چاہے وہ کالج لائف ہو یا فیملی لائف یاتحریکی لائف، ملازمت ہویاتجارت، ہر جگہ آزمائش، امتحان، ٹسٹ، رزلٹ ،نفع، نقصان اور ورک پریشر جیسی چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کی اپنی ایک شخصیت ہو تی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی شخصیت میں نکھار آئے ، اور اس کا وجود بہتر سے بہتر بنے ۔اس کے لئے بہت سارے سمینار ،سمپوزیم اور ٹریننگ پروگرامس منعقد کئے جاتے ہیں۔
بعض لو گ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کراللہ یاد آتا ہے ۔ ان کی باتوں میں اثر ہوتا ہے، اور ان میں اتنا خلوص اور للہیت ہوتی ہے کہ ہم حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ کہا ں سے آئی؟ کیا ہے اس کا راز؟ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آزمائش ہی ان کی شخصیت میں نکھا ر کا ذریعہ بنتی ہے، کیونکہ آزمائشوں سے روح مضبوط ہوتی ہے۔ درحقیقت شخصیت کے ارتقاء میں سب سے اہم رول فر د پر ہونے والی مصیبت ،تکلیف ،رنج و غم ،آفت و ناکامی یانقصان وغیرہ کی شکل میں آزمائشوں کی بوچھار ہے جس سے اچھے اچھے لوگ میدان چھوڑدیتے ہیں، راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں یا پھر گھبرا جاتے ہیں، اور ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔Man Nobody Knows کتاب کے مصنف بروس بارٹن نے کہا:’’کسی کے لئے شاندارکامیابی کا حصول ممکن نہیں ،ماسوائے ان کے جن میں یہ یقین اور جرأ ت ہوکہ وہ اپنے اندر حالات سے نمٹنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔
حالیؔ نے کہاکہ
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اگر آپ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے ہیں تو آپ کو ضرور آزمایا جائے گا۔جیساکہ حضرت خباب بن ارتؓ کی روایت سے پتہ چلتاہے کہ’’ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بُری طرح تنگ آئے ہوئے تھے ، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی ؐ کعبہ کی دیوار کے سایہ میں تشریف رکھتے ہیں۔میں نے حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمارے لئے دعا نہیں فرماتے ؟ یہ سُن کر آپؐ کا چہرہ سرُخ ہوگیا اور آپؐ نے فرمایا :’’ تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئیں ہیں ۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھادیاجاتا او ر اُس کے سر پر آرا چلاکر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جاتے ۔کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے ۔‘‘خداکی قسم !یہ کا م پورا ہوکر رہے گا ۔ یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا او راللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے۔(بخاری ،ابوداؤد ، نسائی)
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑدیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے ‘‘اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جواِن سے پہلے گزرے ہیں ۔اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کو ن ہیں اور جھوٹے کون۔(عنکبوت :۲،۳)
اللہ جس شخص سے جتنی محبت کرتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ آزماتاہے، اور جو شخص جتنا آزمایا گیا اس کی شخصیت میں اتنا زیا د ہ نکھار آجاتا ہے۔ حضر ت ابراہیم ؑ کو آزمایا گیا، اورجب وہ سبھی آزمائشو ں میں کامیاب ہوگئے تو انھیں خلیل اللہ کا لقب دیا گیا،اسی طرح حضور ؐ کو ہر طرح سے آزمایا گیا، اور پھر رہتی دنیا تک کے لئے انہیں نب�ئرحمت کا لقب دے دیا گیا۔ اسی طرح ایک بندۂ خدا جب سچ کی راہ پر چلتا ہے تو اسے کامیابی کے مقام تک پہنچنے کے لئے اتنی ہی بڑی آزمائشوں او ر امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔جب آزمائش اپنی آخری حد کو پہنچ جاتی ہے اور امتحان مکمل ہو جاتا ہے تو اللہ کی مدد کانزول ہو تاہے، قرآن کہتاہے’’ پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے ، حتیٰ کہ وقت کا رسُول اور اُس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ (اُس وقت اُنھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ :۲۱۴) داعیانِ حق کو اپنی قوم کی فلاح اور نجات سے بہت محبت ہو تی ہے۔ وہ اپنی دعوتی سر گرمیوں سے بگڑے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانے اوردوزخ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کر تے ہیں، قوم کی زیادتیوں اور دست درازیوں کے بادوجود وہ صبر کرتے ہیں اور اللہ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا نبیؐ ایک نبی ؑ کا حال بیان فر ما رہے تھے وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے آپؐ نے فر مایا کہ ’’(دعوت الی اللہ کے جرم میں ) قوم نے اس قدر ماراکہ اس کا جسم خون سے لت پت ہو گیا ۔اس وقت بھی اس نے اپنے چہرہ سے خون پونچھتے ہو ئے کہا : اے اللہ میر ی قوم کو معاف فر مادے وہ نہیں جانتی۔‘‘
ایک مومن پر کئی طر ح کی آزمائشیں ہوتی ہیں۔ دعوت دین کا کام کرنے والوں کو آزمائش میں ستا یا جاتا، اس کی مخالفت کی جاتی ہے،لالچ دی جاتی ہے۔ اسی طرح صلاحیتوں کی آزمائش ، خواہشات ،جذبات اور غصہ کی آزمائش، نعمتِ خداوندی کی آزمائش،جان ومال کے نقصان کی آزمائش،مال و دولت اوراولاد کی آزمائش ،علم و عمل کی آزمائش ،حقوق ا لعباد اور حقوق اللہ کی آزمائش اورغربت کی آزمائش وغیرہ ہیں، ان سب آزمائشوں کا جو لوگ مقابلہ نہیں کر پاتے وہ شکوک وشبہات ،مقصد میں ناکامی کے اندیشے ، ذہنی انتشار،احساس کمتری ،اکتا ہٹ ،بے چینی ،مایوسی، اور سستی و کاہلی جیسی بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں ۔
آزمائشوں میں کامیابی کیلئے درکار صفات
اخلاص نیت :آزمائش میں کامیابی کے لئے در کار صفات میں جو سب سے اہم ہے۔ وہ اخلاصِ نیت ہے کیونکہ اعمال کا در و مدار نیتوں پر ہیں۔اگر آپ کی نیت میں اخلاص ہو گا تو اللہ کی مدد بھی شاملِ حال ہو گی ۔اس لئے ہر وقت نیت کا احتساب کرتے رہنا چاہئے۔
رب کی رضااور مشیتِ الٰہی پر رضامندی:جب ہم پر کوئی آزمائش آتی ہے تو اس میں بھی رب کی رضا شامل ہوتی ہے۔شاید اللہ کی یہی مرضی ہو ۔اللہ کی مشیت پر راضی ہونا ایک بند ہ مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔جیساکہ مسند احمد کی اس حدیث سے واضح ہو تا ہے جس میں حضرت محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فر مایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بند�ۂمومن کو اس سے محبت کر نے کے باوجود دنیا (کی آسائش و راحت )سے دُور رکھتا ہے، جیسے تم اپنے مریض کو کھانے اور پینے سے روکے رکھتے ہو ، کیوں کہ تم ڈرتے ہوکہ اس سے اُسے نقصان پہنچے گا‘‘۔
اطاعت رب اوراطاعت رسول ؐ:بندۂ مومن خدا اور رسول ؐ کے بتائے ہو ئے احکام پر چلتا ہے۔آزمائشوں میں ان کے فر مان کی اطاعت کرتا ہے۔
وسیع النظری (Broad Minded):مومن کوتاہ نظر نہیں ہوتا ،ایک بندۂ مومن کو آزمائشوں کے وقت وسیع النظر ہونا چاہئے ۔ مومن کی آزمائشیں خیر کا باعث ہو تی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فر مایا ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیرکا ارادہ کر تا ہے،اسے کسی قدر تکلیف میں ڈالتا ہے‘‘(بخاری)
عزم و توکل(Ambitious) :بندۂ مومن کوآزمائشوں کے مقابلہ کے لئے پر عزم ہو نا چاہئے،اور اللہ پر توکل و بھروسہ کر نا چاہئے۔
مقصد سے لگاؤ: مقصدپر گہری نظر رکھئے، اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہو نے دیجئے۔ آپ جس مقصد کے لئے بھی کو شش کر رہے ہیں اس سے لگاؤنہایت ضرور ری ہے۔ اگر آپ کا مقصد سے لگاؤ نہیں ہو گا تو آپ آزمائشوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے،اور پھرآپ کے قدم ٖڈگمگا جائیں گے۔
سخت محنت(Hard Working): سخت محنت کا میابی کی کنجی ہے۔ مگر آزمائشوں کے مقابلہ کے لئے فرد کو سخت کوش و سخت جاں ہو نا چاہئے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر وقت مصروف رہئے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فر مایا ’’جتنی سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے۔ اتناہی بڑا اس کا صلہ ہوتاہے۔ او ر خدا جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے۔تو ان کو (مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لئے)آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے پس جو لوگ خداکی رضا پر راضی رہیں خدا بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں خدا سے ناراض ہوں،خدابھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔(ترمذی)
ثابت قدمی(Stablity):آزمائشوں میں ثابت قدمی سے شخصیت سنورتی ہے ۔ آپ کا ایمان جتنامضبوط ہوگا آپ اتنے ہی اللہ سے کئے ہوئے عہد پر ثابت قدم رہ سکیں گے۔
خود اعتمادی : خود اعتمادی اصل ہے اگرآپ نے خوداعتمادی کھو دی تو سب کچھ کھودیا۔ احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں، خودپر بھر پور اعتماد کیجئے۔
مضبو ط قوتِ ارادی(Strong Will Power ): آزمائش ہماری قوتِ ارادی کو مضبو ط کرتی ہے۔قوتِ ارادی کا عملی مظہر مستقل مزاجی ہے۔ جس میں ہماری شخصیت میں نکھار آتاہے۔بعض کمزو رقوتِ ارادی والے افراد آزمائشوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور مایوس ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔
صبر و تحمل(Patience):آزمائش چاہے کسی بھی طرح کی ہو جیسے مصیبت ، تکلیف ،رنج و غم ، آفت وناکامی یا نقصان وغیرہ یا پھر خوشی اور جیت کے مواقع، اس کے لئے صبر کی بہت ضرورت ہے، اور صابرین کے لیے ہی جنت بنائی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فر ماتا ہے کہ’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنھیں مرُدہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ، مگر تمھیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضر ور تمھیں خوف وخطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمائش کریں گے ۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کو ئی مصیبت پڑے ،تو کہیں کہ : ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ انھیں خوشخبری دے دو۔ اُن پر ان کے ر ب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی ، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘ (البقرہ:۱۵۳۔۱۵۷)
دور اندیشی : آزمائش کے وقت آپ کو دوراندیش ہونا چاہئے آپ اپنے حال پر افسوس مت کیجئے بلکہ مستقبل کیلئے تیاری کیجئے۔
مثبت رویہ(Positive Thinking): ہمیں ہر وقت مثبت انداز میں سو چنا چاہئے ۔ آج مثبت سو چ کی صلاحیت مسلمان معاشرے سے ختم ہو تی جارہی ہے، اور منفی سوچ زیادہ پروان چڑھ رہی ہے۔ حضرت صہیب رومیؓ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فر مایا ’’مومن کا معاملہ کتنا اچھا ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ۔ اگر وہ مسر ت سے ہم کنار ہوتو شکر کرتا ہے۔ یہ اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے ۔ یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ (مسلم ) مشہور مفکر اینا ڈیلینی پیل نے کہا : ’’اگر ایک درو ازہ زور سے بند ہو تا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خدادوسری جانب ایک اور دروازہ کھول رہاہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مشکل حالات میں مثبت انداز اختیار کرتے ہیں وہی کامیابی سے ہمکنار ہو تے ہیں۔
اللہ سے امید(Hope): آزمائشوں کے دور میں ہمیں اللہ تعالی سے پر امید اور تقدیر پر راضی ہو نا چاہئے، اور اس پر اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھنا چاہئے۔ حضورؐنے فر مایاکہ بندۂ مومن کے لئے جب اللہ کی طرف سے کوئی ایسا اونچا مقام مقدر ہوتا ہے۔جہاں تک وہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اسے جسمانی یا مالی یا اولاد کے سلسلے کی آزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔ پھر ا سے اس پر صبر کی توفیق عطا فر ماتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے اسی مقام تک پہنچادیتا ہے۔ جو اللہ کی طرف سے اس کے لئے پہلے سے لکھ دیا گیاہے۔(ابو داؤد)
آزمائشوں میں کامیابی کیلئے رہنما اصول:
قرآن سے تعلق :قرآن سے تعلق قائم کیجئے۔ اس پر عمل کیجئے اور دوسروں تک اسے پہنچائیے۔مکی سورتوں کا مطالعہ کیجئے،کیونکہ یہ آزمائشوں کی سخت گھڑ یو ں میں نازل ہوئی ہیں۔
منصوبہ بندی: منصوبہ بندی میں وسائل کااندازہ کرکے درپیش مسائل کے حل کو پلان کیا جاتاہے تاکہ ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔آپ جو کام بھی کررہے ہیں اور جس مشن کو بھی لے کر اٹھے ہیں، اسے منصوبہ بند طریقے سے کیجئے ۔
وقت کی تنظیم: بعض لوگ وقت کی کمی کے سبب تناؤ محسو س کر تے ہیں ۔ہر کسی کے پاس ۲۴؍ گھنٹے ہی ہوتے ہیں، اس کی اہمیت، اس کے استعمال پر منحصر ہو تی ہے ۔ جو لوگ وقت کی پرواہ نہیں کر تے وہ بال�آخر پچھتاتے ہیں اور زبردست ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں،اس لئے وقت کا صحیح استعما ل کیجئے۔ یادرہے ہر لمحہ کا جواب اللہ کو دینا ہے۔اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتاہے۔ اس کے مطابق اسے عمر اور وسائل بھی عطاکر تا ہے۔چنانچہ حضور ؐ نے ارشاد فر مایا ’’قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک کہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔ عمر کہاں گذاری ؟ جوانی کس کام میں کھپائی ؟ مال کہاں سے کمایا ؟ اور کہاں خرچ کیا ؟ اورعلم پر کہاں تک عمل کیا؟ ‘‘(تر مذی )
معتدل و متوازن زندگی:ہر معاملہ میں اعتدال اختیار کیجئے اور متوازن زندگی گزاریئے۔ کامیاب زندگی کا راز اس میں ہے کہ حالات خوش گوار ہو ں یا نا ساز گار، آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو متوازن رکھے۔
دعا : دعامو من کاہتھیار ہے۔ دعا اور اذکارکا کثر ت سے اہتمام کیجیے۔ مسنون دعاؤں کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیے۔ مثلاً:
حسَبُناَ اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلَناَ(بخاری ،ترمذی)
(ہم کو کافی ہے اللہ اورکیا ہی اچھّا کار ساز ہے وہ (جس کے سپرد اپنا کا م کیا جائے)۔ اللہ ہی پر ہم نے بھرو سہ کیا۔ )
اَللّٰہُمَّ اِنّیِ آعُوذُ بِکَ مِنَ الھَمِّ وَالحَزَنِ وَالعِجزِ وَالکَسَلِ وَالجُبنِ وَالبُخلِ وَضَلَعِِ الدَّینِ وَ غَلَبَۃِ الرِّجاَ لِ(بخاری)
(اے اللہ ، میں فکروغم سے ، عاجزی اور کاہلی سے اور بزدلی اوربخل سے ، اور قرض کے بوجھ سے اور انسانوں کے قہر و غلبہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔)
توبہ و استغفار: قرآن کہتا ہے کہ تم لوگوں پرجو مصیبت بھی آئی ہے، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ایسے ہی در گزر کرجاتا ہے۔(شوریٰ: ۳۰) اس لئے اپنے گناہوں پر نادم ہوکرہر وقت توبہ و استعفار کرتے رہنا چاہیے،کیو نکہ توبہ ہی ہر مصیبت و پریشانی سے محفوظ ہونے کا حقیقی علاج ہے۔
حقیقت یہ کہ ہر شخص کو اس کی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی کو کم کسی کو زیا دہ، لیکن زمین پر موجود ہر بند ۂ خداکو ضرورآزمایا جاتا ہے۔اللہ تعالی سورہ البقرۃ کی آخری آیت میں فرماتاہے:’’اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اُس کا وبال اُسی پر ہے۔‘‘
جب حالات سازگار ہوتے ہیں تو دعا تک کے لئے ٹائم نہیں ملتا اور آنکھوں سے آنسو مشکل سے نکل پاتے ہیں، اس کی تصویر قرآن کھینچتا ہے: ’’انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتاہے اور اَکڑ جاتاہے اور جب اُسے کو ئی آفت چھوجاتی ہے تو لمبی چوڑی دُعائیں کرنے لگتاہے۔(حٰم سجدہ ۔۵۱)
آزمائش انسان کی شخصیت سازی میں اہم رو ل ادا کرتی ہے۔ اگر نیکی کی راہ میں آزمائش ہو تو وہ اس کے لئے رحمت ہوتی ہے،اور اقامتِ دین یا دعوتِ دین کے لیے آزمایاجائے تو سماج کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن فرد تو ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ مومن کو جنت میں ڈالنا چاہتا ہے تو آزمائشوں کے ذریعے سے اس کی شخصیت کو سنوارکر پاک و صاف کرتا ہے۔اسی لئے مولانا مودودیؒ کہتے ہے کہ ’’ آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کرہی کھر ے اور کھوٹے کی تمیز ہوتی ہے۔‘‘
آزمائش گنا ہوں کو معاف کر نے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔جس کی وجہ سے ایک پاکیز ہ پر سنالٹی وجو د میں آتی ہے۔ حضور ؐ نے فر مایاکہ مومن کو جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے ، جو بھی دکھ پہنچتا ہے ۔ خدا تعالیٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو اس طر ح جھاڑ دیتا ہے، جیسے درخت اپنے پتوں کوجھاڑ دیتا ہے۔(بخاری و مسلم )
اب ہم اپنا جائز ہ لیں۔ اگر ہم امن و سکون میں ہیں، کوئی آزمائش ،کوئی مخالفت، پر یشانی یا مجبوری نہیں۔ پھر بھی ہم اللہ کی عبادت اور اقامت دین کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے اور حُبّ الدنیا اور کر اہیۃ الموت کا شکار ہو گئے، تو کیا اللہ ہم سے ناراض ہے۔ کیا اس نے ابدی جنت کی نعمتوں سے محر وم کر کے دنیا ہی میں ہمارے لئے عارضی جنت کا انتظام کر دیا۔ کیا ہماری شخصیت داغدار ہوگئی ہے۔ اپنی شخصیت کاہر پہلو سے جائزہ واحتساب لیں۔
آخر میں دعاہے کہ! اے ہمارے ربّ ، ہم سے بھول چوک میں جو قصور اورغلطیاں ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جوتو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔پروردگار ، جس بارکو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پرنہ رکھ۔ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فر ما، ہم پر رحم کر ، تُو ہمار ا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مددکر۔ (بقرہ :۲۸۶) آمین 2n2
2n2
توقیر اسلم انعامدار ، ناگپور، مہاراشٹر