ڈاکٹر سلیم خان
ایس آئی اوکا جماعت سے ویسا ہی تعلق ہے کہ جیسا اے بی وی پی کا آر ایس ایس سے ہے اسی لیے لوگ ان طلباء تنظیموں کے اندر تربیت کے اثرات دیکھتے ہیں ۔ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے برطانیہ میں اعلان کیا کہ ’دنیا میں اسی وقت ترقی کے نتائج سامنے آئیں گے جب دنیا کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا یکساں طور احترام کیا جائے گا۔ ہندوازم ایک ایسا مذہب ہے جس میں رواداری کی بیحد گنجائش ہے‘‘۔ اس دعویٰ کی قلعی اس وقت کھل گئی جب الہ باد یونیورسٹی کے یونین انتخابات میں اے بی وی پی کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ جنرل سکریٹری کے علاوہ چاروں اہم عہدوں پر اس کے امیدوار ہار گئے صدر اور جوائنٹ سکریٹری سماجوادی کی چھاتر سبھا بنا اور نائب صدر و کلچرل سکریٹری کے عہدے این ایس یو آئی کے حصے میں چلے گئے۔
ان نتائج کے اے بی وی پی والے اپنی مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلباء کے فیصلے کو بخوشی قبول کرلیتے اور یونیورسٹی کی ترقی میں لگ جاتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ سب سے پہلے ہالینڈ ہال میں سابقہ صودر اویناش یادو اور نومنتخب صدر اودے پرکاش یادو سمیت ۸ کمروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ کے پی یو سی ہاسٹل کے پاس ایک بم دھماکہ ہوا جس میں پولس انسپکٹر ونیت سنگھ زخمی ہوگئے۔ پرتشدد ہجوم کو قابو میں کرنے کے لیے ایس ایس پی کو خود جائے واردات پر پہنچنا پڑا۔ ۲۰ طلباء کے خلاف شکایت درج کی گئی اور ۴ کو آگ زنی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ شکست خوردہ اے بی وی پی کے لیڈر اتیندر سنگھ کے ساتھی اس تشدد میں ملوث تھے ۔ بھاگوت جی نے تو راجستھان میں جہاں ہجومی تشدد کے سب سے زیا دہ واقعات رونما ہوئے ہیں کہا تھا کہ’’ جن لوگوں کو گائے سے عقیدت ہے انہیں تشدد میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اگر چہ ان کے جذبات کو گہری ٹھیس پہنچے‘‘ لیکن اے بی وی پی والوں پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔
الہ باد میں تو خیر اے بی وی پی والے سیدھے سیدھے ہار گئے مگر دہلی یونیورسٹی میں تو ان جیت ہار میں اس طرح بدلی کہ ناک ہی کٹ گئی ۔ ڈی یو برسوں سےاے بی وی پی کا گڑھ ہے وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے وہیں سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا ۔ پچھلے سال پہلی مرتبہ دہلی یونیورسٹی میں این ایس یو آئی کے مقابلے اے بی وی پی کی پکڑ قدرے ڈھیلی ہوئی تو اس سال اے بی وی پی نے بڑی محنت کرکے دوبارہ اپنا لوہا منواکر طلباء یونین پر گیروا پرچم لہرا دیا۔دہلی یونیورسٹی طلباء یونین کےصدارتی عہدے کے لیے اس بار بھاری اکثریت کے ساتھ اے بی وی پی کے امیدوار انکیو بسویا نے کامیابی درج کرائی ۔ انکیو نے دہلی یونیورسٹی کے ایم اے میں داخلہ لینے کے لئے تروولّر یونیورسٹی کی گریجویشن کی ڈگری پیش کی تھی۔ انتخاب کے بعد کانگریس کی طلبہ یونین نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے الزام لگایا کہ بسویا کی مارکشیٹ جعلی ہے۔ آرایس ایس کی حمایت یافتہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) ان الزامات کی پرزورتردید کی ۔ اسے امید تھی کہ جس طرح بی جے پی کی مرکزی حکومت نے سمرتی ایرانی اور نریندر مودی کو بچالیا تھااسی طرح کا معاملہ ان کے ساتھ ہوگا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا بلکہ ’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘ ۔
اس تنازع کے منظر عام میں آنے پرمعاملے کے جانچ کے احکامات دیئے ۔ڈی یو کے استفسار پرتروولّریونیورسٹی کے رجسٹرارنے اطلاع دی کہ دہلی یونیورسٹی طلبہ یونین (ڈی یو ایس یو) کے نومنتخب صدر انکیو بسویا مذکورہ یونیورسٹی کے میں کبھی زیرتعلیم نہیں تھے۔ انہوں نے لکھا ’’میں بتانا چاہتا ہوں کہ انکیو بسویا نے ہماری یونیورسٹی یا یونیورسٹی سے ملحق کسی بھی کالج میں کبھی بھی داخلہ نہیں لیا اورنہ ہی ہمارے طالب علم رہے ۔ ان کی طرف سے پیش کردہ سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ وہ ہماری یونیورسٹی کی طرف سے جاری شدہ نہیں ہیں ‘‘۔ یہ ہے سنگھ کے سنسکار کا ایک نمونہ ۔ ۹۰ سال پرانی اس تنظیم کو دہلی طلباء یونین کا صدر بنانے کے لیے جو امیدوار ملا تو وہ جعلساز نکلا۔ یہی شخص آگے چل کر اگر ہندوتوا کا علم بلند کرکے وزیرخزانہ یا وزیراعظم بن جائے تو دھوکہ دھڑی نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟
مودی جی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب کسی اے بی وی پی کے دانشور کو انسانی وسائل کے فروغ کا وزیر یعنی وزیرتعلیم نہیں بنایا تو لوگوں کو تعجب ہوا۔ مودی جی دراصل اندر کی بات جانتے تھے ۔ انہیں پتہ تھا کہ ان میں سے کتنوں کی ڈگری اصلی اور نقلی ہے اس لیے سمرتی کو بنادیا لیکن اس اداکارہ کی ڈگری بھی فرضی نکل گئی ۔ سمرتی ایرانی نے ۲۰۰۴ کے لوک سبھا انتخابات میں نامزدگی کاغذات داخل کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے ۱۹۹۶ میں فاصلاتی کورس کے ذریعے سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔اس کے بعد ۲۰۱۱کے راجیہ سبھا انتخابات میں انہوں نے بتایا کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے اسکول آف اوپن لرننگ (ایس او ایل ) سے بی کام پاس (فرسٹ ایئر) ہیں۔یہ متضاد باتیں حلف نامہ میں تھیں۔ اس معاملے پر پٹیالہ ہاؤس عدالت نے ایرانی کو سمن جاری کرنے سے یہ کہہ کرانکار کر دیا کہ یہ مطالبہ ایک خاتون وزیر کوتنگ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ سمن جاری نہیں ہوئے لیکن ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ ان دو متضاد معلومات میں کون سی درست تھی ؟ انہوں نے اپنے حلف نامہ میں یہ گمراہ کن معلومات کیوں فراہم کیں ؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟اس بابت قرار واقعی فیصلہ اقتدار سے محرومی کے بعد ہی ہو سکے گا الاّ یہ کہ مودی جی خود ان سے پیچھا چھڑانا چاہیں ۔
سمرتی ایرانی تو کجا یہاں تو وزیراعظم کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ مودی جی کا دعوی ہے کہ انہوں نے سال ۱۹۷۸ میں دہلی یونیورسٹی کے اسکول آف اوپن لرننگ (ایس او ایل) سے گریجویشن کیا ہے لیکن جب ایس او ایل سے دریافت کیا گیا تو اس کا جواب تھا کہ مذکورہ سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ مودی جی کے خلاف انکیو بسویا کی سی حقیقت بیانی کرکے کون اپنے آپ کو جسٹس لویا کے انجام سے دوچار کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ معلومات کے بنیادی حق (آر ٹی آئی) کے تحت جب معلومات طلب کی گئی تو بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے ڈین (امتحان)، او ایس ڈی (امتحان) اور جوائنٹ رجسٹرار (ڈگری) سے حاصل معلومات کے مطابق یونیورسٹی میں پڑھائی کرنے والے طالب علم کی معلومات ایک نجی نوعیت کی ہے، جسے عوامی نہیں کیا جا سکتا۔ اسے صرف متعلقہ طالب علم کو ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی معلومات کا کسی عوامی مفاد کی سرگرمی سے تعلق نہیں ہے۔ اسے قانون کی دفعہ ۸ (۱) (جے) کے تحت استثناء حاصل ہے۔ کاش کے انکیو بسویا کی بابت بھی یہی جواب آتا اور اس کی خلاصی ہوجاتی لیکن ہر کوئی ہر ہر مودی اور گھر گھر مودی تو نہیں ہوسکتا ۔ یعنی گول مال تو سب کرسکتے ہیں لیکن ہر کوئی بچ نہیں سکتا۔ ان واقعات سے آر ایس ایس کی چال ، چرتر اور چہرہ سامنے آجاتاہے۔ سنگھ پریوار کےبسویا جی اور مودی جی نے غلطی تو یکساں کی ہے لیکن پھر ’کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے‘۔
آرایس ایس کے سر سنگھ چالک نے پچھلے دنوں وگیا ن بھون میں موجود عمائدین وطن سے کہا تھا کہ آپ لوگ ہمیں قریب سے دیکھیں کہ ہم کیا کرتے ہی؟ کیسے کام کرتے ہیں ؟ اور پھرہمارے بارے میں اپنی رائے بنائیں ۔ یہ ایک خوش آئند دعوت تھی اور اس میں بلا کا اعتماد تھا لیکن اس سے قبل کے لوگ موہن بھاگوت جی کی تلقین پر لبیک کہہ کر قریب سے مشاہدے کا آغاز کرتے انہیں دور ہی سے سنگھ کے مستقبل اے بی وی پی نے ایک چونکا دینے والا نظارہ کروادیا ۔ اے بی وی پی سنگھ کی گود میں پرورش پانے والے طلباء تنظیم ہے جس میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ اساتذہ اور طلباء شامل ہیں ۔ یہ سیاسی و عوامی تنظیم نہیں سنگھ کی فکری و نظریاتی وراثت کی امین ہے ۔ اس کے اندر پڑھے لکھے اور دانشور سنگھی موجود ہیں اس لیے بی جے پی کے مقابلے اے بی وی پی والوں میں سنگھ کے سنسکار زیادہ نمایاں ہوتے ہیں لیکن اگر وہاں بھی الہ باد جیسی عدم روداری اور دہلی جیسی دھوکہ دھڑی موجود ہو تو بی جے پی اور بجرنگ دل کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔