رمضان کا پیغام
محمد عنایت اللہ اسد سبحانی
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، امابعد:
برادران اسلام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا کا شکر ہے،ماہ صیام آ گیا، وہ ماہ صیام آگیا،جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا۔
اس ماہ صیام کی آمد پر ہم ان تمام بھائیوں کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں جن تک ہماری یہ آواز پہنچ رہی ہو۔
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے زندگی میں پھر ایک بار ہمیں یہ موقع نصیب فرمایاکہ اس ماہ مبارک کی برکتوں سے سیراب ہوسکیں۔
یہ ماہ مبارک، جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے، سال کا سب سے اہم مہینہ ہوتا ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کے لیے نبی ﷺ انتظار کی گھڑیاں گنا کرتے تھے۔
یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں انسانیت کو رب العالمین کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ملی۔ قرآن ملا۔ اسلام ملا۔ خدا کا آخری دین اورآخری پیغام ملا۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کرہوتی ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی کا دریائے کرم جوش پر ہوتا ہے۔ اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرا لہرا کے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں۔
اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتا ہے، اور کہتا ہے: میرے فرماں بردار بندے جلدہی آکر تیرے اند ربسیرا کریں گے۔ اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے۔
برادران اسلام! یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک کے تعلق سے ہماری کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ کیا اس ماہ مبارک کا محض آجانا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم اس کی برکتوں سے سیراب ہوجائیں گے،یا اس کے لیے ہمیں کچھ کرنا بھی ہوگا؟
برادران اسلام! اس سوال کا جواب جاننے کے لیے شاید اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ ہمارے نبیؐ محترم نے ایک موقع پر فرمایاتھا:
رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع
(کتنے ہی روزے دار ایسے ہوتے ہیں، جن کے روزوں سے بھوک پیاس کے علاوہ ان کے حصے میں کچھ نہیں آتا!)
معلوم ہوا محض اس ماہ مبارک کی آمد ہی برکت کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کی برکتوں سے نہال ہونے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کیا چیزیں ہیں جو روزے کی روح اور روزے کی جان ہیں؟ اور کیا چیزیں ہیں جو روزے کے لیے تباہ کن اور اس کے لیے سم قاتل ہیں؟ ہمیں یہ ساری باتیں جاننی ہوں گی اور ان کاخیال رکھنا ہوگا۔
روزے کی روح کیا ہے؟ روزے کی روح ہے تقوی۔ روزے کی روح ہے اللہ سے محبت، روزے کی روح ہے خشیت وانابت، روزے کی روح یہ ہے کہ بندے کے اندر اپنے رب کی جستجو پیدا ہوجائے۔ اس کے اندر اس کی محبت کی انگیٹھیاں دہکنے لگیں۔ اس کے اندر یہ تڑپ پیدا ہوجائے کہ کس طرح وہ اپنے رب کو خوش کرلے۔ کس طرح وہ اپنے رب کو پالے اور اس کے قدموں میں اپنا سر ڈال دے۔
قرآن پاک میں روزے کے احکام بیان کرنے سے پہلے فرمایا گیا ہے:
یا أیہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔
(اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیاتھا، امید ہے تم تقوی اختیار کروگے۔)
پھر روزے کے احکام بیان کر نے کے بعد دوبارہ فرمایا گیا:
واذا سألک عبادی عنّی فانی قریب، أجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔
(جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں، توبتادو، میں بہت قریب ہوں۔ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے۔)
قرآن پاک کے اندر حکم صیام کی یہ تمہید اور پھر یہ اختتامی آیت، یہ دونوں چیزیں واضح طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ روزے کی روح، یہی تقوی اور یہی خدا کی جستجو ہے۔
یہ تقوی اور یہ جستجو اگر نہ ہو،تو پھر اس روزے کا کوئی حاصل نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی أن یدع طعامہ وشرابہ۔
(جس نے جھوٹی باتیں اور جھوٹے کام کرنے نہیں چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔)
ایک دوسرے موقع پر فرمایا:
الصیام جنۃ ما لم یخرقھا۔ قیل وبم یخرقھا یا رسول اللہ۔ قال بکذب أو غیبۃ۔
(روزہ ایک ڈھال ہے، بشرطیکہ روزے دار اسے پھاڑ نہ دے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! اسے وہ کس طرح پھاڑ سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جھوٹ سے یا غیبت سے۔)
گویا روزہ اس کا نام نہیں ہے کہ ہم صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہیں۔ بھوکے پیاسے رہنے اور کچھ گھنٹوں کے لیے کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے۔
روزہ نام ہے برائیوں کو چھوڑ دینے کا، خدا کی نافرمانیوں کو چھوڑ دینے کا۔ جھوٹ اور غیبت کو چھوڑ دینے کا۔ لڑائی جھگڑے اور غصہ واشتعال کو چھوڑ دینے کا۔ بدکلامی، یاوہ گوئی اور دوسروں کی دل آزاری کو چھوڑ دینے کا۔
مختصر یہ کہ روزہ نام ہے خدا سے ڈرنے اور جان ودل سے اس سے محبت کرنے کا۔
برادران اسلام! ہمارے روزوں کے اندر یہ روح اور یہ اسپرٹ کیونکر پیدا ہوسکتی ہے؟ ہمارے اندر یہ تبدیلی کیوں کر آسکتی ہے کہ ہم محض کھانا پانی چھوڑ دینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ بدی سے نفرت کرنے لگیں۔ بدی کے خلاف ہم سراپا احتجاج بن جائیں۔
اس کا پہلا نسخہ یہ ہے کہ جس کتاب الٰہی کے اہتمام واستقبال میں یہ روزے فرض کیے گئے ہیں، اس کتاب الٰہی سے ہم انسیت پیدا کریں۔ اس کے اندر اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون تلاش کریں۔ ہم جیسے تیسے قرآن پاک کو ختم کرلینے یا اس کا دور کرلینے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اسے اپنے دل ودماغ میں بسائیں۔ اسے اپنے غوروتدبر کا موضوع بنائیں۔ اس کی ایک ایک آیت پر ڈیرے ڈالیں۔ اس کے اندر علم وحکمت کے جو بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں، انہیں دریافت کرنے کی جدوجہد کریں۔ ساتھ ہی اس کے ایک ایک حکم پر عمل کرنے اور اسے اپنی سیرت وکردار میں جذب کرنے کی کوشش کریں۔
آہ! ہم اس مہینے میں قرآن پاک تو پڑھتے ہیں، مگر کیسی بے کیفی اور کتنی بے رغبتی کے ساتھ پڑھتے ہیں! ہم قرآن پاک تو پڑھتے ہیں، مگر بے سمجھے بوجھے پڑھتے ہیں۔ ہم قرآن پاک تو پڑھتے ہیں، مگر اس جذبے سے نہیں کہ اس سے اپنے کردار کو سجائیں اور اپنی سیرتوں کو آراستہ کریں۔ بلکہ صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ ختم قرآن کی برکتیں حاصل کرلیں۔
آہ! کیا صحابہئ کرام اور کیا ان کے بعدکے بزرگان دین قرآن پاک کو اسی طرح پڑھا کرتے تھے؟ اگر نہیں، اور یقینا نہیں، تو پھر آخر ہماری اسلامی غیرت وحمیت کو کیا ہوا؟ ہم نے کتاب الٰہی سے یہ بے نیازی کیوں اختیار کی؟ ہم نے کتاب الٰہی کی یہ ناقدری کرکے اپنی محرومیوں کو کیوں دعوت دی؟
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین۔
(اللہ تعالی اس کتاب کی بدولت کچھ لوگوں کو بلندی عطا فرمائے گا۔ اور کچھ دوسرے لوگوں کو، جو اس کی ناقدری کریں گے، قعر مذلت میں پھینک دے گا۔)
میرے بھائیو! اور میری بہنو! روزوں میں یہ تاثیر پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس مہینے میں زیادہ بولنے اور فضول گفتگوئیں کرنے سے پرہیز کریں۔ ہم کوشش کریں کہ ہمارے دل ودماغ کتاب الٰہی کا مسکن بنیں،اور ہماری زبانیں زیادہ سے زیادہ ذکر الٰہی سے تر رہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے ایک بار فرمایا تھا:
علیک بطول الصمت۔ فانہ مطردۃ للشیطان وعون لک علی أمر دینک۔
(زیادہ سے زیادہ خاموش رہنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ یہ چیز شیطان کو دور بھگانے والی ہے۔ نیز یہ چیز دین کے معاملے میں تمہاری مددگار ہوگی۔)
پچھلی شریعتوں میں روزے کی ایک لازمی شرط یہ بھی ہواکرتی تھی کہ روزے دار روزے کی حالت میں کسی انسان سے بات چیت نہ کرے۔ وہ بس اللہ کی یاد اور اس کے ذکر وتسبیح میں مصروف رہے۔ قرآن پاک میں صراحت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے موقع پر حضرت مریم علیہا السلام کو روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی،تو اس میں یہ چیز شامل تھی کہ وہ کسی سے بات چیت نہیں کریں گی، فرمایا:
فامّا ترین من البشر أحدا فقولی انّی نذرت للرّحمٰن صوما فلن أکلم الیوم انسیا۔
(اگر تم انسانوں میں سے کسی کو دیکھو تو کہہ دو، میں نے رحمن کے لیے روزے کی نیت کرلی ہے، لہٰذا آج میں کسی سے بات نہیں کرسکتی۔)
بے شک ہماری شریعت میں اس طرح کی کوئی سختی نہیں ہے۔روزے کی حالت میں آپس میں بات چیت کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن کیا ا یسا نہیں ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے زیادہ بولنے اور فضول گفتگوئیں کرنے سے ہمیں منع کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ بولنے سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ فضول بکواس کرنے والا آدمی عملی انسان نہیں ہوتا۔اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے،اور وہ بڑی آسانی سے شیطان کے پھندے میں آ جاتا ہے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو! اس ماہ مبارک کا احترام کیجئے۔ اس کے قیمتی لمحات کی قدر کیجیے۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کیجئے۔ اس کے کلام کی تلاوت کیجئے۔ جس قدر ممکن ہو اس سے انسیت پید اکیجئے۔ محض الفاظ کی تلاوت نہ کیجئے۔ کتاب الٰہی کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ براہ راست نہ سمجھ سکتے ہوں تو ترجموں سے مدد لیجئے۔ اس بات کی کوشش کیجئے کہ ہماری زندگیاں قرآن پاک کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ ہم صحیح معنوں میں قرآنی امت بن جائیں، جس طرح صحابہئ کرام ایک قرآنی امت بن گئے تھے۔
آج ہماری امت میں کیسی نا اتفاقی، اور کیسا انتشار ہے! آج مسلم اداروں، اور مسلم تنظیموں کے درمیان کتنی دوری ہے،ان کے مقاصد اور ان کے اہداف میں کتنا فرق ہے!جب کہ قرآن پاک اپنے ماننے والوں کوسیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند دیکھنا چاہتا ہے، انہیں امت واحدہ، اور ملت واحدہ کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔وہ ان کے درمیان کسی طرح کی دوری دیکھنا نہیں چاہتا۔
صحابہئ کرام، جن کی نشوونما قرآن پاک کے سایہ میں،اورقرآنی تعلیمات کے مطابق ہوئی تھی،ان کی کیفیت یہی تھی،وہ آپس میں اتحاد واتفاق کا پیکر،اورایثار ومحبت کی نہایت دلآویز تصویر تھے،ان کے اندر ایسی اخوت اور ایسی محبت تھی جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔یہ اخوت ومحبت ان کے اندر کہاں سے آگئی تھی،جب کہ وہ پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے؟یہ قرآن پاک کی برکت تھی۔قرآن پاک نے انہیں تعلیم دی کہ وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں،اور اگرکوئی کسی پر زیادتی کرے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرادیں۔(انما المؤمنون اخوۃ فأصلحوابین اخویکم)، چنانچہ وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
آج ہماری ملت علمی میدان میں کس قدر پیچھے ہے،دینی اورشرعی علوم ہوں، یا عصری اور سماجی علوم،ہر میدان میں پیچھے ہے،اور بہت بری طرح پیچھے ہے،جب کہ قرآن کھل کر علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے،اور صاف صاف کہتا ہے کہ علم والے اور علم نہ رکھنے والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ (ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون؟)
اس طرح کی آیات نے صحابہئ کرام کے شوق علم کو مہمیز لگایا،اور وہ اپنی بے پناہ جدو جہد سے وقت کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی قوم بن گئے،وہ دینی اورشرعی علوم میں بھی بہت آگے نکل گئے،اورسائنسی یا کائناتی علوم میں بھی وہ قوموں کے امام بن گئے۔
ہم نے ان قرآنی تعلیمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا،اور قرآن کومحض حصول برکت کے لیے بے سوچے سمجھے پڑھنے کی عادت ڈال لی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمی میدان میں ہم بہت پیچھے رہ گئے۔اورعلمی میدان میں پیچھے ہوکرزندگی کے ہرمیدان میں پیچھے ہوگئے۔
آہ! اس قوم کی بدنصیبی! جو قرآن پاک جیسی عظیم کتاب رکھتے ہوئے آج ذلت وخواری کی پستیوں میں پڑی کراہ رہی ہے! جو قرآن پاک جیسی مشعل ہدایت رکھتے ہوئے آج گمرہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔
خدایا! تو ہماری حالت زار پر رحم فرما۔ تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری کتاب سے سچی محبت کریں۔ اور تیرے احکام پر عمل کرکے تیری خوشنودیوں کی جنت حاصل کرسکیں۔ خدایا توہمیں اس ماہ مبارک میں اپنی خاص توفیق سے بہرہ مند فرما، اور اس مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔