اس تحریر میں روزہ اور رمضان سے متعلق بعض بہت ہی بنیادی نوعیت کے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے، اس گفتگو کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس سے ان مسائل کی حقیقت سے متعلق روزے داروں کے علم اور واقفیت میں اضافہ ہو، تاکہ ان عبادتوں کی روح کو سمجھنے اور اس کے حصول میں آسانی ہو۔
سحری وافطار
رمضان المبارک ہر سال اس لئے آتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اس کی اطاعت وفرمانبرداری کا خوگر بنادے۔ غور کریں تو رمضان کا ہر ہر عمل خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت وفرمانبرداری کے لئے انسان کی ایک مہم کے انداز میں تربیت وٹریننگ کرتا معلوم ہوگا۔ خواہ وہ روزہ کا عمل کھانے پینے کوترک کردینے سے متعلق ہو یا پھر سحری وافطار سے۔ ماہ رمضان کا چاند دیکھنے سے لے کر عیدالفطر کی نماز دوگانہ کی ادائیگی تک، وہ سراسر سمع وطاعت کی عملی مشق ہے، تاکہ انسان کے اندر اس ماہ مبارک سے روحانی تربیت وغذا پانے کے بعد وہ استطاعت پیدا ہوجائے کہ سال بھراس کے لئے خدا کے احکام کی بجاآوری آسان ہوجائے۔
شریعت کا حکم ہے کہ اگر شعبان کی ۲۹؍ویں شب کو مطلع صاف نہ رہے، ابر آلود رہے تو شعبان کے تیس دن مکمل کرلینے چاہئیں۔ نبی اکرمؐ نے نہایت ہی سختی کے ساتھ شک والے دن کا روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم کے احکام کی نافرمانی کی۔ (ابوداؤد)
اب اگر کوئی شوق عبادت سے سرشار ہوکر روزہ کو فرض ہونے سے قبل ہی شروع کردے، تو اس کا یہ عمل شریعت کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ میرے بندو! صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنی جملہ کھانے پینے اور دیگر جسمانی ضروریات سے رک جاؤ۔ بندہ اس پر لبیک کہتا ہے، اور خود کو ان تمام چیزوں سے روک لیتا ہے۔ غروب آفتاب کے معاً بعد حکم ہوتا ہے کہ اب تم اپنی ضروریات پوری کرلو! اب کسی بندہ مومن کے لئے کھانے پینے سے احتراز کرنا یا رکے رہنا کا ثواب نہیں، بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں جس قدر جلدی ہو افطار کرنا ہی اجروثواب کا باعث ہے۔ چند لمحے پہلے تک جو چیز حرام تھی وہی اب عبادت بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے افطار میں تعجیل کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ شخص میرے محبوب بندوں میں سے ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے۔(ترمذی) نیز افطار میں جلدی کرنے کو بھلائی پر ہمیشہ قائم رہنے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ صحیحین میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ لوگ ہمیشہ بھلائی پر قائم رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے‘‘۔ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ ’’جب تک مسلمان افطار میں جلدی کرتے رہیں گے دین غالب رہے گا کیونکہ یہودونصاری اپنے افطار میں تاخیر کرتے ہیں‘‘۔
ان ارشادات سے بدیہی طورپر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندہ مومن کی کامیابی کا راز اپنے نفس کے فیصلے پر نہیں بلکہ حکم خداوندی کی تعمیل میں ہے۔ جب اور جس وقت اسے جو حکم ملے اسے کرنے میں ہی اس کی کامیابی مضمر ہے۔ سحری کے متعلق بھی آپؐ سے ایسے ارشادات منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے جہاں تک کھانے پینے کو جائز رکھا ہے، وہاں تک کھانا پینا ہی اجروثواب کا باعث ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔ ابوداؤد میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ تم میں سے کوئی شخص (اذان فجرسنے ) اور اس کے ہاتھ میں کھانے پینے کا برتن ہو تو اس کو اس وقت تک نہ رکھے جب تک اس سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے‘‘۔
الغرض احادیث میں سحری کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے اور اسے اہل ایمان اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل قرار دیا گیا ہے۔(متفق علیہ)
اعتکاف:
رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے۔ لغت میں اعتکاف کے معنی لزوم، حبس اور مکث کے آتے ہیں۔ لزوم کے معنی ہیں کسی چیز سے چمٹے رہنا، جس کے معنی رکنے یا روکنے کے ہیں، جبکہ مکث کے معنی ہیں ٹھہرنا۔ شریعت اسلامی میں اعتکاف سے مراد اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا یا رکنا ہے۔
رمضان المبارک کی ابتداء سے ہی بندہ مومن پر اللہ کی عبادت اور اس کو راضی کرنے کی جو دھن سوار ہوتی ہے۔ اعتکاف اس کا نقطہ عروج ہے۔ ہر طرح کی عبادات کے بعد بھی جب شوق عبادت کی تشنگی نہیں بجھتی تو بالآخر وہ اپنے رب کی چوکھٹ پر جاپڑتا ہے، اور اپنے رب کی خالص عبادت کے لئے دنیا کے تمام بکھیڑوں یا جھمیلوں سے خود کو الگ کرلیتا ہے۔
انسانی طبیعت دنیا کی آلائشوں سے تنگ آکر خلوت کی طلب گار ہوتی ہے، دنیا کے بکھیڑوں میں رہتے ہوئے سالوں سال ایسا کرناممکن نہیں، لہٰذا سال کے چند روز شریعت نے ایسے مشروع کئے جن میں انسان کامل یکسوئی اور حددرجہ خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کرسکے۔ تمام طرف سے کٹ کر اپنے مہربان آقا کے درکا سوالی بن جائے۔ اس کی چوکھٹ پر جاپڑے، اس کی تجلیات کے انوار سے بہرہ مند ہو، مساجد کی ملکوتی فضا اس کے قلب ودماغ کی تطہیرکرسکے، اور وہ ملأ اعلیٰ کے فیضان سے اپنا تزکیہ وتربیت کرسکے۔ اعتکاف ان تمام چیزوں کے حصول کا بہترین اور زریں موقع فراہم کرتا ہے۔
امام نوویؒ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ’’ خلوت وعزلت اختیار کرنے پرہی انسانی ترقیات کا مدار ہے، اور یہ ہر نبی، ولی اور حکیم کا وظیفہ رہا ہے۔ دنیا میں اعلیٰ درجہ کا کوئی شخص ایسا نہیں گذرا جس نے خلوت وعزلت اختیار نہ کی ہو، اور ایک مدت تک تنہا رہ کر فکرومراقبہ نہ کیا ہو۔ کیونکہ تنہائی میں دل کے مشاغل سے خالی ہونے کی وجہ سے غوروفکر کا خوب موقع ملتا ہے‘‘۔
اعتکاف کی یہ سنت نبی اکرمؐ کے آغازِ وحی سے قبل کی حالت و کیفیت کی یاد دلاتی ہے۔ اس دوران آپ غارِ حرا میں یک و تنہا خدا کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بالآخر انسانیت کے تمام دکھ ودرد کا مداوا، اور ساری انسانیت کی رہبری کا سامان آپ کو عنایت ہوا۔ یہ ناقابل فراموش داستان رمضان المبارک کی ہی ہے۔ اسی لئے اس میں روزے فرض ہوئے۔ قیام اللیل میں قرآن کے پڑھنے کی سنت قائم کی گئی، اور اخیر عشرہ کا اعتکاف مسنون قرار دیا گیا۔
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں’’ قرآن کا حامل اور وحی الٰہی کا مہبط ان دنوں ایک غار کے کونے میں یک وتنہا بھوکا پیاسا سربہ زانو تھا۔ اس بنا پر اس ماہ مقدس میں بھوکا اور پیاسا رہنا(روزہ) کسی عبادت گاہ میں یک وتنہا رہنا(اعتکاف) نزول وحی کی رات میں بیدار وسربسجود رہنا، پیروان محمدیؐ کے لئے ضروری ہوا۔ اس لئے اس ماہ مقدس میں بقدر امکان انہی حالات وجذبات میں متکیف ہونا چاہئے جس میں وہ حامل قرآن متکیف تھا، تاکہ وہ دنیا کی رہنمائی وہدایت یابی کی یادگار تاریخ ہو۔ یہ حالات وجذبات جن کو قرآن کے مبلغ کی پیروی میں ہم اپنے اوپرطاری کرتے ہیں یہ اس ہدایت کے ملنے پر ہماری شکر گذاری اور خدا کی بڑائی ہے‘‘۔لتکبروا اللہ علی ماھداکم و لعلکم تشکرون ۔(البقرۃ)
احادیث میں اس کی بے انتہا فضیلت بیان ہوئی ہے۔ مسنداحمد کی ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا‘‘ مساجد کے لئے کچھ کھونٹے ہیں (یعنی ایسے لوگ ہیں جو مساجد میں رہنا اور عبادت کرنا پسند کرتے ہیں) ایسے لوگوں کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں، اگر وہ مساجد میں موجود نہ ہوں تو وہ انہیں تلاش کرتے ہیں، اور اگر بیمار ہوں تو ان کی عبادت کرتے ہیں، اور اگر ان کو کوئی حاجت پیش آئے تو ان کی مدد کرتے ہیں‘‘۔
اعتکاف کی فضیلت بیان کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ نبی اکرمؐ ہر سال رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے(متفق علیہ) ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف نہ فرماسکے تو آئندہ سال بیس روز کا اعتکاف فرمایا۔ معتکف ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے۔ یہ اس کی مہمان نوازی ہی تو ہے کہ اس کو نہ صرف ان اعمال کا اجر دیا جاتا ہے جو وہ کرتا ہے بلکہ جو اعمال وہ نہیں کرتا اس کا بھی ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ معتکف گناہوں سے بچا رہتا ہے نیز معتکف کے لئے وہ ساری نیکیاں جاری رکھی جاتی ہیں جو غیر معتکف کرتا ہے۔
شب قدر
اعتکاف کا ایک بہت بڑا فائدہ شب قدر کی تلاش ہے۔ شاہ صاحب نے اعتکاف کے دو فائدے گنائے ہیں ایک گناہوں سے حفاظت، دوسرے شب قدر کی تلاش۔
شب قدر کیا ہے؟ اس کی عظمت وبرکت کیا ہے؟۔ اس کے متعلق کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ خالق کائنات نے خود اس کے متعلق قرآن پاک میں ایک مکمل سورہ نازل فرمائی ہے۔ جس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے انتہا عظمت وفضیلت کی رات ہے۔ یہ اتنی باعظمت رات ہے کہ انسان صحیح معنوں میں اس کی عظمت وبرکت کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اس کی عظمت کا رازیہ ہے کہ ساری کائنات کے متعلق اہم فیصلے اس شب مبارک میں انجام پاتے ہیں۔ قرآن مقدس نے اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ یعنی انسان اگر شب قدر کی تلاش وجستجو میں کامیاب ہوجائے اس کے لئے یہ ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ ہزار مہینے کی عبادت کے ذریعہ وہ جس قدر اجروثواب اور انعام واکرام کا سزاوار ہوتا ہے اتنا صرف وہ ایک رات کی عبادت سے حاصل کرلیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ شب قدر کی تلاش میں رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ رمضان کے اخیر عشرے میں جتنی عبادت کیا کرتے تھے۔‘‘ اتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے (مسلم) ایک اور حدیث میں آپؐ کا ہی بیان ہے کہ رمضان کا اخیر عشرہ آتا تو آپؐ تہہ بند کس کر باندھ لیتے اور ساری رات عبادت کرتے اور گھر والوں کو جگاتے۔(متفق علیہ)
لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو جاگنا امت محمدیہؐ کے لئے سعادت کی بات ہے۔ اخیر عشرہ کے ان ایام کو بہتر انداز میں عبادت الٰہی میں بسر کرنا چاہئے۔ نبی اکرمؐ کا فرمان ہے کہ جس نے لیلۃ القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔(متفق علیہ) جس طرح اس رات کی عنایات بیش بہا ہیں اسی طرح اس سے محرومی بھی تمام خیر سے محرومی ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’جو اس رات سے محروم رہ گیاتمام چیز سے محروم کردیا گیا‘‘۔( احمد)
صدقہ فطر:
یہ صدقہ ’فطر‘ کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، ’فطر‘ کے ایک معنی روزہ نہ ہونے کے بھی ہیں۔ عیدالفطر کے دن روزہ حرام ہے اور اسی کی خوشی میں ’فطرہ‘ واجب ہے۔
اسلام حقوق انساں کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ وہ امراء کے مال میں غرباء کا حق متعین کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کچھ لوگ تو خوب کھائیں پئیں اور کچھ لوگ نان شبینہ کے لئے بھی ترسیں۔ امراء کے بال بچے تو خوب اچھا اچھا لباس زیب تن کریں اور غرباء کی او لادیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس رہیں۔ عید کے دن امراء کے دستر خوان تو قسم قسم کے ماکولات ومشروبات سے اٹے رہیں اور غرباء ومساکین کی زبانیں ان کا ذائقہ تک چکھنے کے لئے ترس رہی ہوں۔ عدل وانصاف اور مساوات اسلام کا وطیرہ ہے۔ وہ کیا یہ گوارہ کرسکتا تھا کہ امراء تو عید کے موقع پر خوب خوشیاں منائیں اور غرباء افسردہ ورنجیدہ چہرہ لے کر سماج میں گھومتے رہیں۔ لہٰذا اس نے صدقہ فطر کا انتظام کیا۔ جس سے ان محتاجوں اور غریبوں کی بھی دادرسی ہوسکے۔ اور وہ اور ان کے اہل وعیال بھی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہوسکیں۔ عید کا موقع صرف امراء کے لئے خوشیاں منانے کا نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کے لئے خوشی کا موقع ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ شریعت نے صدقہ فطر کے ذریعہ ایسا انتظام کیا ہے کہ امیروغریب تمام گھروں میں خوشیاں منائی جائیں اور اچھے پکوان کھائے جائیں۔ غرباء سے اظہار ہمدردی واظہار یکجہتی کا یہ محض نمائشی اظہار نہیں بلکہ دل وجان سے ان کے ساتھ شمولیت ہے۔ غرباء سے غم گساری اور ہمدردی کا ایسا عملی اظہار کسی اور مذہب میں نہیں۔
حدیث میں بھی اس کی یہی حکمت بیان ہوئی ہے کہ صدقہ فطر کے ذریعہ غرباء کو غنی(آسودہ اور غیر محتاج) بنادو۔(دارقطنی) نیز ابوداؤد کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ’’ نبی اکرمؐ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے دار فضول اور ناز یبا قسم کی باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کو عید کے دن کھانا میسر آجائے۔ جس نے اسے نماز سے پہلے ادا کیا تو وہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے‘‘۔ بخاری میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ’’لوگ صدقہ فطر عید سے ایک یا دو روز پہلے دے دیا کرتے تھے۔‘‘ ان تمام روایات کا منشا وہی ہے جو اوپر بیان ہواکہ غرباء بھی عید کی تیاریوں میں امراء کے شانہ بشانہ شریک رہیں اور ان کو اپنی غربت کا احساس نہ ہو۔ ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور غرباء ومساکین کی خبرگیری کا یہ کتنا حسین انتظام ہے!
آخری بات:
رمضان المبارک میں تمام مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی ایک ہی وقت میں روزہ رکھنا روزہ کو آسان بنادیتا ہے، اس سے ایک دوسرے کو سہارابھی ملتا ہے اور تقویت بھی۔ پوری امت اس ماہ مقدس میں اپنے ایمان میں نئی حرارت، احساسات میں نئی گرمی، حمیت دینی میں نئے جوش اور اعمال میں نئی حلاوت وچاشنی سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ رمضان کے برکتوں والا مہینہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ رمضان کے آتے ہی زندگی کی کا یہ پلٹ جاتی ہے، کل تک جو انسان قحبہ خانے اور میخانے کی گلیوں کی خاک چھانتا تھا اچانک آج اس کے قدم مساجد کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ نیک اعمال کے لئے سازگار ماحول تیار ہوجاتا ہے۔ پورا ماحول سر تاپاخیر معاون اور شرمخالف بن جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت ہاتھ پکڑ پکڑ کر ہماری خیر کی طرف رہنمائی کررہی ہے۔ سب کچھ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ جو کل تک بہت مشکل نظر آتا تھا۔ اب دل بھی چاہ رہا ہے۔ وقت بھی مل رہا ہے۔ سستی بھی محسوس نہیں ہوتی، ساتھی بھی نہیں روکتے، کاموں کا ہجوم بھی بدستور ویسے ہی ہے پھر بھی نیک اعمال کا کرنا سہل اور آسان ہوجاتا ہے۔ عام دنوں کے مقابلے برائی کرنا مشکل ہوجاتا ہے، برائی کا خیال تک آنے پر دل میں جھجھک محسوس ہوتی ہے۔ اجتماعی اعمال کی ہی یہ برکت ہے کہ روزہ کے جس طرح کچھ انفرادی اثرات ہیں جوفرد پر نمودار ہوتے ہیں، ویسے ہی پورے ماحول اور سماج پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جسے دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی ہیں اور محسوس کرنے والے دل محسوس کرتے ہیں، یہی مطلب ہے جنت کے دروازے کھلنے اور سرکش شیا طین کے پابند سلاسل ہونے کا۔
حدیث پاک کے اس ارشاد پر بھی غور کرنا چاہئے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش بات کرے اور نہ شورکرے۔ اگر کوئی اسے گالی دے اور اس اسے جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے’’ میں روزے سے ہوں‘‘ (متفق علیہ) اس کا کیا مطلب؟ یہی نا کہ کسی برائی کی طرف میرا قدم نہیں بڑھ رہا ہے کہ مجھے خیر کی توفیق مل گئی ہے۔ اگر دوسرا کوئی مجھے اس کے لئے مجبور بھی کرے گا تو میں اس کے ابھارنے پر برائی نہیں کروں گا، میں نے اپنے رب کی خاطر جیسے خود کو برائی سے روک لیا ہے۔ گناہ کے کاموں سے بھی روک لیا ہے۔ لڑائی جھگڑوں اور گالم گلوج سے بھی روک لیا ہے۔ نہ اپنی چاہت سے میں کسی برائی یا گناہ کی طرف لپکوں گا اور نہ ہی کسی کے اکسانے اورابھارنے پر۔ کیوں؟ اس لئے کہ’’ میرا تو روزہ ہے۔‘‘ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو روزہ فی الواقع برائیوں کو چھوڑنے کا نام ہے۔ کیا ہمارا روزہ وہ روزہ ہے جو ہمارے لئے برائیوں کو چھوڑنے کا ہم معنی بن جائے؟ یہی وہ مقصد ہے جو روزے کے ذریعہ ہماری پوری زندگی میں مطلوب ہے۔
جوہر جاوید گیاوی