رمضان اور خدمت خلق

ایڈمن

رمضان کے متعلق یہ تصور بہت عام ہوچکا ہے کہ اس مہینے میں خوب خوب نفل نمازیں پڑھی جائیں، اسی طرح خوب خوب تلاوت قرآن کی جائے، اور باقی اوقات دعا، تسبیح، اور اذکار میں گزارے جائیں، اوراس کے علاوہ…

رمضان کے متعلق یہ تصور بہت عام ہوچکا ہے کہ اس مہینے میں خوب خوب نفل نمازیں پڑھی جائیں، اسی طرح خوب خوب تلاوت قرآن کی جائے، اور باقی اوقات دعا، تسبیح، اور اذکار میں گزارے جائیں، اوراس کے علاوہ کچھ صدقہ وانفاق کردیا جائے۔ اور یہ سب اس لیے ہو کہ ہمارے کھاتے میں زیادہ سے زیادہ ثواب جمع ہوجائے اور ہمیں جنت کا پروانہ نصیب ہوجائے۔ یقیناًیہ روزہ کا انتہائی محدود اور ناقص تصور ہے۔ اس تصور کا نقص یہ ہے کہ اس کے ذریعہ بندہ پر اپنا ذاتی نفع اور ذاتی کامیابی کا پہلو غالب رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انفرادیت اجتماعیت پر غالب آجاتی ہے۔ یقیناًانفرادی کامیابی اور اس کے لیے کوشش بھی مطلوب ہے، لیکن ضروری ہے کہ اجتماعی اور انفرادی مفاد میں توازن برقرار رکھا جائے، رمضان المبارک محض انفرادی تبدیلی کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ آتا ہے تاکہ اجتماعی سطح پر ایک تبدیلی کے لیے تیار کرے۔
قرآن مجید میں روزہ کا مقصد تقوی کا حصول بیان کیا گیا ہے۔ تقوی بنیادی طور سے دو چیزوں سے عبارت ہے، ایک خوف خدا اور دوسرا حب الٰہی۔ حب الہٰی کا ایک مظہر خدا کے بندوں سے بے پناہ محبت، ہمدردی، اخوت اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی تڑپ ہے۔ رمضان کے پورے ایک مہینے تک بھوک اور پیاس کے امتحان سے گزار کر دراصل لوگوں کو خدمت خلق کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک بندہ بغیر کچھ کھائے پیئے صبح سے شام کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ فقر اور تنگ حالی کیا چیز ہوتی ہے۔ اس وقت اسے تپتی دھوپ میں پیٹ کے لیے پسینے میں شرابور کسی مزدور کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب روزہ دار کا حلق پیاس کی شدت اور گرمی کی تمازت سے خشک ہوجاتا ہے اسے ان لوگوں کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے جن تک پانی کی رسائی نہیں ہوتی۔اس طرح روزہ دار کے دل میں سماج کے غریب، حاجت مند اور معاشی لحاظ سے دبے کچلے افراد کی خدمت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
ارکان اسلام کی ایک تو ظاہری شکل ہے، مثال کے طور پر کلمہ کا اقرار، نماز کی ادائیگی، زکوۃ کی مقررہ رقم نکالنا، مراسم حج ادا کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا، وغیرہ۔ اور دوسری معنوی یا حقیقی شکل ہے یعنی روح کے ساتھ ان ارکان اور فرائض کو ادا کرنا۔ اسلام میں شکل برائے شکل نہیں بلکہ برائے روح مطلوب ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی روح اور اس کی معنوی حقیقت فرد اور معاشرے میں ایک زبردست تبدیلی ہے، جس میں محبت، اخوت، ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کی غمگساری اور خدمت خلق کا جذبہ بھی داخل ہے۔ جو لوگ روزہ محض اس کی شکل کے اعتبار سے رکھتے ہیں وہ اپنے زعم کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن کی ادائیگی میں سرگرم ہیں، مگر حقیقتاََ روزہ کی روح اور اس کی معنویت سے یہ لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔
اسلام جس خوبصورت سماج کو تعمیر کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد ہمدردی، باہمی محبت، تعاون اور ایثاروقربانی پر ہے جہاں ہر شخص دوسروں کی مدد کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ کسی یتیم، پریشان حال اور لاچار کو یہ فکر نہ ستاتی ہو کہ اس کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں۔
اقامت دین ہو یا اصلاح معاشرہ کا کام اس وقت تک انجام دیا ہی نہیں جاسکتا ہے جب تک کہ خدمت خلق ہماری سرگرمیوں کا حصہ نہ بن جائے۔ بہت سے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ خدمت خلق کے دائرے میں صرف مسلم ہی آتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ خدمت خلق کا کام تمام انسانیت پر محیط ہے۔ آج ہمارے سماج میں بے شمار غیرمسلم غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور سیاسی وسماجی ظلم کا شکار ہیں۔ ان کے حق میں آوازہ بلند کرنا بھی خدمت خلق ہے۔ آج ہمیں بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت دنیائے انسانیت تک یہ پیغام پہنچے گا کہ یہ لوگ جس سماج کی تعمیر کی بات کرتے ہیں اس کی بنیاد اجتماعی عدل وانصاف پر ہے، جس میں کسی کے لیے بھی ظلم وستم اور ناانصافی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ رمضان ایسے خوبصورت سماج کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
حدیث پاک میں رمضان کے مہینے کو شہرالمواساۃ کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں بلکہ خدمت خلق کے لیے سالانہ ٹریننگ ہے، جس کے ذریعے معاشرے کے اہل ثروت اور وسعت رکھنے والے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ غرباء ومساکین، اورمعذور و محروم افراد کی امداد وخیرخواہی اور مالی پہلو سے انہیں مضبوط کرنے کی خدمت انجام دیں۔
خدمت خلق کی یہ ذمہ داری یقیناًایک بھاری ذمہ داری ہے، اس لیے کہ یہاں بندہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے اور بغیر کسی ذاتی مفاد کے دوسروں کی فلاح وبہبود اور خوشی وآسودگی کو اپنا مقصد بناتا ہے۔ اس لیے اس پر اللہ تعالی کا اجر بھی خوب ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا، وہ یتیم چاہے اس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، جنت میں اس طرح قریب ہوں گے جیسے میری یہ دو انگلیاں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ لوگوں کو باقاعدہ اس کا حکم دیا کرتے تھے۔ آپ کا ایک ارشاد ملاحظہ ہو: ’’بیمار کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، اور قیدی کی رہائی کا انتظام کرو‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’اللہ تعالی بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ مثالی کردار جو رمضان کو شہرالمواساۃ کہہ کر اہل اسلام میں ڈیولپ کرنا مطلوب ہے۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت خلق کی عظیم ذمہ داری کو انجام دینے والے لوگ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے: ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور سب سے زیادہ اللہ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اللہ کے کنبے کو نفع پہنچائے‘‘۔ قبیلہ مضر کے لوگ غربت کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپؐ کا چہرہ مبارک زرد پڑگیا، آپؐ گھر تشریف لے آئے اور حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا، نماز کے بعد آپ نے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں اور کہا: لوگوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ دینا چاہئے، دینار، درھم، کپڑا، گیہوں اور کھجور، جوکچھ ہو وہ اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ ایک انصاری ایک تھیلا لائے، اس کے بعد لوگوں نے اتنا دیا کہ کپڑے اور غلے کا ڈھیر لگ گیا۔ یہ دیکھ کر آں حضورؐ کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھا۔
یہ ایک معمولی سا عکس ہے اس سماج کا جس کا قیام اسلام چاہتا ہے۔ آج کے اس مادہ پرستانہ دور میں جبکہ غربت وافلاس، ظلم وستم اور بغض وعداوت اپنے عروج پر ہے اگر ہم خدمت خلق کی جانب بھرپور توجہ دیں تو یقیناًیہ اسلام کے حق میں بھی اور انسانیت کے حق میں بھی ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں

شھباز انصاری، میرٹھ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں