علم :اسلامائزیشن سے تخلیق کی طرف

ایڈمن

اسلامی ستر پچہتر سال کی کوششوں کے بعداب یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ موجود علمی خزانہ میں اسلامی عناصرداخل کردینے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ہر آن نیا علم وجود میں آتا رہتا ہے۔ علم کا کام ہے…

اسلامی
ستر پچہتر سال کی کوششوں کے بعداب یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ موجود علمی خزانہ میں اسلامی عناصرداخل کردینے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ہر آن نیا علم وجود میں آتا رہتا ہے۔ علم کا کام ہے مسائل حیات سے نبٹنے کا سلیقہ دریافت کرنا، اور یہ مسائل کاروان حیات کے آگے بڑھنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لاعلمی اور عدم تیقن ignorance & uncertainty حیات دنیا کا لازمی پہلو ہے۔ آنے والا کل دھند لکوں کے درمیان گھرا ہوا ہے معلومات ہی نہیں بلکہ علم حاصل کرنے کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں تب جاکر ہم غیر معلوم مستقبل سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک انسان کو منطقی استدلال یا نصوص مقدس سے استنباط پر بڑا بھروسہ تھا کہ یہ زندگی کے اکثر مسائل میں رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں مگر گذشتہ چند دہائیوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جنھوں نے یہ اعتماد چکنا چور کردیا ۔ یہ احساس عام ہے کہ فکری اپج ، مراقبہ یا دھیان گیان کے ذریعہ حقیقت سے براہ راست رابطہ کی مشرقی روایات کا احیاء ضروری ہے کیونکہ پہلے سے موجود خزانہ علم میں اسلامی افکار اور اقدار داخل کرنے کے طریقہ کا بانجھ پن بڑھتا جارہا ہے۔
نئے علم کی تحقیق یا نئے علم کا انکشاف بڑا للکارنے والاChallengingکام ہے اسے لگے بندھے ضابطوں کا پابند بنانا ممکن نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انسانی سفر حیات کے آغاز میں جب خالق کائنات کے حضور فرشتوں نے یہ احتجاج کیا کہ ان جیسی کارگزار اور امور مفوضہ کو بخوبی انجام دینے والی مخلوق کے ہوتے ہوئے زمین کا چارج ایک ایسی مخلوق کو کیوں دیا جارہا ہے جو خیر وشر دونوں کی صلاحیت کی حامل ہے تو اللہ تعالی نے ان کو کیا جواب دیا۔ فرشتے لکیر کے فقیر تھے( قالوا سبحٰنک لا علم لنا الا ما علّمتنا انک أنت العلیم الحکیم) (البقرہ:۳۲۔) جب کہ انسان کو اللہ تعالی نے عقل وارادہ کی وہ کنجیاں عطا فرمائی ہیں جن کی مدد سے وہ نیا علم ایجاد کرسکتے تھے اور اللہ کی بھیجی ہدایت کی روشنی میں سفرزندگی میں آگے بڑھ سکتے تھے۔(بقرہ:۳۸)
اس کا م میں آپ کی مدد کے لیے میں چند سوالات سامنے رکھتا ہوں:
پہلا سوال یہ ہے کہ کاروانِ حیات آگے بڑھتا ہے تو نیا علم کیوں ضروری ہوجاتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ضرورت کی تکمیل میں کیا رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے؟
چوتھا اور آخری سوال یہ ہے کہ تخلیق علم کے عمل کو قوی تر ، تیز تر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
سب سے اہم پہلا سوال ہے، کیوں کہ جب تک ہم کو شرح صدر نہ ہوجائے کہ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کا سرمایہ علم ناکافی ہے ہم تخلیق علم کے تقاضے نہیں پورے کرسکتے۔ زندگی کا ہر پہلو علم کا طالب ہے۔ زمین سے غلہ اگانا ،تن ڈھکنے اور سرچھپانے کا انتظام کرنا، فاصلے طے کرنے کے لیے راستے ہموار کرنا اور سواریاں بنانا، خاندانی رشتوں میں مودت وخیرخواہی برقرار رکھنا، پڑوسیوں سے خوش تعلقاتی، اقوام عالم کے درمیان امن وآشتی کے رشتے برقرار رکھنا ، ماحول کو تلوث سے بچا کر کرۂ ارض کو بڑھتی آبادی کو سہارنے کے قابل بنائے رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔ کوئی بھی کام لیجیے ہر ایک کی انجام دہی کے لیے علم چاہیے جو ہمیں وہ آداب وفنون اور ٹکنالوجی سکھاتا ہے جس سے ہم اس کام کو بخوبی انجام دے سکیں۔ یہ بات صرف مادی امور کے بارے میں نہیں،اخلاقی اور روحانی امور کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ جب زندگی کی رفتار سست تھی، دھیان گیان کے لیے وقت کی کوئی کمی نہ تھی ، ایک بستی میں زیادہ تر ایک ہی عقیدہ کے حامل لوگ رہتے تھے تب روحانی پیاس بجھانے کے جو طریقے سہل الوصول تھے۔ آج کی بھاگم بھاگ زندگی میں جب ہر طرف سے خطرات سے گھرا انسان اپنے کو ایسی آبادیوں میں پاتا ہے جن کے عقیدے مختلف ، رسم ورواج مختلف، ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان. . . . ایسی فضا میں پرانے طریقوں سے روحانی تشفی دشوار ہے۔
جب ایک خاندان چھوٹے سے گھر میں رہنے پر مجبور ہو، خاندان کا ہر فرد کسب معاش کی دوڑ میں شرکت پر مجبور ہو، ماحول کا روز افزوں تلوث صحت کے لیے خطرہ بنا ہوا ہو تو سماجی رشتوں کی مطلوبہ کیفیت کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ نئے اہتمام درکار ہوں گے، سابقہ انتظامات سے کام نہیں چلے گا۔ انسانی نفسیات اور سماجیات کا مطالعہ کرنے والےneuro science کے نئے ابھرتے علم کے ماہرین ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں، میں نہیں جانتا البتہ یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ اس محاذ پر پچھلی تدبیریں کارگر نہیں رہ گئی ہیں۔ کچھ نیا بندوبست درکار ہے تاکہ خاندان بکھرنے نہ پائیں، اگلی نسلوں کو شفقت اور مودت کے ماحول میں پروان چڑھایا جاسکے۔ پڑوسی ایک دوسرے پر اعتماد کرسکیں، قومیں ایک دوسرے کوexploit کرنے کی بجائے ان کے ساتھ تعاون اور باہمی احترام کا معاملہ کریں۔
دوسرے سوال کا جواب ہمارے اس مزاج میں ہے کہ ہر مسئلہ کا حل ماضی کے نمونے میں موجود ہے ۔ اسلاف سے اتنی عقیدت کہ ان کی سوچ کو ایسے زمانوں میں بھی رہنما بنانے پر اصرار ہو جس سے ان کو واسطہ نہ پڑا تھا، ماضی کے سرمایۂ علم کی عظمت پر ایسا یقین کی اپنی سوچ ، اپنے اکتشاف، اپنے مشاہدات وتجربات…. اور خود حاصل کردہ معلومات کو حقیر سمجھیں۔ اس مزاج کے منفی اثرات ہر طرف نمایاں ہیں ، نہ ہمیں اپنے اوپر اعتماد ہے کہ ہم خود اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں نہ اللہ پر اعتماد رہا کہ اس عمل میں اگرہم سے کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوئیں تو وہ ہمیں معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ ہماری رہنمائی بھی فرمائے گا جیسا کہ وعدہ فرمایا گیا ہے:
(والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا)(عنکبوت:۶۹)
مثال کے طور پر نئے خاندانی حالات کو لے لیجیے، چھوٹے چھوٹے گھروں میں جو عام طور پر دہلی اور ممبئی جیسے میٹروپولین شہروں میں کسی ٹاور کی کسی منزل پر فلیٹ کی شکل میں واقع ہوتے ہیں میزبانی اور ضیافت کی سابقہ خاندانی روایات برقرار نہیں رہ پاتیں۔ اسلامی اقدار وافکار کے مطابق خاندانی زندگی کیسے گزرے اس کے لیےUrban planning پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اسلامی اقدار وافکار کے روایتی فہم پر بھی تازہ نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کون کرے؟ ہم کم از کم اس ضرورت کی شدت کا چرچا کرکے لوگوں کو ہوشیار کرسکتے ہیں تاکہ وہ بکھرتے ہوئے شیرازہ کو بروقت سنبھال سکیں۔
تیسرا سوال کہ رکاوٹیں کیسے دور کی جائیں، اپنے ساتھ فہم قرآن وسنت اور میدانی مطالعہ نیز تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے وسیع ابواب لے کر آتا ہے۔ کوئی آسان نسخہ نہیں تجویز کیا جاسکتا ہے ۔ تقلید آباء کے خلاف تقریر اور اجتہاد مطلق کی دعوت دینا آسان ہے لیکن تخلیق علم Knowledge creation کی راہ میں کوئی ٹھوس قدم، کوئی ایک قدم بھی اٹھانا مشکل ہے جب تک آپ ان تینوں باتوں کا اہتمام نہ کریں:
قرآن وسنت کا تازہ فہم،
موجودہ میدانی حقائقground reality کا مشاہدہ اور تجزیہ،
اور مسلمانوں اور انسانوں کی تاریخ سے سبق سیکھنا۔
تب تک تخلیق علم کی راہ کی رکاوٹیں دور نہیں ہوں گی، چونکہ جو قوتیں جمود اور پیچھے کی طرف قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے والی ہیں وہ مدرسہ ومسجد ، بازار اور فیکٹری ہر جگہ چھائی ہوئی ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ ٹھوس قدم حسن نیت کے ساتھ مالی وسائل اور فنی مہارت کا طالب ہے جس کی طرف توجہ ہنگامی جہادی طبائع کے لیے دشوار ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اپنی کوششوں کو موثر اور نتیجہ خیز کیسے بنایا جائے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنا ذہنی سرمایہ بڑھائیں Talent pool کو وسیع کریں۔ جومٹھی بھر لوگ آج اس موضوع سے لگے ہوئے ہیں وہ کافی نہیں ہیں ۔
دائرہ وسیع کیجیے مسلمانوں میں جہاں جو گروہ بھی علم کے میدان میں کوشاں ہو اس کو اپنے حلقہ روابط network میں شامل کیجیے ۔ ساتھ ہی مستقبل کے تقاضوں کی تکمیل کرسکنے والے نئے علم کی تخلیق کے اہم کام میں مسلمانوں تک محدود نہ رہئے بلکہ سارے انسانوں کو mobilize کیجیے۔ عالمی سطح پر گذشتہ دنوں چند ایسے تغیرات ہوئے ہیں جنھوں نے ہر دانشور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
بڑھتا ہوا ماحولیاتی تلوث، انسانی معیشت کو مفلوج کرسکنے والی فنانشل کرائسس، بے قید اور بے قابو انتقال آبادی جو زمین کے وسیع رقبوں سے زمین کے محدود شہری علاقوں کی طرف ہورہا ہے اور آئے دن نیوکلیائی اور دیگر مہلک انسانیت اسلحوں سے لیس اقوام کے ٹکراؤ کے اندیشے،ایسے امور ہیں جن کا تعلق ہر خاص وعام سے ہے اگر آپ کی بات ان امور سے متعلق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ نہ سنی جائے۔
سوال ترجیحات کا ہے۔ وسائل کی کمی نہیں مگر اگر کسی کام میں مالیات کی عدم فراہمی سے پراگرس کی ہوئی ہے تو وہ علمی تحقیقی کام ہے ۔ نہ ہمارے یہاں میدانی تحقیقfieldwork کا رواج ہے نہ تاریخ اس نظر سے لکھی جارہی ہے کہ اس سے سبق حاصل کرکے مستقبل کی تعمیر کے لیے نئے علوم کی تشکیل کرنی ہے ۔ رہا فہم قرآن وسنت تو ابھی سیاق کی روشنی میں نص کی تعبیر اور مقاصد کی روشنی میں اس سے استنباط کے اہم کاموں میں کوئی قابل لحاظ تقدم نہیں نظر آتا۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، معروف اسلامی دانشور وماہر معاشیات

[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں