(Academic Activism)
عرصۂ دراز سے مختلف تحریکات اسلامی، اسلام کوایک ضابطۂ حیات کی حیثیت میں پیش کرنے کی سعی و جہد میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں متعدد پہلوؤں سے اسلام کوموجودہ نظام سے بہتر متبادل کی حیثیت سے متعارف کرایا جارہا ہے۔لیکن اہل علم حلقوں میں مغرب کے نظام حیات کے چربے پر اسلام کے اصولوں کا ملمع چڑھانے کا عمل بھی بڑے زور وشور سے جاری ہے۔ اس کی تمثیل میں اسلامی قانون کے نفاذ کے نام پر ایک غیراسلامی اور غیر تربیت یافتہ معاشرے پر ’اسلامی سزاؤں‘ کے نفاذ کی بات ؛ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے نام پرصرف سود کے ازالہ بلکہ متبادل کی بات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تھوڑے غور و فکر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کو منطقی بنیادوں پر متبادل نظام کے طور پر پیش کرنا اور ایک غیر اسلامی نظام میں بتدریج اسلامی بنیادوں پر مشتمل تبدیلیوں کو متعارف کرنا اپنی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے بڑا فرق رکھتا ہے۔ جہاں پہلا کام ایک نظام حیات کو بڑے آسان اور سہل انداز میں پیش کرتا ہے ( ہمارے بزرگوں کی انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں) وہیں اس نظام کے نفاذ کی بات کرتے ہی بڑی پیچیدہ اور حساس حقیقتیں( جنہیں بالفاظ دیگر مسائل بھی کہاجاتا ہے) توجہ کاتقاضا کرتی ہیں۔جن میں دنیا کی بڑی اکثریت کا مادہ پرستی کا شکارہونا، ہندوستان کی ایک بڑی آبادی کا اسلام دشمن ہونا اور سخت تعصب کا شکارہونا، اسلامی نظام کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام کی جزئیات سے واقف رکھنے والے باصلاحیت افراد کے قحط کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح پہلا کام کیفیت کے اعتبار سے بڑا اہم ولیکن مختصر ہے، وہیں دوسرا کام بہت زیادہ تفصیل طلب ہے ۔ غالباً سَو گنا زیادہ تفصیل کامتقاضی ہے، اور اس کااندازہ صرف وہی اہل علم کر سکتے ہیں جنہوں نے اس وادی کی سرحدوں پر قدم رکھا ہے۔ اب تک جو کچھ علمی سرمایہ تحریکات اسلامی کے ہاں موجود ہے اس میں صرف اصولوں سے تعرض کیا گیا ہے۔لیکن عصر حاضرمیں ایک ایک چھوٹی چھوٹی پالیسی کے وضع کرنے سے قبل بڑی تحقیق ودقیقہ رسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، دسیوں اور بسا اوقات سیکڑوں کتابیں ان مضامین کے متعلق تمام عناوین کا احاطہ کرتی ہیں۔اسلام کو نظام حیات کی حیثیت سے پیش کرنے والوں کو بھی بڑی باریک بینی کے ساتھ پالیسیوں کو وضع کرنا اور اس کے جملہ پہلوؤں پر مشتمل وقیع تحقیق کو پیش کرنا ضروری ہے۔اس ضمن میں کوششیں نہیں کے برابرہیں۔
آج کل مختلف تعلیمی ادارے معیار تعلیم کی بلندی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان اداروں میں کافی وسائل عصر حاضر کے انسانی مسائل کے حل اور انسانی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی غرض سے صرف کیے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ بہت سے ادارے اور سوچنے سمجھنے والے افراد کھلے ذہن کے ساتھ مختلف نظریات اور نظام ہائے تمدن پر غور فکر کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ بہت سے بنیادی سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے انسانیت بالعموم اور طلبہ و نوجوان بالخصوص متلاشی نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش شواجی یونیورسٹی کولھاپورکی جانب سے کی گئی تھی جس میں مختلف نظام سیاست اور ان کی تفصیلات سے متعلق ایک سیمنار منعقد کیا گیا تھا اوراس سیمینار میں اسلامی نظریات کو بڑی اہم حیثیت دی گئی تھی۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں کرناٹک میں بالخصوص یونیورسٹیز کے پروگرامس میں ماحولیات اور دیگر مسائل سے متعلق متبادل نظام پر گفتگو کرنے کے لیے کئی سیمینار منعقد ہوئے۔اسی طرح عصر حاضر کے اہم ترین مسئلہ مذہبی عدم رواداری سے نمٹنے کے لیے بنارس ہندو یونیورسٹی اور دیگر ریاستی درجہ کی جامعات نے بالخصوص بڑے اہتمام سے اقدامات کیے۔
اوپر کی دونوں حقیقتیں بڑے واضح پیغامات دیتی ہیں۔اس زمانے میں جبکہ علمی دنیا متبادل نظام حیات کی متلاشی ہے، مسلمان اہل علم کو چاہیے کہ وہ اسلامی نظام حیات کی ویسی تفصیل پیش کریں جو معروف علمی تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اسی کے ساتھ پورے اعتماد کے ساتھ اسلام کی جزئیات اور اصولوں سے متعلق علمی مباحثہ منعقد بھی کریں اور اس میں شریک بھی ہوں۔ اس کام کو لکھ دینا اور اس پر تقاریر و ورکشاپ کا انعقاد کردینا بڑا آسان کام ہے لیکن عملاًاس کے لیے افراد سازی بڑا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا کام مسلم طلبہ میں اس اعتمادکو پروان چڑھانا ہے کہ وہ علمی بنیادوں پرکیمپس میں اعلیٰ درجہ کی گفتگو یا ڈسکورس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس دلانا نہایت ضروری ہے کہ اسلام اپنے موقف کی معقول دلیل فراہم کرتا ہے اور ان باتوں کو سننے کے لیے ادارے اور افراد تیار ہیں ۔دوسراکام اس سلسلے میں صلاحیتوں کا تجرباتی ارتقاء ہے۔ دیگر بہت سارے کاموں کے بالمقابل اس کام کے لیے جدوجہدکرنے والوں کو زیادہ بڑی صلاحیتوں کا حامل ہونا پڑے گا۔کیمپس اور اداروں میں مضبوط اور منضبط رابطہ عامہ اور ترغیب و حمایت کاری (Lobbying) کی تکنیکوں سے واقف ہونا پڑے گا۔ اسی کے ساتھ کم از کم اتنی علمی استعدادپیداکرنی ہوگی کہ ہم مؤثر انداز میں اپنے موقف کی نمائندگی ادارے کے ذمہ داران کے سامنے کرسکیں۔
اس میں علمی موقف کو پیش کرنے کے لیے ہم ایسے عناوین بھی تلاش کر سکتے ہیں جن پر آج کل دنیا غور و فکر کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مثلاً عورتوں کی آزادی اور اس کی شکلیں، نظام ہائے حکومت وسیاست، ماحولیات کاتحفظ ، اخلاقی بحران اور اس کے مظاہروغیرہ ۔ان موضوعات پر بڑی آسانی سے اسلام کے موقف کی نمائندگی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کی ضرورتوں کے پیش نظر نئی ٹکنالوجی میں تحقیق کے مواقع ، دستور ہند کی تعبیر و تفہیم ، جدید تحقیقات کا تعارف وغیرہ سے متعلق ٹھوس کام کیے جاسکتے ہیں۔
علمی مجاہدہ(Academic Activism) ایک بڑا اہم محاذ ہے جس کی ضرورت آج ساری انسانیت کو ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں جہاں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال بڑی دگرگوں ہے، وہاں ایس آئی او ایک بڑی اہم خدمت انجام دے سکتی ہے۔یہ کام مظاہرے اور احتجاج سے ہٹ کر (جہاں ہم کسی نہ کسی مسئلہ کا رونا روتے ہیں )تعمیر و ذہن سازی کا کام ہے۔ معروف معنوں میں سوشل ایکٹوزم ایک مختصر اور محدود اثرات رکھنے والا کام ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم اور غیر مسلم طلبہ میں علمی جدوجہد اثر آور ، طویل مدتی اور دیرپاکام ہے۔ اس کے ذریعے سے جہاں صحیح اسلوب میں دعوت دین کا کام ہوگا وہیں مسلم طلبہ کی علمی وفکری تربیت کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ایس آئی او کویہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کی تمام طلبہ تنظیموں کے مزاج کے برخلاف اس نے اس کام کی جانب مثبت اور ٹھوس قدم اٹھایا ہے۔یہ کام دراصل عصر حاضر کی نبض پکڑنے کے مترادف ہے ۔ امید کہ اس جانب پیش رفت میں مزید اضافہ ہوگا او ر ہم ہلڑ باز تنظیموں کے برخلاف سنجیدہ کام کرنے کی نئی روایت کے قائد قرار پائیں گے۔ (مستجاب خاطر)
علمی مجاہدہ
(Academic Activism) عرصۂ دراز سے مختلف تحریکات اسلامی، اسلام کوایک ضابطۂ حیات کی حیثیت میں پیش کرنے کی سعی و جہد میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں متعدد پہلوؤں سے اسلام کوموجودہ نظام سے بہتر متبادل کی حیثیت سے متعارف…