ڈاکٹر سیدہ اشرف النساء
مو جودہ دور کے حالات پر ایک سرسری نظرڈالنے سے ہی انداز ہوتا ہے کہ یہ دور پھر کسی ابراہیم ؑ کی تلاش میں ہے، فرد سے لے کر خاندان،معاشرہ،قوم سب ہی افراط و تفریط، انتشار، بے چینی ،اضطراب، کشمکش بلکہ ذلت و رسوائی کا شکار ہورہے ہیں۔ ہرذی شعورانسان کی یہ خواہش ہے کہ حالات بدل جائے،حالات بدلنے کے لیے ہمیں خود بدلنا ہوگا، کیونکہ ’’ہم سے زمانہ خود ہے،زمانے سے ہم نہیں‘‘۔
تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں، منفی اورمثبت ۔منفی پہلو پر ہم غورکریں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے،قصوراپنا نکل آیا‘‘۔ لہذا نہ الزام تراشیاں ہوں نہ قصور اپنا نکلنے پرہمیں بغلیں جھانکنے کی نوبت آئے۔اس لئے ہم مثبت پہلو پر نظر رکھیں گے۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم مسلم ہیں، فرمانبرداری اورذمہ داری ہماری سرشت میں داخل ہے ،اس لئے حالات کی یکسوئی کے لیے،انسانیت کی جانکنی کے اس موقع پرکیوں نہ ہم اس ہدایت نامہ کی طرف، قرآن پاک کی طرف رجوع کریں۔ جو ساری انسانیت کے امراض کے لیے نسخۂ شفا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا۔ اوراپنے پیغمبر حضرت محمد ؐ کو اس کی تفسیر ،اس کے عملی نمونے کے طور پر مبعوث فرمایاہے تاکہ ہم آپ ؐسے رہنمائی حاصل کریں۔
ہم قرآن پاک کے چند ان راہنما اصولوں اورہدایتوں کو دیکھتے چلیں گے جن سے ہم اپنے انتشار کو ختم کرکے اپنی اصلاح کرسکیں اورایک پرسکون گھر اورخوشگوار خاندان کو پاسکیں،سورۂ بینہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو گروہ کا ذکر کیا ہے ،بہترین اوربدترین۔ نیک اوربد۔ انسانی برادری میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف شر اورخیر ہی کی بنیادوں پر ہے۔اس کے علاوہ اگرکوئی فرق ہے تو وہ شناخت کے لیے ہے نہ کہ فوقیت اورنفرت کے لیے ۔سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے :’’اے ایمان والو! تم اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اورشیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو،بے شک و ہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘کسی تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ،تمہارے خیالات ،نظریات، علوم ،طور طریقے ۔معاملات، سعی و عمل کے راستے ۔سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں ،ایسانہ ہوکہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصّوں میں تقسیم کرکے بعض حصّوں میں اسلام کی پیروی کرو اوربعض حصّوں کی پیروی نہ کرو۔
سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے ’’اللہ کی رسّی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑلو،آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کرتا ہے،سورۂ احزاب میں عورتوں کو پردے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ ستائی نہ جائیں۔سورۂ الحجرات میں اہل ایمان کو آداب کی تعلیم دی گئی ہے کہ’’ آپس میں لڑنا نہیں چاہیے‘‘ ۔یہ آیت دنیاکے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برداری قائم کرتی ہے، اس کی برکت سے مسلمانوں میں اخوت پائی جاتی ہے ۔اس سلسلہ میں آپؐ کے ارشادات گرامی ہیں : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہوتاہے، ہرمسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان،مال اورعزت حرام ہے،ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے،مومن ایک دوسرے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے تقویت کا سبب بنتے ہیں۔جن برائیوں کو ختم کرنے کا حکم ہے ان میں،کسی کا مذاق اڑانا ہے (حرکات و سکنات سے بھی کسی کی دل آزادی نہیں ہونا چاہیے)لعن طعن کرنا، الزام تراشی اور عیب جوئی سے منع کیا گیا ہے ۔کسی کو ایسا لقب نہیں دینا چاہیے جو اس کو ناگوار ہے ،جیسے منافق، لنگڑا، اندھا، بہرا۔ ذلیل اوصاف میں شہرت پانے سے بھی روکا گیا ہے ۔کوئی جھوٹ کے لیے مشہور ہو، کوئی وعدہ خلافی کے لیے مشہور ہو، یہ مومن کے لیے شرمناک بات ہے بلکہ ڈوب مرنے کی جگہ ہے۔
گمان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے کہ زیادہ گمان گناہ ہوتے ہیں۔ گمان کی کئی حیثیتیں ہیں ،اپنے گمان کو مطلق العنان نہیں بنانا چاہیے ،کسی کے متعلق اپنی بُری رائے پراصرار نہیں کرناچاہیے کیونکہ دل کے بھیدوں کو اللہ ہی بہتر سمجھ سکتاہے۔راز کو ٹٹولنے اورعیب کو تلاش کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔یہ شرعا ممنوع ہے کہ کان لگاکر کسی کی بات سنیں،یا ہمسایوں سے تاک جھانک کریں، دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل دینا بداخلاقی ہے۔ غیبت کو حرام کہا گیا ہے ۔ غیبت یہ ہے کہ دوسروں کا ذکر اس طرح کریں کہ اسے ناگوار ہو، حتی کہ کسی کی موت کے بعد غیبت نہیں کرنی چاہیے۔غیبت کو خاموسی سے نہ سنیں بلکہ اس کی حمایت کریں جس کی تذلیل کی جارہی ہے، ورنہ اللہ بھی حمایت نہ کرے گا جب اس کی مدد کی ضرورت ہوگی، غلطی کا جب بھی احساس ہو جائے اس کی تلافی کرنا چاہیے ، توبہ کرنا چاہیے ،برائی کو بھلائی سے دفع کرنا چاہیے، مسلمانوں کو ان تمام برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں، اورجن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کرکے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل میں بھی چند راہنما اصول بتائے گئے ہیں اورغلط کاموں سے روکا گیا ہے جیسے ماں باپ سے حسن سلوک کرنا، مسکین اورمسافر کو اس کا حق دینا،رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا، فضول خرچی نہ کرنا ،اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشہ سے قتل نہ کرنا، زنا کے قریب نہ پھٹکنا، قتل نفس کا ارتکاب نہ کرنا،مال یتیم کے پاس نہ پھٹکنا، وعدے کی پابندی کرنا، پیمانے ٹھیک تولنا، کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ رہنا جس کا علم نہ ہو، زمین پر اکڑ کرنہ چلنا۔ سورۂ مومنون میں جنت کے وارث کی صفات بیان کی گئی ہیں اور ان مومن بندوں کو فلاح اورکامیابی کی بشارت دی گئی ہے جو نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ،جولغویات سے دور رہتے ہیں،جو زکوۃ اداکرتے ہیں ، اپنے نفس کو شرک اورکفر سے پاک رکھتے ہیں۔شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔حرام کاری سے بچتے اورحد سے نہ گزرتے ہوں، امانت اوروعدے کی حفاظت کرنے والے ہوں، فرمایا گیا کہ یہی لوگ جنت الفردوس کے حقیقی وارث ہوں گے۔
سورۂ التغابن میں ارشاد فرمایا ہے کہ مومن کا ما ل اوراس کے اہل و عیال ایک بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انھیں کی محبت انسان کو ایمان و اطاعت سے منحرف کرتی ہے ،اس لیے اہل ایمان کو چوکنا رہنے کی تاکید کی گئی ہے کہ ان کا مال اوراولاد ان کے حق میں راہِ خدا کے رہزن نہ بن جائیں ۔ان کی دنیا بنانے میں اپنی آخرت نہ برباد کرلیں ۔ان کی محبت کو اتنا نہ بڑھالیں کہ وہ اللہ کے تعلق میں حائل ہوجائے۔ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ :’’قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا اورکہا جائے گاکہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے ۔‘‘مال اوراولاد کو فتنہ کہا گیاہے لیکن اولاد کی پرورش اسلامی خطوط پر کی جائے تو یہ اولاد فتنہ کے بجائے متقیوں کے امام بھی بن سکتی ہے ،اور اللہ اپنی راہ میں خرچ ہونے والے مال کو اپنے ذمہ قرض بتاتا ہے ،اوراسے بڑھا چڑھا کر واپس کرنے اوراوپر سے اجر عظیم کا بھی وعدہ فرماتا ہے ۔ ( تفہیم القرآن ،مولانا مودودی ؒ)۔
سبحان اللہ ۔یہ اورایسی کئی ہدایتیں اوراصول ہیں جو ہمارے درد کا درماں ثابت ہوجائیں گی ،اگر ہم نیک نیتی سے اس پر عمل پیرا ہوں ۔اس لیے کہ ’’جو ہے راہِ عمل پہ گامزن محبوب فطرت ہے‘‘۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اس نسخۂ کیمیا کو ہم حرزِ جان بنالیں۔ اپنی زندگی میں شامل کرلیں تاکہ ہم فلاح پاجائیں ۔ ہمارا گھر امن و شانتی کا گہوارہ بن جائے ،ہمارا خاندان خوشحال خاندان بن جائے اورپھر ’’عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے‘‘۔