دنیا کی محبت نے کیا رنگ دکھایا ہے
ہر شئی کی حقیقت کو آنکھوں سے چھپایا ہے
الزام نہ دو یارو، دشمن کی فراست کو
افسوس کہ خود ہم نے قد اپنا گھٹایا ہے
آئینے کو جب دیکھا تصویر مخاطب تھی
اپنوں کے تصرف نے کیا خون رلایا ہے
ماضی کو اگر بھولیں تو حال ستاتا ہے
ارباب سیاست نے کیا جال بچھایا ہے
ہر شاخ پھلے اس کی بس اتنی تمنا ہے
جس پیڑ کو مل جل کر ہم سب نے لگایا ہے
کیا اس کا ارادہ ہے، یہ خوب سمجھتے ہیں
لبیک کہا دل نے جب اس نے بلایا ہے
صحرا کی تپش ہم کو کیا خاک جلائے گی
ممنون ہوں ساقی کا کیا جام پلایا ہے
یہ دارورسن والے سہمے ہوئے رہتے ہیں
آداب جنوں تم کو یہ کس نے سکھایا ہے
آنکھوں سے لہو ٹپکا، پیشانی پہ بل آیا
تب جاکے امیں ہم نے اس گھر کو بسایا ہے
محمد امین احسن،
بلریاگنج ۔ اعظم گڑھ
غزل
کیوں فضائے عرش کو تیرا جہاں سمجھا تھا میں
کیوں درودیوار کو اپنا مکاں سمجھا تھا میں
میں جہانِ آدم خاکی کا پیغمبر بھی ہوں
کیوں خود اپنے سچ کو بھی راز نہاں سمجھا تھا میں
دیدۂ بینا بھی تھا اور ذہن نکتہ رس بھی تھا
پرچم دشمن کو پھر کیوں بادباں سمجھا تھا میں
یا بصیرت کی کمی تھی، یا تھی نادانی مری
وسعت دریا کو بحر بیکراں سمجھا تھا میں
کیوں بنایا دوست آخر آزر اصنام کو
بت شکن کو دشمن ایمان وجاں سمجھا تھا میں
بے وزن ہونا ہی تھا آخر زمانے میں مجھے
یاد ماضی کو جو اپنی داستاں سمجھا تھا میں
دیکھنا لیکن وہ کتنا خوش نوا ہے دوستو
ہاں وہی بلبل کہ جس کو بے زباں سمجھا تھا میں
کیا تعجب کہ بہت منزل سے ہوں بھٹکا ہوا
خودفریبی کو نشانِ کارواں سمجھا تھا میں
دیکھئے دانش مگر میری یہ نادانی ذرا
بزم مہرومہ کو اپنا آسماں سمجھا تھا میں
اشتیاق دانش(فلاحی)،
پروفیسر اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد ۔ نئی دہلی