رفیق منزل نومبر ۲۰۱۵کے شمارے میں استاد گرامی جاوید احمد غامدی کے افکار : ایک جائزہ کے عنوان سے ایک تنقیدی مضمون چھپا ہے۔ مؤلف شبیع الزماں نے جاوید احمد غامدی صاحب کا اچھا تعارف پیش کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر، اسلوب بیان، طرز استدلال نہایت خوبی سے پیش کیا ہے۔ لیکن بعض جگہ وہ غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہاں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
غلبہ دین کے بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں ،
’ رسالت‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لئے اس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اس کی قوم اگر اسے جھٹلادے تو اس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اسی دنیا میں اس پر نافذ کرکے وہ حق کا غلبہ عملاً اس پر قائم کردے۔
’’اور ہر قوم کے لئے ایک رسول ہے۔ پھر جب ان کا وہ رسول آجائے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (یونس ۴۷)
’’ بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں، وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک ، اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘ (المجادلہ ۲۰، ۲۱)
رسالت کا یہی قانون ہے، جس کے مطابق خاص نبی ؐ کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے
’’ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ (سرزمین عرب کے) تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ یہ بات(عرب کے) ان مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف ۹)
جاوید احمد غامدی صاحب نے آیاتِ قرآنی سے مدلّل کردیا ہے کہ غلبہ دین اور اظہار دین رسولوں کے ساتھ خاص ہے اور دلیل نبوت میں سے ہے۔ اور یہ خدا کے کاموں میں سے ہے اللہ کی سنت ہے۔ امت مسلمہ کو یہ کام سونپا نہیں گیا۔ امت مسلمہ کا کام شہادت حق ہے اور انذار عام ہے۔ اس بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں
۔۔۔ لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے ’انذار‘ کی ذمہ داری اب قیامت تک اس امت کے علماء ادا کریں گے۔ علماء کی یہ ذمہ داری سورۂ توبہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔
’’اور سب مسلمانوں کے لئے تو یہ ممکن نہ تھا کہ (اس کام کے لئے)نکل کھڑے ہوتے ، لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو انذارکرتے، جب (علم حاصل کرلینے کے بعد) ان کی طرف لوٹتے، اس لیے کہ وہ بچتے۔‘‘ ۱۲۲؎
اس انذار کے لئے اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے یہ کام کیا جائے گا۔ فذکر بالقرآن من یخاف وعید اور وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا کے الفاظ میں قرآن نے اسی کا حکم دیا ہے۔ رسول ؐ اسی بناء پر پوری دنیا کے لئے نذیر ہیں اور علماء درحقیقت آپ ہی کے اس انذار کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
اسلاف کی جدوجہد جس کو برادر شبیع الزماں غلبہ دین کی جدوجہد کہتے ہیں اس کے بارے میں غامدی صاحب رقمطراز ہیں،
اس طرح دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لئے اگر کسی اقدام کی ضرورت پیش آجائے تو ایمان کا تقاضاء ہے کہ جان و مال سے دین کی مدد کی جائے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ اللہ پروردگار عالم کی ’نصرت‘ ہے جو سورۂ الصف کی آیت ۱۰؎ تا ۱۴؎ میں بیان ہوئی ۔ سلف و خلف میں دین کی حفاظت ، بقاء اور تجدید و احیاء کے جتنے کام بھی ہوئے ہیں ایمان کے اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ہوئے ہیں۔ امت کی تاریخ میں زبان و قلم، تیغ و سناں اور درہم و ینار سے دین کے لئے جدوجہد کا ماخذ یہی ’نصرت‘ ہے۔
برادر کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ غامدی صاحب اجتماعی نقطہ نظر کے قائل نہیں۔ بلکہ انفرادی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں،
اس دین کا جو مقصد قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ قرآن کی اصطلاح میں ’تزکیہ‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کرکے اس کے فکر و عمل کو صحیح سمت میں نشونما دی جائے۔
اسی لئے غامدی صاحب ’عیسوی ماڈل‘ یا ’محمدی ماڈل‘ نام کی کوئی تفریق نہیں کرتے وہ مکی اور مدنی دونوں ادوار کو مسلمانوں کے لئے اسوۂ حسنہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان سے مسائل کا حل اور رہنمائی اخذ کرتے جا بجا نظر آتے ہیں۔ خود ’میزان‘ میں قانونِ سیاست کا مستقل ایک باب موجود ہے۔
اسلامی حکومت رسول اللہؐ کے بعد کیوں باقی رہی؟ کیا یہ خدا کا حکم تھا؟ دراصل حکومت انسانی معاشرت کی بنیاد ہے۔ اسلامی حکومت سے قبل قبائلی حکومتیں تھیں۔ اسلام نے سب کو اخوت کی بنیاد پر جمع کرکے اسلامی حکومت قائم کی اور قرآن نے ’ اولوالامر‘ سے اس کو مؤکد کردیا۔ جس طرح رسولؐ نے تمام شعبہ حیات سے متعلق بنیادی اصول دیے اور تزکیہ کیا اسی طرح حکومت کو بھی شورائی نظام کے تحت قائم کیا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسلامی حکومت آپ کا مقصد قرار دیا جائے۔ جس کے لئے خود برادر موصوف نے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔
موصوف کی ایک الزام یہ بھی ہے کہ ’غامدی صاحب کے مقامات و برہان میں حکومت کے لئے کوئی نصیحت نہیں ملتی‘۔ غامدی صاحب کی تصانیف کم اور انٹرنیٹ پر آڈیو ویڈیوز زیادہ ہیں جس سے ان کا موقف تفصیل سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں غامدی صاحب نے جنرل ضیاء الحق سے لیکر آج تک کی تمام حکومتوں کے غلط فیصلوں، لال مسجد سانحہ میں حکومت کے اقدام پر تنقید کی ہے۔ البتہ برادر کا یہ الزام کہ ’غامدی صاحب حکومت کی غلط کاریوں کو سندِ جواز عطا کرتے نظر آتے ہیں‘، محتاج ِ دلیل ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ غامدی صاحب اقدامی جہاد کے قائل ہونے کے باوجود ٹیپو سلطان، تحریک شہیدین وغیرہ کے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں۔ تو یہ بات درست ہے، کیونکہ اُن کے مطابق گذشتہ دو سو سالوں میں جن لوگوں نے اس طرح عسکری اقدامات کیے ہیں وہ غلطی پر مبنی تھے۔ کیونکہ جہاد کے لئے قرآن نے جو شرائط رکھی ہیں ان شرائط کو پورا کرنے سے پہلے ہی ان لوگوں نے اقدام کرکے غلطی کی۔
جہاد کے لئے وہ کیا شرائط ہیں؟ ان شرائط کو غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں قانونِ جہاد کے تحت واضح کیا ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام کا حق صرف مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں اور دشمنوں کی طاقت کی نسبت کم از کم ۱ ؍ اور ۲؍ کی ہونی چاہیے۔ یہ ساری شرائط غامدی صاحب نے قرآن سے ثابت کی ہیں۔
برادر موصوف لکھتے ہیں کہ ’ غامدی صاحب متشدد تنظیمیں اور جماعت اسلامی کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں‘۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ غامدی صاحب طریقہ کار کے لحاظ سے نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی اعتبار سے ان تمام تنظیموںاور جماعت اسلامی پر یکساں تنقیدکرتے ہیں ورنہ جماعت اسلامی کے طریقہ کار کی تعریف کرتے ہوئے ’انقلاب‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’مولانا مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے جمہوری اور پر امن طریقہ انقلاب کو منتخب کیا‘۔
خلافت راشدہ کے دور میں ہونے والی فتوحات کے بارے میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ خدا کے قانونِ اتمام حجت کے تحت کی گئی۔ چونکہ قرآن کے مطابق رسولؐ کی منکر قوم پر دنیا میں ہی عذاب آجاتا ہے یہ اللہ کی سنت ہے۔ چناچہ رسولؐ کے صحابہ بڑی تعداد میں ہوں تو یہ عذاب ان کی تلواروں سے آتا ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں،
رسول اللہؐ نے اپنی دعوت جزیرہ نمائے عرب سے باہر قریب کی تمام قوموں کے سامنے بھی پیش کردی اور ان کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان پر واضح کردیا کہ اب اسلام ہی ان کے لئے سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔۔۔ چناچہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کرلینے کے بعد صحابہ اکرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہوگئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لئے تیار ہوجاؤ، اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمہارے لئے باقی نہیں رہی۔۔۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ محض قتال نہ تھا۔ اللہ کا عذاب تھا جو سنت الٰہی کے عین مطابق ہوا۔
یہ تو غامدی صاحب نے صحابہ کی فتوحات کو قرآن سے سندِ جواز فراہم کی۔ لیکن برادر شبیع الزماں یہ بتا دیتے کہ صحابہ نے یہ فتوحات کیوں کی؟ وہ غامدی صاحب پر تنقید کرتے چلے گئے لیکن سوال یہ پیدا ہوگیا کہ ’رسولؐ نے مکہ میں تو تیرہ سال تک دعوت کی محنت کی لیکن دوسرے حکمرانوں کو صرف یاک ہی خط میں اتمام حجت کیسے کرلیا؟ طائف کے ایک ہی سفر کو کافی سمجھ کر عذاب کا فرشتہ کیوں آگیا تھا؟ رسول اللہؐ نے جب حکمرانوں کو خطوط بھیجے تو اس وقت اسلام پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چناچہ بخاری شریف میں تو قیصر اور ابوسفیان کی پوری گفتگو نقل ہوئی ہے۔ خود مقوقس بھی آپؐ کی دعوت سے متأثر تھا۔ قیصر نے بھی آپؐ پر ایمان لانے میں دلچسپی دکھائی۔ جنوبی ہند کا بادشاہ بھی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوا۔ رسول اللہ کا خط دعوت کا نہیں ، کہ دعوت تو سب تک پہنچ چکی تھی بلکہ اتمام حجت کا خط تھا۔ جس طرح حضرت سلیمان ؑ نے ملکہ سبا کو خط بھیجا تھا ، جو اَلٹی میٹم تھا اور ملکہ سبا پہلے سے اُن کے بارے میں جانتی تھی۔
از: کاشف عمران