صحت عامہ کی تعلیم اور اسلام

ایڈمن

جدید طب کی اصطلاح میں صحت مند انسان صرف وہ نہیں ہے جو جسمانی طور پر تنومند ہو، بلکہ حقیقی معنوں میں صحت مند وہ ہے جو جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی حیثیت سے فعال اور خوشحال ہو۔ گویا انسان…

جدید طب کی اصطلاح میں صحت مند انسان صرف وہ نہیں ہے جو جسمانی طور پر تنومند ہو، بلکہ حقیقی معنوں میں صحت مند وہ ہے جو جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی حیثیت سے فعال اور خوشحال ہو۔ گویا انسان کی صحت کا دارومدار محض اس کے اپنے تندرست ہونے پر نہیں ہے، بلکہ انسانی صحت دیگر بہت سے عوامل سے عبارت ہے۔ ان عوامل میں متوازن غذا اور آلودگی سے پاک وصاف فضا سے لے کر بہت سارے معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی عوامل شامل ہیں۔ انسان کی صحت کا یہ جدید نظریہ معاشرے کا ایک ہمہ جہت نقشہ سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ صحت کے مسئلہ کو زندگی کے دیگر مسائل سے الگ کرکے بحث نہیں کرتا، اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین بھی زندگی کی ایک تصویر کشی کرتا ہے اور معاشرے کے ہر شعبہ میں رنگ بھرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر معاشرتی اور سماجی اصلاح پر زور دیتا ہے تاکہ لوگ پرسکون زندگی گزار سکیں۔
مسلم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عوام الناس کی صحت کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خدمت نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات ہیں بلکہ انہوں نے بہت ساری نئی نئی ادویات متعارف کرائیں، اور بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیا۔ یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی۔ گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے۔ ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے بلکہ ان سے استفادہ پر اصرار کرتا ہے۔ علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔
اس مضمون میں ہم انسانی صحت کے حوالہ سے دینی تعلیمات کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد ہندوستان میں صحت عامہ کے مسائل اور ان کے حل پر بحث کریں گے۔
دینی تعلیمات:
اسلام پاکیزگی اور صفائی کا مذہب ہے، یہاں تک کہ قرآن مجید نے زندگی کا جو مقصد بیان کیا ہے، وہ بنیادی طور پر تزکیہ ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا۔ وَالْآخِرَۃُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی۔ (سورۃ الاعلی: ۱۴۔ ۱۷) ترجمہ: ’’کامیاب ہوا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا، اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ، حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے‘‘۔
ایک اور جگہ قرآن مجید میں کہا گیا:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔ (سورۃ الجمعۃ: ۲)ترجمہ: ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول اُنہی میں سے اٹھایا جو ان پر اس کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کیا جائے اور اس کے فکروعمل دونوں کو اس طرح سے پاکیزہ بنایا جائے کہ اس کی صحیح سمت میں نشوونما ہوسکے۔ غور کیا جائے تو جو دین تزکیہ کو اتنی غیر معمولی اہمیت دے رہا ہو وہ کس طرح اپنے پیروکاروں کی صحت وصفائی کے حوالے سے خاموش رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی عبادات کا مکلف صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جو اس کی ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو۔ یعنی جسمانی طور پر صحت مند ہو، وگر نہ یہ ذمہ داری اس سے صحتیاب ہونے تک اٹھالی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر روزہ ہر بالغ مسلمان پر فرض ہے لیکن اگر وہ مریض ہے تو اس کو صحتمند ہونے تک روزہ ترک کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ یہی حال دیگر عبادات کا بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے مجموعی مزاج میں انسانی صحت کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ ایک غیرصحتمند آدمی کے لیے دین کے بہت سے احکام غیرمتعلق ہوجاتے ہیں۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہی کھانا پینا اگر اعتدال سے زیادہ ہوجائے تو انسان بیمار ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں فرمایا گیا:
وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن۔ (سورۃ الاعراف:۳۱)ترجمہ: ’’کھاؤ اور پیو اور حد اعتدال سے نہ نکلو۔ بلاشبہہ اللہ اعتدال سے نکلنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
دودھ جو انسان کے لیے توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور کیلشیم کا ایک بڑا مأخذ ہے، اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آتا ہے:
وَإِنَّ لَکُمْ فِیْ الأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُم مِّمَّا فِیْ بُطُونِہِ مِن بَیْْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَآءِغاً لِلشَّارِبِیْنَ۔ (سورۃ النحل: ۶۶)ترجمہ: ’’اور بلاشبہہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے‘‘۔
قرآن مجید اور آپؐ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد میں اللہ تعالی نے شفا رکھ دی ہے، قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
وَأَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ۔ ثُمَّ کُلِیْ مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِن بُطُونِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔ (سورۃ النحل: ۶۸۔۶۹)ترجمہ: ’’اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتا بنا، اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس، اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقیناًاس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔
عورتوں کی ناپاکی (حیض) کے دنوں میں قرآن مجید نے ان سے دور رہنے کی تلقین کی ہے کیونکہ اس دوران، وہ تکلیف میں ہوتی ہیں اور مباشرت کے لیے صحتمند نہیں ہوتیں۔
وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْْثُ أَمَرَکُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۲)ترجمہ: ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اوراللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ، جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں (فلاح وسعادت کی) خوشخبری دے دو‘‘۔
دین ابراہیمی میں نکاح کو ایک سنت کی حیثیت حاصل ہے اور آپؐ نے نکاح کو دین کے ایک لازمی جزو کی حیثیت سے جاری کیا، اور اس کے مقابلے میں بے حیائی کے کاموں سے روکا۔ زنا کو ایک معاشرتی جرم قرار دیا ہے اور زانیوں کے لیے مختلف سزائیں تجویز کیں۔ قرآن مجید نے جن چار بڑے جرائم کی سزائیں براہ راست تجویز کی ہیں ان میں ایک زنا بھی ہے۔ دور جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایڈز ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کرچکا ہے، اور ڈاکٹروں نے اس کا صرف ایک ہی حل تجویز کیا ہے اور وہ ہے احتیاط۔ احتیاط میں سب سے اہم ازدواجی تعلقات میں صرف اپنی بیوی تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہمارے دین نے جس بات کو اس کے اخلاقی وجود کے تزکیہ کے لیے ضروری قرار دیا، وہ اب اس کے جسمانی تزکیہ کے لیے بھی ضروری قرار دیا ہے۔
ترقی یافتہ سائنسی دور میں مختلف قسم کے امراض نے چاروں طرف سے ہمارا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ان میں ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، عضلاتی کھنچاؤ،اور جسمانی تھکاوت اہم ہے۔ ڈپریشن کا مرض ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے، جو ماہرین کی تحقیقات کے مطابق ۹۵؍فیصد امراض کا بنیادی سبب ہے۔ ڈپریشن کے مرض میں انسان اپنا ذہنی توازن اور قلبی سکون کھو بیٹھتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا حل تجویز کیا ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کو یاد رکھے اور اس کا ذکر کرتا رہے۔ اس سے انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے۔
انسان اگر ناپاک رہے اور اپنے جسم کی صفائی کا خیال نہ رکھے تو کئی قسم کے جراثیم اس کا گھیراؤ کرتے ہیں اور وہ کئی قسم کے امراض کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسلام ہمیں تطہیر ماحول کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی صفائی کی بھی خاص ہدایت کرتا ہے۔ ناخن کاٹنا، سر کے بالوں کی صفائی، بغلوں اور زیرناف بالوں کی صفائی، غسل کرنا اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔ نماز پڑھنے سے پہلے جسم کی صفائی کے لیے وضو کی شرط رکھ دی گئی ہے اور عمومی حالات میں وضو کے بغیر نماز قبول ہی نہیں ہوتی۔ اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر انسان مریض ہے یا کسی اور وجہ سے وہ پانی کے ذریعہ اپنے جسم کی صفائی کا اہتمام نہیں کرسکتا تو وہ ایک خاص طریقے سے تیمم کرے جس سے بظاہر تو جسم صاف نہیں ہوتا لیکن یہ اس طور پر اہم ہے کہ اس سے وضو کی یاد باقی رہتی ہے۔ وضو کا ذکر اور اس کے ذریعے جسم کی صفائی کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں آیا ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِن کُنتُمْ جُنُباً فَاطَّہَّرُواْ وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مَّنکُم مِّنَ الْغَاءِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَیَمَّمُواْ صَعِیْداً طَیِّباً فَامْسَحُواْ بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْْدِیْکُم مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَکِن یُرِیْدُ لِیُطَہَّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ۔ (سورۃ المائدۃ:۶)ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو، سروں پر ہاتھ پھیرلو، اور پاؤں ٹخنوں تک دھولیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہوجاؤ۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، بس اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے، شاید کہ تم شکرگزار بنو‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی کئی واقعات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جس میں آپؐ نے صحتمند رہنے کی تلقین کی ہے اور صحت کی حفاظت اور صحت بنانے کے طریقے بھی بتائے ہیں، جن میں تیر اندازی، گھوڑ سواری اور کشتی رانی وغیرہ کی مثالیں شامل ہیں۔ گویا انسان کو اپنی صحت کے لیے مختلف قسم کی ورزشیں کرنی چاہئیں تاکہ اس کے اعضاء مضبوط ہوں اور مختلف قسم کی بیماریوں کے سامنے مؤثر طور سے مزاحمت کرسکیں۔
بیماری لاحق ہونے کے بعد انسان کو مناسب دوا لینی چاہیے اور اس کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ بھی لینا چاہیے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے دوا بھی اتاری ہے‘‘۔ (مجموعۃ الصحاح، کتاب الطب، جلد۳، ۴؍صفحہ ۲۵۱؍)
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ’’ہر بیماری کی ایک دوا ہے، جب وہ دوا بیمار کو پہنچتی ہے تو بیمار اللہ کے حکم سے تندرست ہوجاتا ہے‘‘۔ (ایضاََ)
اس ضمن میں صرف ماہر معالج سے ہی مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسانی صحت کا معاملہ ہے اور اس میں غیر متعلقہ شخص کی رائے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ اس کے بارے میں بھی آپؐ کا ایک ارشاد منقول ہے، آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے کسی کا علاج کیا بغیر اس کے کہ وہ اس فن(طب) میں ماہر تھا۔ (اور اس کے علاج سے مریض کو کوئی نقصان ہوا) تو (معالج) اس نقصان کا ضامن ہوگا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطب)
یہ ایک قابل توجہ بات ہے کہ لوگوں کو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے دندان سازوں اور اس طرح دیگر لوگوں سے کسی بھی مرض کے لیے رجوع نہیں کرنا چاہیے، جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو کہ وہ اس فن کی مطلوبہ حد تک معلومات رکھتا ہے۔
علم طب، صحت عامہ اور دور اول کے مسلمان:
مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تطہیر ماحول اور حفظان صحت کے بارے میں نہایت محتاط رہے ہیں۔ ابتدائی مسلم معاشرہ میں ماحول کی صفائی اور تزکیہ کے ساتھ بیماریوں کے علاج معالجہ کے بارے میں خاص توجہ دی جاتی تھی۔ ’’محتسب‘‘ کے نام سے ایک عہدہ دار کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ بازار میں فروخت ہونے والی غذاؤں اور مشروبات کی صفائی ستھرائی ، حفظان صحت کی نگرانی، اور تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی کرے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان اس وقت صحت عامہ کے مسائل کے بارے میں غیرمعمولی طور پر محتاط رہے ہیں، اور انہوں نے اس کا خاص اہتمام کیا ہے۔ (مذہب اور جدید چیلنج، مولانا وحیدالدین خان)
ہندوستان میں صحت عامہ کے مسائل:
انڈین نرسنگ کونسل کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ آج ہم صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور اس شعبہ کی حالت ابتر ہوئی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر مارچ ۲۰۱۱ ؁ء کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں قومی سطح پر ۱۱۹۹۳؍ ہسپتال ہیں، ۷۳۴۷؍بنیادی مراکز صحت اور ۴۱۴۶؍ضلعی ہسپتال ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں ۲۰۱۴ ؁ء کے اختتام پر کل ۹۳۶۴۸۸؍ڈاکٹرس ہیں۔ اس طرح سے ۱۳۳۷؍افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے، جبکہ ۱۰۴۳۹۴؍افراد کے لیے ایک دواخانہ ہے۔ جولائی ۲۰۱۱ ؁ء تک بلڈ بینک کی کل تعداد گورنمنٹ وپرائیویٹ ۲۵۱۷؍ تھی۔ صحت کے شعبے پر ملک میں صرف ۳۳۰۰؍کروڑ روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں، جو کہ ہماری مجموعی پیداوار کا صرف ۲؍فیصد ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرض کم ازکم ۵؍فیصد ہے۔ صحت کے شعبے کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے درج ذیل نتائج سامنے آئے ہیں:
۱)یونی سیف کے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں ۶۷؍فیصد لوگوں کو صاف پانی پینے کے لیے میسر نہیں ہے۔
۲)یو این او کے ایک سروے کے مطابق فی ایک ہزار بچوں میں سے ہر روز بھارت میں ناقص غذا کی وجہ سے ۶۶؍بچوں کی موت ہوتی ہے۔
۳)NBC نیوز ایجنسی کے مطابق ہر روز بھارت میں ۳؍ہزار بچے ناقص غذا کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔
۴)میڈیکل کالجز میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ جو ڈاکٹرس تیار ہوکر نکلتے ہیں وہ زیادہ تر ان امراض کا بہتر علاج کرسکتے ہیں جو مغرب میں اور امریکہ میں عام ہیں، جبکہ یہاں کے مقامی امراض کے بارے میں ان کا علم انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ جیسے نصاب میں سانپ کے ڈسنے کا کوئی علاج نہیں ہے،ا س طرح اور بہت سی ایسی مقامی بیماریاں ہیں۔

شعیب اقبال خان، عمر کھیڑ، مہاراشٹر۔
ای میل: [email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں