انسان کے پاس جو علم ہوتا ہے اس کی تین قسمیں ممکن ہیں:
۱۔ حسی علم
۲۔ تصوراتی علم
۳۔ مشاہداتی علم
حسی علم وہ ہے جو انسان کو اپنے حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ سورج نکل آیا ہے اور روشنی پھیل گئی ہے۔ رات میں وہ آسمان میں چمکتے ہوئے تاروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کبھی دیکھتا ہے کہ چاروں طرف چاندنی چھٹک رہی ہے۔ جنگلوں میں وہ کئی طرح کے جانوروں کو دیکھتا ہے۔ زمین میں جب کبھی زلزلہ آتا ہے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ موسموں کی تبدیلیوں کو بھی وہ محسوس کرتا ہے۔ کبھی گرمی کا موسم ہوتا ہے کبھی جاڑے کا۔ وہ اپنے اندر خوشی اور غم کو بھی محسوس کرتا ہے ۔ کبھی وہ غصہ ہوتا ہے اور کبھی خوش۔ اس طرح کا جو علم اور تجربہ انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے بارے میں اسے کوئی شک نہیں ہوتا۔ ایسے علم میں بڑی حد تک چرند و پرند بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔
دوسرے طرح کا علم وہ ہے جس کا تعلق حواس سے نہیں بلکہ انسان کے تصور سے ہوتا ہے۔ اس طرح کے علم میں بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آدمی کبھی کبھی یہ تصور کر بیٹھتا ہے کہ یہ دنیا یوں ہی اپنے آپ چل رہی ہے، اسے چلانے والی کوئی ذی علم ہستی نہیں ہے۔ اس کائنات کے وجود میں آنے کا کوئی ایسا حقیقی مقصد بھی نہیں ہے ، جس کے تحت حیات و کائنات کی تخلیق عمل میں لائی گئی ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی گزار دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے۔ اس کی نظر میں جو ہمارے لیے فائدہ مند اور مرغوب ہو، وہی اچھا اور جو ہمارے لیے تکلیف دہ ہو اور جس سے کوئی مادی فائدہ ہمیں نہ پہنچ رہا ہو ، وہی برا ہے۔ اس کی نظر میں بھلائی یا برائی کا کوئی ایسا جذبہ نہیں ہوتا جس کا کوئی دائمی نتیجہ نکلتا ہو۔ جب انسان کی زندگی فانی ہے اور اس زندگی کے بعد کسی اور طرح کی زندگی سے وہ باخبر نہیں تو پھر اس کے خیالات و تصورات کی کوئی دائمی قدرو قیمت متعین نہیں کی جا سکتی۔
اس کے برعکس ایک دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے جس کا تصور یہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات بے جان مادہ کا کرشمہ نہیں ہے۔ اس کا وجود میں آنا اور باقی رہنا کوئی معمولی اور سادہ سی بات نہیں ہے۔ کائنات میں جو اصول و قوانین جاری و ساری دکھائی دیتے ہیں ، وہ نہ تو اپنے آپ بن سکتے ہیں اور نہ اس کا امکان ہے کہ وہ اس غیر معمولی انداز سے اور باضابطہ طور پر چلتی رہے۔ یہ حیات و کائنات کسی عظیم ہستی کی غیر معمولی طاقت اور قدرت کی نشانی ہے۔ اس ہستی کی عظمت کے سامنے ہمارا سر بسجود ہوجانا ہی ہمارا فرض ہے۔ پھر ہمارے اندر اخلاقی شعور بھی پایا جاتا ہے۔ ہم جھوٹ اور فریب اور ہر طرح کی ناانصافی کو برا سمجھتے ہیں۔ حق ، انصاف اور رحم کو قابل تعریف سمجھتے ہیں۔ یہ اخلاقی شعور غیر معمولی چیز ہے۔ یہ شعور ہمیں جوابدہ بناتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ اچھے اور برے کاموں کے ہم ہی ذمہ دار ہیں اور ان کے لیے ہم ہی جوابدہ ہیں۔
یہ دوسری طرح کا علم انسان کو چرند و پرند اور دیگر حیوانات سے جدا گانہ اور ممتاز حیثیت بخشتا ہے، اور یہ اُسے ایک نازک مقام پر لا کھڑا کرتاہے۔ اس نے اگر اس مقام کی عظمت کو نظر انداز کیا اور صحیح عقیدہ اور مناسب تصور سے اپنے کو محروم رکھا تو اس کی حالت قید خانے کے اس قیدی کی سی ہو جائے گی جو یہ سمجھتا ہو کہ قیدخانہ کے علاوہ کہیں اور کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ نہ کہیں کوئی وسیع اور کھلا آسمان پایا جاتا ہے۔ اسے اپنی اس حقیر حالت کا احساس ہو یا نہ ہو، لیکن اس کی یہ حالت تشویش ناک ہوگی۔ لاعلمی کی وجہ سے وہ خوش اور مست بھی دکھائی دے سکتا ہے لیکن اس سے حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
علم کی ایک قسم اور ہے جو انتہائی عمدہ ہوتی ہے۔ اسے مشاہدہ کہتے ہیں۔ اس طرح کا علم صرف خبر کا نہیں ہوتا ہے بلکہ علم یہاں انسان کے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ اگر وہ زندگی کے راز کو جاننے کی طرح جان سکا ہے تو پھر یہ علم اس کے لیے علم ہوگا جو اس کی پوری زندگی کو روشن کر دے گا۔ اس طرح کا علم اسے خوشیوں سے روشناس کرائے گا جن سے عام لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔زندگی میں اگر حق اور خدا کا علم انسا ن کو مشاہدے کی شکل میں حاصل ہوگیا تو لازماً اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوگی۔ وہ علم عمل میں ڈھل کر عبادت میں بدل جائے گا۔ اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے گا۔ وہ حق کو جانتا ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ اسے جی رہا ہوگا۔ حق اس کے یہاں تمنا کا ہم معنی ہوگا۔ اور اس کا اثر اس کی پوری زندگی میں دیکھا جا سکے گا۔ وہ سوچے گا جو کچھ کہ سوچنا چاہیے اور جانے گا جو کچھ کہ جاننا چاہیے۔ اور اس کاعمل بھی وہی ہوگا جو مطلوب ہے۔ وہ حق سے لطف اندوز ہو رہا ہوگا ۔ وہ محسوس کرے گا کہ اسے جو علم اور آگہی حاصل ہوئی ہے وہ زندگی کی سب سے قیمتی چیز ہے۔
مولانا محمد فاروق خاں، معروف دانشور ومترجم قرآن مجید ہندی