علامہ حمیدالدین فراہیؒ شخصیت اور خدمات کا مختصر تعارف

ایڈمن

علامہ حمیدالدین فراہیؒ ان نابغۂ روزگارعظیم ہستیوں میں سے ہیں جنہیں علم وتحقیق کی دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ علامہ فراہیؒ نے فہم قرآن کے لیے جو دروازے وا کیے ہیں اور قرآنی علم و تحقیق کے جس وسیع تر…

علامہ حمیدالدین فراہیؒ ان نابغۂ روزگارعظیم ہستیوں میں سے ہیں جنہیں علم وتحقیق کی دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ علامہ فراہیؒ نے فہم قرآن کے لیے جو دروازے وا کیے ہیں اور قرآنی علم و تحقیق کے جس وسیع تر میدان سے آگاہی بخشی ہے اور دین حق کے جن اسرارو رموز کا انکشاف کیا ہے اہل نظر کبھی بھی انہیں نظر انداز نہ کرسکیں ہے۔

علامہ فراہیؒ بھارت میں یوپی کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں پھریہا میں ۱۲۸۰ ؁ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا۔ رشتہ میں علامہ شبلی نعمانیؒ کے ماموں زاد بھائی ہوتے تھے۔

علامہؒ کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ تقریباً دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔۹؍ مہینے میں فارسی زبان سیکھ لی۔ ۱۴؍ سال کی عمر میں عربی زبان کی تحصیل میں لگ گئے۔ درس نظامی کی اکثر کتابیں، صرف و نحو اور معقولات وغیرہ علامہ شبلی نعمانیؒ سے پڑھیں۔ اس کے بعد لکھنؤ میں مولانا عبد الحی فرنگی محلیؒ کے حلقۂ درس میں شرکت کی۔ پھر لاہور کا سفر کیا اور وہاں مشہور و معروف ادیب مولانا فیض الحسن سہارن پوری علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان سے عربی ادب کی کتابیں پڑھیں۔

اس کے بعد انگریزی زبان اور مروجہ مضامین کی تعلیم شروع ہوئی۔ الہ آباد سے مڈل پھر میٹرک کا امتحان پاس کیا، پھر علی گڑھ گئے ۔ علی گڑھ میں انگریزی کے علوم متداولہ کے حصول کے لیے داخلہ لیا۔ یہاں سرسید احمد خاں مرحوم نے مولانا سے طبقات ابن سعد سے سیرت نبویؐ سے متعلق کچھ حصہ کا فارسی میں ترجمہ کرایا جو کالج کے نصاب میں داخل کیا گیا۔ علی گڑھ میں انگریزی اور دیگر علوم کے ساتھ ساتھ مولانا نے خصوصی توجہ فلسفۂ جدید کی طرف کی۔ اس میں امتیاز حاصل کیا۔ بی۔ اے کی ڈگری الٰہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ایم۔ اے کی تیاری کی، لیکن امتحان میں نہیں بیٹھے۔ شاید اس کی ضرورت انھوں نے محسوس نہیں کی۔ تحقیق کی راہیں مولانا پر کھل چکی تھیں۔ محض ڈگری کا حصول ان کی نگاہ میں کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔

اس کے بعد دو سال تک مروجہ قانون کا مطالعہ کیا۔ لیکن اس سلسلہ کو قائم نہ رکھ سکے۔ وکالت کے پیشہ کے مقابلہ میں معلمی کو انھو ں نے ترجیح دی۔ مدرسۃ العلوم کراچی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں کچھ سال بسر کیے۔ ۱۹۰۴ء کے بعد علامہ فراہیؒ کراچی یا علی گڑھ سے وطن آتے جاتے تو لکھنؤ میں علامہ شبلی نعمانیؒ کے پاس کچھ دن ٹھہرتے۔ ۱۹۰۵ء سے تو علامہ شبلی نعمانیؒ اس کے لیے تقاضا کرتے۔ مقصود دراصل یہ تھا کہ ندوہ کے طلبہ علامہ فراہیؒ سے مستفید ہوں۔ علامہ فراہیؒ طلبہ کو کبھی فلسفہ جدیدہ اور کبھی قرآن کے اسباق پڑھاتے۔ اس زمانہ میں مولانا ابو الکلام آزادؒ ندوہ میں علامہ شبلیؒ کے پاس مقیم تھے۔ وہ الندوہ کے معاون مدیر تھے۔ وہ بھی علامہ فراہیؒ کی صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے، اور مولانا سلیمان ندویؒ کے بقول ’’مولانا فراہیؒ کی صحبت میں وہ قرآن کے درس و نظر کے لیے راستوں کے نشان پانے لگے۔‘‘

علامہ فراہیؒ علی گڑھ میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے تو اس وقت عربی کے پروفیسر جرمن مستشرق یوسف ہارویز تھے۔ علامہؒ نے علی گڑھ کے قیام کے دوران یوسف ہارویز سے عبرانی زبان سیکھی اور عبرانی کتابوں سے براہ راست استفادہ کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرلی۔ یہ چیز آگے چل کر قرآنی تحقیقات میں نہایت کار آمد ثابت ہوئی۔

علامہ فراہیؒ علی گڑھ تقریباً ۴ سال رہے۔ ۱۹۰۸ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ کالج کے لکچرس کے علاوہ باقی اوقات میں وہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ آپ نے سورہ تحریم کی تفسیر یہیں سے شائع کی تھی۔ ۱۹۱۳ء تک الٰہ آباد میں رہے۔ یہاں سے آپ کی خدمات حیدر آباد نے حاصل کیں۔ آپ دار العلوم حیدر آباد کے پرنسپل ہوگئے۔ دارالعلوم حیدر آباد کا سب سے بڑا دار العلوم تھا۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران علامہ فراہیؒ کے ذہن میں ایک ایسی یونیورسٹی کا خاکہ آیا جس میں دینی اور عصری علوم کی تعلیم اردو زبان میں دی جائے۔ مولانا کے اس تخیل کا ظہور آگے چل کر عثمانیہ یونیورسٹی کی شکل میں ہوا۔ دار العلوم حیدر آباد میں جب آپ پرنسپل تھے تو آپ کی شاگردی کا شرف مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو بھی حاصل ہوا تھا۔ جس کا اظہار مولانا مودودیؒ نے اپنی ایک گفتگو میں کیا ہے۔ لیکن اس وقت مولانا مودودیؒ اونچی کلاس کے طالب علم نہیں تھے اور عمر بھی کوئی زیادہ نہ تھی۔

بعد میں آپ نے حیدر آباد کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی دار العلوم کی مصروفیات یکسوئی کے ساتھ قرآن مجید کے مطالعہ اور غور و فکر کی راہ میں رکاوٹ بنتی تھیں۔ آپ استعفیٰ دے کر وطن چلے آئے۔ اب آپ کو اس کا بھی موقع میسر آیاکہ اپنے تحقیقی کاموں کے علاوہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اور دار المصنفین اعظم گڑھ کی طرف خصوصی توجہ دے سکیں،یوں تو مدرسۃ الاصلاح اور دار المصنفین کے انتظامی، تعلیمی اور علمی امور سے آپ ابتدا ہی سے متعلق رہے۔ مدرسۃ الاصلاح درحقیقت فراہیؒ اور شبلی نعمانیؒ کے تعلیمی نظریات پر قائم ہواتھا۔ اس کا مطمح نظر ادب عربی اور قرآن حکیم کی محققانہ تعلیم تھی۔ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۰ء تک علامہ فراہیؒ نے اپنے وقت اور محنت کا بڑا حصہ اس مدرسے کی خدمت میں صرف فرمایا۔ آپ ہر ہفتہ شب و روز تین دن تک مدرسہ پر قیام فرمایا کرتے تھے۔ مدرسہ میں وہ اساتذہ اور منتہی طلبہ کو قرآن کادرس دیتے۔ اس کے علاوہ مدرسہ کے منتظمین کو اپنے تعلیمی افکار و نظریات سے واقف کراتے اور ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو دور فرماتے۔ یہاں منتخب افراد کو آپ نے خاص طور سے اپنی تربیت میں لیا۔ مقصد یہ تھا کہ تعلیمی اور فکری اصلاح کا کام جس کو آپ نے شروع کیا تھا اس کا سلسلہ منقطع نہ ہو بلکہ اس کا سلسلہ جاری رہے۔

علامہ فراہیؒ شب میں ڈھائی تین بجے اٹھ جاتے۔ شب بیداری کی یہ عادت بچپن ہی سے رہی۔ اور آخر تک اس پر قائم رہے۔ تہجد سے فارغ ہوکر طبیعت اچھی رہتی تو تصنیف کا کام کرتے۔ دن میں تصنیف کا کام بہت کم کرتے۔ دن میں زیادہ تر مطالعہ کرتے یا شاگردوں اور علماء کو وقت دیتے تھے۔

ان کی مجلس فضول گفتگو ؤں سے یکسر پاک رہتی، گفتگو ہر قسم کے علمی موضوعات پر ہوتی۔ لیکن گفتگو کا خاص موضوع قرآن ہی ہوتا۔ ہرچیز کو گہری تنقید کے ساتھ پڑھتے اور کتاب کے حاشیہ پر اہم مباحث پر تنقیدی نوٹ بھی درج فرماتے۔ کبھی دوسرے درجہ کی کوئی چیز نہیں پڑھتے تھے، اور یہی ہدایت وہ اپنے شاگردوں کو بھی دیتے۔ آپ کی صحبت میں بڑی تاثیر تھی۔آپ کے پاس بیٹھ کر آدمی دنیا اور اس کی دلچسپیوں کو بھول جاتا تھا۔ خدا کی محبت اور آخرت کی طلب کا کچھ ایسا جوش ابھرتا کہ آدمی کو غفلت کی زندگی سے نفرت ہونے لگتی تھی۔

آپ کی عام صحت اچھی تھی۔ لیکن دو بیماریاں ایسی تھیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہورہا تھا۔ ایک درد سر تھا، جس کا حملہ بالعموم ہوتا رہتا۔ دوسری شکایت یہ تھی کہ کبھی کبھی پیشاب رک جانے کی تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ آخری مرتبہ آپریشن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے لیے وہ متھرا تشریف لے گئے۔ متھرا میں ان کے ہم وطن ایک ڈاکٹر کام کرتے تھے۔ آپریشن کیا گیا لیکن وہ ناکام رہا۔ بالآخر ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۳۴۹ھ (۱۱؍ نومبر ۱۹۳۰ء) کو وہ دنیا سے رحلت کرگئے، اور متھرا ہی کے ایک قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ میں نے وہ اسپتال جس میں آپ کا آپریشن ہوا تھا دیکھا ہے، اور وہ قبرستان بھی میں نے دیکھا جہاں آپ آسودۂ خاک ہیں، لیکن قبر کی نشاندہی کرنے والا کوشش کے باوجود کوئی نہ مل سکا۔ حالانکہ میں نے اس شخص سے بھی ملاقات کی جو آپ کی وفات کے وقت وہاں ایک ذمہ دارانہ عہدہ پر تھا، اور جس کی اجازت سے اس قبرستان میں تدفین عمل میں آئی تھی۔
علامہ فراہیؒ کے بارے میں ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا بیان ہے کہ ’’مولانا فلسفی بھی تھے،متکلم بھی تھے اور عربی اور فارسی کے بے نظیر ادیب اور شاعر بھی تھے۔‘‘ لیکن ان چیزوں کی حیثیت علامہ کی زندگی میں محض ضمنی تھی۔ اصلاً جو چیز آپ کے دل و دماغ پر حاوی تھی اور جس کا اظہار آپ کی علمی کاوشوں اور آپ کے اعمال و اخلاق سے ہوتا تھا وہ قرآن اور صرف قرآن تھا۔ فہم قرآن میں جو چیزیں معاون ہوسکتی تھیں ان ساری چیزوں کا مطالعہ آپ نے تنقید و تحقیق کی نگاہ سے کیا۔ کلام عرب ہو یا زمانۂ جاہلیت کے خطبات سب آپ کی نظر میں تھے۔ تاریخ اور جغرافیہ کے اس حصہ کابھی آپ نے مطالعہ کیا جس کا کسی نوعیت سے قرآن سے تعلق پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فلسفہ جدیدہ کی مختلف شاخوں کا بھی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور یہ مطالعہ اس غرض سے کیا گیاکہ وہ قرآن کے مابعد الطبیعات اور اس کے سیاسی و اجتماعی اصولوں کے سمجھنے اور موازنہ کرنے میں مددگار ہو۔
قرآن میں غور و فکر کا کام علامہ فراہی نے اس زمانہ سے شروع کردیاتھا جبکہ علی گڑھ میں ابھی وہ ایک طالب علم کی حیثیت سے مقیم تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ مغربی افکار و نظریات سے مرعوب دکھائی دیتا تھا، اس چیز نے آپ کو مزید اس پر آمادہ کیا کہ وہ قرآن میں غور و فکر کا وہ طریقہ دریافت کریں جس سے حکمتِ قرآن کے دروازے کھل سکیں۔ اور مسلمان ہر قسم کے فکری فتنے سے مامون ومحفوظ رہ سکیں، بلکہ اس سے آگے حکمتِ قرآن کے ذریعہ سے وہ جدید فتنوں کا مقابلہ اور ان کا سد باب بھی کرسکیں۔
علامہ فراہی متبع سنت تھے لیکن ان کا طرز فکر بالکل حکیمانہ تھا۔ فقہ میں ان کا مسلک احتیاط کا تھا۔ اخبار آحاد کے بارے میں ان کے یہاں مالکیہ اور حنفیہ کے مسلک کو ترجیح حاصل تھی۔ جس طرح عام ضرورت کے مسائل میں مالکیہ صحابہ کے عام عمل کے مقابلے میں آحاد کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے اسی طرح علامہ فراہیؒ بھی مذکورہ صورتوں میں اخبار آحاد کو زیادہ اہمیت دینے کے حق میں نہ تھے۔
علامہ فراہیؒ اسلامی نظام حکومت کی اہمیت اور اس کی ضرورت کو بخوبی سمجھتے تھے لیکن وہ اپنے کو جس چیز کا اہل پاتے تھے اور جس کام کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ وہ اسے بہتر طریقہ پر انجام دے سکتے ہیں، وہ تھا فہم قرآن کی راہ کھولنا۔ آپ جانتے تھے کہ فہم قرآن کی راہ اگر کھل گئی تو لازماً صحیح اسلامی طریق پر کام کرنے کی راہیں بھی کھلیں گی۔ ساری خرابی کی جڑ آپ اسے سمجھتے تھے کہ علماء دین فکری اور عملی دونوں ہی پہلوؤں سے بالکل غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں، علماء کی اصلاح کو مسلمانوں کی اصلاح کا ذریعہ بنانا آپ کے پیش نظر تھا۔ آپ کے سامنے ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کے علماء تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے افکار کے اظہار کا ذریعہ عربی زبان کو بنایا۔یہ بات آپ نے خود بیان فرمائی ہے جس کاذکر آپ کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔
علامہ فراہیؒ لکھنے کے لیے قلم اسی وقت ہاتھ میں لیتے جب کوئی نئی تحقیق ان کے سامنے ہوتی۔ لکھنے سے زیادہ وہ غور و فکر کے عادی تھے۔ آپ کا غور و فکر بیک وقت مختلف مباحث و مسائل پر جاری رہتا تھا اس طرح بیک وقت متعدد تصانیف آپ کے پیش نظر رہتی تھیں۔ ان میں سے بعض تو اپنی تکمیل کو پہنچ سکیں اور بعض ایسی ہیں جن کا بڑا حصہ تحریر میں آسکا، اور بعض کی صرف چند فصلیں ہی لکھی جاسکیں۔
علامہ فراہیؒ کا علمی کارنامہ غیر معمولی ہے۔ آپ نے قرآن کے تفسیری سرمایہ میں جس نوعیت کااضافہ فرمایا ہے وہ نہایت گراں قدر ہے۔ پیش رو مفسرین سے جو فروگزاشتیں ہوئی تھیں نہایت بصیرت کے ساتھ ان کی نشاندہی کی۔
علامہ فراہیؒ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ آپ نے واضح دلائل کی روشنی میں اس نظریہ کو غلط ثابت کیا کہ قرآن غیر منظم کلام کا مجموعہ ہے۔ آپ نے یہ بات کہی کہ قرآن کی ہر سورہ کا ایک خاص عمود یا مرکزی موضوع ہے اور سورہ کے تمام مباحث اس کے گر د گردش کرتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ بھی دکھایا کہ قرآن کی ہر سورہ دوسری سورہ سے نہایت گہرا ربط رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ فہم قرآن کے ایسے گوشوں کی وضاحت آپ نے کی ہے جو بالعموم اہل علم کی نگاہ سے اوجھل رہے ہیں۔
اس میں شبہہ نہیں کہ تفسیر قرآن میں علامہ فراہیؒ کو امامت کا درجہ حاصل ہے۔ امام اسے کہتے ہیں جو کسی فن میں اپنے اصول وضع کرے اور وہ اصول کتاب و سنت پر پورے اترتے ہوں اور پھر وہ انہیں اصولوں پر اپنے فکر و فن کو ترتیب دے۔ علامہ فراہی تفسیر قرآن میں مستقل اصول کے بانی ہیں۔ نظم قرآن کے سلسلہ میں آپ سے پہلے بھی بعض اہل علم شخصیات کی کوششیں رہی ہیں لیکن ان کی یہ کوششیں سرسری اور ابتدائی نوعیت کی تھیں۔ آپ نے اس ابتدائی کام کو آگے بڑھایا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں انھیں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
علامہ فراہیؒ نہایت حساس اور ذوقِ لطیف کے حامل تھے۔ قرآن میں ان کی دقّت نظری اور حساس نگاہی کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ یہاں صرف ایک مثال کا ذکر کریں گے۔ آپ نے لکھا ہے کہ سورہ مائدہ میں اللہ نے پہلے کھانے کی جائز چیزوں کاذکر فرمایا، پھر ان عورتوں کا جن سے نکاح جائز ہے۔ اس کے بعد وضو کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کی مناسبت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہاں دو چیزیں ہیں ایک شئے اور دوسری شرط۔ ذبح چوپایہ کو پاک کرتا ہے۔ مہر اور نکاح سے عورت پاک اور حلال ہوتی ہے اور وضو نماز کی پاکی ہے۔ شرائط کے علاوہ اشیاء پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں؛ طیباتِ طعام، طیبات نساء اور نماز۔ گہرائی سے دیکھیں تو یہاں تین عالموں: عالم شخص، عالم نوع اور عالمِ روح کے نقص کی تلافی تین چیزوں طعام، نکاح اور نماز سے فرمائی گئی ہے۔
علامہ فراہیؒ نے قرآنی حکمت کے بارے میں اپنی کتاب’’حکمت قرآن‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے وہ مطالعہ کی چیز ہے۔ ان کے نزدیک حکمت کو دین میں ٹھیک وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں آنکھ کو حاصل ہے۔ مولانا کے نزدیک حکمت ہی سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ انسان ہر قسم کے فکری اور ذہنی انتشار سے محفوظ رہ سکے۔ اور ہر طرح کے اندیشوں اور خطروں سے مامون ہوکر خیر و حسن کی جانب بڑھتاچلا جائے۔ آپ کے نزدیک حکمت اور نظم قرآن کی معرفت ان اشخاص کے لیے نہایت ضروری ہے جو قیادت و سیادت کے منصب پر فائز ہوں۔ اس لیے کہ فہم دین کے بغیر دینی و ملّی رہنمائی نہایت خطرناک چیز ہے۔ امت کے اندر آج جو انتشار پایا جاتا ہے اس کی اصل وجہ حکمتِ دین سے بیگانگی ہی ہے۔
علامہ فراہیؒ کی تصانیف پر ایک نظر ڈالنے ہی سے آپ کے مجتہدانہ کارناموں کااندازہ ہوجاتاہے ۔ قرآن کی اہم سورتوں کی تفسیر کے علاوہ آپ کی چند اہم تصانیف یہ ہیں:
مفردات القرآن، الامعان فی أقسام القرآن، الرأی الصحیح فیمن ھو الذبیح، دلائل النظام، اسالیب القرآن، اصول التاویل، حکمۃ القرآن، فی ملکوت اللہ، حجج القرآن، القائد الی العیون العقائد، احکام الاصول باحکام الرسول، الرائع فی اصول الشرائع، جمھرۃ البلاغہ۔
کتابوں کی یہ فہرست بتاتی ہے کہ علامہ فراہیؒ قرآن کومرکز بنا کرتمام اسلامی علوم کواز سر نو مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، تاکہ فہم قرآن کی نئی نئی راہیں کھلیں اور مسلمانوں، بالخصوص علماء کے اندر فکری انقلاب برپا ہو اور یہ انقلاب اقامت دین کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

مولانا محمد فاروق خاں، معروف دانشور ومفسر قرآن

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں