نریندر مودی نے مئی ۲۰۱۴ میں جب اکثریتی حکومت این ڈی اے کی کمان سنبھالی تو بہت سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کئے۔ جس کی وجہ سے عوام کی امیدیں حکومت سے وابستہ ہوگئیں۔ ایسے لگتا ہے اب عوام کی وہ امیدیں ٹوٹنے لگی ہیں۔ ۴۰ مہینوں کے اس دورِ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ وعدے اور دعوے صرف خام خیالی تھے۔
وزیر اعظم کے ذریعہ ایک ۵ رکنی معاشی مشاورتی مجلس (Economic Advisory Council) کا قیام کیا گیا۔ اس نے قیام ہوتے ہی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کی معاشی صورت حال ڈگمگائی ہوئی ہے۔ مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ لیکن اس کمی کے باجود حکومت ہند نے پیٹرول کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ بلکہ وقتاً فوقتاً پیٹرول کی قیمتیں بڑھتی رہی۔ دوسری جانب پچھلے کچھ سالوں میںاچھے مانسون کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ درج کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صارفی قیمتوں کا اشاریہ CPI میں کمی واقع ہوئی۔ زرعی پیداوار میں اجافہ کی مناسبت سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی مطلوب تھی۔ لیکن اس کے برعکس اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اچھال دیکھنے کو ملا۔ GDP یعنی مجموعی گھریلو پیداوار میں 7.5% سے 5.7% تک گذشتہ دو سالوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح صنعتی پیداوار ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔
اس کا اندازہ ہم صنعتی پیداواری اشاریہ IIP کے ذریعے لگاتے ہیں2014-15میں 51% تھی جو 2015-16 میں 33% پر آگئی۔ 2016-17 میں اس میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مودی جی نے ملکوں ملکوں جاکر سرمایہ داروں کا ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت تو دی مگر ان دعوتوں کے نتیجہ میں ملک میں سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بے روزگاری ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔2004 سے 2012 کے درمیان روزگار کی شرح 1% تھی۔ جبکہ 2012 کے بعد سے اس شرح میں قابل لحاظ کمی واقع ہوئی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلوں کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت خطرناک حد تک متاثر ہوئی ہے۔ جس کا اظہار حال ہی میں ملک کے تین سابق وزرائے مالیات کر چکے ہیں۔
اس کے برعکس کارپوریٹ سیکٹر بہت خوش ہے۔ یکے از بعد دیگرے ان کے لئے سہولیات اور آسانیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ لگژری ٹیکسیس کو کم کردیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری کرنے کے لئے لال فیتہ شاہی کم کرنے کے نام پر بے محابانہ آزادیاں فراہم کی جا رہی ہیں۔ جو ماحولیاتی اور سماجی بحران بڑے سرمایہ کاروں کی وجہ سے پیدا ہونے کا امکان ہے اس کو نظر انداز کرکے ان کو مختلف قسم کی مراعات فراہم کی جا رہی ہیں۔ عوام اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور اسے الجھائے رکھنے کا مکمل انتظام کیا جا رہا ہے لیکن کارپوٹس کو ہر ممکن ذریعے سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ دولت اور طاقت کا کھیل دیکھنا ہے کب تک جاری رہتا ہے۔