طلبۂ مدارس تعلیمی، اقتصادی، اور سماجی صورتحال کا ایک جائزہ

ایڈمن

عبد الودود، سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزشن آف انڈیا ( SIO)ایک ایسی طلبہ تنظیم ہے جو روز اول سے قوم و ملت کی تعمیر اور وطن عزیز کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے،…

عبد الودود، سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا
اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزشن آف انڈیا ( SIO)ایک ایسی طلبہ تنظیم ہے جو روز اول سے قوم و ملت کی تعمیر اور وطن عزیز کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے، با لخصوص طلبہ، تعلیم اور تعلیمی اداروں سے متعلق 32؍سال سے اس کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، اپنی انہی کاوشوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایس آئی او کی مرکزی مشاورتی کونسل(CAC) نے ایک اہم محاذپرکام کا ازسرنو آغاز کیاہے۔ چنانچہ اس نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمی، سماجی اور معاشی صورت حال کا جائزہ لینے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کے لئے 5؍افراد پر مشتمل ایک اسٹڈی گروپ قائم کیا، اس گروپ نے سب سے پہلے سروے کے لئے سوال نامہ تیار کیا، اور اس کام کے لئے 4؍کمیٹیاں بنائیں جو زونس کی تعاون سے سروے کا کام انجام دے رہی ہیں ۔الحمد للہ اب تک 44؍مدارس اسلامیہ کا سروے کیا جا چکاہے جس میں 730طلبہ سے رائیں لی گئی ہیں، اور اسی کے تحت ملکی سطح پر ’ ملک و ملت کی تعمیر میں فارغین مدارس کا کردار‘ کے عنوان سے مسابقہ مضمون نویسی کاانعقاد ہوا جس میں 3ذیلی عناوین دیئے گئے:
۱۔ مدارس کے قیام کے مقاصد
۲۔ فارغین مدارس کا مطلوبہ کردار
۳۔ مدارس اور فارغین مدارس کی موجودہ صورتحال اور تبدیلی کے لئے مطلوبہ لائحہ عمل
اس مسابقے میں ۶۱؍ مقالے لکھے گئے، اور ماشاء اللہ یہ تمام مقالے بہت ہی عمدہ اور لائق تحسین ہیں۔اس سلسلے میں ذمہ دران SIO کی طرف سے ۴۰۰؍ مدارس کا دورہ کیا گیاہے، جہاں پر نظماء و مہتمم حضرات سے مدارس کی موجودہ صورت حال اوران کے مسائل پر تفصیل سے گفتگوکی گئی اور ۲۰۰؍ سے زائد فارغین مدارس سے ملاقاتیں کی گئی ہیں اور آئندہ لائحہ عمل کے متعلق ان سے مشورہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی ان اسکالروں سے جو کہ کسی نہ کسی طرح مدارس سے متعلق ہیں اور دیگر تنظیموں سے جو کہ اس میدان میں سرگرم عمل ہیں ان سے بھی رجوع کیا گیا۔ سچر کمیٹی رپورٹ کو سامنے رکھ کر بھی کافی غور و خوض ہوا ہے اور ان حضرات سے بھی رائے لی گئی ہے جنھوں نے کہ مدارس کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں، اسی طرح کچھ لو گوں سے انٹرویوز بھی لئے گئے ہیں۔چنانچہ ان تمام رپورٹوں اور آراء کو سامنے رکھ کر ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کی صورت حال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں اکابرین امت اور ذمہ داران مدارس سنجیدگی سے غور کریں تاکہ وہ خواب جو ہمارے اسلاف نے دیکھے تھے وہ شرمندۂ تعبیر ہو سکیں اور مدارس کے قیام کا جو محرک ہے وہ کار فرما ہو۔
سروے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ تقریبا تمام مدارس کے طلبہ مدرسے میں صرف اور صرف دینی تعلیم او ر تبلیغ دین کے عظیم مقصد کو لیکر داخل ہوئے ہیں، نہ کہ وہ مدرسے میں معاشی تنگی اور بد حالی کے سبب داخل ہوئے ہیں جیسا کہ سچر کمیٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان کے مدارس میں جو طلبہ زیر تعلیم ہیں وہ مالی کمزوری کے سبب وہاں جاتے ہیں ورنہ وہ کالجوں اور دیگر عصری علوم کا رخ کرتے، ہماری سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جن کوہم مڈل کلاس کہہ سکتے ہیں ۔بنگال وغیرہ کے مدارس کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر غریب بچے پڑھتے ہیں مگر وہاں غریب صرف مدرسوں میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی ہیں، ان بچوں کے والدین کے مالی حالات زیادہ بہتر نہیں ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے مدارس میں ہیں البتہ جوبڑے مدارس ہیں مثلا دیوبند ،ندوہ،جامعہ سلفیہ ،جامعتہ الفلاح اورمدرسۃالاصلاح ان سب کے سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں پر عام طور سے مڈل کلاس کے طلبہ زیر تعلیم ہیں اور وہ اپنی مرضی اور حصول علم دین اور خدمت خلق کے مقصد سے مدرسے میں داخل ہوئے ہیں۔
اسی طرح ان مدارس کے تعلیمی ماحول پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو تقریبا 50%سے60%طلبہ نے مدرسے کے ماحول کو تعلیم کے لئے ٹھیک کہا ہے، جبکہ 40%سے50%طلبہ کے خیال میں بہتر ہے، البتہ اچھی چیز جو سامنے آئی ہے وہ طا لب علموں کے درمیان کا ماحول اور ان کا رہن سہن ہے اور اسی طرح طالبعلم اور اساتذہ کے تعلقات ہیں،جن کی صورتحال کافی اطمینان بخش ہے، البتہ مدرس اور انتظامیہ کے مابین جس طرح کے تعلقات اور جیسا ماحول ہونا چاہیے وہ نہیں پایا گیا کیونکہ تقریبا 50%سے زائد طلبہ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ا ساتذہ کے اوپر انتظامیہ کا دباؤپایا جاتا ہے۔
رہی بات نصاب تعلیم کی تو جیسا کہ آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ مدارس کو اس پر ہمیشہ ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑاہے کہ نصاب تعلیم ان کا پرانا ہے، یہ زمانے کی عکاسی نہیں کرتا، اس کو تبدیل ہونا چاہئے اور سروے رپورٹ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ نصاب تعلیم سے تقریبا 50%طلبہ مطمئن نہیں ہیں، بلکہ اس کو قابل قبول اور مناسب بھی نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک بھی تبدیلی ضروری ہے چنانچہ نصاب تعلیم میں تقریبا تمام ہی مدارس علوم دینیہ وشر عیہ پرزور دیتے ہیں جو کہ لازمی چیز ہے البتہ جب ہم عصری علوم اور سماجی علوم کے کالم پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں ہمیں مایوسی ہاتھ آتی ہے، تقریبا 70%ایسے مدارس ہیں جن میں معاشیات، سیاسیات، انگریزی زبان، تاریخ و جغرافیہ جیسے سبجیکٹ داخل نصاب نہیں ہیں،اور جن مدارس میں یہ پڑھائے بھی جاتے ہیں تو ابتدائی کلاسوں میں ہیں۔
رہی بات طرز تدریس سے مطمئن اور غیرمطمئن ہونے کی تو سروے میں اس کا بھی خلاصہ ہے کہ زیادہ تر طالب علم اپنے اسا تذہ کے طریقہ تدریس سے مطمئن نظر نہیں آتے، اور اس میں تبدیلی اور جدید طرز سے تدریس کی ضرورت پر بات کرتے ہیں، البتہ جو بڑے مدارس ہیں ان کے یہاں یہ بات اطمنا ن بخش تو نہیں لیکن مناسب کے کالم کو زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
اس طرح اساتذہ کرام طالب علم کو حالات حاضرہ سے روشناس کروانے کے سلسلے میں بالکل صفر پائے گئے ہیں، وہ صرف داخل نصاب کتاب کو سال ختم ہونے تک مکمل کرانے پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے طالب علم باہر کی دنیا میں جوروز مرہ واقعات رونما ہوتے ہیں،وہ اس سے محروم رہ جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں آج پورے ہندوستان میں ایک بات طلبہ مدار س کے تعلق سے مشہور ہوگئی ہے کہ یہ لوگ پرانے خیال کے ہوتے ہیں، موجودہ حالات سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا،اور طالب علم خود کتاب کا کیڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ ہا ںیہ بات ضرور ہے کہ 70%سے زائد طالب علم مدرسے کے ماحول کو تعلیمی مقاصد کے حصول میں مدد گار سمجھتے ہیں اور ان کو اس بات پر اتفاق ہے، اور ہم نے دیکھا ہے کہ طالب علم مطالعہ کتب میں زیادہ تر وقت دیتے ہیں اور ضیاع وقت سے پرہیز کرتے ہیں، البتہ زیر مطالعہ کتب80%دینی اورعلوم شرعیہ سے متعلق ہی ہوتی ہیں، عصری کتب شاذونادر ہی زیر مطالعہ آتی ہیں، اور خاص طور سے وہ کتابیں جو بالکل تازہ ترین موضوع پر ہر سال سامنے آتی ہیں ان کا مطالعہ با لکل صفر ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کتب کی فراہمی ان کے لئے دشوار ہوتی ہے کیونکہ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مدارس کی لائبریریاں عصری علوم کی کتب سے بالکل خالی ہیں، اور وہاں صرف دینی اور شرعی کتابیں ہی موجود ہیں۔ بڑی تعداد میں تفا سیراور شروح احادیث واحادیث تو موجود ہیں مگر علم سیاسیات، سماجیات ومعاشیات کی فہرست با لکل نہ کے برابر ہے۔ البتہ کچھ جرائد واخبارات ضرور موجود ہیں لیکن کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جہاں کی لائبریریوں میں ناول، افسانے اور شعراء کے دیوان موجود ہیں اور لڑکے ان سے استفادہ کرتے ہیں ،رہی بات ڈیجیٹل لائبریری کی تو اس کا وجود دنیائے مدارس میں اب تک نہیں ہوا، اسی کے ساتھ98% مدارس میں انٹرنیٹ کی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں، البتہ یہ دیکھا گیا کہ طلبہ چھپ کر اور غیر قانونی طریقے سے انٹرنیٹ یعنی سوشل نیٹ ورکنگ مثلا فیس بک، ٹویٹر ، واٹس اپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں، البتہ ان کی تعداد کافی کم ہے،البتہ یہ بات بڑی خوش آئند کہی جاسکتی ہے کہ تقریبا 70%مدارس میں کھیل کودکے میدان اور سازوسامان موجود ہیں جو کہ طلبہ کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لئے بہت ضروری ہے۔
اسی طرح ایک چیز جو کہ بہتر ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ ترطلبہ تعطیل کے دوران تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں، اور کہیں نہ کہیں اپنی تعلیم سے جڑے رہتے ہیں، ساتھ ہی وہ اچھی طرح سے اپنے گھر خاندان،عزیز،رشتے داروں کا خیال بھی رکھتے ہیں، وہیں تقریبا30%ایسے بھی طلبہ ملے ہیں جن کا دوران تعطیل صرف اورصرف سیرو تفریح ہی مشغلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مدارس کے طلبہ باہر کے افراد سے ملنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ملتے بھی ہیں، سوائے چند مدارس کے جہاں پر مدرسے کی چہاردیواری سے نکلنا ہی ممنوع ہے۔
ایک چیزجو ہمیشہ سے ہی طلبہ مدارس کی کمزوری سمجھی جاتی رہی ہے وہ یہ کہ طلبہ کے مستقبل کا لائحہ عمل اور فراغت کے بعد کس میدان میں ان کو قدم رکھنا ہے، اورمستقبل میں ان کا کیا بننے کا ارادہ ہے؟ ان سوالات کے سلسلے میں ان کے یہاں غیراطمینان بخش جوابات ملتے ہیں۔ یہ کمزوری اب تک جوں کی توں برقرار ہے، طلبہ یہاں تک کہ فضیلت کے طلبہ بھی اس باب میں کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ان کو آگے چل کر کیا بننا ہے، علمی میدان یا پروفیشنل میدان، ہم نے سروے میں یہ بھی دیکھا کہ علم و تدریس کے میدان میں ان کا کوئی متعین نصب العین نہیں ہے، وہیں پروفیشنل میدان میں ان کواس بات کا کوئی شعور نہیں ہے اور اس میں تمام ہی مدارس یکساں نظر آتے ہیں، البتہ اتنا تو ضرور معلوم ہوسکا ہے کہ زیادہ تر طلبہ درس وتدریس کا فریضہ ہی انجام دینا چاہتے ہیں اور کچھ سیاست وغیرہ کے میدان میں۔ سروے سے ماخوذ ان تمام اندازے اور تخمینے کو سامنے رکھ کر یہ بات بغیر کسی ترددکے کہی جا سکتی ہے کہ مدارس کے طلبہ کو نظام تعلیم ونصاب تعلیم سے کہیں نہ کہیں اختلاف یا عدم اطمینان ہے۔ اس طرح ان کو کچھ اور چیز کی ضرورت ہے جس کو وہ واضح نہ کر سکے ہیں،اپنے داخلے کا مقصد تو وہ تعلیم دین و تبلیغ، خدمت اور فلاح دارین بتاتے ہیں مگر جب طلبہ فراغت کے بعد مدارس سے نکلتے ہیں اور میدان عمل میں آتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ان سے یہ مقاصد چھوٹ جاتے ہیں، کیونکہ فراغت کے بعد ان کو کیا کرناہے اور تبلیغ دین واشاعت اسلام کے لئے کس پلیٹ فارم سے کام کرنا اس میں وہ بھٹک جاتے ہیں، اور ان کا عظیم مقصد ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلچسپی کے مطابق ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے مناسب ا ن کو تربیت نہیں کی گئی ہے۔
اور اگر تربیت ہے تو آگے کی رہنمائی میں کو تاہی رہ جاتی ہے اور وہ مسائل دنیا اور مشکل حالات میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، یہ تو تاثرات ہیں ان سروے کی روشنی میں جو 44؍ مدارس میں کئے گئے،اور رہی بات 400؍مدارس کے دورے کی جو ذمہ داران ایس آئی او کی جانب سے کئے گئے تو یہ معلوم ہواکہ تقریبا تمام ہی مدارس کا نصاب عصری ضروریات سے ہم آ ہنگ نہیں ہے۔اس سے فارغین مدارس کو زمانے کے شانہ بشانہ چلنے میں دشواری ہوتی ہے۔
دیکھاگیا کہ کہیں نہ کہیں ان کے اندر مایوسی اور یاس بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ جو مدارس میں مختلف شعبہ جات پائے جاتے ہیں اس میں لگن کی کمی ہے،وہ اتنا فعال نہیں جتنا دور حاضر کا تقاضا ہے تاکہ وہ بامقصد ہوسکیں۔چناچہ بعض ایسے مدارس بھی سامنے آئے ہیں جہاں علاقائی زبان میں تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے،جبکہ علاقائی زبان میں تعلیم کی جو اہمیت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔جس طرح بچہ اپنی ماں کی زبان سب سے پہلے سمجھتا ہے اسی طرح طالب علم کسی بھی مسئلہ اور اصطلاح کو سب سے پہلے اپنی مادری زبان میں سمجھتا ہے اور اس طرح وہ زبان بھی فروغ پاتی ہے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ زبانوں سے علاقے کی تہذیب وثقافت جڑی ہوتی ہے۔
ایک اور بات سامنے آئی کہ زیادہ تر مدارس جن کے قیام کا مقصد تبلیغ دین واشاعت اسلام ہے وہاں پر عالمیت اور فضیلت کے بعد علوم شرعیہ ،قرآن وتفسیروحدیث میں تخصص کا بھی انتظام نہیں جس کی موجودہ حالات میں سخت ضرورت ہے۔
اور بہت سارے مسائل ہیں جن سے ہمیشہ سے مدارس اسلامیہ دوچار ر ہے ہیں، اور جن پر وقتافوقتا توجہ بھی دلائی جاتی رہی ہے، مثلا مدرسے میں آج اس ترقی یافتہ زمانے میں ضرور IT center کا قیام ہو، معاشیات، سیاسیات،سماجیا ت اورتاریخ پر توجہ دی جائے،مدارس کی لائبریری اساتذہ اور طلبہ سب کے لئے کار آمد بنائی جائے، اور ڈیجیٹل لائبریری کا بھی انتظام ہو، تاکہ طلبہ کو زمانے سے اور اب جبکہ دنیا ایک عالمی گاؤں کے مانند ہو گئی ہے ایسے حالات میں پوری دنیا میں روزمرہ ہونے والے حادثات سے براہ راست واقفیت ہو سکے ،وہاں پر مقامی اور دیگر ضروری زبانوں مین روزانہ شائع ہونے والے اخبارات اور عصری اور دینی دونوں قسم کے رسائل وجرائد کا انتظام ہو۔ان تمام چیزوں کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ،نہ ہی مدارس کے ذمہ داران و اساتذہ کو، اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور کو، بلکہ ہر شخص موجودہ دور میں اس کا قائل ہے۔مگر اس کے باوجود تقریبا 80% مدارس میں یہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں، اور نہ ہی جسمانی ورزش اور دماغی وذہنی سکون کے لئے کھیل یا دیگر اشیاء کی فراہمی ہو رہی ہے۔اسی طرح کریئر کو لے کر طلبہ کے اندر نہ کوئی پلانگ پائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے اندر ایسی کوئی بیداری۔
اس کے علاوہ ایک چیز جو سب سے زیادہ توجہ طلب ہے وہ اساتذہ کرام کی معاشی حالت ہے، اس میں تمام مدارس ایک ساتھ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں،جس پر نہ تو ذمہ دار کی طرف سے کوئی خاص توجہ ہے اور نہ ہی حکومت یا دیگر کسی ادارے کی طرف سے،اور ان کا گذر بسر کس طرح ہوتا ہے اس پر کوئی سوچتا بھی نہیں۔اور یاد رکھئے کہ وہ انسان جو آج کے اس قدر گراں دور میں مالی اور معاشی تنگ دستی کا شکار ہو، وہ اپنے آپ کو اس پوزیشن میں کیسے پاسکے گاکہ وہ کسی کو 100%دے سکے۔اس وجہ سے اساتذہ مایوسی اور پریشانی دونوں سے دوچار ہیں، اور ان کی فکر مندی صاف جھلکتی ہے اور وہ مدارس کے نظام اور اس کے لائحہ عمل دونوں سے مایو س نظر آتے ہیں۔
ایک اور چیز جس کو ہمارے ملک ہندوستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کافی اہم ہے کہ یہاں پر دعوت دین اور تبلیغ اسلام کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو مختلف المذاہب ہے اور یہاں پر بہت ساری ذات و برادیاں مختلف مذاہب کو جاننے والی ہیں تو ایسی صورت میں دعوت و تبلیغ کے فرائض اور بھی بڑھ جاتے ہیں اور مدارس اسلامیہ کا بنیادی محرک بھی یہی مانا جاتا ہے۔ایسی صورت میں ضروری ہے کہ طلبہ کو مختلف ادیان ومذاہب کے بارے میں بتایا جائے بلکہ اس کو داخل نصاب کیا جانا چاہئے تاکہ طالب علم جب دعوتی میدان میں قدم رکھے تو وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اچھی طرح ان کے مذہب کے بارے میں بتاسکیں اور ان کو اطمینان دلاسکیں کہ اصل مذہب اسلام ہے،کیونکہ اس کی کمی اکثر جگہوں پر دیکھی گئی ہے۔ چنانچہ ان تمام کاوشوں کے پیچھے ہمارا یعنی ایس آئی او کا یہ ماننا ہے کہ ان مسائل پر غور و خوض ہو، اور ان کو حل کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا جائے۔
باتیں تو بہت ساری تفصیل سے آچکی ہیں، البتہ برائے یاد دہانی کچھ نکات پیش ہیں، تاکہ ان پر اور سنجیدگی سے غور کر کے ان کو عمل میں لایا جائے۔
n دینی مدارس کا ایک وفاق قائم کیا جائے اور اس کے تحت عا لمیت،فضیلت اور تخصص کے امتحانات ہوں اور یہ وفاق اس کی سند؍سرٹیفکٹ دے۔
n دینی مدارس کے نصاب کو عصری ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
*مدارس کے مختلف شعبوں کو فعال اوربا مقصد بنایاجائے۔
n مدارس کے اندر علاقائی زبانوں مثلا ہندی، اردو، بنگلہ، تمل ، ملیالم، گجراتی وغیرہ کی تدریس کا نظم بھی ضروری ہے۔
n سماجی علوم بھی داخل نصاب ہوں۔ (معاشیات، سیاسیات،تاریخ و جغرافیہ اور ماحولیات وغیرہ)
n عا لمیت و فضیلت کے بعد تخصص کا بھی انتظام ہونا چاہئے اور یہ تخصص تفسیر، حدیث، فقہ اور مختلف اسلامی علوم و فنون میں ہو۔
n مدارس کے احاطے میںIT Centre کا ہونا ناگزیر ہے۔
n مدارس کی لائبریری کو طلبہ و اساتذہ کے لئے کار آمد اور مفید بنایا جائے۔
n کتب خانہ میں اخبارات، دینی و عصری رسائل ،فوٹو کاپی کی سہولت اور ڈیجیٹل لائبریری کی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔
n دعوت دین کے لئے دیگر مذاہب کا مطالعہ اور عملی تربیت بھی ضرورہو۔
n طلبہ کے لئے کھیل کود و جسمانی ورزش کا بھی انتظام ہو ۔
n طلبہ کی جانب سے کیریئر پلاننگ اور اس سلسلے میں ان کی بیداری ضروری ہے۔
n فارغین مدارس کے لئے ملکی و بیرون ملکی تعلیمی اداروں میں مواقع کو آسان بنایا جائے۔
n دینی مدارس میں فکری وحدت پیدا کرنے پر زور دیا جائے اور مسلک زدہ تدریس سے پرہیز کیا جاناچاہئے۔
n دینی مدارس کے داخلی اور خارجی نظام کو زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایا جانا چاہئے۔
n اساتذۂ کرام کے معاشی حالات کو مزید بہتر بنانے کی جدوجہد ہونی چاہئے۔
n دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان اعتماد کی فضا ہموار کی جائے، او ر ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
n ان کے اندر تحقیقی رجحانات پیدا کیا جائے۔
n سماجی مسائل میں طلبہ مدارس کی دلچسپی پیدا کی جائے۔
n ان کے درمیان مثبت سوچ عام کی جائے۔
n ملک و ملت کے لئے ان کو کار آمد بنانے کی کوشش کی جائے، نیزان کے اندر سیاسی وسماجی حساسیت پیدا کی جائے۔
n سماجی تبدیلی کے لیے ان کے ذہنوں کو استوار کیا جائے۔
n مختلف اشوزپر سوچنے کے لئے انہیں آمادہ کیاجائے۔
n جدید مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کرنے کی استعداد پیدا کی جائے۔
n باطل افکارو نظریات کی یلغارکے سدباب کی جدوجہد کے لیے انہیں تیار کیا جائے،نیزاسلام کو بطور متبادل پیش کرنے کی استعداد پروان چڑھائی جائے۔
اور مزید چند امور جس پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ
n مدارس کے اسناد کو تسلیم کر کے ان کے معیار کو متعین کرے۔
n مدارس کے اسناد سے ہندوستان کی ساری یونیورسٹیز میں داخلہ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
n UPSCکے امتحانات میں عربی زبان کو بحال کیا جائے۔
n حکومت مدارس کے سلسلے میں دیگر مذاہب کی غلط فہمیوں کو دور اور پروپیگنڈوں کو بند کرے۔
n مدارس کے اقتصادی حالات کو مضبوط بنانے کے لئے سرکاری سطح پر مالی امداد کا طے شدہ بجٹ ہونا چاہئے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں