سعود الاعظمی، الجامعہ الاسلامیہ شانتا پرم
عہد حاضر (۲۰؍ ویں اور ۲۱؍ ویں صدی) کے امتیاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس دور میں حقوقِ نسواں اور آزادئ نسواں کے خوشنما نعرے بہت ہی بلند آہنگی کے ساتھ گونجنے لگے۔ سترہویں صدی کے صنعتی انقلاب نے تاریخ کے جن ابواب پرگہرے اثرات مرتب کئے، اس میں سے ایک اہم باب آزادئ نسواں کا بھی تھا۔آزادئ نسواں کی یہ بلند آہنگ صدا جو یورپ سے اٹھی تھی دیکھتے ہی دیکھتے چہار دانگ عالم میں گونجنے لگی۔ برسوں سے نام نہاد مذہبیت کے آہنی پنجوں میں جکڑی بنت حوّا نے جو ایک زمانے سے روایتی سماج کی مظلومیت کا شکار تھی، اس نے اس صداپر بلا چوں چراں لبیک کہا۔ صنف نازک جو ایک عرصے سے سماجی اور مذہبی رسم و رواج کی بندشوں میں قید آدم زادوں کی غلام بنی بیٹھی تھی یکایک میدانِ عمل میں نکل پڑی، اور زندگی کے تمام شعبوں میں مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کے لیے جدوجہد کرنے لگی۔ مختلف میدانِ کار میں اس کی شراکت یا موجودگی میں اضافہ ہونے لگا۔
آزادئ نسواں کی یہ صدا جو خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا مطالبہ کرتی ہوئی ا ٹھی تھی، آگے چل کر ۱۹؍ ویں اور ۲۰؍ ویں صدی میں ایک نظریہ اور تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ اس صدا کو ایک تحریک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے مقصد سے مختلف محاذوں پر عالمگیر کوششیں کی گئیں۔ اس کے لئے ادب اور آرٹ کو سب سے بنیادی ہتھیارکے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ نیو یارک اور بیجنگ میں تاریخی کانفرنسوں کے بعد اب لندن میں آئندہ ۳؍ اور ۴؍ دسمبر ۲۰۱۳ ء کو Trust In Women کے نام سے ایک عظیم الشان کانفرنس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ آزادئ نسواں کی یہ تحریک جس کا آغاز ایک انتہا (حددرجہ روایتی سماج) کے رد عمل میں ہوا تھا، اب دوسری انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ فیمنسٹ تحریک مردوں کی دشمنی پر مبنی ایک مستقل تحریک بن گئی ہے۔
عہد حاضر کی ایک حقیقت تو یہ ہے، دوسری طرف یہ بھی المیہ ہے کہ آزادئ نسواں کے اسی دور میں خواتین کا سب سے زیادہ استحصال بھی ہوا ہے۔ آزادئ نسواں کے تمام نعرے حقیقت میں استحصالی اور استحصالِ نسواں کے پیش خیمے ثابت ہوئے۔ صنعتی انقلاب کے بعد میدانِ معیشت میں لبرلزم سب سے بڑی تھیوری کے طور پر سامنے آیا۔ چونکہ ’’مارکیٹ اکونومی‘‘ اس تھیوری کی اصل بنیاد ہے اس لئے تجارت کو چمکانے کے لئے سرمایہ داروں نے صنف نازک کا ’ استعمال‘ کیا۔ شیونگ کریم سے لے کر شاندار کاروں تک کی فروخت کے لئے خواتین کا استعمال ہوا۔ یہ کام اتنی مہارت کے ساتھ انجام دیا گیا کہ خواتین نے آزادی اور حقوق کی خوبصورت بوتل میں موجود زہر ہلاہل کو اپنے لئے آب حیات تصور کرلیا، اور آج نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں نے انہیں جنس بازار بنا کر رکھ دیاہے۔
صنف نازک پر بڑھتے ظلم اور استحصال کی ابتدا عہد حاضر کے اسی تضاد سے ہوتی ہے۔ یہ تضاد بڑے پیمانے پر گفتگو اور مباحثے کی دعوت دیتاہے۔
حالیہ دنوں میں خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم کے کئی ایسے واقعات سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے اس معاملے کی حساسیت میں اضافہ کرتے ہوئے اس پر غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس موضوع پر علمی و تحقیقی کام کا بھی آغاز ہوگیاہے۔
خواتین کے استحصال پر دنیا بھر کے لوگ ماتم کناں ہیں۔ تاہم خواتین پر استحصال کی محض داستان سرائی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے حقیقی اسباب اور چیلنجز پر بھی غور کرنا ہوگا۔ محض حالیہ چند واقعات کی روشنی میں کوئی تجزیہ ادھورا ہوگا:
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
صنف نازک پر بڑھتی زیادتیوںکے اسباب
n فیمنسٹ (femenist) تحریکوں کا رد عمل:
عہد حاضر میں خواتین پر ظلم کی جو دردانگیز داستانیں سامنے آرہی ہیں اور ان کے استحصال کی جو نئی نئی ترکیبیں سامنے آرہی ہیں، ان کے پیچھے بنیادی وجہ مرد و خواتین کا آپسی ٹکراؤ ہے۔ یہ آپسی ٹکراؤ فیمنسٹ تحریکو ں کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ یہ تحریک انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ آج فیمنسٹ تحریکیں اپنی انتہا پر ہیں اور یہ تحریکیں ذہین و تعلیم یافتہ خواتین پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔اس صورتحال نے نئی نسلوں کو ذہنی تناؤ اور پاگل پن میں مبتلا کر دیا ہے۔ آرٹ اور ادب کے میدان میں ایسی ذہین،شاطر اور تخلیقی شخصیات پیدا ہو گئی ہیں جو اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اس پاگل پن کو ہوا دے رہی ہیں۔ ان کے لٹریچر میں خواتین کو سماج کے ایک مظلوم حصے کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ خواتین اس لٹریچر کا مطالعہ کر کے مرد کو اپنا دشمن تصور کر رہی ہیں۔چنانچہ فیمنزم کی علم برداری اور اس کی توسیع میں تسلیمہ نسرین کا نام محض ایک مصنفہ کے بجائے، ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ فیمنزم کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور میں یہ Post Tasleema Eraمیں داخل ہو چکا ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں Gender Warاور Jender Jihad جیسے خطرناک سلوگن قلب و ذہن کو متأثر کر رہے ہیں۔فیمنسٹوں کی طرف سے زہر میں بجھی انتہائی تیز و تند تحریریں سامنے آرہی ہیں ،جس کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں عورتوں کے خلاف شدید رد عمل ہم دیکھتے ہیں۔ بڑی کالونیوں اور اعلی سطح کے رکھ رکھاؤ والے خاندانوں میں گھر کے اندر کا ماحول جنگ و جدال کا اکھاڑہ بنتا جارہا ہے۔ سماج میں ان کی دلفریب مسکراہٹوں اور مصنوعی ٹھہاکوں کے سبب اندر کا حال صحیح طور سے سامنے نہیں آتا لیکن جب پولیس کے ذریعے خود کشی اور قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں تو اندر کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ فلم اور ماڈلنگ کی دنیا کی صورتحال اور بھی خطرناک ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کی فیملی لائف بارود کے ڈھیر پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
عورتوں کے سلسلے میں قدیم روایتی ذہنیت
عورتوں پر ظلم و استحصال کا ایک اہم سبب قدیم روایتی ذہنیت، یک رخی اور عورتوں کے سلسلے میں محدود سوچ بھی ہے۔ مختلف مذاہب کے قدیم لٹریچر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے یہاں خواتین کو ان کا صحیح اور جائز مقام بھی نہیں دیا گیا۔ کسی مذہب میں اگر یہ مقام و مرتبہ حاصل بھی ہے تو عملی زندگی اس کی تکذیب کرتی نظر آتی ہے۔کئی مذاہب اور فلسفوں نے عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق اور مردوں کی ’غلام‘قرار دینے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کی۔یہ یک رخی سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ صنف نازک کو ام الخبائث اور تمام برائیوں کی جڑ قرار دے کر اس کے وجود کو قابل نفرت قرار دیا گیا۔ صاف صاف کہا جائے تو خواتین کو سماج پر بوجھ تصور کر لیا گیا۔ یہ تصور انسانی تاریخ کے زمانہ جاہلیت میں بھی موجودتھا اور آج بھی موجود ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اگر بچی کی پیدائش پر اسے زندہ پیوند خاک کر دیا جاتا تھا تو آج بھی اسقاط حمل اور اس سے متعلق مختلف ذرائع کے ذریعہ ہونے والے قتل اور انسانی جانوں کے خون کی تعداد سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے! ستی کی رسم کو ختم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے ۔اس کے اثرات آج بھی قتل ناموس (آنر کلنگ) کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔خواتین کے استحصال کی اس سے زیادہ لرزہ خیز اور کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس گھناؤنی رسم کو بھی اپنے زمانہ عروج میں مذہبی جواز حاصل تھا۔ اس جواز کاہی نتیجہ تھا کہ شوہر کے انتقال کر جانے کے بعد بیوی نام نہاد مذہبیت کی بھینٹ چڑھا دی جاتی تھیں۔
ہندو مذہب میں اگر چہ دیویوں کی پوجا پاٹ کی جاتی ہے اور اس مناسبت سے دیویوں کو یک گونہ تقدس بھی حاصل ہے۔ ہندوازم کے روایتی مذہبی رہنماؤں نے مذہبی احکامات اور رسوم کی جو تشریحات کی ہیں اس میں عورت کی تذلیل ہے۔ عورت کی تذلیل کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اسے محض ’بھوگ ولاس ‘ کی چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ روایتی پنڈتوں نے خواتین کے سلسلے میں ایسے گھناؤنے تصورات پیش کئے ہیں کہ خود جدید ہندو اسکالرس کی ایک فوج نہ صرف یہ کہ ان تشریحات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ اس پر ازسرنو غوروفکر کا کام کر رہی ہے۔
یہ تورہی ہندو سماج کی صورتحال ۔ مسلم سماج کی پوزیشن بھی اس سے بہت مختلف نہیں ہے۔اسلام نے خواتین کے لئے جو احکامات صادر کئے ہیں اور اسے جو متوازن مقام و مرتبہ عطاکیا ہے،مسلم سماج میں اس کی عملی تعبیر و تطبیق خال خال ہی نظرآتی ہے۔ بلکہ اس سے آ گے بڑھ کر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ صنف نازک کے استحصال کے حوالے سے مسلم سماج دیگر سماج سے کسی بھی درجے میں مختلف نہیں ہے! ہمارے یہاں بعض انتہائی معروف و مشہور علماء کرام مردوں کی قوامیت کی عجیب و غریب تشریح کرتے ہیں۔ مرد کی قوامیت کے ذیل میں عورت کو مردوں کی غلام اور ایک گھریلو خادمہ ثابت کر چھوڑنے میں پورے طلاقت لسانی اور علمی ورزش سے کام لیتے ہیں۔ شوہروں کے حقوق کے بیان میں ایسی مبالغہ آرائی کامظاہرہ کرتے ہیں گویا خالق کائنات نے خواتین کو مردوں کی غلامی ہی کے لئے وجود بخشا ہے۔ مذہبی لبادہ اوڑھے ان علمائے کرام کی تشریحات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ملت کی سادہ لوح خواتین نے آٹے گوندھنے ،گھروں کی صفائی کرنے اور مردوں کے احکام کی بجا آوری کو عین مذہبی فریضے کے طور پر قبول کر لیا۔خواتین کی یہ مذہبی خوش عقیدگی بھی اس کی ذمہ دار ہے کہ دین پر ملمع کاری کرکے جو باتیں بھی ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں،قطع نظر اس سے کہ آیا وہ فی اصلہ مذہب کی تعلیمات میں شامل ہیں بھی یا نہیں ،اس پر فوراً سمعنا و اطعنا کے رویے کا اظہار کرتی ہیں۔
ہمارے سماج میں ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جن میں مردوں کے ذریعے خواتین پر ظلم و جبر کو مذہبی جواز فراہم کر نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلم سماج میں عورتوں کے استحصال پر گفتگو کرتے ہوئے طلاق کی دن بدن بڑھتی ہوئی شرح سے صرف نظر کر جا نا بد دیانتی ہوگا۔طلاق کے قرآنی منہج اورطریقے کو بالائے طاق رکھ کر جس شانِ بے نیازی سے بندوق کی گولیوں کی طرح کلمات طلاق ادا کئے جاتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کے انتہائی اہم اورلطیف رشتوں کو کھیل بنا دیا گیا ہے۔ طلاق کی حیثیت مردانہ ہتھیار کی ہو گئی ہے جسے خواتین کے خلاف انتہائی ظالمانہ اور مضحکہ خیز انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طلاق سے متعلق قرآنی آیات کا اگر خاندان کے ارتقاء اور سماج کی تعمیر کے پس منظر میں مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے ۔اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ زوجین کے درمیان موافقت اور رفاقت کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے۔ انتہائی ناگزیر حالات میں ہی طلاق دینے کے حق کو استعمال کیا جائے۔طلاق سے بچانے کے سارے قرآنی احکامات اسی وجہ سے ہیں کہ اگر طلاق کو کھیل بنا دیا گیا تو مرد کے لیے خواتین کے استحصال کے دروازے وا ہو جائیں گے۔
اس پس منظر میں ضروری ہے کہ ہم طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا جائزہ لیں۔طلاق کے واقعات کے حوالے سے سماجی اورفیمنسٹ ایکٹیوسٹ انتہائی جارحانہ تیور میں اپنے غصے اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔لہذ ا طلاق کے قرآنی منہج اور طریقے کے سلسلے میں مسلم سماج کے علماء اور عوام دونوں میں بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔تا کہ مسئلے کا بخوبی حل نکل سکے۔
صنف نازک پر بڑھتی زیادتیاں اور ان کے اسباب
مسئلے کا حل اس کے اسباب کی روشنی میں ہی ہو گا۔استحصال خواتین اور صنف نازک پر زیادتیوں کے حل کے سلسلے میںیہ وضاحت ضروری ہے کہ مسئلے کے فوری حل کے ساتھ ساتھ اس کا مستقل اور دائمی حل بھی تلاش کیا جائے۔ ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ عام طور پر چند مخصوص واقعات کو لے کر جذبات کی ایسی رو میں بہنے لگتے ہیں کہ آناً فاناً مجرم کے لئے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کر نے لگتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ چشم زدن میں مسئلہ حل ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو جائیں ۔ مسئلے کے وقتی حل بسا اوقات مسئلے کو اور شدید بنا دیتے ہیں۔
مثال کے طورپر گزشتہ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۲ ء کو دہلی میں میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کے واقعے کو لے لیجئے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ واقعہ بہت ہی انہونا واقعہ تھا۔ لیکن اجتماعی یا عوامی ضمیرکے نام پر اس طرح شور و غل مچایا گیا جیسے عصمت دری کا یہ واقعہ انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔حالانکہ مختلف سروے رپورٹ یہ بتاتی ہیں کہ وطن عزیز میں ہر منٹ میں ایک سے زیادہ خواتین کے استحصال کے واقعات رونما ہو تے ہیں ۔دہلی کے اس واقعے کو لے کر بھی عوامی یا اجتماعی ضمیر کے حوالے سے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا گیا،اور عدالت نے اسے قبول کرتے ہوئے مجرمین کو پھانسی کی سزا تجویز بھی کر دی۔ مسلم اور اسلام پسند دانشوروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس ’سنہرے موقع ‘سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنا کے سلسلے میں اسلام کے قانون ’رجم‘ کو مذہبی فریضہ سمجھ کر پورے جوش و خروش سے پیش کیا۔حالانکہ اسلام صالحیت پر مبنی ایک اجتماعی ماحول کی عدم موجودگی میں رجم یا کسی سخت سزا کا ہر گز قائل نہیں ہے۔
اس سزا پر عمل درآمد کر نے سے پہلے اسلام نے انسان کو جرم تک پہنچانے والی تمام راہوں کو مسدود کیاہے۔ جرائم کی سخت سزائیں مقرر کرنے کے بعد جرم پر ابھارنے والے تمام عوامل پر بھی قدغن لگادی گئی۔ پھر ریاست کے سپرد یہ ذمہ داری بھی کی گئی کہ وہ شہریوں کی ایسے خطوط پر ذہن سازی کا نظم کرے کہ فرد خودانفرادی سطح پر نیکی کو پسند کرنے والا اور بدی سے نفرت کرنے والا بنے۔ ان انتظامات کے بعد بھی اگر کوئی شخص کسی جرم کا مرتکب ہو تا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس میں اجتماعی ماحول کی نہیں بلکہ خود اس فرد کی غلطی ہے جس نے ارتکابِ جرم کیا ہے۔لہذا اب بلا کسی تردد کے وہ سزا کا مستحق ہے۔
یہ ہے مختصراً اسلام کا فلسفہ جرم و سزا، اب اس فلسفے کی روشنی میں موجودہ سماج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ سماج کی صورتحال یہ ہے کہ اس میں برائیوں کو فیشن کے نام پر پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ادب اور آرٹ کے ذریعے سے نہ صرف یہ کہ ارتکا ب جرم کی دعوت دی جا رہی ہے بلکہ بالواسطہ طور پر یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جرم کیسے کریں اور جرم کرنے کے بعد قانون اور پولیس کی گرفت سے بچنے کی تدابیر کیا ہیں۔sony ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا سیریل C.I.D. اس دعوے کی صاف اور کھلی دلیل ہے۔حکومت اور سنسر بورڈ کی سربراہی اور سرپرستی میں پوپ کلچر کے اسٹیج پر بے شرمی اور فحا شی کا ننگا ناچ ناچا جا رہا ہے۔ٹی وی پروگرام ’سچ کا سامنا ‘اس کی واضح مثال ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ موجودہ سماج میں انسان کو ہر قدم پر ارتکاب جرم کے اسباب فراہم کئے جا رہے ہیں۔ایسے سماج میں اگر کوئی شخص اجتماعی ماحول کی دعوت سے متأثر ہو کر کوئی جرم کر بیٹھے تو اس میں فرد کی غلطی کم اور اجتماعی ماحول کی غلطی زیادہ ہے۔اس حقیقت کے باوجود اگر اس مجرم کے لئے ریاستی سزا کا مطالبہ کیا جائے تو یہ بذات خود انسانیت کا استحصال ہے۔ سماجی و فکری اصلاح کے بغیراس قسم کی سزاؤں کا مطالبہ انتہائی خطرناک ہے۔کیوں کہ اس طرح مسئلے کا’شاٹ کٹ ‘حل ’گلا کٹ‘ حل بن جاتا ہے۔ اسلام پسند دانشوروں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے قال اﷲ اور قال الرسول کی گردان پڑھنے کے بجائے اسلام کے مزاج سے واقفیت حاصل کریں اور زمان ومکان کے حقائق کو سامنے رکھ کر اسلام کی ترجمانی کریں تاکہ اسلام کی صحیح تعلیمات اپنے حقیقی تناظر میں دنیا کے سامنے آسکیں۔
صنف نازک پر بڑھتی زیادتیاں اور اس کا مستقل حل :
فیمنسٹ تحریکوں کا علمی و فکری محاکمہ
گزشتہ سطروں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ صنف نازک پر ظلم اور ان کے استحصال کے پس پردہ ایک بنیادی سبب فیمنسٹ تحریکات کا رد عمل ہے۔لہذا مسئلے کے حل کی تلاش بھی یہیں سے شروع ہونی چاہیے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ علمی محاذ پر دانشورانہ انداز میں ان انتہائی متشدد تحریکوں اور شخصیتوں سے لوہا لینے کی تیاری شروع کی جائے۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ فیمنزم کی علمی اور اکیڈمک باتوں کا جواب بغیر کسی غور و فکر کے سطحی اور سپاٹ انداز میں دیا جاتا ہے یا ان سے جان بچا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تسلیمہ نسرین کانام آتے ہی مغلظات کے قصیدے پڑھنے والوں کا اک جم غفیر موجود سامنے آجاتا ہے۔لیکن اگر آپ اس مقصد سے اپنی نظریں دوڑائیں کے کتنے لوگوں نے تسلیمہ نسرین کی باتوں کو علمی چیلینج کے طور پر قبول کیا ہے اور علمی محاذ پر اس کا جواب دیا ہے،تو آپ کی نظریں دنیا کا سفرکرتی ہوئی مایوس ہوکردوبارہ آپ تک لوٹ آئیں گی۔
اس کے تحت ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔وہ یہ ہے کہ فیمنسٹ تحریکات سے لوہا لینے کے لئے ہماری تعلیم یافتہ خواتین محاذ سنبھالیں۔ ورنہ دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر مرد حضرات فیمنزم کے خلاف لب کشائی کی جسارت کرتے ہیں تو رد عمل کے طور اسے مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔اس میدان میں خواتین کا محاذ سنبھالنا اشد ضروری ہے۔لہذا اس بات کی کوشش ہونی چاہئے کہ خواتین علمی و فکری تیاری کے ساتھ فیمنسٹ افکار کا علمی و فکری محاکمہ کریں۔
2 مذہبی یک رخی اور محدود سوچ کا انکاؤنٹر :
صنف نازک پر بڑھتی زیادتیوں اور اس کے استحصال پر قابو پانے کے لئے ایک بنیادی ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سماج میں عورتوں کے تئیں مردوں کی محدود سوچ کا انکاؤنٹر کیا جائے۔ خالص علمی و تحقیقی طریقے سے سماج میں عورتوں کو صحیح مقام پر فائز کیا جائے۔ تا کہ فی الواقع خواتین کو ان کا صحیح مقام اور مرتبہ حاصل ہو سکے۔
مرد کی قوامیت
بلاشبہ مرد کو خواتین پر یک گونہ برتری حاصل ہے لیکن یہ صرف اور صرف ایک فیملی کے اندر بہترین نظم وضبط کو قائم رکھنے اور چلانے کے لئے ہے۔قوامیت کا یہ مفہوم بیان کرناکہ مرد کو عورت پر ظلم واستحصال کا حق حاصل ہے، سراسر تنگ نظری اور کم علمی کی دلیل ہے۔
اسی طرح یہ تصور بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہے کہ مرد اور عورت کے میدان ہائے کا ر مکمل طور سے مختلف ہیں۔عورت کو گھر کی چاکری کرنی ہے اور مرد گھر کے باہر دنیا کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے۔ عورت کو گھر کی چہار دیواری میں قید کر دینے سے سماج کا بلکہ خود اسلام کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ انسانیت کی نصف آبادی،اس کی صلاحیتیں اور اس کا وقت گھر کے چولہوں میں جھونک دیا جائے اس سے بڑھ کر نقصان کی اور کیا بات ہو سکتی ہے؟ حالیہ دنوں میں کئی اسلامی اسکالرس نے اس موضوع پر تحقیقی کام کیا ہے اور مصادر شریعت سے مأخوذ دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ خواتین کو گھر کی چہار دیواری میں محصور کر کے رکھنا کوئی اسلامی نظریہ نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔
یہ موضوع بھی پوری قوت کے ساتھ اٹھانے کا ہے کہ صنف نازک محض ’بھوگ ولاس ‘کی چیز نہیں ہے۔بلکہ انسانی بنیادوں پر وہ بھی ٹھیک اسی طرح ایک انسان ہے جس طرح ایک مرد انسان ہے۔ جو انسانی آزادیاں اور حقوق مرد کو حاصل ہیں صنف نازک بھی اس کا استحقاق رکھتی ہے۔خواتین کو محض ایک سامان تسکین اور جنسی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ باور کرنا تاریخی غلطی ہے۔
2جنسی خواہشات کی تکمیل کا صحیح ماڈل :
خواتین پر جنسی زیادتیا ں آج ہرسوعام ہیں ۔آئے دن صنف نازک کی عصمت تار تار کی جارہی ہے۔ حد یہ ہے کہ کمسن بچیاں بھی جنسی ہوس کا شکار ہورہی ہیں۔
اس کے پیچھے بھی تاریخی اور کلچرل اسباب ہیں۔اس بات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ موجودہ سماج ایک ایسی راہ پر گامزن ہوچکا ہے جس میں ہر قدم پر جنسی جذبات کو بھڑکانے کا سامان فراہم ہے۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی آپ کاسامنا نیم عریاں لباس میں ملبوس عورتوں کے پوسٹرس، تصاویر اور بینرس سے ہوتا ہے۔کسی کتاب فروشکے یہاں چلے جائیں تو فحاشی کو فروغ دینے والی میگزینس بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔آپ سماج سے کنارہ کش ہو کر تنہائی اختیار کر لیں اور ٹی وی یا انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ جائیں تو وہاں بھی کلچرل آلائشیں آپ کی منتظر ہیں۔’فیس بک‘ کھولیں یا کسی تعلیمی مقصد کے لئے انٹرنیٹ آن کریں تووہاں بھی اسکرین کے کناروں پر عریاں تصویریں آپ کا استقبال کر رہی ہیں۔
اس پورے ماحول نے انسان، بالخصوص نوجوان نسل میں جنسی ہیجان اور جنون کی کیفیت طاری کر دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ غیر فطری اور غیر قانونی طریقے سے اس جنون کی تسکین کرتے ہیں۔
جنسی خواہشات کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔اسے نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اسے ختم کرنا مطلوب ہے، ورنہ نسل انسانی کی افزائش اور اس کی بقا خطرات کا شکار ہوجائے گی۔ البتہ جب یہ خواہش سر پر سوار ہو جائے اور جنون کی کیفیت طاری ہوجائے تو اسے انسانی نہیں بلکہ حیوانی صفت میں شمار کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فطری خواہش کو صحیح رخ دیا جائے اور اسے اس طرح تکمیل تک پہنچانے کا راستہ فراہم کیا جائے کہ لوگ فطری طریقے سے اور قانو ن کے حدود میں رہتے ہوئے اسے پورا کر سکیں۔اس سلسلے میں نکا ح کا ما ڈل بہترین متبادل ہے۔نکاح کی شکل میں اسلام نے انسان کو ایک ایسا ’آپشن‘ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنی فطرت کے حدود سے تجاوز کئے بغیر تکمیل خواہش کر سکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں نکاح کو بھی بے بنیاد رسم و رواج کی بھر مار نے اتنا مشکل اور اتنا بڑا واقعہ بنا دیا ہے کہ اب نکاح کے مقابلے میں زنا زیادہ آسان نظر آتا ہے۔نبیؐ کے زریں دور میں نکاح اتنا آسان تھا کہ زنا کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ما بعد جدیددور میں فیملی سسٹم کی بنیادوں پر بھی تیشہ چلایا جا رہا ہے۔نکاح اور طے کردہ شادی کو دقیا نوسیت کی علامت گردانا جا رہا ہے۔اس پر بھی تنقیدی نظر کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آرٹ اینڈ کلچر کا مقابلہ آرٹ اینڈکلچر سے
صنف نازک پر بڑھتی زیا دتیوں اور ان کے استحصال کے پیچھے معاصر آرٹ اینڈ کلچر کا بھی بڑا رول ہے۔جدید آرٹ اینڈ کلچر نے فحاشی اور عریانیت کو جدیدیت کے لازمی تقاضے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ادب کے محاذ پر چاہے ناولوں اور فکشنس کی بھر مار ہو، یاآرٹ کے میدان میں ٹی وی سیریلس اور مین اسٹریم فلمیں ہوں سب کا استعمال فیمنزم کے مقاصد کی خدمت کے لئے بحسن و خوبی کیا ہے۔ عہد حاضر کی 3G آبادی آرٹ اینڈ کلچر کے فارمیٹ میں پیش کئے گئے افکار کا اثر انتہائی تیزی اور غیر محسوس طریقے سے قبول کرتی ہے۔
فیمنزم کے غیر انسانی اور غیر فطری افکار کا مقابلہ کر نے کے لئے سپاٹ واعظانہ اور ناصحانہ انداز پر اکتفا صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی ذہانت اور تخلیقیت کا عمل دخل نہ ہو تو فیمنسٹ تحریک کے سیلاب کے سامنے ہم ٹھہر ہی نہیں سکتے ۔اس سیلاب کو روکنے اور قابو میں کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں پر قائم خوبصور ت بندھ کی ضرورت ہے، اور یہ بندھ اسی وقت تعمیر ہو گا جب ہم آرٹ اینڈ کلچر کے میدان میں کود پڑیں۔ آرٹ اینڈ کلچر کے ذریعے پروان چڑھائے گئے غلط افکار کا آرٹ اینڈ کلچر کی زبان میں ترکی بہ ترکی جواب دینا ہوگا۔ اور اس ذیل میں ایک دانشور کا یہ قول مفید ثابت ہو گا کہ ’ہمارے تخلیقی مظاہروں میں فکر کی دھار بھی ہو اور آرٹ کی نزاکت بھی‘۔ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کو بھی غیر ضروری سمجھ کر کے ترک کردیا گیا توان سرگرمیوں سے مطلوب و مقصود نتائج کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔
مسلم سماج کی ذمہ داریاں
صنف نازک پر زیادتیوں اور اس پو ہونے والے استحصال پر قابو پانے کے لئے مسلم سماج کو بڑی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا ہے۔ اسے غیر مسلم سماج کے سامنے ایک ایسا ماڈل پیش کرنا ہے جس میں عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ حاصل ہو ، وہ تمام انسانی آزادیوں سے لطف اندوز ہوتی ہو،اس کے حقوق ادا کئے جا رہے ہوں اور و ہ گھر کی بنیادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک متحرک اور فعال سماجی کردار بھی ادا کر رہی ہو۔خواتین کے حقوق اور آزادی کے سلسلے میں ملت اسلامیہ کے دامن پر جو داغ لگ چکا ہے، اسے اس اندازسے صاف کرنا ہوگا۔
ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر خوف خدا اور احساس جوابدہی پیدا کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔لاکھ اقدامات کر لئے جائیں لیکن جب تک ایک فرد کے اندر احساس جوابدہی پیدا نہ ہو جائے ممکن نہیں کہ وہ آلا ئشوں کی پگڈنڈی پر رواں دواں زندگی کی گاڑی کو صا لحیت اور انصاف کی شاہراہ عظیم تک لاسکے۔