مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے جس پیغام کے تحت برصغیر ہند میں تحریک اسلامی کی بنیاد ڈالی تھی، اور جس نوعیت کا عظیم انقلاب ان کے پیش نظر تھا، اس کے لیے بہت ہی منظم، ہمہ جہت اور سخت جدوجہد کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اِس تحریک نے اپنے ابتدائی دور ہی سے متعدد محاذوں پر منظم انداز سے کام کا آغاز کردیا، خواہ وہ علمی وفکری میدان ہو، سیاسی ومعاشی میدان ہو، یا ادب اور صحافت وغیرہ مختلف دوسرے میدان ہوں، تحریک اسلامی نے ان تمام ہی محاذوں پرنہ صرف واضح خطوط کار متعین کئے، اور ایک رخ دیا، بلکہ ان کے مطابق افراد سازی کی بھی کوشش کی گئی۔ شبنم سبحانی بنیادی طور سے ادب کے آدمی تھے، انہوں نے اس محاذ کو سنبھالا،ا ور تاحیات اس وسیع اور مؤثرمیدان میں تحریک اسلامی کے عظیم پیغام کی اشاعت کے لیے کوشاں وسرگرداں رہے۔ موصوف کا یہ شعر اُن کی فکر اور شخصیت کا بہترین تعارف ہے
مرے جنوں کا سفر، میری خستگی کا مآل
نئے نظام کی خواہش، نئی سحر کی تلاش
مری نوا، میرا پیغام، میرا حرف مدار
مرے جنوں کا سفر تاحیات زندہ باد
تاہم شبنم سبحانی کا میدان صرف ادب تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر ایک زبردست صحافی، ایک عظیم اسلامی دانشور، اور غیررسمی طور پر تحریک اسلامی کے ایک فعال کارکن بھی تھے۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کے تو صحیح معنوں میں وہ روح رواں تھے، اورحقیقت یہ ہے کہُ ان کی رحلت سے ادارہ ایک ایسے رہنما سے محروم ہوگیا، جو نہ صرف ادارے کا ایک مخلص سرپرست تھا، بلکہ صحیح معنوں میں ادارے کی شناخت تھا۔
ابتدائی حالات:ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانیؒ کی ولادت ۷؍ستمبر ۱۹۳۷ ء کو اترپردیش کے معروف قصبہ ٹانڈہ (فیض آباد) میں ہوئی۔ ابھی چند ماہ ہی کے تھے کہ والد محترم داغ مفارقت دے گئے۔ ابتدائی تعلیم ٹانڈہ کے مدرسہ کنزالعلوم میں حاصل کی، اس کے بعد ٹانڈہ ہی میں ہوبرٹ ترلوک ناتھ کالج سے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کیا۔ انٹر میڈیٹ کے بعد اعلی تعلیم کے لیے گورکھپور یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے گریجویشن، اور پھر اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ بعدازاں جماعت اسلامی ہند کی قائم کردہ معروف ومشہور ثانوی درسگاہ میں داخلہ لیا، جہاں تحریک اسلامی کے بلند افکار اور عظیم شخصیات سے خوب خوب مستفید ہونے کا موقع ملا۔ یہاں سے تکمیل کے بعد آپ لکھنؤ چلے گئے، اور وہاں لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو زبان میں پی ایچ ڈی کی۔ ابتدائی عمر ہی میں جماعت اسلامی ہند کی باقاعدہ رکنیت اختیار کرلی تھی، اُس وقت تحریکی حلقے میں سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے جانے جاتے تھے،البتہ تحریک کے ساتھ یہ رفاقت زیادہ طویل نہ رہ سکی، اور سیاست میں شمولیت کی پرزور وکالت کرتے ہوئے ۱۹۶۰ ء میں آپ جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔
درس وتدریس: شبنم سبحانی مرحوم نے ابتدا میں یوپی کے قصبہ ’جون پور‘ کے ایک کالج میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد سلطان پور کے ’جی ایس پی جی کالج‘ سے وابستہ ہوگئے۔ موصوف جہاں بھی رہے، وہاں خدمت خلق اور اخلاص وبے لوثی کے ساتھ مصروف جہد وعمل رہے۔ جب آپ جون پور کے کالج میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، اس وقت وہاں مینجمنٹ اور پرنسپل کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے، جس نے کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں مینجمنٹ کی جانب سے تمام ہی لکچررس کی تنخواہیں روک دی گئیں، اس وقت دوسرے لکچررس نے کالج کو خیرآباد کہہ دیا، تاہم اس دوران شبنم سبحانی اس اندیشے سے کہ کہیں طلبہ کا ایک سال خراب نہ ہوجائے، بلا تنخواہ ہی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس طرح آپ نے بلاتنخواہ ہی تعلیمی سال مکمل کیا۔ موصوف کی صاحبزادی ڈاکٹر فاطمہ تنویر کے بقول’’اس درمیان گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہوگیا تھا، وہ چاہتے تو دوسری جگہ جوائن کرلیتے مگر انہوں نے طلبہ کا سال خراب نہیں ہونے دیا‘‘۔ آپ ایک شفیق اور مخلص استاذ تھے، اور ہمیشہ طلبہ کی بھلائی اور بہتری کے لیے بے چین رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ کالج سے رخصت ہونے لگے تو کالج کے مسلم اور غیر مسلم سبھی طلبہ نے مل کر آپ کی خدمت میں ایک شاندار اور یادگار الوداعیہ پیش کیا، جس میں ا نہوں نے اپنے استاذ کی فرقت کے غم کو بہت ہی مؤثر انداز میں بیان کیا۔ بعد میں آپ اودھ یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے، جہاں پروفیسر اور پھر صدر شعبہ اردو ہوئے۔ اس دوران آپ نے کئی درجن طلبہ کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی بھی کرائی۔ موصوف کی یہ ایک بہت ہی اہم خوبی تھی کہ وہ ہمیشہ کچھ کرنے کے لیے بے چین رہتے تھے، انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ اردوادب بالخصوص ادب اسلامی کا حلقہ اس وقت کس خطرناک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شوقین طالب علم ان کے پاس چلا جاتا، یا اُن سے فون پر کسی چیز کی درخواست کرتا، تو آپ بلاکسی تردد کے اس کو پورا پورا وقت دیتے، اور مطمئن کرکے لوٹاتے۔ طلبہ کے لیے موصوف کی یہ بے چینی آخری دور تک برقرار رہی، جب بھی نوجوانوں سے ملتے خوش ہوتے،ا ور ان کو ایسا قریب کرتے کہ پھر وہ آپ کا گرویدہ ہوکر رہ جاتا۔ ایس آئی او آف انڈیا سے انہیں بہت ہی گہرا لگاؤ تھا، جب بھی انہیں کسی پروگرام کے لیے دعوت دی جاتی، یا رفیق منزل کے لیے کوئی مضمون لکھنے کی گزارش کی جاتی، فوراََ ہی اسے قبول کرلیتے، اور بہت ہی حوصلہ افزاگفتگو کرتے۔ آپ ملت کی تعلیمی صورتحال کو دیکھ کر بہت بے چین رہا کرتے تھے، آپ نے ایک درجن سے زائد اسکولوں اور مدارس کا سنگ بنیاد رکھا، اور متعدد اسکولوں اور مدارس سے تاحیات کسی نہ کسی شکل میں وابستہ رہے۔ ملک کی معروف تحریکی درسگاہ جامعۃ الفلاح سے بھی انہیں گہرا لگاؤ تھا، جامعہ کا ترانہ آپ ہی کا لکھا ہوا ہے، آخری دور میں جامعہ کی تعلیمی وتربیتی صورتحال کے بارے میں سن کر آپ کافی بے چین نظر آتے تھے، جب بھی ملاقات ہوتی تھی، وہاں کے حالات کے بارے میں جاننا چاہتے، اور جامعہ کے تعلق سے تحریکی قائدین کے حسین خوابوں اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے۔
ادبی خدمات: شبنم سبحانی مرحوم اردوادب کے ایک مایہ ناز ادیب، ایک زبردست ناقد اور ایک بہترین شاعر تھے۔ شاعری کا آغاز ابتدائی عمر ہی میں کردیا تھا، تاہم اس میں بہت زیادہ طبع آزمائی نہ کرتے ہوئے نثری دنیا میں قدم رکھا، اور پھر اس میں بہت کچھ علمی وفکری سرمایہ تخلیق کیا۔ ادب میں بنیادی طور سے تنقید کے میدان میں آپ کی نمایاں خدمات رہی ہیں۔ آپ کے تنقیدی مقالات کے سات اہم مجموعے شائع ہوچکے ہیں: ’’ادب اور وابستگی، نقد نو عیار، افکار تازہ، کاوش نظر، آداب شناخت، نئی خوشبو نئے خواب، اورتراوش خیال‘‘۔ان مجموعات میں ادب اسلامی، دیگرادبی تحریکات ورجحانات، ادب کی مختلف اصناف، اور بعض معاصر ادباء وشعراء پر ۲۰۰؍سے زائد مقالات شامل ہیں۔ شاعری کم کرتے تھے،تاہم آپ کے یہاں آزاد اور پابند دونوں ہی طرز کی شاعری ملتی ہے، آپ کے دو شعری مجموعے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں: (۱) فکرانگیز (۲) طرب خیز۔ نثر میں آپ کی اہم کتابیں کچھ اس طرح ہیں: لکھنؤ کا شعروادب ثقافتی ومعاشرتی تناظر میں ۱۸۵۷ ء تک، لکھنؤ کے ادب کا ثقافتی ومعاشرتی مطالعہ ۱۹۴۷ ء تک، ہندوستانی تہذیب اور اردو، آزادی کے بعد اردو شعروادب، بیسویں صدی کے ادب کا تہذیبی جائزہ، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ آپ نے متعدد اہم دینی اور ملی موضوعات پر بھی تصنیفی کام کیا ہے، مثال کے طور پر: اسماء حسنی وکردار سازی، آزاد ہندوستان میں مسلم تنظیمیں، جلوے ہیں بے شمار(سفرنامہ حج)، جمہوریت اسلام دوستی اور اسلام، دہشت گردی اور اسلام، اسلام میں آداب اختلاف، وغیرہ۔
صحافتی خدمات:ڈاکٹر سیدعبدالباری شبنم سبحانیؒ کا ایک اہم میدانِ کار صحافت بھی تھا، آپ اردو صحافت سے بھی وابستہ رہے اور انگریزی صحافت سے بھی۔ ابتدائی دور میں ادارہ ادب اسلامی کے ترجمان ’دوام‘ کے مدیر رہے،اور اس کے کچھ عرصے کے بعد اپنا ایک ذاتی ماہنامہ ’دوام نو‘کے نام سے نکالا۔ بعد میں ادب اسلامی کی نمائندہ شخصیت جناب م۔ نسیم مرحوم کی ادارت میں شائع ہونے والے ادارہ ادب اسلامی کے ترجمان ’نئی نسلیں‘، اور اس کے بعد عزیز بگھروی کی ادارت میں شائع ہونے والے ’نمائندہ نئی نسلیں‘ اور اور پھر ماہنامہ ’پیش رفت‘ سے وابستہ رہے۔ پیش رفت میں آپ تقریبا دس سال تک مدیر بھی رہے۔ معروف شاعروادیب جناب انتظارنعیم صاحب کی مرتب کردہ ’روشنی بکھرتی ہے‘ میں پیش رفت کے لیے لکھے گئے آپ کے ۱۰۰؍سے زائداداریے ادب، سماج اور صحافت کے مضبوط رشتے کا ایک بہترین نمونہ اور شائقین کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے انگریزی ترجمان ’ویکلی ریڈیئنس‘ میں مدیر معاون اور آل انڈیا ملی کونسل کے ترجمان ماہنامہ ’ملی اتحاد‘ کے مدیر رہے۔ ملک کے معروف اردو رسائل وجرائد میں ادبی موضوعات کے علاوہ ملی، ملکی، اور بین الاقوامی مسائل پر سینکڑوں مضامین اور کالم لکھے۔ مرحوم چاہتے تھے کہ کسی طرح ملک وملت میں بیداری عام کی جائے، اور عصری مسائل کا شعور پیدا کیا جائے، چنانچہ وہ اس طرح کے مضامین خود لکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے، ایک شاگردکے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’ملی اتحاد میں عصری مسائل پر میں برابر لکھتا ہوں۔ عصری مسائل پر آپ بھی لکھنا شروع کریں‘‘۔ الغرض شبنم سبحانی جہاں بھی رہے ایک فکر اور ایک دھن کے ساتھ رہے، خود بھی مصروف جہدوعمل رہے اور دوسروں کو بھی متوجہ کرتے رہے۔ یقیناًادب کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی آپ کی خدمات قابل قدر اور اہمیت کی حامل ہیں۔
ملی وسماجی خدمات: ڈاکٹر شبنم سبحانی ابتدائی دور ہی سے بہت حساس تھے، ملک وملت کی صورتحال کو دیکھ کر کافی بے چین رہا کرتے تھے، اور فوری سے پیشتر اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ کر گزرنا جانا چاہتے تھے۔ جماعت اسلامی ہند میں آپ کی شمولیت کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، اور علیحدگی کے پیچھے بھی۔ ۱۹۶۴ ء میں محمد مسلم صاحب (ایڈیٹر دعوت) اورڈاکٹرسید محمود وغیرہ کی پیش رفت سے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا، تو اس سے وابستہ ہوگئے، یہاں بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، چنانچہ اس میں کافی سرگرم رہے، لیکن جب مشاورت سے کوئی امید باقی نہیں رہ گئی تو اس سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ بعد میں قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ اور ڈاکٹر منظور عالم وغیرہ کی کوششوں سے آل انڈیا ملی کونسل کا قیام عمل میں آیا، تو اس سے وابستہ ہوگئے، اور تاحیات اسی سے وابستہ رہے۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کی بھی آخر عمر میں ایک طویل عرصے تک صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے، لیکن سوء اتفاق کہ آپ کو یہاں وہ ٹیم نہیں مل سکی، جو کسی بھی اونچے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
سفر آخرت: آخری عمر تک شبنم سبحانی مرحوم دوڑتے بھاگتے ہی نظر آتے تھے، کبھی مرکز جماعت کی طرف دکھائی دیتے، تو کبھی آل انڈیا ملی کونسل کی طرف۔ کبھی کسی نوجوان کا ہاتھ پکڑے اس کی رہنمائی کرتے ہوتے، تو کبھی تیزتیز قدموں سے چلتے ہوئے کسی منزل کا پیچھا کررہے ہوتے۔ بالآخر یکم ستمبر ۲۰۱۳ ء کو ہمہ دم حرکت وعمل، ہمہ دم فکروجستجو، ہمہ دم منزل کی طرف رواں دواں تحریک اسلامی کا یہ مایہ ناز فرزند اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ آپ کی رحلت صحیح معنوں میں ادارہ ادب اسلامی ہند کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔آپ کے بعداِس حلقے میں دُور دُور تک کوئی ایسا قدآور رہنما نظر نہیں آتا، جو ہر حلقے میں یکساں طور پر اِس قدرمقبول اور متحرک و فعال نظر آئے،جس کو دیکھ کر یہ خیال یقین کی جگہ لے سکے کہ’’ ادب اور سماج میں بہت ہی گہرا رشتہ ہوتا ہے‘‘!! (ابن اسد)
سید عبدالباری شبنم سبحانیؒ
مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے جس پیغام کے تحت برصغیر ہند میں تحریک اسلامی کی بنیاد ڈالی تھی، اور جس نوعیت کا عظیم انقلاب ان کے پیش نظر تھا، اس کے لیے بہت ہی منظم، ہمہ جہت اور سخت جدوجہد…