رمضان، قوت ضبط اور قوت کار کا مہینہ

ایڈمن

محی الدین غازی”آپ روزے سے رہیں، اور پھر آپ روز ایسے نہیں رہیں“            انسانی شخصیت کی تعمیر وترقی میں عبادتوں کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے۔ ہر عبادت انسان کی پوری شخصیت پر بہت اعلی اثرات مرتب کرسکتی ہے، تاہم…

محی الدین غازی

”آپ روزے سے رہیں، اور پھر آپ روز ایسے نہیں رہیں“

            انسانی شخصیت کی تعمیر وترقی میں عبادتوں کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے۔ ہر عبادت انسان کی پوری شخصیت پر بہت اعلی اثرات مرتب کرسکتی ہے، تاہم ہر عبادت میں کچھ خاص معنویت بھی محسوس ہوتی ہے۔ ایمان کا مطلب ہوتا ہے انسان کا دل اللہ کے لئے ہوگیا، نماز کا مطلب ہوتا ہے انسان کا رخ اللہ کی طرف ہوگیا، زکات کا مطلب ہوتا ہے انسان کی دولت اللہ کے لئے وقف ہوگئی، حج کا مطلب ہوتا ہے انسان کی حرکت اللہ کے لئے ہوگئی، اور روزے کا مطلب ہوتا ہے انسان کی قوت اللہ کی تابع ہوگئی۔

            انسان کی اصل طاقت یہ ہے کہ اسے قوت ضبط حاصل ہوجائے، اور وہ خود اپنے آپ پر قابو پالے، اس کی بھوک اور پیاس سے لے کر اس کی ہر چاہ اور ہر طلب خود اس کے کنٹرول میں رہے۔ روزہ انسان کو اپنی یہ خفیہ طاقت جاننے، آزمانے اور بڑھانے کا موقع دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی، اور جو نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھے اسے روزے رکھنے کی تلقین کی، کیوں کہ نکاح کرنے سے خواہش کو تکمیل کا صحیح راستہ مل جاتا ہے، اور روزے رکھنے سے خواہش کو قابو میں رکھنے کی طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔ انسان یا تو خواہش کی صحیح تکمیل کرے، یا پھر خواہش کو قابو میں رکھے، کیوں کہ تیسرا راستہ تباہی کی طرف لے جانے والا ہوتا ہے۔ نفس سے مجاہدہ کرنے میں روزے کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں روزے داروں کا ذکر کیا گیا اور اسی سے متصل شرم گاہ کی حفاظت کرنے والوں کا ذکر کیا گیا۔ اس ترتیب میں بھی اسی غیر معمولی قوت کی طرف اشارہ ہے جو روزہ دار کو خود اپنے سلسلے میں حاصل ہوجاتی ہے۔ اور جس کے بعد وہ زندگی کے سب سے خطرناک محاذ جنگ میں سرخ رو رہتا ہے۔

            رمضان کا مہینہ ایک مومن انسان کو اس کی اپنی مگر خود اس سے پوشیدہ قوت کار سے آگاہ کرتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں اسے اپنے بارے میں حیرت انگیز باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ پورے ایک ماہ مسلسل روزے رکھ سکتا ہے، اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ رات میں دیر سے سو کر بھی فجر سے کافی پہلے اٹھ سکتا ہے، اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ طویل تراویح اور تہجد پڑھ سکتا ہے، اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو ذکر وتلاوت میں مشغول رکھ سکتا ہے، اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کافی دولت خرچ کرسکتا ہے، اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اپنی نگاہ پر اپنی زبان پر اور اپنے غصے پر غیر معمولی حد تک قابو رکھ سکتا ہے۔

            روزے رکھنے کا تقاضا ہوتا ہے کہ آپ کے شب وروز میں بہت بڑی تبدیلی آجائے۔ آپ کی قوت ضبط کے ساتھ قوت کار بھی بہت زیادہ بڑھ جائے، آپ کی فرصت کے اوقات بہت کم ہوجائیں، اور آپ کی مصروفیات میں با مقصد مصروفیات کا تناسب بہت زیادہ ہوجائے۔ ”آپ روزے سے رہیں، اور اس کے نتیجے میں آپ روز ایسے نہیں رہیں۔“رمضان کے مہینے میں اللہ کی طرف سے عمل کا ثواب بڑھتا ہے، عمل کی طاقت بھی بڑھتی ہے، عمل کا جذبہ بھی بڑھتا ہے، یہ سب اللہ کی طرف سے خصوصی طور سے عطا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بندوں کی طرف سے عمل بڑھنا چاہئے۔

            رمضان کے مہینے میں اللہ کے رسول ﷺ کا نمونہ اگر سامنے رہے، تو رمضان میں مطلوب تبدیلیوں کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓکا بیان ہے: ”نبی ﷺ خیر کے معاملے میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، اور وہ سب سے زیادہ سخی رمضان میں ہوجاتے تھے جب جبریل ؑرمضان کے پورے مہینے کی ہر رات آپ سے ملتے تھے، اور نبی ﷺ انہیں قرآن سناتے تھے، جب جبریل علیہ السلام آپ سے ملتے تھے تو آپ تیز ہواؤں سے زیادہ فیاض ہوجاتے تھے۔“اس روایت کی رو سے ماہ رمضان میں آپ ﷺ کی فیاضی جو ویسے ہی سب سے زیادہ ہوتی تھی، بہت بڑھ جاتی تھی، اور قرآن مجید کی خصوصی تلاوت ومدارست کی مصروفیت بھی (پہلے سے ہی مصروفیات سے بھرپور) معمولات میں شامل ہوجاتی تھی۔

            حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ”جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ اپنی کمر کس لیتے، اپنی راتوں کو زندہ کردیتے، اور اپنے گھر والوں کو بیدار رکھتے۔“یہ اس عظیم انسان کی کیفیت ہوتی تھی جو سال بھر قُمِ الّلیلالّا قَلِیلا  (رات میں قیام کرو مگر تھوڑا حصہ، سورہ المزل،آیت 02،) عمل پیرا رہتا تھا۔

            رمضان کے مہینے کو عظیم فتوحات کے حوالے سے بھی یاد کیا جاتا ہے، درحقیقت فتوحات کا کسی خاص مہینے میں ہونا ایک خوب صورت اتفاق ہوسکتا ہے، معرکے اور فتوحات کسی خاص مہینے کا انتظار نہیں کرتے ہیں۔ البتہ میدان کارزار اور معرکہ حیات میں کامیابی اور کامرانی کی اہلیت رکھنے والے طاقت ور مجاہدوں کی تیاری کے لئے رمضان سب سے مناسب موقع ہوتا ہے۔رمضان قوت ضبط اور قوت کار دونوں کو پالینے کا مہینہ ہے۔ یہ فرصت کو مصروفیت میں اور مصروفیات کو بامقصد مصروفیات میں بدل دینے کا مہینہ ہے۔ اور اس طرح رمضان کے مہینہ کا اختتام ایک بامقصد سال کا خوب صورت آغاز بن جاتا ہے۔ اگر تعبیر کی غلطی کا اندیشہ نہیں ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ بندہ مومن کی سال گرہ کا دن اصل میں عید الفطر کا دن ہوتا ہے، جب وہ ایک ماہ کی تربیت کے بعد اپنی زندگی کے ایک پہلے سے مختلف اور پہلے سے بہتر سال کا طاقت ور آغاز کر رہا ہوتا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں