نومنتخب صدر طلبہ یونین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی برادر عبداللہ عزام سے گزشتہ دنوں رفیق منزل کے لیے برادر عبدالقوی عادل نے ایک تفصیلی ملاقات کی، جس کے کچھ اہم گوشے افادۂ عام کے لیے نذرقارئین ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادارہ
سب سے پہلے میں رفیق منزل گروپ آف پبلی کیشنز کی جانب سے صدر طلبہ یونین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
شکریہ، جزاکم اللہ۔۔۔ آپ تمام ہی ساتھیوں سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ رب العزت مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ ونوجوانوں کی ان امیدوں پر پورا اترنے کی توفیق عنایت فرمائے، جو انہوں نے مجھ سے وابستہ کر رکھی ہیں۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنے پورے الیکشن میں طلبائی سیاست میں تبدیلی کی بات کہی ہے، موجودہ اور سابقہ طلبہ یونین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سیا ست میں آپ کیا فرق کرتے ہیں؟
اس سے پہلے علی گڑھ میں جو طلبائی سیاست ہوتی تھی وہ علاقائیت کی بنیاد پر ہوتی تھی اوربیشتر مواقع پر غیر اسٹوڈنٹ یہاں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرتا تھا ،اور ساتھ ہی ساتھ ایجنڈا فری ہوتی تھی، کوئی اصول نہیں ہوتے تھے ۔اس بار ہم نے جو کوشش کی ہے اور اس پر میں اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے اس میں کامیابی دی کہ اصولوں کی سیاست کا نعرہ بلند کیا گیا،علاقائیت کو نیست و نابود کرنے کا ارادہ کیا، اور تمام علاقائی رموزواشارا ت سے آزاد ہوکر ا س بار سیاست میں حصہ لیااور اللہ نے ہمیں کامیابی عطا کی ،اس بار جنرل اسٹوڈنٹس کو للکارا گیا، کوشش کی گئی کہ پڑھنے لکھنے والا طبقہ آگے آئے، نہ کہ غیر اسٹوڈنٹس یا وہ لوگ جو علاقائیت کو چلاتے ہیں یا علاقہ پروری کو ہوا دیتے ہیں ،لہٰذا جنرل اسٹوڈنٹس کو للکارا گیا اور ان کے آگے آنے کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی اور صحیح بات یہ ہے کہ اصولوں کی جیت ہوئی ۔
ایک اسٹوڈنٹس لیڈر ہو نے کی حیثیت سے آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹس طبقہ کے لیئے کیا وژن رکھتے ہیں؟
سب سے اہم اور قابل ذکر چیز یہ ہے کہ ہم اے ایم یو میں طلبہ کے درمیان ایجنڈا فراہم کرنا چاہتے ہیں، ان کو اشوز دینا چاہتے ہیں اور کیمپس کو قومی اور بین الاقوامی اشوز پر حساس بنانا چاہتے ہیں ،بہت سارے اشوز ایسے ہیں جس پر ہمارا کیمپس حساس نہیں ہے، بہت سارے اشوز ایسے ہیں جن پر یہاں سے کسی جواب کی امید کی جاتی ہے لیکن ہم خاموش رہے ہیں۔ ہم بعض چھوٹی موٹی باتوں پر یا کچھ اندرونی مسائل کو لے کر اسی میں مشغول رہے ہیں ، پوری طلبہ برادری کی سیاست اور ان کا جوش و خروش اسی میں لگا رہا، اور ہوا یہ کہ اس سے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو درکار تھے۔اس بار جو کرنے کا ارادہ یا کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس وجہ سے جانی جاتی ہے، جس میں سب سے اہم چیز اس کی تہذیب و ثقافت ہے ،دوسرا یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قوم کی آواز ہے ،ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے جو مسائل ہیں ان پر یہاں سے بھی کوئی آواز اٹھنی چا ہیے۔اس بار سیا ست میں یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ ایجنڈے سیٹ کیے جائیں ،قومی اوربین الاقوامی اشوز پر کیمپس کو حساس بنایا جائے اور یونیور سٹی کو بہتر سے بہتر بنا نے کی کوشش کی جائے، اس کے تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے،نہ کہ اندرونی سیاست میں الجھ کر رہ جایا جائے جو کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو لے کر ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کو ہی نقصان اٹھا نا پڑتا ہے۔
ملکی کیمپسز میں جمہوری فضا کی بازیافت کے لیے جاری جدو جہد میں آپ طلبہ یونین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کس رول کی امید کرتے ہیں ؟
تمام یونیورسٹیز میں جہاں بھی جمہوریت نہیں ہے اور جمہوری طریقے سے سیاست نہیں ہوتی ہے ہم ان سےcoordinate کرنے کی کوشش کریں گے، حال ہی میں جو BHU کامسئلہ آیا وہا ں کی طلبہ برادری پر ظلم و ستم کیا گیا اور پولیس نے ان پر ڈنڈے چلا ئے ہم نے اس پرمذمت بھی کی، اور اس بات کا اظہا ربھی کیاکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور آئندہ کبھی بھی ضرورت ہوگی تو ہم وہاں جاکر اپنا بیان دینے یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں ،اسی طرح ہندوستان کی جس یونیورسٹی میں بھی ایسی ضرورت ہو جہاں پر طلبہ برادری کی آواز کو دبایا جاتاہو اس کو ابھر کر نہیں آنے دیا جاتا ہو تو ہم ان کے ساتھ ہیں۔
آپ کی نظر میں ملک کی تعمیر و ترقی میں طلبہ کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی نوجوانوں کی ہے ، اور ملک کی تعمیر اُن ہی کے ہاتھوں ہوگی اور ملک کا مستقبل ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ ہندوستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں پر ایک طرف فرقہ پرستی ہے اور دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کی لڑائی ہے، ایسے میں طلبہ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کن آئیڈیاز پر اس ملک کو آگے بڑھا نا چاہتے ہیں، اور یہ فیصلہ نوجوان طبقہ ہی کرے گا کہ آنے والا ہندوستان کیسا ہو،اور اس کی تعمیر میں ان کا اپنا کردار کیا ہو۔یہ نوجوانوں کے سوچنے کی چیز ہے کہ ہندوستان کن اصولوں اور کن آئیڈیاز کے تحت بنا تھا اور کن آئیڈیاز کے تحت آزاد ہوا تھا ۔ایک طالب علم ہی اس پر نظر رکھ سکتا ہے، اس پر سوچ سکتا ہے، اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام کرسکتا ہے،اصولوں کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام طلبہ ہی کرسکتے ہیں۔
جیسا کہ آپ نے الیکشن سے دوروز قبل اپنے آخری انتخابی خطاب میں کہا تھا کہ ’’جس طرح میں اپنے رب سے مسجد میں ڈرتا ہوں اسی طرح میں سیاست میں بھی اپنے رب کا خوف کھاتا ہوں‘‘ تو کیا آپ کی یہ فکر سماج اور سیاست میں کوئی معنویت رکھتی ہے ؟
جو کلمہ ہم نے پڑھا ہے لا الہٰ الاّ اللہ کا، اس میں الہٰ کا جو تصور ہے اور اس کا جو مطلب ہے و ہ یہی ہے کہ وہ ہر جگہ ہمارا نگراں ہے، ہماری سرپرستی بھی اسی کو کرنی ہے اور ہماری نگہبانی بھی اسی کو کرنی ہے، ہم اسی کو اپنا حاجت روا سمجھتے ہیں اور رہنمائی کے لیے اسی کی طرف پلٹتے ہیں اور اسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور رب کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ ہماری بنیادی وروحانی ضروریات کو پورا کرتا ہو بلکہ ہماری زندگی کے معاشرتی مسائل ،معاشی و سیاسی مسائل تمام چیزوں کو اس کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور اس کی طرف سے رہنمائی کی بھی گئی ہے۔ ہم ہر جگہ اسی کے آگے سجدہ ریز ہیں، یہی ہمارا ایمان ہے اور یہی ہمارا کلمہ بھی کہتاہے ۔جس طرح سے ہم نماز میں اس کی پرستش کرتے ہیں اور اس کا خوف کھاتے ہیں اسی طرح سے ہم سیاست میں بھی اپنے آپ کو اس کا بندہ اور غلام سمجھتے ہیں اور اس کا خوف کھاتے ہیں ۔جو اصول اس نے سیاست کے لیے طے کیے ہیں اور جو اصول اس نے معیشت ومعاشرت کے بنائے ہیں ان تمام اصولوں کے آگے ہم سجدہ ریز ہیں اور اسی کے مطابق سیاست کرنا چاہتے ہیں، یہی ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں ۔
حالیہ واقعات کے تناظر میں کیمپس پر میڈیا رپورٹنگ کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے ؟
میڈیا کا جو رویہ رہا ہے وہ قابل مذمت ہے، میڈیایونیور سٹی کو Stereotypeکرتی ہے، ایک مخصوص انداز اور لہجے میں اس یونیور سٹی کے تعلق سے بیان آتے ہیں اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس کوStereotype کر کے مسلم روایات کو Stereotypeکیا جائے ،جس طرح سے ابھی ہماری بہنوں کا مسئلہ آیا کہ لائبریری میں بہنوں کو اجازت نہیں ہے،یونیورسٹی مدرسہ بنتی جارہی ہے، یہ طالبانی ہوتی جارہی ہے ۔تو یہ ایک طرح سے کوشش ہے کہ ہمیںStereotypeکیا جائے۔ میڈیا اسی طرح سے ہمیں سمجھتی ہے اور دنیا کے سامنے یہی منظر پیش کیا جاتا ہے اور یہی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ ہم اس طرح کے Stereotypeہیں ،ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ملت کو ایک متبادل میڈیا کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
چونکہ آپ قانون (لاء) کے اسٹوڈنٹ ہیں، نا انصافی کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی جد و جہد میں قانون کے طلبہ کو شامل کرنے کے لیے آپ کیا منصوبہ رکھتے ہیں؟
ہندوستان میں حصول انصاف ایک بڑامسئلہ ہے۔ یہاں ضلعی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک لاکھوں مقدمات ہیں، ایسے میں انصاف بہت دور نظرآتا ہے، ایسے میں لاء اسٹوڈنٹس ایک نیٹ ورک بنا سکتے ہیں ،ان کو حساس بنایا جائے، بہت سارے معصوم جو سلاخوں کے پیچھے ہیں ان کی لڑائی بھی لا ء اسٹوڈنٹس ہی لڑیں گے، اس تعلق سے ان کو حساس بنانا اسٹوڈنٹس یونین کا کام ہے، لاء اسٹوڈنٹس یہ بھی کر سکتے ہیں کہ قانون جہاں کمزور ہوتا دکھائی دیتا ہووہاں قانون کا ریویو بھی کریں، اکیڈمک انداز سے اس کا جائزہ لیں کہ قانون یہاں پر کمزور ہے۔دونوں طرح کا کام ہے، ایک تو یہ کہ اکیڈمک انداز سے ریویو ہو کہ قانون کہاں پر کمزور پڑرہا ہے ،انصاف کیوں مشکل ہے، دوسرا یہ کہ فی الوقت اور ابھی جو صورتحال ہے کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے،بہت سارے لوگ ناانصافی اورظلم و ستم کا شکار ہیں،جو معصوم ہوتے ہوئے بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں، ان کی لڑائی بھی لاء اسٹوڈنٹس کو ہی لڑنی ہے ۔ ہم یہ کوشش کریں گے کہ لاء اسٹوڈنٹس کا ایک اچھا آرگنائزگروپ بنا کر قومی سطح پرکام کرنے کی کوشش کریں ۔
ایک اسٹوڈنٹس لیڈرہو نے کی حیثیت سے نصاب تعلیم کا بڑھتا بھگوا کرن اور تعلیم کے بازاری کرن کو روکنے کے لیے آپ کیا اقدام کریں گے؟
تعلیم کا تجارتی کرن اور بھگواکرن دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ایک بہت زبردستcombo تیار ہوا ہے\”Communal capitalist combo یا \”Communal corporate comboان دو نوں کے خلا ف لڑائی لڑنا ہے ،بحیثیت ہندوستانی شہری اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے۔ تعلیم کا بھگوا کرن کیونکہ ایک بہت بڑی اکیڈمک کوشش کے بعد ہوا ہے، اس کا مقابلہاکیڈمک انداز سے ہی کیا جاسکتا ہے، اس کا تنقیدی جائزہ ہونا چاہیے۔جو لوگ تعلیم کے میدان میں ہندوستان کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں ،سماج کی تشکیل نوکرنا چاہتے ہیں ،وہ کتنی محنت کرپاتے ہیںیہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ کتنا اس میں آگے آکر نصاب تعلیم کو اس نظریہ سے دیکھ پاتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرپاتے ہیں یہ ایک اہم چیلنج ہے۔ اس کے لیے ہم چاہیں گے کہ اس یونیورسٹی میں ایک Discourse کھڑا کیا جائے کہ کس طرح سے ایجوکیشن کا بھگواکرن ہورہا ہے اورپوری تاریح کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جو لوگ تاریخ میں زندہ ہوتے ہیں،وہ مستقبل میں قیادت کرتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ یہ قوم بھی اور ہندوستان کے شہری بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں کہ اگر ہماری تاریخ مٹادی گئی تو ہمارا مستقبل بھی تاریک ہوگا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس پر اکیڈمک کام کیا جائے۔
رہا تعلیم کے بازاری کرن کامسئلہ تو ہندوستان کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔چونکہ نوجوان زیادہ ہیں اور ایجوکیشن پر بیداری بھی یہاں زیادہ ہے، چنانچہ کارپوریٹ کوایک بہت بڑا موقع دکھتا ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کریں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ جو لوگ سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں وہ لوگ نکل کر باہر آئیں۔ ہندوستان کے وہ تمام افراد جو سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں،ایکٹیوسٹ گروپ، NGOs اور وہ لوگ جو سماجی انصاف کی جدوجہد کر رہے ہیں ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر آکر ایک ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔
عصر حاظر کے تناظر میں فلسفہ علم و تعلیم پر آپ کا کیا خیال ہے؟
اصل میں کوئی بھی آئیڈیا ہو یا کوئی بھی فکر وہ زندگی کے تمام گوشوں کو متأثر کرتی ہے ۔چاہے وہ کارپوریٹ نظریہ ہو چاہے، وہ اشتراکی نظریہ ہو یا پھرکمیونل نظریہ۔ وہ ہر جگہ نکھر کر اپنے انداز سے آتا ہے، اس کے اثرات ہر جگہ ہوتے ہیں، چاہے وہ سیاست ہو، چاہے وہ معیشت اور تعلیم ہو ۔میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں Communal corporate combo ایک آئیڈیابن کر سامنے آیا ہے،اس نے چیزوں کو متأثر کیا ہے،ہندوستان کی سیا ست کو بھی متأثر کیا ہے، اور یہاں کے نالج کو بھی متأثر کیا ہے، اس کے رنگ ہمیں یہاں دکھتے ہیں، ایسے میں ظاہر سی بات ہے کہ جو نظر یہ ہمارے پاس ہے اس کو مضبوط کرنا ہوگا، اور اس کے لیے فضا ہموار کرنی ہوگی۔
آپ رفیق منزل کے ذریعہ ملک کے عام طلبہ و نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
میں ہندوستان کی نوجوان نسل کو فکر اور عمل کی دعوت دیتا ہوں،آج ہندوستان جس موڑپر کھڑا ہے اور حالات جس قدر سخت ہوتے جارہے ہیں، نفرت کی سیاست ہو رہی ہو اور ملکی فضا کو مکدر کرنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے، فرقہ پرست طاقتیں اپنا سارا زور لگارہی ہیں، ایسے میں ضرورت ہے کہ نوجوان نسل آگے آئے، اپنے اندر حساسیت پیدا کرے، حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور ملک کو ایک بہتر رخ دینے کے لیے اپنی حد تک جد و جہد کرے