2024ء کے عام انتخابات کے نتائج، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ایک زور دار دھچکا ثابت ہوئے۔ مہاراشٹر جہاں 128 ملین باشندے رہتے ہیں، مغربی بنگال جہاں کی آبادی تقریبا 104 ملین ہے اور سب سے بڑھ کر اتر پردیش جہاں تقریبا 257 ملین رائے دہندگان ہیں، بی جے پی کو ان تینوں خطوں میں منہ کی کھانی پڑی۔ اتر پردیش میں، جس کی قیادت ہندوتوا برانڈ یوگی آدتیہ ناتھ کر رہے تھے، وہاں کا نتیجہ خاص طور پر ذلت آمیز رہا۔ ایودھیا کا وہ شہر جہاں نریندر مودی نے قرون وسطیٰ کی مشہور بابری مسجد کے کھنڈرات پر تعمیر کیے جانے والے مندر کا بڑے دھوم دھام سے افتتاح کیا اور سوچا کہ انہیں انتخابات کے لیے ایک مضبوط گڑھ مل گیا ہے جہاں فرقہ پرستی کا بول بالا ہوگا اور ہندو بالادستی قائم رہے گی، ان تمام توقعات کے باوجود اس حلقہ میں بی جے پی کی ہار نے اس خواب کو مٹی میں ملا دیا۔ اتر پردیش کے ہی شہر وارانسی میں نریندر مودی صرف 150,000 ووٹوں کے سہارے دوبارہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ یہ نہ صرف وارانسی میں ان کا سب سے برا نتیجہ ہے بلکہ 1947ء میں آزادی کے بعد کسی وزیر اعظم کا اس قدر بدترین نمبر نہیں رہا ہے۔ اس نتیجہ نے مودی لہر کی ہوا نکال دی اور ہندو قوم پرستی کا دم بھرنے والے چیمپئین کو محض ایک سیاست داں بنا دیا۔
ان عام انتخابات کے نتائج کے بعد سول سوسائٹی، اقلیتوں اور حزب مخالف سیکولر پارٹیوں کو بڑی راحت محسوس ہوئی ہے۔ بی جے پی کے لیے مخلوط حکومت چلانا مشکل ترین کام ہے۔ متحدہ سرکار کی اپنی نزاکتوں اور خطرات کے باوجود اس انتخاب نے سول سوسائٹی، اقلیتوں، حزب مخالف سیکولر پارٹیوں اور خصوصاً مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری بھی عائد کردی ہے۔
اول تو یہ کہ اس لمحہ راحت کو لمحہ غفلت میں تبدیل ہونے کا کوئی موقع نہیں دیا جاسکتا۔ انتخابات کے بعد کے تجزیوں اور کچھ سروے پر نظر ڈالیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی ووٹروں نے بی جی پی کو جو شدید دھچکا دیا، اس کے باوجود نریندر مودی اور ان کی پارٹی تبدیلی کے لیے مائل نظر نہیں آتے۔ 4/ جون کو بی جے پی نے لوک سبھا میں 543 میں سے صرف 240 نشستیں حاصل کیں، جو 2019ء کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہے۔ کم از کم 22 سے زائد وزراء کو اپنی سیٹوں پر ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم، ہندو قوم پرست رہنما نے اپنی روش سے توبہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی نئی حکومت میں وہی چہرے نظر آئے جو پہلے سے اپنی ایک شبیہ رکھتے ہیں۔ امیت شاہ جیسا وزیر داخلہ جو گزشتہ پانچ سالوں سے حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے طلبہ، پروفیسران اور سماجی کارکنان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے ذمہ دار ہیں۔ وزیر دفاع کے طور پر راج ناتھ سنگھ۔ وفادار جے شنکر بحیثیت وزیر خارجہ اور نرملا سیتارامن، ایک کمزور وزیر خزانہ۔ غرض یہ کہ تمام فیصلہ کن وزارتیں جو حکومت کے سیاسی کردار کی نمائندہ ہوتی ہیں جیسے وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت خزانہ، وزارت خارجہ امور اور اس طرح کی دوسری وزارتیں بی جے پی نے اپنے پاس رکھی ہیں۔ 71 وزراء کی ٹیم میں صرف سات خواتین شامل ہیں اور ایک بھی مسلمان نہیں ہے، جس مذہب سے 200 ملین ہندوستانی تعلق رکھتے ہیں جو آبادی کا 14فی صد ہے۔ مجموعی طور پر 86 فی صد وزارتی امور بی جے پی کے اراکین کو دیے گئے ہیں۔ باقی کچھ پندرہ چھوٹی پارٹیوں میں تقسیم کر دیے گئے ہیں جو ایک حادثاتی اتحاد کا نتیجہ ہے۔ مودی اور بی جے پی کا تبدیلی کے لیے مائل نظر نہ آنا اور مودی کی آمرانہ و جابرانہ حکومت کے تسلسل کی کئی مثالیں اور بھی ہیں۔ ایک مخلوط حکومت، جس کے لیے اتحادیوں اور حزب اختلاف کے ساتھ اچھا اور متوازن تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس نزاکت کے باوجود پارلیمانی امور کی وزارت شدت پسند کرن رجیجو کو دی گئی۔ حکومت بننے کے بعد پچھلی میقات سے چلے آرہے یونیفارم سول کوڈ اور نئے سخت مجرمانہ قوانین کے نفاذ کا پیغام دیا گیا ۔ نتائج کے فوراً بعد مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور گجرات میں مسلمانوں پر بے بنیاد الزام عائد کرکے انہیں مارا پیٹا اور لنچ کیا گیا۔ انسانی حقوق کے ضمن میں ہندوستان کی سب سے اہم اور باوقار آواز، اروندھتی رائے کو 14/ سال پہلے کی گئی تقریر کی آڑ میں نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں جان بوجھ کر فرقہ وارانہ مواد کا اضافہ اور کئی اہم اسباق کو حذف کیا گیا۔ ملک کے نامور صحافی سدھارتھ وردراجن کے مطابق آنے والے دنوں میں مودی مزید جارحانہ رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ ہٹلر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “یہ ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس 1000 سال کا منصوبہ ہے جسے وہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔ آخری رہنما جس نے اپنی حکومت کے لیے ایک ہزار سال کا خواب دیکھا تھا، اس نے آخر کار اپنے ملک کو تباہ کر دیا۔”
دوم، ان تمام حقائق کے ساتھ ہندوستانی عوام نے اس شخص کو سمجھوتہ پر مجبور کردیا ہے جس نے ہمیشہ اقتدار اپنے ہاتھ میں مرتکز رکھا اور اسے کبھی کسی دوسرے کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔ مخلوط حکومت کی رفتار ، کمزوریوں اور اس درمیان حاصل ہونے والے مواقع کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف پسند عوام، اقلیتوں، سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے لیے ضروری ہے کہ انصاف و مساوات کی آواز کو مضبوط کرنے اور اصلاح احوال کی فکر کرتے ہوئے اچھی منصوبہ بندی کی جائے اور اپنی کوششوں میں تیزی لائی جائے۔
غرض یہ کہ نتائج کے مثبت پہلوؤں پر اطمینان کے ساتھ ساتھ اِن حقائق کو ذہن میں رکھنا اور حالات کا مناسب تجزیہ کرتے ہوئے لائحہ عمل بنانا ہی شعور کا تقاضہ ہے۔ آئندہ صفحات میں اس پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔