پروفیسر عبیداللہ فراہی
کسی قوم کا زوال اس کی روحانی طاقت کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ جب تک اس کی روح میں زندگی اور طاقت و قوت رہتی ہے اپنے اعضاء کو آپس میں جوڑے رکھتی اور انہیں فعال بنائے رہتی ہے۔ اور جب اس میں انحطاط آجاتا ہے تو اس کی جسمانی طاقت گھٹنے اور کمزور ہونے لگتی ہے۔ یہا ں تک کہ تمام اعضاء آہستہ آہستہ اپنا کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ تمام قوموں کا زوال ایسے ہی ہوا ہے اور مسلمانوں کے زوال کا سبب بھی یہی ہے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے ربط باہم میں خلل واقع ہوا، ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور ان کی جمعیت میں دراڑ پڑگئی۔ ان کی تلواریں ایک دوسرے کے خلاف نیام سے باہر آگئیں۔ اس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبے میں خبردار کیا تھا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُم مُّسْلِمُونo وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنْتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَo وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلٰی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلٰءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَo وَلاَ تَکُونُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلٰءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo
(آل عمران:102-105)
ان آیتوں میں جو امور بیان ہوئے ہیں ان ہی پر اسلام کی بنیاد ہے جس سے تمام مسلمان بخوبی واقف ہیں۔ اس کے باوجود اہل کتاب ہی کی طرح وہ بھی تفرقہ میں پڑگئے اور ان کے درمیان نفرت اور بغض و عداوت کی آگ ایسی بھڑی جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
عوام میں اختلاف کے ذمہ دار ان کے علماء ہیں۔ بنی اسرائیل کے صحیفوں میں ان کے اختلافات کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ ان کے نبی یرمیاہ علیہ السلام فرماتے ہیں:
”خداوند فرماتا ہے ان چرواہوں پر افسوس ہے جو میری چراگاہ کی بھیڑوں کو ہلاک اور پراگندہ کرتے ہیں۔“ (یرمیاہ:23:01)
”……یقینا زمین بدکاروں سے پُر ہے۔ لعنت کے سبب سے زمین ماتم کرتی ہے۔ زمین کی چراگاہیں سوکھ گئیں کیوں کہ ان کی روش بری اور ان کازور ناحق ہے۔ کہ نبی اور کاہن دونوں ناپاک ہیں۔ ہاں میں نے اپنے گھر کے اندر ان کی شرارت دیکھی،خداوند فرماتا ہے۔ اس لیے ان کی راہ ان کے حق میں ایسی ہوگئی جیسے تاریکی میں پھسلنی جگہ۔ وہ اس میں رگیدے جائیں گے۔“
(یرمیاہ،23:10-12)
”…… رب الافواج یوں فرماتا ہے ان نبیوں کی باتیں نہ سنوں جو تم سے نبوت کرتے ہیں۔ وہ تم کو بطالت کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں کے الہام بیان کرتے ہیں نہ کہ خدا کے منہ کی باتیں۔“ (یرمیاہ، 23:16
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں:
”فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ پس وہ جو کچھ بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیوں کہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں …… وہ اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے تعویذ بڑے بناتے ہیں اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔ اور ضیافتوں میں صدرنشینی اور عادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں، اور بازاروں میں سلام، آدمیوں سے ربِّی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ مگر تم ربی نہ کہلاؤ کیوں کہ تمہارا استاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو…… اور نہ تو ہادی کہلاؤ کیوں کہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے۔ …… اور جو کوئی اپنے کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔“ (متّٰی کی انجیل، 23:02-13
اپنی پہلی تعلیم میں شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیوں کہ وہ تسلی پائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیوں کہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو راست بازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیوں کہ وہ آسودہ ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیوں کہ ان پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیوں کہ وہ خدا کو دیکھیں گے…… مبارک ہیں وہ جو راست بازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں۔ کیوں کہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہوگے۔ خوشی کرنا اور نہایت شادماں ہونا کیوں کہ آسمان پر تمہارا بڑا اجر ہے۔ اس لیے کہ لوگوں نے ان نبیو ں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا۔“ (متّٰی، 5:04-12)
حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم اور اس کے اثر کو دیکھ کر یہود کے دلوں میں ان کے خلاف بغض و عداوت کی آگ ایسی بھڑکی کہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔ چنانچہ اللہ کی امان ان کے اوپر سے اٹھ گئی اور وہ اس کی لعنت اور قہر و غضب کی لپیٹ میں آگئے۔
مسلمانوں نے بھی تمام تنبیہات کے باوجود ان ہی کی روش اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو یہود کے ساتھ کیا تھا۔ کیوں کہ اس کی سنت سب کے لیے یکساں ہے اور حق و عدل پر مبنی ہے۔ مختلف اقوام و ملل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ پہلے انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے، عزت اور عروج بخشتا ہے، اور جب وہ سرکشی کرنے لگتی ہیں اور اس عقل سے کام لینا چھوڑ دیتی ہیں، جو ان کے اندر فطری طور پر ودیعت ہے تو ہدایت کی روشنی ان کے لیے تاریکی بن جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اپنی عطاء و بخشش سے محروم کردیتا ہے، یہاں تک کہ صفحہئ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ پھر ان کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوتا۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد اخلاقی محاسن ایک ایک کرکے اس کے اندر سے رخصت ہونے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بے حس اور بے غیرت بن جاتی ہے کیوں کہ اس کی روح مردہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا زوال مکمل ہوجاتا ہے اور وہ قعر مذلت میں ڈھکیل دی جاتی ہے۔
سورہ ہود کے آخر میں فرمایا ہے:
وَإِنَّ کُ لاًّ لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ رَبُّکَ أَعْمَالَہُمْ إِنَّہُ بِمَا یَعْمَلُونَ خَبِیْرٌo فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْا إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌo وَلاَ تَرْکَنُوْا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَo (ہود،111-113)
بعض لوگ مسلمانوں کے مسائل کا حل سیاست میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کئی بار انہوں نے سیاسی تحریکیں شروع کیں لیکن ناکامی اور نامرادی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ کیوں کہ سیاست طاقت اور حکومت کے تابع ہوتی ہے۔ بغیر طاقت کے سیاست کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ ایک کمزور، بے بس، بکھری ہوئی اور پس ماندہ قوم کو ان کی رہبری کا دعویٰ کرنے والے نہ جانے کن وادیوں میں انہیں بھٹکاتے پھر رہے ہیں۔
اس سے زیادہ خراب حالات تھے جب ملت کے علماء اور اہل فکر نے مسلمانوں کو سنبھالنے اور زمین پر ان کے قدم جمانے کے لیے تعلیم کی راہ چنی تھی تاکہ وہ وقار کے ساتھ جی سکیں اور اپنے مسائل حل کرنے کے لائق بنیں۔
ان کا تعلیمی تصور آج بھی اتنا ہی مفید اور کارآمد ہے جتنا کہ اس وقت تھا، البتہ اس کے تحت چلنے والے ادارے خود کفیل اور اپنے بل بوتے پر قائم نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کے اساتذہ اور طلبہ میں وہ خودداری اور خود اعتمادی نہیں ہے جو فی الاصل مطلوب ہے۔ ان اداروں کے ذمہ دار کوشش کریں تو انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔ دوسروں پر تکیہ کرنے اور ادھر ادھر کے سہارے ڈھونڈنے میں خود ان کی بھی ذلت اور رسوائی ہے۔ ان کے ادارے دوسروں کے دست نگر ہوں گے تو ان کے اساتذہ اور طلبہ آزاد فکر کے حامل کیسے بن سکتے ہیں اور آزادانہ طور پر کیسے جی سکتے ہیں؟ پھر دوسروں کے لیے وہ نمونہ کیا بن پائیں گے۔
اہلِ مدرسہ جس طرح کی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نمود و نمائش کی چیزوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے دوڑ لگا رہے ہیں، اس سے یہ امید نہیں پیدا ہوتی کہ اپنے اصل مسائل کے حل کی طرف وہ متوجہ ہوں گے۔
خانہئ شرع خراب است کے ایں ارباب صلاح
در عمارت گری گنبد دستار خود اند
ہماری سربلندی کے لیے اللہ تعالیٰ نے سچے ایمان کی جو شرط رکھی ہے (آل عمران:139)، اگر ہم اسے پورا کرنے والے نہیں بنتے ہیں تو ہماری مثال کشتی کے اس مسافر جیسی ہوگی جو سمندر کی طوفانی لہروں کے بیچ میں بغیر ملاح اورپتوار کے تنہا رہ گیا ہو اور کوئی اس کی پکار کو سننے اور مدد کے لیے آنے والا نہ ہو۔
دورِ قدیم کے ایک عالم دین سے ان کے کسی شاگرد نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو فرمایا کہ اگر اہلِ ایمان میں سے ہو تو تمام صالحین تمہارے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر اہلِ ایمان میں سے نہیں ہو تو چیخ پکار ڈوبنے والے کو نہیں بچاسکتی۔
سورہ عنکبوت میں فرمایا:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنo (العنکبوت:2-3)
حضرت عیسیٰ نے اپنی پہلی تعلیم میں جو بات کہی تھی وہ قرآن مجید میں بعض اضافوں کے ساتھ کئی جگہ آئی ہے۔ سورہ آل عمران میں ہے:
إِن یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہُ وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَیَتَّخِذَ مِنکُمْ شُہَدَاء وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَo (آل عمران:140)
سورہ انعام میں ہے:
وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَأُوذُوْا حَتَّی أَتَاہُمْ نَصْرُنَا
(الانعام: 34)
سورہ اعراف فرمایا ہے:
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا (الاعراف:137)
بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مصائب سے نجات دی اور انہیں عروج بخشا۔
تمام قوموں کی طرح ہمارے لیے بھی اس نے اسی کو کامیابی کا زینہ بنایا ہے۔ فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَأَنفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرّاً وَعَلاَنِیَۃً وَیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ أُوْلَءِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِo (الرعد:22)
یہاں اللہ کی رضا جوئی کو صبر اور دوسری تمام نیکیوں کی بنیاد قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ ہماری فلاح و کامرانی اسی میں مضمر ہے۔ کیوں کہ یہ ہر چیز کی اصل ہے۔ ہمارے اندر اخلاص اور نیک نیتی پیدا کرتی ہے، صحیح راستہ پر لے جاتی ہے، ظلم اور فساد سے روکتی ہے۔ قلب کو روشن کرتی ہے اور اسے غافل نہیں ہونے دیتی۔ عقل کو درست رکھتی ہے اور اسے کج نہیں ہونے دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر ہماری فطرت کو استوار کیا ہے اور پوری طرح واضح کردیا ہے کہ ساری عقل مندی اللہ کی رضا جوئی میں ہے۔ اور اگر رضائے الٰہی مقصود نہ ہو تو ہمارے سارے کام محض حظِ نفس کے لیے اورنتیجتاً بے عقلی کے ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ جس طرح ہمارا عروج اسے عزیز رکھنے اور ہر چیز پر اسے ترجیح دین کی بنا پر ہوا تھا اسی طرح ہمارا زوال اس سے بے پروا ہوجانے اورخواہش نفس کو اس پر ترجیح دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔
اس وقت جو صورتِ حال ہے اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے پورا عالم انسانیت اپنے زوال کے آخری دور سے گزر رہا ہے۔ اس سے زیادہ پستی اور زبوں حالی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے حالات سے ہم پہلے کبھی دوچار نہیں ہوئے تھے جس میں دشمنوں سے دوستی قائم کرنے، رہزنوں سے رسم و راہ رکھنے، قاتلوں کو مسیحا کہنے اور ان کی شرطوں پر جینے کے لیے ہمیں مجبور ہونا پڑا ہو۔
ساری دنیا پر حکمرانی ان کی ہے۔ زمین ان کی ہے، آسمان ان کا ہے۔ تمام اسباب و وسائل ان کی مٹھی میں ہیں۔ سامانِ زندگی وہ فراہم کرتے ہیں، جینے کے انداز اور آداب وہ بتاتے ہیں، قانون ان کا چلتا ہے، فیصلے وہ صادر کرتے ہیں، ان کا فرمان سب کے لیے واجب الاذعان ہے۔
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
ہم نہیں جانتے کہ ان کے ظلم کی رسّی کتنی دراز ہے، اور ان کے جوروستم کی انتہا کیا ہے۔ اور کتنے دن انہیں من مانی کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ پتہ نہیں یہ خدا کا قہر ہے یا ہماری آزمائش کی کوئی سخت کڑی؟ آخر اس تاریک رات کی کبھی سحر ہوگی بھی یا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہی ہمارا مقدر ہے؟ ابھی تو روشنی کی ہلکی سی کرن بھی کہیں سے نظر نہیں آرہی ہے۔
ومن لم یجعل اللّٰہ لہ نوراً فما لہ من نور۔