ضمنی انتخابات : نفرت کی سیاست کو عوام نے کیا مسترد

ایڈمن

’’ میں نے جن مقامات پر لو جہاد کے تعلق سے اپنی تقریر کے ذریعہ عوام میں بیداری پیدا کی تھی، ان ہی مقامات پر پارٹی کو فتح نصیب ہوئی ہے۔‘‘ یہ الفاظ بھاجپا کے بدنام زمانہ ہندووادی لیڈر یوگی…

’’ میں نے جن مقامات پر لو جہاد کے تعلق سے اپنی تقریر کے ذریعہ عوام میں بیداری پیدا کی تھی، ان ہی مقامات پر پارٹی کو فتح نصیب ہوئی ہے۔‘‘ یہ الفاظ بھاجپا کے بدنام زمانہ ہندووادی لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ 16؍ستمبر 2014کو ضمنی انتخابات کے نتائج پر میڈیا سے مخاطب ہو کر کہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس سے چند روز قبل ہی ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ بھاجپا کے اہم لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ’لو جہاد‘ کے موضوع پر اپنی بے خبری کا اظہار کیا۔ بہرحال، بی جے پی کے ان دو سینئر لیڈران کے ان متضاد بیانات کے پس منظر میں پارٹی کی حکمت عملی کیا ہے، عوام نے اس کو محسوس کر لیا اور ’اچھے دنوں‘ کے خوبصورت خواب کے بدلے عوام سے حاصل کیے گئے اقتدار میں مدہوش بی جے پی کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔
گزشتہ 13؍ستمبر کو9؍ صوبوں میں 33؍ اسمبلی و 3؍پارلیمانی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ یہ صوبے اتر پردیش، راجستھان، گجرات، تلنگانہ، آندھراپردیش، آسام، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال وسکم ہیں جہاں اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات ہوئے۔ اس کے علاوہ نریندر کے وارانسی سیٹ کو برقرار رکھنے کی وجہ سے خالی ہوئی وڈودرا ،ملائم سنگھ یادو کے اعظم گڑھ سیٹ کو برقرار رکھنے سے خالی ہوئی مین پوری اور تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کے چھندرشیکھر راؤ کے میڈک پارلیمانی سیٹ سے استعفیٰ دینے کی وجہ سے خالی نشستوں پر بھی انتخابات ہوئے، جہاں حسب سابق پارٹیوں نے اپنی نشستیں جیت لیں۔ واضح رہے کہ بھاری اکثریت سے پارلیمانی الیکشن 2014فتح کرنے والی بی جے پی کے MLAsکے پارلیمنٹ ممبر منتخب ہو جانے سے صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں خالی ہو گئیں تھیں۔ پارلیمانی انتخاب کے بعد یہ تیسرے دور کے ضمنی انتخابات تھے اور ان تینوں میں ہی بھاجپا کو اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے عوام نے مسترد کیا ہے۔ بھاجپا نے لمبے چوڑے وعدوں کے ذریعہ ملک میں بر سر اقتدار آنے کے بعد بھی عوام کے مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں کی، مزید بر آں وہ ملک میں فرقہ واریت میں ہی سرگرم عمل ہو گئی اورملک کو فسطائیت کی بھینٹ چڑھانے کے لیے تمام طرح کے پروپگنڈے کرنے لگی۔ بی جے پی نے اپنی اسی حکمت عملی کے پیش نظر یوپی ،جہاں اس کا سب سے بڑا امتحان تھااور اس کے گیارہMLAs کے پالیمنٹ ممبر منتخب ہو جانے سے ان سبھی سیٹوں پر الیکشن ہونا تھا، یہاں ہندتوا کے برانڈ امبیسڈراور مسلموں کے خلاف اپنے زہریلے بیانات کے لیے بدنام زمانہ گورکھپور کے MPمہنت یوگی آدتیہ ناتھ کو ان انتخابات میں پرچار کی کمان سونپی تھی۔ اپنی عادت کے عین مطابق یوگی نے مختلف مقامات پر نفرت آمیز بیانات اور سماج میں تفریق ڈالنے والی مہم کے ذریعہ بی جے پی کو جیت دلانے کا ہدف رکھا تھا۔دریں اثناء یوگی کی زہر افشانی کے سبب الیکشن کمیشن سے شکایت کی گئی،جس کی تفتیش میں کمیشن نے اہم ثبوتوں کی بنیاد پر سخت ترین رویہ اختیار کرتے ہوئے یوگی کے خلاف FIRدرج کرنے کا حکم دیا۔ لیکن بی جے پی کی جانب سے فسطائیت کے اس علمبردار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اتر پردیش میں مئی 2014سے پہلے کے سیاسی افق پر نظر ڈالیں تو اس وقت کے حالات میں اب زبردست تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ بی جے پی اور فسطائی طاقتوں نے مل کر تقریباً ایک سالہ مدت میں اتر پردیش کی فضا میں نفرت کی جس طرح آمیزش کی تھی اور جن امیدوں اور وعدوں کے طلسم کے ذریعہ ان طاقتوں نے یہاں بڑی کامیابی حاصل کی تھی، محض چار ماہ گزرنے کے بعد ہی نفرت آلود ماحول سے اکتا کر عوام کی آنکھوں سے وہ طلسمی چادر ہٹ چکی تھی، چنانچہ ترقی کے نام نہاد دعووں اور وعدوں کی زمینی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے ان انتخابات میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ کل تک جن نریندر مودی کی لہردوسری سیاسی پارٹیوں کی تمام کوششوں پر تفوق رکھتی تھی ، اس بار ان کے ہی پارلیمانی حلقے کی اسمبلی نشست روہنیاں ہو یا ہندتوا کی علمبردار بی جے پی لیڈر و مرکز میں وزیراوما بھارتی کے اسمبلی حلقہ چرکھاری، سبھی اہم مقامات پرمودی کا جادو غائب تھا اور بی جے پی کی امیدیں خاک ہوتی نظر آئیں۔ یوپی میں جن گیارہ اسمبلی نشستوں پر الیکشن ہوئے ان میں لکھنؤ (مشرق)، سہارانپور(شہر) اور نوئیڈا کی نشستیں ہی بی جے پی برقرار رکھ سکی ہے ، جبکہ مغربی یوپی کی ٹھاکر دوارا(مراد آباد) نشست،جہاں بھاجپا کے فائر برانڈلیڈر سنگیت سنگھ سوم نے ہندؤوں ومسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی،سمیت 8نشستیں سماج وادی پارٹی نے چھین لیں۔ اب ان نتائج پر بی جے پی کے لیڈران بھلے ہی یہ کہیں کہ ان انتخابات میں مودی کا رول بالکل بھی نہیں تھا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کا رول تو دلی یو نیورسٹی کے طلبائی انتخابات میں بھی نہیں تھا پھر وہاں فتح کے بعد کیوں مودی کی جیت قرار دیا گیا تھا؟
اتر پردیش میں مایاوتی کی زیر قیادت بہوجن سماج پارٹی نے ان ضمنی انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے پیچھے کچھ وجوہات کارفرما تھیں جن میں ایک تو یہ کہ عموماً بی ایس پی خود کو ضمنی الیکشن سے دور رکھتی ہے۔2007-12کے یوپی میں اپنے اقتدار کے دوران بھی بی ایس پی نے اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ اودوسرے بی ایس پی نے اپنا فوکس اگلے اسمبلی انتخابات کو بنا رکھا ہے جس کے متعلق پارٹی محسوس کرتی ہے کہ عام اسمبلی انتخابات وقت سے پہلے ہی ہو جانے کا امکان ہے۔رہی بات کانگریس کی تو وہ ابھی تک یوپی میں لوک سبھاانتخابات میں ملی شرمناک شکست سے ابھر نہیں پائی ہے لہٰذا اس نے ان انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے پارٹی کو مضبوط کرنے پر زور دیا ہے۔ اب اس تصویر میں صرف دو پارٹیاں رہ جاتی ہیں۔ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی۔ راست طور پر مقابلہ ان دونوں کے ہی درمیان تھا۔ اس تصویر میں بی جے پی نے لوک سبھا الیکشن میں وراثت میں ملے ہندواشراف اور پچھڑے و دلت طبقوں کو محفوظ مانتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کا رنگ بھرنے کی ایک بار پھر کوشش کی۔مقامی بی جے پی و RSS کے افراد نے لوگوں کے درمیان نفرت، غصہ ،مذہبی جذبات کی اشتعال انگیزی، تشدد وغیرہ کا سہارا لیا۔ ترقی، بے روزگاری، مہنگائی، قانون کی بحالی، بجلی کی قلت،سوکھے سے بیزار کسان یہ تمام مسائل صوبے اکھلیش سرکار کو گھیرنے کے لیے کافی تھے لیکن پھر بھی بی جے پی نے سماج کو تقسیم کرنے والے اشوز لو جہاد، مدارس، مدارس کا ایجوکیشن سسٹم، فسطائیت، تشدد، ہندو مسلم فسادات کو ہی اپنے ایجنڈے میں رکھا۔ سماج وادی پارٹی نے شدت پسندی ،نفرت اور رجعت پسندانہ نظریہ سے الگ ہٹ کر اپنی سرکار کے ترقیاتی منصوبے لوگو ں تک پہنچانے اور اقلیتی،پچھڑے اور دلت طبقات کو جوڑنے کے لیے کام کیا۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اور نتائج کے بعد اکھلیش یادو کے چہرے کی مسکراہٹ اور ان کے بیان کہ اچھے دن اور اچھے نتائج تو اب آئے ہیں اور مستقبل میں سماجوادی پارٹی اور سرکار کا ہدف متحد ہوکر عوام کے مفاد میں کام کرنا ہوگا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش مل کر صوبے میں امن کی بحالی کے لیے سخت اقدامات کریں گے۔
بی جے پی نے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے اتر پردیش میں ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی جی توڑ کوششیں کیں اور مودی حکومت کے پہلے 100دن مکمل ہوتے ہوتے تقریباً 350فرقہ وارانہ فسادات کر وائے گئے۔ لیکن اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ان انتخابات میں بی جے پی کا یہ داؤں اسی پر اُلٹا پڑ گیاہے۔ مغربی یوپی میں گزشتہ چار مہینوں میں 259فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے۔ ان مقامات میں 4اسمبلی نشستیں آتی ہیں جہاں مقابلہ سماجوادی پارٹی وبی جے پی میں برابر رہا اور دونوں پارٹیوں کو دو۔دو سیٹیں حاصل ہوئیں۔ ترائی کے علاقہ میں29فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے اور یہاں دو اسمبلی سیٹوں پر مقابلہ آرائی تھی لیکن یہاں سماجوادی پارٹی نے بی جے پی سے ددنوں سیٹیں چھین لیں اور بی جے پی کے لیے نتیجہ صفر رہا۔ وسطی علاقہ میں ضرور لکھنؤ مشرقی سیٹ بی جے پی نے برقرار رکھی ، جبکہ یہاں گزشتہ چار مہینوں میں 43فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بندیل کھنڈکا علاقہ ،جس میں فسادات کے6 واقعات ہوئے اور 2اسمبلی نشستوں پر مقابلہ تھا، جس میں اوما بھارتی کی سیٹ چرکھاری بھی شامل تھی۔یہاں سماجوادی پارٹی کی آندھی نے بی جے پی کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا اور دونوں سیٹوں پر اچھے ووٹ مارجن کے ساتھ کامیابی درج کی اوراوما بھارتی کی سیٹ چرکھاری پر تو بی جے پی اس انتخاب میں تیسرے پائیدان پر پہنچ گئی۔اسی طرح مشرقی یوپی میں 2سیٹوں پر مقابلہ تھا، جہاں 16فرقہ وارانہ فسادت بھی ہوئے ۔یہاں بھی بی جے پی کے نفرت انگیز عزائم کو عوام نے ٹھکانے لگاتے ہوئے ایس پی کو دونوں سیٹوں پر فتح سے ہمکنار کرایا۔ یوپی کے ان انتخابات میں کانگریس کے لیے خوشی کا لمحہ صرف یہ تھا کہ اوما بھارتی کی سیٹ چرکھاری پر اس نے بی جے پی امیدوار کو تیسری پوزیشن پر دھکیل کر دوسرے پائیدان پر قبضہ جمایا۔
پارلیمانی انتخاب میں دھماکہ خیز جیت کے بعد بی جے پی نے ہی نہیں بلکہ ملک کے بیشتر سیاسی مبصرین نے بھی اسے مودی کا کرشمہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ پورے ملک میں مودی کی لہرہے۔مودی کے برسراقتدارآنے کے بعد سے یہ تیسرے ضمنی انتخاب تھے لہٰذا اب تک مجموعی طور پر مختلف صوبوں میں50سے زائد اسمبلی سیٹوں کے لیے الیکشن ہو چکا ہے۔ جن میں سے 34سیٹیں بی جے پی کی شامل تھیں۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے 50میں سے 17سیٹیوں پر ہی فتح حاصل کی ہے، جن 13پرانی سیٹوں کو برقرا ررکھا ہے اور21پرانی سیٹوں کی قیمت پرمحض 4نئی سیٹیں اپنے حریفوں سے چھیننے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان 4میں بھی یوپی کی کوئی سیٹ نہیں ہے،جہاں پارٹی نے نام نہاد ’مودی میجک ‘کے سہارے لوک سبھا کی 80میں سے 69سیٹوں پراپنا پرچم لہرایا تھا۔ایک اور خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی نے 34پرانی سیٹوں میں سے 21سیٹیں گنوائی ہیں،جن میں اکیلے یوپی میں 7، گجرات میں3،بہار میں 4،راجستھان میں 3،اتراکھنڈ میں 2،مدھیہ پردیش میں1اور کرناٹک میں1سیٹ پر ناکامی کا بار برداشت کرنا پڑا ہے۔
بات اگر راجستھان کی جائے تو تقریباً دس مہینے قبل ہوئے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے جس طرح اقتدار پر قبضہ جمایا تھا اور پھر پارلیمانی الیکشن میں وزیر اعلیٰ وسندھراراجے نے مضبوطی سے سبھی 25 نشستوں پر بی جے پی کو فتح دلاکر کانگریس کا صفایا کیا تھا اسے دیکھتے ہوئے ان 4اسمبلی سیٹوں پر ہوئے انتخاب کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان میں سے ایک بھی سیٹ کانگریس کے ہاتھ لگ پائے گی۔
لیکن کانگریس کے صوبائی صدر نوجوان لیڈر سچن پائلٹ نے اپنی متحرک قیادت کے ذریعہ ان سبھی نشستوں پر اپنی سرگرمی سے عوام کے درمیان پکڑ بنائی اور سب سے خاص بات کہ انہوں نے اپنی زیر قیادت صوبے کے سبھی بڑے کانگریسی لیڈران کو جمع کیا اور متحد ہوکر اس الیکشن میں حصہ لیا۔ عوام کے درمیان رہے ، ان سے رابطہ رہا اور ان کے مسائل کے حل کا یقین دلایا، جس کا نتیجہ دیکھ کر سیاسی مبصرین دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور ہو گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں بی جے پی کے لیڈران نے طاقت نہیں جھونکی یا مودی اور وسندھرا کا جادو نہیں تھا۔ وسندھرا نے اپنے سبھی وزیروں اور علاقے کے پارلیمانی ممبران کو لگا رکھا تھا لیکن اصل مسئلہ وہی ہے کہ جن خوابوں کو بیچ کر صوبے اور پھر مرکز میں اقتدار میں آئے تو عوام سے کیے وعدوں کو بھلا بیٹھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ گزشتہ کانگریس حکومت کی جانب سے عوامی مفاد میں چلائی گئی اسکیموں کو بھی بند کر دیا۔ان تمام مسائل کو کانگریس نے بہت اچھے طریقے سے عوام کے در میان رکھا اور نتیجتاًنصیر آباد، وئراور سورج گڑھ سیٹیں کانگریس نے بی جے پی سے چھین لیں اور بی جے پی صرف کوٹا ساؤتھ کی ہی سیٹ بچا سکی۔
گجرات کے انتخابی نتائج بھلے ہی بی جے پی کو تھوڑا تسکین پہنچانے والے ہو سکتے ہیں لیکن گہرائی سے دیکھیں تو حالات یہاں بھی ابتر نظر آتے ہیں۔ نریندر مودی کے گجرات چھوڑنے کے بعد وزیر اعلیٰ بنی آنندی بین پٹیل کی یہ پہلی بڑی آزمائش تھی، جس میں ان کو 9اسمبلی حلقوں کو دوبارہ بی جے پی کے پالے میں کرنے کا چیلنج تھا۔ لیکن اپنے پہلے ہی امتحان میںآنندی بین ناکام رہیں۔ 9میں سے 6سیٹیں ضرور بی جے پی کے پالے میں آئی ہیں لیکن ان میں سے 3مضبوط قلعے بی جے پی نے گنوائے ہیں۔ یا یو ں کہیں کہ نریندر مودی کے جانے کے بعد امیدبھری نگاہوں سے دیکھ رہی کانگریس کے لیے اچھے دنوں کی شروعات اب ہوئی ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کے مضبوط قلعہ مانگرول، دیسا اور کھمبالییہ سیٹیں ہی کانگریس نے نہیں جیتیں بلکہ تلاجہ سیٹ کو چھوڑکر ہر سیٹ پر اس کے ووٹ فیصد کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور بی جے پی کو نقصان۔ گجرات کی وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پہلے گجرات دورے پر جانے والے نریندر مودی کے لیے کہا تھا کہ وہ انہیں سبھی 9سیٹیں جیت کر جنم دن کا تحفہ دیں گی لیکن افسوس کہ ان کا یہ خواب حسرت ہی رہ گیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا بی جے پی ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے کچھ سبق لے گی؟ اگر یوگی آدتیہ ناتھ کے درج بالا بیان کو مد نظر رکھا جائے تو وہ اپنی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ منافرت والے ایجنڈے پر قائم رہے گی۔ لیکن بی جے پی اور اس کے لیڈران کو یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ نفرت کے سوداگروں اور گھروں اور زندگیوں کو آگ کے حوالے کرنے والوں سے عوام اب تنگ آ چکی ہے۔ یہ 21ویں صدی ہے اور ہر شخص ترقی، ہر نوجوان روزگار، ہر لڑکی اپنی عصمت کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جز وقتی طور پر بھلے ہی ان کورنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر ٹھگا جا سکتا ہے لیکن ہر بار نہیں ۔ یہ انتخابی نتائج اس بات کی واضح دلیل ہیں۔

طیب احمد بیگ،
معاون مدیر ماہنامہ چھاتر ومرش

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں