زاد راہ

ایڈمن

مولانا سید جلال الدین عمری فروری ۲۰۱۸ء میں ایس آئی او کی کل ہند کانفرنس کا اختتامی خطاب الحمد للہ رب العلمین۔ والصلوۃ و السلام علی سید المرسلین وعلی آلیہ واصحابہ اجمعین۔ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ اما بعد! نوجوان…

مولانا سید جلال الدین عمری

فروری ۲۰۱۸ء میں ایس آئی او کی کل ہند کانفرنس کا اختتامی خطاب

الحمد للہ رب العلمین۔ والصلوۃ و السلام علی سید المرسلین وعلی آلیہ واصحابہ اجمعین۔ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ اما بعد!
نوجوان دوستو اور ساتھیو!
عزیز طالبات اور محترم خواتین!

یہ تین روزہ کانفرنس کا اختتامی اجلاس ہے۔ اس وقت اس آخری سیشن میں کہا گہا ہے کہ زاد راہ کے طور پر کچھ باتیں عرض کی جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سہ روزہ کانفرنس میں زاد راہ آپ کو مل چکی ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کر سکیں تو انشاءاللہ آپ اس دنیا میں کام یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی کام یاب ہوں گے۔

عزیز نوجوانو اور دوستو!
آپ سے ملنے کے بعد جی چاہتا ہے کہ گھنٹوں آپ سے باتیں ہوں۔ باتیں اتنی ہیں کہ شاید سورج غروب ہونے لگے گا، لیکن اس کا یہ موقع نہیں ہے۔ آپ سے یہ بات کہنی ہے کہ بلا شبہ آپ اس ملک کی ایک طاقت ہیں اور اس کے پیچھے جماعت اسلامی ہے۔ اس وجہ سے آپ کا وزن بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ کہا گیا آپ کی نگاہ بہت دور رَس ہونی چاہیے۔ آپ آج تھوڑے ہیں، اگر آپ ہندوستان کی آبادی کا لحاظ کریں تو بہت تھوڑے ہیں۔ ایک سو پچیس اور ایک سو تیس کروڑ کے اندر آپ کی تعداد کتنی ہے۔ لیکن قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ آپ چاہیں چند ایک ہوں،اب تو آپ الحمد للہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ آپ کا منصوبہ اور آپ کا وژن بڑا ہونا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں نبیؐ مکہ میں تھے اور آپ کے ساتھ چند صحابہ تھے اور انتہائی مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہمدردی کے کلمات کہنے والے لوگ بھی کم ہی تھے۔ اس پس منظر میں آپ سے کہا گیا :
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً ( الفرقان: ۱)
’’اللہ کی ذات بڑی با برکت ہے، اس نے اپنے بندے پر حق و باطل واضح کرنے والی کتاب نازل کی ہے۔ تاکہ ساری دنیا کو ڈرائیں‘‘۔
اسے کہتے ہیں وژن۔ اسے کہتے ہیں تصور۔ چند انسانوں کے درمیان یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ آپ کو ساری دنیا کو راہِ حق دکھانا ہے۔ جب تک اتنا بڑا تصور آپ کے سامنے نہ ہو، دنیا میں کوئی کام آپ نہیں کر سکتے۔

نبی ؐ جب دعوت دے رہے تھے تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ اس کی وجہ سے ہمارے علاقے میں مکہ کے اندر فساد پیدا ہو گیا ہے۔ ان کو ختم کرنا چاہیے۔ اس پس منظر میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (سورۂ الانبیاء: ۱۰۷)

اس سے بڑا وژن کوئی اور ہو سکتا ہے۔ قرآن نے کہا کہ ان نادانوں کو معلوم نہیں ہے۔ آپ تو ساری دنیا کی لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ قرآن میں بے شمار واقعات میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ کا وژن بہت وسیع ہونا چاہیے۔ آپ اس ملک کی آبادی کے لحاظ سے بہت تھوڑے ہیں، مٹھی بھر ہیں کہہ لیجیے۔ ہمارے بعض دوستوں نے صحیح کہا کہ ہماری تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیے۔ یقیناً ہونی چاہیے۔ جتنی ہوگی وہ کم ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود آپ اس تصور کے ساتھ آئیے کہ آپ دنیا کے سامنے بڑا پیغام دے رہے ہیں۔ آپ جتنے ہیں اس تصور کی جیسے بلند ہونے چاہیں۔ اور شکر ہے خدا کا کہ آپ دنیا کے سامنے ایک تصور کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ جو قرآن نے جگہ جگہ کہا کہ اللہ کے رسول رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں یا قرآن ساری دنیا کے لیے پیغام ہے، یہ مٹھی بھر انسانوں کے ذریعہ اعلان تھا۔ یاد رکھیے اس وژن کے ساتھ اس دنیا میں رہیے۔ اور جتنے ہیں آپ ، آپ کو یہی کام کرنا ہے۔ آپ محدود نظر کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ بلا شبہ آپ ایک طاقت ہیں ، کون انکار سکتا ہے اس کا۔ آپ کی طاقت کا ثبوت مختلف مواقع پر ملا ہے۔ بہت سے دوستوں نے اس کے حوالے بھی دیے ہیں، لیکن یاد رکھیے قرآن بھی ایک طاقت ہے۔ لیکن وہ طاقت تھی کہ وہ دنیا کے لیے ایک چیلنج بن کر آیا۔ قرآن کھولیے ۔ ابتدا ہی میں کہا گیا ہے
وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن(البقرۃ: ۲۳)
اگر تمھیں شک و شبہ ہے اس کتاب کے بارے میں جو ہم نے اپنے پیغمبر پر نازل کی ہے تو ایسی ایک سورت تم بھی پیش کر کے دکھاؤ۔ اور تمہارا یہ خیال ہے کہ تم نہیں کر سکتے جو تمہاری مدد کر سکتے ہیں ان سب کو جمع کر لو اور اگر ایسا پیش نہیں کر سکتے تو سمجھ لو کہ حق کا نکار کر رہے ہو۔ اور حق کے انکار کا نتیجہ بڑا برا ہوگا۔

قرآن نے کہا کہ یہ چیلنج جو اس نے پہلے ہی قدم پر دیا۔ آپ چیلنج نہیں بن سکے ہیں اس ملک کے لیے۔ آپ چیلنج بن جائیے۔ اس کے بغیر دنیا میں کوئی تحریک کام یاب نہیں ہوتی۔ وہ تحریک کام یاب ہوتی ہے جو چیلنج بن جائے۔ اور قرآن میں یہ آیت چانچ سات بار مختلف مواقع پر کہی گئی ہے۔ مکہ میں بھی کہی گئی اور مدینہ میں بھی کہی گئی۔ کہ یہ چیلنج ہے۔ آپ اگر چیلنج نہیں بن سکے ، آپ کی بات شاید میں سنتا ہوں اور میری بات آپ سنتے ہیں، اس ملک کے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے آپ کے پاس۔ خدار اس ملک کے لیے چیلنج بن جائیے۔ دنیا کو محسوس ہو کہ آپ چیلنج بن کر آئے ہیں ان کی فکر کے لیے، ان کے خیالات کے لیے، ان کے نظام کے لیے، ان کی تادیب کے لیے، ان کی تہذیب کے لیے ان کے عقیدہ کے لیے آپ چیلنج بن کر آئے ہیں۔

یہ کام جب تک آپ نہیں کریں گے ، اور یہ قراآن کام ہوگا۔ جب بھی کوئی بات کی جاتی ہے تو لوگ اپنے تجربات کی روشنی میں باتیں کر تے ہیں۔ میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں وہ قرآن کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ قرآن کام یاب ہے اس لیے کہ وہ پہلے ہی قدم پر چیلنج تھا اور آخر تک چیلنج رہا۔ اور کہا کہ اگر ایسی کوئی بات تمہاری سمجھ میںنہیں آتی تو اجتماعی سطح پر پیش کردو۔ ایسی دس سورتیں پیش کر دو۔ یہ چیلنج بننا آج کے وقت کی ضرورت ہے۔ آپ کے تمام مسائل کی قدر کے باوجود مجھ سے زیادہ مسائل کی قدر اور کون کرے گا۔ یقین جانیے مجھ سے زیادہ آپ کے مسائل کی قدر اور کوئی کرنے والا نہیں ہے۔ اپنے بچوں کی کام یابی کو دیکھ کر باپ جب خوش ہوتا ہے ویسا خوش ہوتا ہوں میں۔ لیکن یاد رکھیے کہ ابھی آپ چیلنج نہیں بن سکے ہیں اس ملک کے لیے۔ اس لیے چیلنج بنئے۔ اور بتائیے کہ اللہ کا دین ہے اس کے مقابلے میں دین پیش کرو۔ یہ اللہ کی شریعت ہے، اس کے مقابلے میں کوئی دوسری شریعت پیش کرو۔ قرآن نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے۔ اس جذبہ کے ساتھ اس چیلنج کے ساتھ آپ کو دنیا کے سامنے آنے کی ضرورت ہے۔

میرے دوستو اور ساتھیو! اس وقت آپ نے اس پروگرام کے ذریعہ شمالی ہند کو فوکس کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ شمالی ہند سے مراد خاص طور پر یوپی، بہار اور دہلی وغیرہ کے علاقے آتے ہیں۔ میرے سامنے یہ سیاسی تحریکوں کا ہمیشہ مرکز رہا ہے۔ بڑی بڑی تبدیلیاں یہی سے آتی رہی ہیں۔ اور آرہی ہیں۔ یہ جو ہلچل سیاسی سطح پر ہوتی یا فکری سطح پر ہوتی ہے، وہ کہیں اور جگہ نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو فلسفہ کی بنیادیں مہارشٹرا میں ہیں، لیکن ان کو غذا شمالی ہند میں ملتی ہے۔ جتنے ہندوتوا کے بڑے بڑے لیڈر ہوئے وہ سب مہارشٹرا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی بنیاد شمالی ہند ہے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی کے ذریعہ اس ملک پر وہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس علاقہ پر ہماری جیسی توجہ ہونی چاہیے، نہیں ہے۔
آپ جانتے ہیں ساؤتھ کی جتنی ریاستیں ہیں کیرلہ، تمل ناڈ، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا یہاں جتنے مسلمانوں کی آبادی ہے، صرف اترپردیش میں اس سے زیادہ آبادی ہے۔ آپ اپنے کاموں کا موازنہ کر کے دیکھیں گے تو اتنی بڑی ریاست کی طرف آپ کی کیا توجہ ہے؟

ایک موقع پر سید حامد صاحب نے کہا تھا، تعلیم کے مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی مجھ سے، تو انھوں نے کہا کہ اب تعلیم کے میدان میں پنڈولم ساؤتھ کی طرف جھک گیا ہے۔ میرے دوستو اور ساتھیو مجھے کہنے نہ دیجیے کہ آپ کا پنڈولم بھی ساؤتھ ہی کی طرف جھک گیا ہے۔ خدارا یہ کیفیت نہ ہونے دیجیے۔ آپ اس ملک کی تحریک کا جز ہیں۔ آپ کو بیج میں کھڑا ہونا پڑے گا اور جو ریاستیں کم زور ہیں ان کو مضبوط کرنا ہوگا اور آپ کو آگے بڑھنا ہوگا۔ یہی سے فکر کو غذا ملتی ہے اور یہیں سے تبدیلی آتی ہے۔

پاکستان کی جنگ پنجاب میں نہیں یوپی میں لڑی گئی۔ تب پنجاب وجود میں آیا اور ریاست کو چلانے والے لوگ علی گڑھ سے پیدا ہوئے۔ جو یوپی کا حصہ ہے۔ تو بات ذرا لمبی ہو جائے گی۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پنڈولم آپ کا جھکا ہوا ہے، ساؤتھ کی طرف۔ اسے صحیح رخ دیجیے اور اب آپ کی توجہ شمال کی طرف ویسی ہونی چاہیے جیسی مطلوب ہے۔

ایک اور بات آپ سے میں کہوں گا۔ آپ نے بہت سے اداروں میں کام کیا اور اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہین۔ کچھ اور تنظیموں کے ساتھ بھی آپ یہ کام کر رہے ہیں۔ سماجی سطح کے بہت سے کام کیے ہیں۔اور ان تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وجہ سے آپ نے بڑی بڑی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں آپ کی انفرادیت باقی رہی یا نہیں رہی۔ آپ نظریاتی طور پر الگ اور ممتاز سمجھے گئے یا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو کیا آپ کا اور ان کا فکری فرق ہے، اور فاصلہ ہے کیا یہ لوگوں کے سامنے ہے؟ اور نہیں ہے تو یہ واضح ہونا چاہیے۔ کہ ہم فکری لحاظ سے الگ ہیں اور اس خاص موضوع پر ان کے ساتھ ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ تحریکیں جو آپ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرنا چاہتیں، حتی کے اسٹیج شو بھی نہیں کرنا چاہتیں۔ کیرالہ کا تجربہ ہے، وہاں آپ سے بات کرنا نہیں چاہتیں۔ ان کے ساتھ آپ بیٹھیں اور آپ کا امتیاز نا معلوم ہو تو یہ غلط بات ہوگی۔ آپ مختلف تحریکوں کے ساتھ مختلف تنظیموں کے ساتھ آپ کے روابط ہوں اور اس فرق کے ساتھ آپ کو کام کرنا ہوگا۔

آپ سماجی سطح پر جب خدمات انجام دیتے ہیں، ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وقتی طور پر ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ کہنی تھی کہ تحریک اسلامی ایک فکری تحریک ہے۔ ایک Idealogical movement ہے۔ آپ اسی کا حصہ ہیں۔ اور یہ طویل عرصہ تک آپ کو یہ کام فکری محاذ پر کرنا ہوگا۔ لمبے عرصے تک آپ کو اس میدان میں محنت کرنی ہوگی۔ تب جا کر آپ یہاں کی جو فکری ضرورتیں ہیں، یہاں کے جو سوالات ہیں ، ان کا آپ جواب دے سکیں گے۔ ہر ماحول کے کچھ سوالات ہوتے ہیں، ہر ملک کے کچھ سوالات ہیں، ہر علاقے کے کچھ سوالات ہوتے ہیں ان سب کا اسلام کی روشنی میں جواب فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن میرے دوستو! ہمیں ضرورت ہے تحریک کو ضرورت بلکہ میں کہوں گا کہ پوری امت مسلمہ کو ضرورت ہے، ہندوستان کی امت کی ضرورت ہے، کہ آپ یہاں بہتر فلاسفرس ہوں، اعلیٰ درجہ کے کی فکر رکھنے والے ہوں اور آپ کی آج کی علمی زبان میں گفتگو کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ آپ یہاں بہترین مؤرخ ہوں، جو تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہوں اور تجزیہ کر سکتے ہوں۔ قرآن نے تاریخ کے حوالے سے گفتگو کی ہے اسے صحیح ثابت کر سکتے ہوں۔ آپ کے یہاں نفسیات کے ماہرین ہوں، جو فرد اور سماج کی نفسیات کا جائزہ لے سکیں۔ اور آپ یہاں قانون کے ماہرین ہوں، جو ملکی اور بین الاقوامی قانون سے واقف ہوں اور اسلامی قانون کی بہترین ترجمانی کر سکتے ہوں۔ آپ کے یہاں سیاسیات کے ماہر ہوں، اور سیاسی نظریات کا متبادل فراہم کر سکیں۔

میرے دوستو اور ساتھیو! مجھے کچھ احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کا بہت زیادہ احساس نہیں ہے۔ میں اپنے آپ کو شامل کر کے کہہ رہا ہوں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ مجھے احساس نہیں ہے یا آپ کو ہے، یا آپ کو نہیں ہے بلکہ مجھے ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے اس بڑے اور اہم کام کی اہمیت کا احسا نہیں ہے۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ ہوں جن کی طرف دنیا رجوع کر سکے۔ یہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتے۔ اور جن لوگوں کو آپ نے مختلف میدانوں میں مقررین فراہم کیے اور الحمد للہ ایس آئی او جب سے قائم ہے، اسے جتنے رہ نما اور صدور ملے، وہ سب بہترین مقررین ہیں۔ اس لیے ہمیں مقررین کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اور شاید آئندہ بھی محسوس نہیں ہوگی۔ لیکن ان میدانوں میں کمی کا احساس ہوتا ہے، یہ وہ میدان ہیں جن میں ہم نے اپنے افراد کو تیار نہیں کیا۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ ہمارے درمیان فلاں شخص ہے، تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ اس شخص کو جس مقام پر وہ ہے اس کے پیدا کرنے میں آپ کا کیا حصہ ہے۔ ایک شخص آپ سے الگ ہونے کے بعد یا آپ کے اند رہتے ہوئے اپنے طور پر اس نے کیا تو کریڈٹ آپ لے سکتے ہیں یا نہیں۔ اس لحاظ سے آپ نہیں کہ سکتے کہ پینتیس سالہ عرصہ میں ہم نے اتنے افراد تیار کیے۔ جو دنیا کا جواب دے سکیں۔ اس کی فکر کیجیے۔ اس کے بغیر تبدیلی نہیں آئے گی۔ کوشش کیجیے کہ ایسے افراد تیار ہوں اور ایسے افراد یقین جانیے دو چار دن میں تیار نہیں ہوتے۔ زندگیاں کھپانی پڑتی ہیں۔ تب وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے موضوع اوراپنے سبجیکٹ پر اعتماد کے ساتھ بول سکیں اور اس کے بعد وہ مقام آتا ہے جب دنیا ان کی طرف رجوع کرے اور پوچھے کہ آپ کیا کہتے ہیں۔
میرے دوستو اور ساتھیو! ابھی یہ مقام جماعت اسلامی نے یا ایس آئی او نے حاصل نہیں کیا۔ کہ کسی فن کے ماہرین کہیں کہ اس میں جماعت اسلامی والوں سے پوچھو، ان کے فلاسفر سے پوچھو، ان کے مؤرخ سے پوچھو، ان کے سماجیات کے ماہرین سے پوچھو، ان کے نفسیات کے ماہر سے پوچھو۔ یہ مقام تو بہت دیر میں آتا ہے اور آپ جن لوگوں کا نام لے رہے ہیں انھوں نے پوری پوری زندگیاں کھپائیں تب وہ کسی قابل ہوئے ہیں۔ تو کوشش اس بات کی کیجیے کہ آپ اور آپ کے ذریعہ ہی یہ خلا پورا ہو۔ اور اس کے لیے بڑی آپ کو بھی قربانی دینی ہوگی اور اس کے لیے معاش کی فکر تو لازم ہے۔ لیکن نحاس مالہ صاحب نے اقبال کا شعر سنایا تویہ بات بھی ذہن میں رہے۔

اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

میں مولانا مودودیؒ کا مرید ہوں، تقریر اور تحریر میں شعر نہیں کہتا۔ لیکن کبھی کبھی زبان پر آجاتا ہے۔ نہ مولانا مودودیؒ اشعار کا استعمال کرتے تھے نہ میں کرتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی کم زوری لاحق ہوجاتی ہے۔ تو یہ جذبہ آپ اپنے اندر پیدا کیجیے کہ اس کے لیے ہم سب کچھ قربان کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ورنہ یہ نہ ہو جامعۃ الفلاح یا فلاں ادارہ یا شانتا پرم ان حالات کے لیے لوگوں کو تیار کر رہا ہے۔ اور یہ تصور نہ ہو ایس آئی او گلف میں بھیجنے کے لیے لوگوں کو تیار رہی ہے۔ یہ آپ کا نقصان ہے۔ اس سے پہلے اعداد و شمار کے ذریعہ لوگوں نے بتایا ہر سال ایس آئی او کے فارغین کتنے ہزار ہیں جو گلف کی طرف رخ کر ہے ہیں۔ کیا ہے وہاں؟ کیا اسلامی حکومت قائم کر رہے ہیں آپ وہاں جا کر، کیوں جا رہے ہیں؟ اسی رزق کی تلاش میں اور اچھی زندگی یا کام کی تلاش میں ۔ نقطۂ نظر کو بدلیے۔ دنیا میں جنھوں نے بھی انقلاب برپا دیا انھوں نے قربانی کے ذریعہ انجام دی اور جو بھی خدمت کریں گے وہ قربانی کے ذریعہ انجام دیں گے۔ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔

میرے دوستو اور ساتھیو! آخری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ ان تمام کوششوں میں آپ اللہ کو یاد رکھیے۔ اللہ سے آپ کا تعلق مضبوط ہو۔ اللہ کی کتاب سے آپ کا تعلق مضبوط ہو۔ نماز سے آپ کا تعلق ہو۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ہماری پہچان ایک دین دار جماعت کی ہو نہیں ہو سکی ہے۔ جماعت اسلامی ہی کی نہیں ہے تو آپ کی کیا ہوگی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ یاشوز ہیں جن پر ایس آئی او کام کرتی ہے۔ آپ کو کوئی دینی تحریک نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ قرآن کے مطابق اصلا نماز سے تعلق آپ کا ہونا چاہیے، لیکن وہ پہلو آپ کا کم زور ہے۔ تو اللہ سے تعلق مضبوط کیجیے۔

قرآن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اس راہ میں مشکلات آئیں گی ، بشرطیکہ آپ کام کریں۔ خیالی مشکلات نہیں۔ ہم سب خیالی مشکلات بیان کرتے ہیں، عملی مشکلات نہیں۔ خیالی مشکلات بیان کرتے ہیں، یہ آجائے گا، وہ ہوجائے گا، یہ ہو جائے گا۔ یا صحابہ کرام پر جو دور گزرے وہ اپنے اوپر منبطق کر کے دکھاتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ اس کا کوئی تعلق ہم سے نہیں ہے۔ انھوں نے دین کی خدمت کی، آزمائشیں آئیں اور ہم اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ جیسے ہم بھی اسی دور سے گزر رہے ہیں، یہ غلط فہمی بھی ہوتی ہے۔

دوستو اور ساتھیو!
اللہ سے تعلق مضبوط کیجیے۔ اگر اللہ سے تعلق آپ کا پیدا ہوگا تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ کی مدد آپ کو حاصل ہوگی۔ قرآن کہتا ہے چھوڑو ان کو ، اللہ کا دامن تھامو۔ مکہ کے ابتدائی دور میں یا ایھا المزمل نازل ہوئی تھی۔ اور کہا گیا تھا کہ اللہ کو یاد کیجیے رات دن۔ اور کہا گیا وتبتل الیہ تبدیلا۔ہر طرف سے کٹ کر اللہ کے ہو جائیے۔

فرمایا وصبر علی ما یقولون ۔ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے۔ وھجر ھم ہجرا جمیلا۔ نظر انداز کیجیے ان کو۔ اور شرافت کے ساتھ نظر انداز کیجیے۔ یہ نہیں کہ ہٹ جاؤ بد تمیزی نہ کیجیے ان کے ساتھ۔ شرافت کے ساتھ بھی نظر انداز کیجیے۔ تو کیا ہوگا ۔ وزرنی و المکذبین۔ ہمیں چھوڑیے، ہم دیکھیں گے ان کو۔ یہ اللہ کی ضمانت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب آپ و الصبر علی ما یقولون و ہجر ھم ہجرا جمیلا پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے لیے تو ہمارے پاس عذاب جہنم ہے۔ ان کو معلوم ہو جائے گا۔

دوستو اور ساتھیو! یہ وہ راستہ ہے ، جو قرآن نے دکھایا ہے اور اسی پر آپ کو عمل کرنا چاہیے۔ ایک جگہ فرمایا گیا سورۂ ہجر میں: فا صدع بما تومر واعرض ان المشرکین۔ جو کچھ آپ کو کہا جا رہا ہے کھل کر کہیے۔ یہ ہے اسلام، یہ ہے توحید یہ ہے رسالت، یہ ہے آخرت۔ کھل کر کہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ تین برس بعد اس کا حکم آیا تھا۔

میرے دوستو اور ساتھیو! ستّر سال بعد بھی مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ فا صدع بما تومرپر عمل کروں۔
اس کے بعد فرمایا : ان کفیناک المستہزعین (المدثر) یہ مذاق اڑانے والو ںکے لیے ہم کافی ہیں۔ تم کیوں فکر کر ہے ہو؟ ہم نے کہا کہ کھل کر کہو۔ ان کو نظر انداز کرو۔ باقی ان کا معاملہ ہم دیکھیں گے۔ اللہ کی رحمت اس طرح حاصل ہوتی ہے۔

سورۂ حجر کی آیتیں اس طرح ختم ہوتی ہے۔ فرمایا گیا: ولقد نعلم انک یزیق الصدر نما یقولون (قرآن) اے اللہ کے رسول! یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے۔ ابتدائی دور تھا۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں اس سے آپ کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ سینہ بھیچنے لگتا ہے۔ غم سے دل دکھتا ہے آپ کا۔ تو آپ فسبح بحمد ربک(قرآن) اللہ کی تسبیح بیان کیجیے۔ حمد کیجیے اور سجدہ کرنے والوں میں اپنے آپ کو شامل کیجیے۔

و اعبد ربکا حتی یاتی القین(قرآن) اللہ کی بندگی اس وقت تک کرتے رہیے، جب تک کہ یہ صورت حال بدل کر یقینی صورت حال پیدا نہ ہو جائے۔ کسی نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے جب تک زندگی باقی ہے، اللہ کی عبادت کرتے رہیے۔ تب اللہ کی نصرت حاصل ہوگی۔

میرے دوستو اور ساتھیو! آپ اس ملک میں تنہا نہیں ہیں۔ جماعت آپ کے ساتھ ہے۔ اس کی سرپرستی آپ کو حاصل ہے۔ پوری ملت آپ کے ساتھ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کہ اگر آپ نے اللہ کا پرچم اٹھایا ہے تو اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہے۔ اور جسے اللہ کی نصرت حاصل ہو، اسے کوئی دنیا میں شکست نہیں دے سکتا۔ بشرطیکہ ہم نصرت الٰہی کے حق دار بن جائیں۔

دوستو اور ساتھیو!
جیسا کہ میں نے عرض کیا۔ معلوم نہیں پھر آپ سے کب ملاقات کا موقع ملے گا، اگر موقع ہوتا ہے تو کچھ اور باتیں بھی میں کہہ سکتا تھا، لیکن اب اس سے زیادہ کہنے اور سننے کی شاید گنجائش نہیں ہے۔

میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جس جذبے کےا ساتھ آپ اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، جو آپ کا ٹارگیٹ ہے، کہ نارتھ کو ہدف بنائیں گے، وہ ٹارگیٹ پورا ہو، اور اس وقت ایس آئی او جس طرح سمٹ کر ساؤتھ میں رہ گئی ہے، وہ نارتھ میں بھی آئے، وہاں کی یونی ورسٹیوں میں آئے، اس کے اثرات محسوس کیے جائیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے، حوصلے کی بات ہے۔آپ نے کہا کہ ہم اپنی کوششوں کا جائزہ لیں گے۔ بلا شبہ آپ نے جائزہ لیا۔ کچھ باتیں میری طرف سے آئیں ہیں، آپ ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے اللہ نے چاہا تو آپ اس دنیا میں اور آخرت میں بھی کام یاب ہوں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں