سوشل میڈیا اور سیلفی کلچر کے خطرات

ایڈمن

شاداب موسیٰ، اورنگ آباد آج کی جدید اور تکنالوجی کے میدان میں تیزی سے ترقی کرنے والی دنیامیں ،یہ سیکھنے میں اچھا خاصا وقت صرف کیا جاتا ہے کہ ہمارے زندگی کے ہر پہلو میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور…

شاداب موسیٰ، اورنگ آباد

آج کی جدید اور تکنالوجی کے میدان میں تیزی سے ترقی کرنے والی دنیامیں ،یہ سیکھنے میں اچھا خاصا وقت صرف کیا جاتا ہے کہ ہمارے زندگی کے ہر پہلو میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور اس میں اضافہ کے لئے موجودہ ڈیجیٹل نظام کو کس طرح بہتر سے بہتر طورپر استعمال کیا جائے۔ کرئیر کے حوالے سے آجرین (Employers) تکنیکی مہارت(Technical Proficiency) کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ کارگاہ(workplace) کی لیاقت(efficiency)بڑھانے کیلئے موجودہ چیزوں کے گٹھ جوڑ سے نئے سسٹم کی سمت پیش قدمی کرتے ،اس سکڑتے جا رہے جاب مارکٹ میں جو افراد اس ڈیجیٹل سیلاب کا ساتھ دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں، اپنی مسابقت و اہمیت کھو دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور لوگوں کو جوڑنے والے آلات (networking tools)میںجدت(Innovation)نے جہاں ہمارے دوستوں اور خاندان سے بات چیت کیلئے درمیان کی تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں، وہیں ہماری سماجی زندگیوں کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ ہمارے پاس موجودنئے آلات(devices) کی وجہ سے ہمارےذہن ہمیشہ بھٹکے رہتے ہیں کیونکہ ہم آنے والے اپ ڈیٹس ، تبدیلیوں اور ڈھیر ساری معلومات کے بوجھ سے ہمیشہ الجھے رہتے ہیں، جو کبھی ختم ہوتے محسوس نہیں ہوتے۔ ہماری تمام حسیات ہر جانب سے ہمیشہ متحرک رہتی ہیں اور خاموشی و سکون کاایک لمحہ ملنا بھی نا ممکن دکھائی دیتاہے۔ہمیں اپنی ذات کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کیلئے وقت نہیں مل پاتا۔ ہم کیسا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں ، اس کو قریب سے دیکھنے کے بعد ہی ہم اپنے ذہنی ڈھانچے یا خیالات کے خاکےکو بدلنے کی قابلیت حاصل کر پاتے ہیں، جو ہمارے لئے مفید ہوتا ہے۔

ہمارے روحانی پہلو کے ساتھ سب سے گہرا تعلق ہمارے خیالات کا ہوتا ہے ۔ ایسا اسلئے کیونکہ خیالات طبعی دنیا سے پرے اپناوجود رکھتے ہیں۔ حالانکہ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص خیالات میں مگن ہے ،مگر وہ خیالات کیا ہیں یہ ہم نہیں جان سکتے۔ اللہ کے سوا ان خیالات سےکوئی واقف نہیں ہوتا۔اس بات کو بہتر طور پر سمجھنےکیلئے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ خیالات کس طرح مختلف مراحل سے گزر کر افعال بنتے ہیں۔

’’اپنے خیالات کی حفاظت کریں؛ وہ الفاظ بن جاتے ہیں۔ اپنے الفاظ پر توجہ دیں؛ وہ اعمال بن جاتے ہیں۔ اپنے اعمال کی نگرانی کریں؛ وہ عادات بن جاتے ہیں۔ اپنی عادات کو دیکھتے رہیں ،وہ آپ کاکردار بن جاتی ہیں ۔ اپنے کردار پر نظر رکھیں؛ یہ آپ کی تقدیر بن جاتا ہے۔‘‘ فرینک اوٹلا
سوشل میڈیا کے کلچر نے ایک فرد کو اپنی ذات اور اپنے خیالات کو پیش کرنے کے زبردست مواقع فراہم کر دیئےہیں ۔ آپ کیا سوچتے ہیں اور کیا کھاتے ، پیتے اور پہنتے ہیں وغیرہ سے لیکرآپ کیسے دکھتے ہیں (مختلف اپلیکیشنز کی مدد سےجو ایک فرد کودلکش اور خوبصورت بناکر پیش کرتی ہیں)، اور یہ نشہ آور ہے۔ فردکو یہ احساس بھی نہیں ہو پاتاکہ وہ کب اور کیسےاپنی ہی ذات کے نشہ میں گھر گیاہے۔ یہ ہمیں بگاڑدیتا ہے اور یہ خصوصاََ فرد کی غلط تصویر اور عموما زندگی کی غلط تشریح کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ہمیں بڑائی اور گھمنڈ میں مبتلا کرتا ہے حالانکہ ہم اسکے حقدار نہیں ہوتے۔ اور پھر فرد بڑائی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ فرد کو دینے کی بجائے صرف لینے کیلئے تیار کرتا ہے۔ یہ کاموں سے متعلق سنجیدگی کو تباہ و برباد کرتا ہے اور فرد کا رخ خود نمائی کی طرف موڑدیتا ہے۔ پھر فرد کی دلچسپی کا محور اسکی اپنی ذات بن جاتی ہے اور وہ باہمی تعاون کی اہمیت اور ضرورت سے نا آشنا رہتا ہے۔

اسکے نتیجے میں کچھ لوگ اپنے آپ کو بہت مخلص بنا کر پیش کرسکتے ہیں، ہو سکتا ہےکہ وہ ہر دلعزیز بن بھی جائیں تاکہ دوسروں پر غالب ہونے کے مواقع حاصل کر سکیں، لیکن اگر انہیں معمولی کاموں میں عام افراد کی طرح تعاون کرنے کیلئے کہا جائے تو وہ بالکل کنارہ اختیار کر لیں گے ۔ یہ ہے جو سوشل میڈیاکلچر ہم میں بھر دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے خیالات اور دماغ کواس بات کی تربیت دینا ہوگی کہ اپنی ذات پر مسلسل گہری نظررکھی جائے۔
اسلام کا مراقبہ کا تصورہماری زندگیوں کونظم و ضبط فراہم کرنےکیلئے ہمارے اذہان کی تربیت میں مدد کر سکتا ہے اور اس طرح ہماری عبادات اور روزمرہ کی سرگرمیوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس بات پر ایمان کہ اللہ ہمیں ہر آن دیکھ رہا ہے، مراقبہ کی بنیاد ہے۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے افعال، خیالات، جذبات اور دیگر اندرونی حالتوں کے بارے میں زیادہ متوجہ اور چوکنے رہتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے، ’’اور جان رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تو اس سے ڈرتے رہو‘‘ (البقرہ:۲۳۵)
ابن القیم اور الغزالی دونوں کی کتابوں میں مراقبہ کے فائدے اور حقائق سے متعلق باب موجود ہے۔اور یہ محض کوئی تجویز کردہ وصف نہیں ہے بلکہ یہ اعلی ترین روحانی مقام (احسان) کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ مشہور حدیث جبرئیل میں اللہ کے رسول ؐ نے روحانیت کے اعلی ترین مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا’’ اللہ کی عبادت اس طرح کرناگویا تم اسے دیکھ رہے ہو، یا اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ ضرور تمہیں دیکھ رہاہے۔‘‘ بالفاظ دیگر،روحانیت کا اعلی ترین مقام یہ ہے کہ آپ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ حاضر وناظر ہے۔یہ ایمان کا اعلی ترین مقام ہے۔

کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قرآن سوچنے اور غور و فکر کرنے کے روحانی عمل پر بہت زور دیتاہے۔قریباََ ۷۵۰ مقامات پر قرآن سوچنے و غوروفکر کرنے، اپنا احتساب کرنے، سننے اور دیکھنے پر اکسا تاہے۔ اسلامی روایات میں اکثر بیان کیا جانے والامراتب القصد(ارادہ کے مراحل) کاماڈل انسانی رویے کا ایک مکمل روحانی خاکہ فراہم کرتا ہے جو خیالات سے شروع ہو کر جذبات یا ارادہ سے گزرتا ہواافعال پر ختم ہوتا ہے۔پانچوںمراحل کی ترتیب اس طرح ہے۔
۱۔ الھاجس: ایک مختصر خیال جو فوراََآتا ہے اور فوراََ چلا جاتاہے۔
۲۔ الخاطر: وہ خیال جو ذہن میں آتا ہے اور فرد اس کے بارے میں سوچنے کا تہیہ کرتا ہے۔
۳۔ حدیث النفس:ایک اندرونی گفتگو،جس میں خیال کے اوپر پوری توجہ سے غور کیا جاتاہے۔
۴۔الھم: ایک ارادہ کا مقام یا جذباتی حالت،جس میں سوچنے کا عمل ارادہ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
۵۔العزم: کسی کام کو کرنے کا مضبوط ارادہ۔کوئی فرد ‘الھم ‘ کے مرحلے پر تو کسی کام کیلئے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہو سکتا ہےلیکن ‘عزم ‘کے مقام پر پہنچنے کے بعد ارادہ بالکل مضبوط ہوتا ہے۔
ارادہ کے مراحل عام طور پر اس نظم کے حوالے سے بیان کیے جاتے ہیں۔
مراتب القصد خمس ھاجس ذکروا
فخاطر فحدیث النفس فاستمعا
یلیہ ھم فعزم کلھا رفعت
سوی الاخیر ففیہ الاخذ قدوقعا

یہ قطعہ مشہور قرآنی مفسرآلوسیؒ(وفات ۱۲۷۰ ھ)نے روح المعانی میں درج کیا ہے۔
تزکیہ نفس کا پورا تصور انسانی خواہشات اور جبلتوں کو دیگراعلی صفات کے ذریعےقابو میں رکھنے کے گرد گھومتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک فرد اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ کون ہے؟من عرف نفسہ فقد عرف ربہ(جس نے اپنے آپ کو پالیا اس نے اپنے رب کو پالیا)۔ یہ مشہور جملہ خود شناسی کی اصل کو آشکار کرتا ہے۔ خود شناسی اپنے خدا کو پہچاننے کا اعلی ترین مقام ہے۔ لیکن خود شناسی اور خود پرستی کے درمیان بالکل خفیف سا فرق ہے۔ ابلیس اس کی بہترین مثال ہے،وہ خود پرستی میں اتنا بہہ گیا کہ غرور، تکبر، شیخی اور فخر میں مبتلا ہو کر رہا۔جو ٹھہری کفر / شرک کی بدترین شکلیں!
اسلام ایک مسلمان سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی نیت خالص اللہ کے لیے ہو اور یہ مشکل ترین کام ہے۔ اس مقام کو پہنچنے کے لیے خود پر زبردست قابواور خیالات و افعال کے حدود کی رکھوالی درکار ہوتی ہے۔ یہ شرک کی بد ترین شکل ہے کہ ہم اپنے نفس کی بندگی شروع کر دیں۔ عزت ہو یا ذلت، سب اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں اور ہمارے خیالات و اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم نام،شہرت اور مقبولیت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیں تو اللہ سے متعلق ہماری سنجیدگی کو سنگین خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور بد ترین انجا م کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ اس آیت میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّمَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
(آل عمران۔۲۶)
ابراہیمؑ کی سیرت میں اسکی بہترین مثال ملتی ہے۔سورہ بقرہ(آیت ۱۲۷) ہمیں وہ منظر دکھاتی ہے جب وہ اسمعیلؑ کے ساتھ کعبہ کی دیوار اٹھاتے ہو ئے دعا کرتے جا رہے تھے کہ اے اللہ اس خدمت کو قبول فرمالے۔ آیت میں جو عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ’’تقبّل‘‘ ہے جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا اصل مطلب ہے ‘اے اللہ اسے مکمل طور پر قبول فرمالے۔ پیغام ہمارے لیے واضح ہے،کوئی بھی کام جو ہم انجام دیتے ہیں وہ کامل نہیں ہوتا،ہم کامل نہیں ہیں۔لیکن معاملہ جیسا بھی ہو،اللہ قبول فرماتا ہے۔ ابراہیمؑ ساری دنیا کے امام بنائےگئے۔ قرآن کے مطابق ابراہیمؑ وہ شخص تھے جنہوں نے اللہ کی طرف سے کی گئی ہر آزمائش کو ممکنہ کاملیت کے ساتھ پورا کیا۔ جس خوبصورت انداز اور عاجزی کے ساتھ ابراہیمؑ نے اپنا یہ عظیم کام اللہ کی خدمت میں پیش کیا وہ ہمیں اپنے معمولی کاموں اور خدمات کو پیش کرنے کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے۔

سوشل میڈیا اور سیلفی کلچر ایک چھوٹے اور معمولی سے کام کو بھی بہت بڑا اور ہماری ذات کو سب سے اہم بناکر پیش کرتا ہے۔ بھلے ہی ہم سب کے سامنے اتنے فخر سے یہ ناکہہ سکیں، لیکن ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے ’’میں تو اتنا عظیم اسلامی کام کر رہا ہوں۔‘‘ لیکن ہمیں کیسے پتہ چلے؟اور تب ہم دیگر لوگوں اور ان کی کوششوں کو نیچی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو پورے اطمینان کےساتھ اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ یہ گویا اس طرح ہے، ’’دین کی خدمت کرنا لیکن اپنی انا کی بندگی کرنا۔‘‘

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں