڈ کا مظاہرہ کیا۔پھر میں نے انکو کھل کر پکارا اور پھر میں نے ان کو ظاہر میں بھی سمجھایا اور پوشیدہ طور پر سمجھایا۔ میں نے کہا اپنے رب سے مغفرت مانگو وہ بخشنے والا ہے۔ (سورہ نوح ۔۱۰ــــ:۵)
اس دعوت پر غور کیجئے ہرایک لفظ سے محبت اور خلوص ٹپک رہا ہے۔لیکن جب قوم انکار کی روش پر اڑی رہی اور اللہ کے مقابلہ بتوں کو تھامے رہی تو یہی محبت بیزاری میں بدل گئی اور اس کو ہلاک ہونے کیلئے چھوڑ دیا۔اور جمیعت متقی اور پرہیز گار لوگوں کی بنا لی جو اللہ سے ڈرنے والے تھے۔اور اسی جمیعت سے قومیں وجود میں آئی۔
’’ اور نوح نے دعا کی ،اے میرے رب تو زمین پر کافروں میں سے ایک کو بھی چلتا پھرتا نہ چھوڑ، اگر توان کو چھوڑدے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور یہ صرف نابکاروں اور نا شکروں کو ہی جنم دینگے۔ اے میرے رب مجھ کو بخش، میرے ماں باپ کو بخش ان کو بخش جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ داخل ہو جائے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بخش اور ظالموں کیلئے تباہی کے سوا کچھ نہ بڑھا۔(سورہ نوح۔۲۷،۲۶)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا معاملہ دیکھئے باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم ؑاسی وطن میں پلے بڑھے، اسی نسل میں پرورش پائی اور اسی قوم کی پیشوائی بھی انھیں بنا جدوجہد کی ملنے والی تھی ۔لیکن جب قوم نے آپکی دعوت کو جھٹلایا تو آپ نے قوم،وطن اور پیشوائی سبھی کو چھوڑ کر ایک بے آب و گیا ہ ریگستان میں اپنی نسل کو لا بسایا اور خدا سے دعا کہ اب اک امت اٹھا جسکی بنیاد،نسل، رنگ، زبان، قوم، وطن نہیں بلکہ صرف اور صرف توحید ہو۔
’’تمہارے لئے ابراہیم اور انکے ساتھیوں میںکے رویے میں ایک اچھی مثال ہے ۔جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بالکل بے تعلق ہیں ہم نے تمہارے دین کا انکار کیا ۔تمہارے اور ہمارے درمیان اس وقت تک عداوت اور دشمنی ہیں جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو(ممتحنہ۔۴)
نبی کریم ؐکا اسوہ ٔمبارکہ دیکھئے جس قوم میں آپ پیدا ہوئے وہ نسلی اور لسانی تفاخر کے اعتبار سے دنیا کی کوئی قوم انکے برابر کی نہ تھی ۔ لیکن حضور ؐنے کسی قومی نعرہ کو بلند نہ کیا بلکہ سب سے پہلی ضرب اسی بت پر لگائی ۔
ْ’’ خدا نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اس سے اسکا جوڑا پیدا کیا اور دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں پھیلا دیا(سورہ نسائ۔۱)۔
اسلام کے نزدیک وطن،جائے پیدائش (جنم بھومی)اور جگہ وفات کوئی اصل چیز نہیں ہے۔
اور وہی ہے جس نے تم کو اک جان سے پیدا کیا پھرہر کا اک ٹھکانا ہے۔اور اک جگہ اسکے سپرد خاک کی ہے۔(انعام)
گروہ اور قبائل کی حیثیت صرف تعا رف کیلئے ہے نہ کہ تفاخر کیلئے اصلی بنیاد تو تقوی ہے۔’’ اے لوگوں ہم نے تم کو اک مرداور اک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیاتاکہ تم آپس میں پہچانے جائو مگر در حقیقت معزز تو تم میں وہی ہیں جوزیادہ پرہیزگار ہیں ‘‘
قریش کو اپنی زبان اور نسل پر بڑا فخر تھا اس لیے حضورؐنے سب سے پہلے اسی کو باطل قرار دیا ۔ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ،تم سب یکساں آدم کی اولاد ہو (بخاری مسلم)۔
نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر،نہ گورے کو کالے پر نہ کالے کو گورے پر ،اگر فضیلت ہے تو تقوی کی بنیاد پر (زادالمعاد)۔وطن،زبان،نسل ان تمام عصبیتوں کو یہ فرما کر ختم دیا کہ’’ جو عصبیت پہ مرا وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کا نعرہ لگایا وہ ہم میں سے نہیں۔جو کسی عصبیت تحت مرا وہ ہم میں نہیں۔(ابودائود)
فتح مکہ کے بعد قریش کے غرور کو توڑتے ہوئے فرمایا’’ اللہ نے تمہاری جاہلیت کی نخوت،اور باپ دادا پر تمہاے گھمنڈ کو ختم کردیا اور خوب سن کھو کہ فخر وناز کا ہر سرمایہ ،خون اور مال کا ہر دعوی آج میرے قدموں کے نیچے ہے۔اسطرح حضورؐنے اک ایسا اسلامی معاشرہ قائم کردیاجس میں نسل اور وطن کے بجائے تمام اہمیت ایمان اور عقیدہ کو حاصل تھی۔اور معرکۂ بدر میں قریش نے دیکھاکہ دین اور عقیدہ نے قریش کو قریش ہی سے لڑا دیا۔جاہلی عصبیت کا سب سے بڑا سپہ سالار یہ دیکھ کر پکار اٹھا، ’اے خدا جس نے یہ قطع رحمی کی بناء ڈالی تو اس کو شکست دے‘۔اس معاشرہ میں اک حبشی اور رومی کے تو بڑے مقام تھے اگر وہ دین کو اپنالیںلیکن اک ہاشمی اور قریشی کیلئے کوئی جگہ نہ تھی اگر وہ حق کا انکار کردے۔اسمیں ابو جہل اور ابو لہب کے قریشی ہونے کے باوجو دانکے لیے کوئی مقام نہ تھا اسکے بر عکس روم کے صہیب ؓ،حبش کے بلال ؓاور فارس کے سلمانؓ کے بڑے مقام اور درجات تھے۔اپنے ماننے والوں کیلئے اسنے قوم کے بجائے ملت اور حزب اللہ کے الفاظ استعمال کیے۔یہاں تعلقات کی بنیاد نسل اور وطن کے بجائے ایمان اور عقیدہ پر رکھی گئی، ’’اے ایمان لانے والوں تم اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا عزیز و اقارب نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں اور جو انکو عزیز واقارب بنائے گا تو وہی ظالموں میں سے ہونگے ۔کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بھائی، تمھاری بیویاں اور تمہارے خاندان اور وہ مال جو تم نے کمائے او ر وہ تجارت جس کی تمہیںکساد بازاری کا تمہیں اندیشہ ہے اور وہ مکان جو تمہیں پسند ہیں اگر یہ تم کو اللہ او راسکے رسول ؐاور اسکی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ فرمائے اور اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرتا (توبہ:۲۴۔۲۳) ۔
’’جولوگ ایمان لائے ہجرت کی اور مال اور جان سے خدا کی راہ میں جہاد کی اور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی یہی لوگ ایکدوسرے کے عزیز و رفیق ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے پر انھوں نے ہجرت نہیں کی۔تمہارے اوپر ان کی آخرت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں‘‘ (انفال: ۷۲)۔معاشرہ کی بنیادیںخون اوروطن کے بجائے ایمان پر رکھی گئی’’ پس وہ اگر توبہ کرلیں نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تب وہ تمھارے دینی بھائی ہیں‘‘(توبہ۔۱۱) ۔ اس معاشرہ میں اہل ایمان کی حیثیت بھائی بھائی کی ہے۔ وہ ایکدوسرے کے ساتھ رحیم،شفیق اور کریم النفس ہوتے ہیں۔ ’’ اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں‘‘ا۔ہجرات۔
محمدؐ اللہ کے رسول اور جو لوگ انکے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔(سورہ فتح)۔ مسلمان اک مسلمان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے اک دیوار میں کی ہر اینٹ دوسری کو تقویت پہچاتی ہیں(مسلم)۔ مسلمانوں کی مثال آپس میں محبت، آپس کی درد مندی، اور آپس کی ہمدردی میں ایسی ہے جیسے اک جسم ہے اگر اسکے اک عضو میں بھی کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلاہوجاتا ہے۔ (مسلم)
ان دلائل کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد خود اسلام ہی ہے۔دور جدید میں مذہب اور ریاست کے الگ ہونے کے تصور کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ گیا ہے کہ یہ مذہبی تعصب ہے ورنہ اسلام قومیت کے بارے میں کوئی احکام نہیں دیتا۔اسلام انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتمائی زندگی میں بھی واضح اور صاف احکامات دیتا ہے۔ورنہ یہ کسطرح ممکن ہے کہ وہ جُرابوں کے مسح مسائل تو بتا دیتالیکن قومیت کی اساس نہ بتاتا۔اسلام کے نزدیک انسانوں میں فرق صرف عقائد اور نظریات کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسکو اس سے کیا غرض کہ کوئی کالا ہے یا گورا ،کوئی آریائی ہے یا اطالوی،کوئی ترکی بولتا ہے یا عربی بولتااور کوئی کسی سمندر کے کنارے پیدا ہوا ہے یا صحرا میں۔ اسلام کے نزدیک جمع اور تفریق کا قائدہ صرف اور صرف عقیدہ اور ایمان ہی ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک موجودہ دور میں مسلمانوں کیلئے قومیت کا عامل وطن ہے۔وہ اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں ۔’’ وہ جس طرح اپنی الگ الگ قومی ریاستیں قائم کرسکتے ہیں اسی دین و شریعت پر عمل کی آزادی ہوتو غیر مسلم ریاستوں میں شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر اک قوم بن کر رہ سکتے ہیں۔ان میں کوئی چیز قرآن اور حدیث کی رو سے ناجائز نہیں ہے‘‘۔یہ وہی پرانا مضمون ہے جو نئے عنوان کے تحت بیان کیا جا رہا ہے۔ جو کسی زمانے میں جمیعت العلماء کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، کہ’’ فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ اس وقت انداز بھدا اور بھونڈا تھا، آج شائستہ ہے۔ لیکن بات بہرحال وہی ہے۔ غامدی صاحب غالبا ًیہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں لوگ قومی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ یہ انکی خام خیالی ہے۔ لیکن آج بھی ایک ایک ملک میں کئی کئی قومیں بستی ہیں۔ کیاہندوستان میں بسنے والے مسلمان ،ہندو،سکھ اور عیسائی ایک قوم ہیں؟ برطانیہ میں بسنے والے ’’ دیسی اور مقامی،امریکہ میں رہنے والے ریڈ اندین،حبشی،اور سفید فام ایک ہی قوم ہیں؟ اسی طرح جرمنی کے یہود اور جرمن اور سامی بھی ایک ہی قوم ہیں؟دنیا میں آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیے افریقہ، جاپان، سری لنکا، روس،فرانس، اٹلی کہیں بھی قوم وطن سے نہیں بنی ہے۔یہ ایک واہمہ ہے ،اک مفروضہ ہے کہ قوم بھی کبھی وطن سے بنا کرتی ہے۔
خوشا نادانی کہ ارباب دانا
قفس کو کہ رہ ہیں آشیانہ
ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ ددنیا میں مسائل کی اک بڑی وجہ یہ وطن پرستی ہی ہے۔ اسکو واضح کرتے ہوئے مولانا سید ابولاعلی مودودی لکھتے ہیں۔
’’میں نے مغربی نیشنلزم اور اس کے اندازِ فکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہل مغرب کے الفاظ میں نقل کرنا زیادہ پسند کیا ہے۔ تاکہ اس کی پوری تصویر خود گھر والوں کے موقلم سے کھینچی ہوئی آپ کے سامنے آجائے۔ اوپر کے اقتباسات میں جن تخیلات اور جن اصولوں پر نیشنلزم کا نشونما ہوا ہے وہ انسانیت کی عین ضد ہیں۔ انہوں نے انسان کو حیوانیت بلکہ درندگی کے مقام تک گرا دیا ہے۔ وہ خدا کی زمین کو فساد، ظلم، خوں ریزی سے بھرنے والے اور انسانی تہذیب کے پرا من نشونما و ارتقاء کو روکنے والے اصول ہیں۔ ابتدا سے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر دنیامیں جن پاک مقاصد کے لئے سعی کرتے رہے ہیں یہ اصول ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ الٰہی شریعتیں جن اغراض کے لیے دنیامیں آئی ہیں اور آسمانی کتابیں جن اخلاقی و روحانی تعلیمات کو لے کر نازل ہوئی ہیں، یہ شیطانی اصول ان کے مد مقابل، ان کے مزاحم اور معاند واقع ہوئے ہیں۔ یہ انسان کو تنگ دل، تنگ نظر اور متعصب بناتے ہیں۔ یہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے کا دشمن بناکر حق اور انصاف اور انسانیت کی طرف سے اندھا کر دیتے ہیں۔ یہ مادی طاقت اور حیوانی زور کو اخلاقی حق کا قائم مقام قرار دے کر شرائع الٰہیہ کی عین بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔
الٰہی شریعتوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انسانوں کے درمیان اخلاقی و روحانی رشتے قائم کرکے انہیںوسیع پیمانے پر ایکدوسرے کا معاون بنایا جائے۔ مگر نیشنلزم نسلی اور وطنی امتیاز کی قینچی لے کر ان رشتوں کو کاٹ دیتا ہے اور قومی منافرت پیدا کرکے انسانوں کو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے بجائے مزاحم اور دشمن بنا دیتا ہے‘‘۔
اسی کو اقبال نے اس طرح واضح کیا ہے
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اسی سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اسی سے
غامدی صاحب کی اس فکر اور خیال کے پیچھے وہ مخصوص حالات جس کا وہ تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ،’’میں نے اپنی قوم کے ان نوجوانوں کیلئے اسلام کے صحیح فکر کی وضاحت کردی ہے جنہیں یہ کہہ کر دہشت گردی کی کاروائیوں کیلئے آمادہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر عرب ،ایرانی اور پاکستانی اور افغانی قومیتوں کا وجود بالکل ناجائز ہے۔‘‘۔
بعض انتہا پسند تنظیمیںقومیت کے معاملہ میں ایک انتہا پر گئی ہیں، تو غامدی صاحب میں اسکے رد عمل میں دوسری انتہا پر چلے گئے۔
از: شبیع الزماں