غزہ اور غرور ستمگراں

ایڈمن

سابق اسرائیلی صدر اسحاق رابن کی یہ تمنا تھی کہ کاش غزہ کی سرزمین کو سمندر اپنا لقمہ بنا لے۔ ایک دن اس کی آنکھ کھلے تو اسے یہ خوش خبری سنائی جائے کہ غزہ ڈوب چکا ہے۔ اب زمین…

سابق اسرائیلی صدر اسحاق رابن کی یہ تمنا تھی کہ کاش غزہ کی سرزمین کو سمندر اپنا لقمہ بنا لے۔ ایک دن اس کی آنکھ کھلے تو اسے یہ خوش خبری سنائی جائے کہ غزہ ڈوب چکا ہے۔ اب زمین کے نقشے پر غزہ نامی خطہ مٹ چکا ہے۔ اسحاق رابن یہودیوں کا مشہور جنگی جرنیل اور وزیر دفاع بھی رہ چکا تھا لیکن غزہ کے سامنے وہ بے بس تھا۔ وہ غزہ کے جانبازوں کا سر جھکانے، ان کا مقابلہ کرنے، ان کی عورتوں کی زبان بندی کرنے، بچوں کو خوف و دہشت میں مبتلا رکھنے اور ان کی آرزوؤں کا گلا گھونٹنے میں ناکام ثابت رہا تھا۔
غزہ نے نہ صرف رابن کے وحشیانہ خوابوں کو چکنا چور کیا تھا بلکہ اسرائیلی فوج اور اس کے کمانڈروں کے لیے بھی وہ ہمیشہ ایک للکار بن کر سامنے آیا۔ غزہ کے جانبازوں کی جرأت کے سامنے اسرائیلی فوج کے حوصلے ہوا کا غبارہ ثابت ہوئے۔ جب تک اسرائیلی فوج غزہ میں رہی موت اور تباہی ان کا مقدر رہی، اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس خطہ سے اسرائیلی درندوں کو نکلنا پڑا۔
آج اسحاق رابن تو نہیں ہے پر اس کا خواب حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ یہ کامیابی یہودی فوج کی محنت اور اس کے کمانڈروں کی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خود ہماری صفوں میں موجود دشمنانِ دین و انسانیت کی وجہ سے ہے، مصر میں موجود فرعون صفت درندوں کی وجہ سے ہے۔ ان یہود نواز ہاتھوں نے غزہ کی زیر زمین سرنگوں میں سمندری پانی چھوڑ کر نہ صرف یہ کہ یہاں کے زیرِ زمین صاف پانی کے معمولی ذخیرہ کو گندہ کرکے اہالیانِ غزہ کی مصیبت میں اضافے کی کوشش کی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی سازش ہے کہ پانی کی وجہ سے یہاں کے ریتیلے علاقوں میں زمین دھنستی جائے اور ان علاقوں میں انسانی زندگی کی بقا کا کوئی امکان باقی نہ رہے، غزہ سمندر کا لقمہ بن جائے اور پھر نہ تو اسرائیل کی نیند اڑانے والے غیوروں اور ناگ کا سر کچلنے کا حوصلہ رکھنے والے بہادروں کا وجود باقی رہے اور نہ ہی ان کے خطے کا۔ مصری حکمرانوں کی یہ کوشش صرف اور صرف اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہے جیسا کہ حماس کے لیڈر مشیر المصری نے کہا کہ ’’دشمن کے ساتھ یارانہ اور اہل غزہ کے لیے اذیتیں۔۔ ایک عرب ملک کے ہاتھوں غزہ کو ڈبونے کی کوشش اسحاق رابن کے خواب کی تکمیل کے لیے ہے‘‘۔
کیا وقت بدل گیا ہے یا حالات بدل گئے؟ ایک وقت تھا کہ ملتِ اسلامیہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ آؤ مل کر اسرائیل کو سمندر میں پھینک دیں اور عالم اسلام کے ماتھے پر موجود اس داغ سے چھٹکارا حاصل کر لیں، پر آج صورتِ حال بدل چکی ہے۔اب اسرائیل کو سمندر میں پھینکنے کی باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ اب ستمگر سے دوستی اور مظلوم غزہ کو غرقاب کرنے اور اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ دعوی یہ ہے کہ غزہ اب مصر کے امن و امان کے لیے خطرہ ہے جس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
آج غزہ کے باشندے اپنوں کی خیانت کی وجہ سے ہمہ اقسام آزمائشوں میں مبتلا ہیں۔ اسرائیل کے ظالمانہ محاصرے نے اس سرزمین کو ایک قید خانہ بنا دیا ہے۔ یہاں انسانیت سسک رہی ہے۔فقر و فاقہ اور تنگی و غربت میں مبتلا،زندگی کے ضروری اسباب سے محروم اہالیانِ غزہ کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی۔ تنگی کے باوجودعزم سے معمور اس آبادی کے لیے اب صرف اسرائیلی محاصرہ ہی آزمائش نہیں ہے بلکہ مصرسے جوڑنے والے رفح کے راستے سے بھی ، جو کہ اس خطے کو دنیا سے جوڑنے والا واحد بری راستہ ہے، ان کے لیے نئی نئی اذیتوں کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔ ان ہی اذیتوں میں سے ایک ہے مصر کی طرف سے غزہ کو ڈبونے کی کوشش!
پر کیا اسحاق رابن کی تمنا پوری ہوجائے گی؟ غفلت میں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ کو چکناچور کیا جاسکتا ہے۔ غزہ نہیں ڈوب سکتا۔ ان شاء اللہ غزہ باقی رہے گا۔ جس نے بھی غزہ کی طرف برے ارادوں سے پیش قدمی کی ہے یہاں کے غیور فرزندوں نے اسے ہزیمت کی راہ دکھائی ہے۔ یہ آزمائشیں ان کو شکست سے دوچار کرنے کے بجائے ان کے حوصلوں کو نئی زندگی عطا کریں گی۔ غزہ کے حوصلے توڑنے کا ارادہ رکھنے والے چلے گئے۔ اسحاق رابن، ایریل شارون، ازمان، ارنس، ایتان دایان ، باراک ان میں سے کوئی باقی نہ رہا۔ ان کے بعد آنے والے یعلون، موفاز، اور بینی گیٹس کو بھی اس دنیا سے جانا پڑا، پر غزہ کے حوصلے آج بھی زندہ ہیں، نئی نسل کے حوصلوں میں بھی کوئی کمی نہیں۔ یہ عزم او ر یہ حوصلہ اہالیانِ غزہ کی میراث ہیں، اس قوم کی میراث جو سب کچھ لٹا سکتی ہے پر اپنی غیرت و آزادی کا سودا نہیں کر سکتی۔
یقیناًغزہ کو سخت ترین مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں تنگدستی اور پریشان حالی کے بے شمار مناظر سامنے آتے ہیں۔ بھوک ، محاصرہ، محرومی، قید و بند ، خونریزی، قتل ، ظلم اور آگ اور خون کا کھیل یہاں اب نیا نہیں رہا۔ یہاں انسانیت کس کرب میں مبتلا ہے اس سے دنیا واقف ہے، پر سب کے لب سلے ہوئے ہیں۔ دنیا خاموش ہے، ظالمانہ محاصرہ کو ختم کرنے کے لیے غزہ کا کوئی ہم نوا نہیں۔
غزہ جن آلام سے دو چار ہے شاید اہلِ غزہ بھی ان کا شمار نہ کر سکیں۔ ان کی یہ اذیت صرف بجلی کے بحران تک محدود نہیں۔ دنیا یہ جانتی ہے کہ غزہ میں صرف ایک پاور اسٹیشن ہے جس کے ایندھن سپلائی نظام پر یا تو اسرائیلی وحشیوں کا قبضہ ہے یا مصری فرعونوں کا۔ بجلی کی سپلائی یہاں گویا ہے ہی نہیں اور یہ صرف ایک مصیبت نہیں۔ اس نے زندگی کے تمام کاروبار کو تباہ کر دیا ہے۔ طبی سہولیات ، تجارت، معیشت، تعلیم اور صنعت ہرشعبہ بجلی کے فقدان کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق غزہ دنیا کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں انتہائی گھنی آبادی ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق 2015 میں اس کی آبادی تقریبا 19؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور 2025 تک یہ آبادی 25؍ لاکھ ہو جائے گی۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے سماجی و معاشی مسائل کی طرف نہ تو عالم اسلام کی توجہ ہے اور نہ انسانی حقوق کا ترانہ پڑھنے والے کھلاڑیوں کی۔
اگر بے روزگاری کے پہلو سے دیکھیں تو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، یہاں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ بے روزگاری ہے۔ 20 تا 24 سال کی عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح 70 فیصد سے زائد ہے جبکہ مجموعی آبادی کا 43 فیصد سے زیادہ حصہ بے روزگاری کا شکار ہے۔ حالات کے مارے یہ لوگ انتہائی معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ اور خصوصی مہارت رکھنے والے افراد روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اپنے اختصاصی میدان سے ہٹ کر دیگر میدانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں تنخواہ پابندی سے نہیں ملتی، اگر ملتی بھی ہے تو ادھوری۔
United Nations Conference for Trade and Developmentکی طرف سے ایک ماہ قبل جاری رپورٹ میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 2020 سے پہلے ہی غزہ کی صورتِ حال اتنی خراب ہو جائے کہ وہ انسانی رہائش کے لیے ناموزوں علاقہ قرار پائے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے مذکورہ ادارے کی رپورٹ کو بہت ہی معروضی اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ سال غزہ پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد اونروا UNRWA (United Nations Relief and Work Agency for Palestine refugees )کو کئی ممالک کی طرف سے ملنے والی مالی مدد روک دی گئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اونروا نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ محدود کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ضروریات کی تکمیل میں ناکام ہے۔ ان کی طرف سے غزہ کے بہت سے کیمپوں کو فراہم کی جانے والی خدمات کو یا تو بند کر دیا گیا یا اس کا دائرہ محدود کر دیا گیا۔
غزہ ان علاقوں میں سے ہے جہاں پینے یا سینچائی کے لیے مناسب پانی کی سخت قلت ہے۔ یہاں بارش کم ہو رہی ہے۔ اسرائیل کے وحشی قوانین نے فلسطینیوں کے لیے زیرِ زمین پانی سے استفادے کی راہ مسدود کر دی ہے۔ یہاں کی مٹی میں نمک کا تناسب بڑھتا جارہا ہے جس نے زراعتی سرگرمیوں پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔
ان سب پر ستم یہ ہوا کہ مصری حکومت نے غزہ سے متصل سر حدی علاقوں میں بھاری مقدار میں کھارا سمندری پانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ چودہ کلومیٹر طویل سرحد کے اطراف میں سمندری پانی چھوڑنے کا مقصد غزہ سے مصر کو جوڑنے والی سرنگوں کو ختم کرنا ہے تاکہ اہلِ غزہ دوبارہ ان سرنگوں کو آمد و رفت کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔
گزشتہ سال غزہ پر ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں جو تباہی آئی اس سے ہر صاحبِ نظر واقف ہے۔ مکانات کھنڈر بن گئے۔ سڑکیں برباد ہوئیں۔ کارخانے بند ہو گئے۔ کاروباری سرگرمیاں رک گئیں۔ ہزاروں ہزار خاندان بے گھر ہوگئے۔ ہزار ہا ہزار بچوں کا تعلیمی سلسلہ رک گیا۔ ہزاروں زخمی اور مریض اب بھی موت سے لڑ رہے ہیں۔ بہت سے وہ بھی ہیں جو معذور ہو گئے۔ کوئی آنکھوں سے محروم ہوا تو کوئی بے دست و پاہے۔
غزہ کی یہ آزمائشیں اور یہ درد بھری صورتِ حال ہے۔ ایک طرف ظالم و دہشت گرد اور ان کے ہم نوا فرعون صفت افراد ہیں تو دوسری طرف مظلوم و ستم رسیدہ غزہ۔ پر کیا غزہ ٹوٹ گیا۔ کیا فاقہ مستوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ کیا وہ جینے کے لیے موت کا سامان کرنے کو تیار ہو گئے؟
غزہ پر ہونے والی وحشیانہ کارروائیوں پر محمود عباس اور فلسطینی حکومت کا موقف اور طرزِ عمل غیور قوم کے ماتھے پر کلنک ہے۔ اپنوں کی پشت پر خنجر گھونپنے والی ملی غیرت سے محروم فلسطینی حکومت کے رویے نے دشمن کے حوصلے مزید بلند کیے ہیں۔ واقعات پر نظر رکھنے والے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ کے خلاف ہونے والی بیشتر اسرائیلی کارروائیوں کے پیچھے محمود عباس اور اس کے ہمنواوؤں کی درپردہ تائید شامل ہوتی ہے پر غزہ کے جیالوں کو سلام ! کہ وہ بِکے نہیں اور جھکے نہیں۔
قریبی دنوں میں پیش آنے والے واقعات بتا رہے ہیں کہ اب ایک نیا انتفاضہ شروع ہونے والا ہے۔ اس انتفاضہ میں اپنی جرأت کا مظاہرہ کرنے کے لیے فاقوں کے مارے اہلِ غزہ دوسروں سے زیادہ پُر جوش نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ حوصلہ ایک نئی تاریخ رقم کر کے رہے گا۔ان شاء اللہ

اشتیاق عالم فلاحی، دوحہ، قطر،
ای میل: [email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں