اسلام میں حسن اخلاق کی بہت اہمیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اخلاقی اچھائیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن اعلی مقاصد کے لیے ہوئی تھی۔ جب ہم اخلاق کی بات کرتے ہیں تو اس میں صبر کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کی ضرورت مومن کو زندگی کے ہر ہر قدم پر پڑتی ہے۔
صبر کے لغوی معنی قائم رہنے اور ڈٹے رہنے کے ہیں۔ مطلب یہ کہ انسان تکلیف اور پریشانیوں میں حق بات پر قائم رہے، اور اللہ تعالی کے احکامات پر جما رہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۳)
صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپؐ اور مومنین کو قرآن مجید میں ۱۰۰؍سے زائد بار صبر کی تاکید کی ہے، اور صابرین کو جنت کی خوشخبری بھی دی ہے کہ ’’سلامتی ہو تم پر اس صبر کے باعث جو تم نے زندگی میں کیا ہے‘‘۔ (سورۃ الرعد: ۲۳)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ صبر ایمان کا سرچشمہ ہے، جب تک صبر ہے ایمان ہے، اور جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان بھی اسی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اس طرح انسان کو پوری زندگی میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے، اور مندرجہ ذیل چند مواقع پر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے:
(۱) فاقہ کشی کی حالت میں: انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے، لیکن کبھی کبھار اسے فاقہ کشی سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے، ایسی حالت میں شکوہ شکایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضبط سے کام لینا چاہئے۔ فاقہ کشی میں صبر کرنے والوں کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں، جس کی زبردست مثال مکہ میں شعب ابی طالب کی ہے جس میں آپؐ اور ان کے صحابہؓ کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ جس میں کہ ان لوگوں کو سوکھا چمڑا اور پتے چبانے پڑے تھے، اور دوسری مثال غزوہ خندق کی ہے جبکہ آپؐ نے خود اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔
(۲) جسمانی مصائب کے وقت: صبر کا ایک مقام یہ ہے کہ انسان دکھ درد اور بیماری میں یا جسمانی اذیت کے موقع پر صبر سے کام لیتا ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کا جسمانی بیماری پر صبر کرنا بہت مشہور ہے، جسے قرآن مجید نے قیامت تک کے لیے مثال بنادیا ہے۔ ابتدائی دور کے صحابہ کرامؓ، حضرت بلالؓ ، حضرت یاسرؓ کا پورا خاندان جس اذیت سے دوچار ہوا تاریخ اسلام میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ صبر ہی کی وجہ سے ان کے قدم تمام آزمائشوں کے باوجود ذرا بھی نہ ہٹے اور اس ظلم پر آپؐ ان کو صبر کی تلقین کرتے تھے۔
(۳) جذباتی صدمے میں صبر: صبر کا ایک مقام یہ بھی ہے کہ جہاں�آدمی کو اپنے جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہے، اور اس طرح کے واقعات عام طور سے کسی عزیز کی موت پر، یا عارضی طور سے کسی سے بچھڑنے پر سامنے آتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی مثال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہؑ کی ہے، جس کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دونوں نے اپنے جذبات کو اللہ تعالی کے احکام پر قربان کردیا تھا، اور اس پر صبر کیا تھا، اور حضرت ہاجرہ کی زندگی تو آج کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
(۴) دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد میں صبر: یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کو دنیا میں سربلند کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، وہ اس راہ میں مصیبتوں اور تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں، اور وہ اس پر صبر سے کام لیتے ہیں، اور یقیناًاس پر صبر کرنا بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! صبر سے کام لو، اور باطل پرستوں کے مقابلے میں جواں مردی دکھاؤ، اور حق کی سربلندی کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔ (آل عمران)
(۵) دعاکی قبولیت کے سلسلے میں صبر: جب انسان اللہ تعالی سے کسی پسندیدہ چیز کو طلب کرنے کے لیے دعا کرتا ہے تو اسے جلد بازی نہیں کرنا چاہئے، اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ بندہ جب اپنے رب سے کچھ مانگتا ہے تو وہ اسے ضرور عطا کرتا ہے، بشرطیکہ وہ چیز جائز ہو، اور خلوصِ نیت کے ساتھ مانگی گئی ہو۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’تم مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا‘‘۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے ایک روایت آتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے، (یعنی یوں نہ کہے) میں نے دعا مانگی مگر میری دعا قبول نہ ہوئی‘‘۔
اسعد مظہر فلاحی، اسلامی اکیڈمی۔ نئی دہلی