راہ حق کا مسافر

ایڈمن

محمد اکمل فلاحیمصر نبیوں کی سرزمین ہے۔۔۔موسی وہارون کی سرزمین ہے۔۔۔یعقوب ویوسف کی سرزمین ہے۔اسی انبیائی سرزمین میں طاغوتی،فرعونی،ہامانی،شیطانی،ایجنٹ اپنے ناپاک ارادوں،اپنے ناپاک منصوبوں کے ذریعے، فتنہ و فساد پھیلاتے رہے۔۔۔عوام الناس کی آزادی پر درندوں کی طرح حملے کرتے…

محمد اکمل فلاحی

مصر نبیوں کی سرزمین ہے۔۔۔موسی وہارون کی سرزمین ہے۔۔۔یعقوب ویوسف کی سرزمین ہے۔اسی انبیائی سرزمین میں طاغوتی،فرعونی،ہامانی،شیطانی،ایجنٹ اپنے ناپاک ارادوں،اپنے ناپاک منصوبوں کے ذریعے، فتنہ و فساد پھیلاتے رہے۔۔۔عوام الناس کی آزادی پر درندوں کی طرح حملے کرتے رہے۔۔۔انھیں ظلم کی چکی میں پیستے رہے۔۔۔سرزمین مصر پر ہمیشہ سے ظلم وتشدد کے کالے بادل چھاتے رہے ہیں۔۔۔سرزمین مصر میں۔۔۔توحید کے علمبرداروں پر،خدا کے دیوانوں پر، ہمیشہ سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ہیں۔۔۔خاص طور پر اخوان المسلمون کے قائدین پر، مرشدین پر،خواتین پر،فعال کارکنوں پر، متحرک جوانوں پر۔۔۔انھیں جیلوں میں ٹھونسا گیا۔۔۔انھیں جیلوں میں طرح طرح سے ٹارچر کیا گیا۔۔۔انھیں جیلوں میں طرح طرح سے ستایا گیا۔۔۔انھیں آزمائشوں کی بھٹی سے گزارا گیا۔۔۔انھیں برف جیسے ٹھنڈے پانی میں ڈالا گیا۔۔۔انھیں گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور کیا گیا۔۔۔انھیں کئی کئی دن نہ سونے پر مجبور کیا گیا۔۔۔ان کے پاک جسموں پر کوڑے برسائے گئے۔۔۔ان کے پاک جسموں پر ناپاک کتے چھوڑے گئے۔۔۔انہیں ایسی کوٹھریوں میں بند کیا گیاجہاں ہوا کا گزر نہیں کہ چین کی سانس لے سکیں۔۔۔جہاں روشنی نہیں کہ درودیوار دیکھ سکیں۔۔۔جہاں کھانا نہیں کہ بھوک مٹاسکیں۔۔۔جہاں پانی نہیں کہ پیاس بجھاسکیں۔۔۔جہاں انسانی آواز نہیں کہ باتیں کرسکیں۔۔۔انھیں انکے گھر والوں سے بات چیت کرنے سے روکا گیا۔۔۔نماز پڑھنے سے روکا گیا۔۔۔تلاوت قرآن سے روکا گیا۔۔۔انھیں بیماری کی حالت میں ڈاکٹروں کے پاس جانے سے روکا گیا۔۔۔ان کی عزت نفس مجروح کی گئی۔۔۔گالیاں دے کر،پھبتیاں کس کر،طمانچے مارکر،کوڑے لگاکر۔۔۔

             الغرض ان کے صبر کا خوب خوب امتحان لیا گیا۔۔۔لیکن انہوں نے کبھی بھی باطل کے آگے اپنا سر نہیں جھکایا۔۔۔کبھی بھی ظلم سے سمجھوتا نہیں کیا۔۔۔وہ دین پر ثابت قدم رہے، چٹانوں کی طرح۔۔۔حق پر جمے رہے، پہاڑوں کی طرح۔۔۔ظلم کے خلاف لڑتے رہے، مجاہدوں کی طرح۔۔۔جان کی قربانی دیتے رہے، شہیدوں کی طرح۔۔۔کیوں؟ آخر کیوں؟

            کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو خوب سمجھ لیا تھا کہ۔۔۔دنیا کی زندگی عارضی ہے اورآخرت کی زندگی دائمی ہے۔۔۔ایسے ہی مومنوں،ایسے ہی مجاہدوں،ایسے ہی شہیدوں،میں سے ایک۔۔۔ہمارے دینی بھائی، اسلام کے داعی،اللہ کے جانباز سپاہی، حق کے راہی، محمد مرسی تھے۔۔۔وہ توحید کے علمبردار تھے۔۔۔کاروان حق کے سالار تھے۔۔۔صاحب وقار تھے۔۔۔صاحبِ کرادر تھے۔۔۔صاحب ایمان تھے۔۔۔صاحب قرآن تھے۔۔۔صاحب عرفان تھے۔۔۔مثالی انسان تھے۔۔۔علم وعمل کے بلند آسمان تھے۔۔۔انہوں نے جیل میں قید و بند کی زندگی گزار کر سنت یوسفی کو تازہ کیا۔۔۔انہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا۔۔۔انہوں نے اہل باطل سے صاف صاف کہہ دیا۔۔۔”باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم،سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا“

            اب محمد مرسی ہمارے درمیان نہیں رہے۔۔۔دار الفناء سے کوچ کرکے، دار البقاء خوشی خوشی پہنچ گئے۔۔۔إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔۔۔اللہ تعالیٰ محمد مرسی پر۔۔۔اپنی رحمتوں کی،اپنی مغفرتوں کی،اپنی نعمتوں کی، خوب خوب بارش کرے۔۔۔اللہ تعالیٰ ان کی۔۔۔ نیک تمناؤں کو،نیک ارادوں کو،نیک کوششوں کو،نیک کاموں کو،شرف قبولیت عطا فرمائے۔۔۔

            اور سیسی کو اور سیسی کے آقاؤں کو، ظالم اہلکاروں کو،جھوٹے ججوں کو،جھوٹے وکیلوں کو،ظالموں کو،فاجروں کو،فاسقوں کو،قاتلوں کو،مجرموں کو۔۔۔سزا دے۔۔۔درد ناک سزا دے۔۔۔کیونکہ۔۔۔ان کے جرائم بہت ہی بھیانک ہیں۔۔۔اور اللہ مجرموں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔۔۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی۔۔۔ محمد مرسی جیسا۔۔۔مرد آہن۔۔۔مرد مجاہد۔۔۔حق شناس۔۔۔حق گو۔۔۔ہمت والا۔۔۔جرأت والا۔۔۔عزیمت والا۔۔۔بصیرت والا۔۔۔صبر والا۔۔۔شکر والا۔۔۔ذکر والا۔۔۔فکر والابنا۔۔۔اللہ تعالیٰ سیکڑوں اور ہزاروں محمد مرسی پیدا کر۔۔۔حسن البنا پیدا کر۔۔۔سید قطب شہید پیدا کر!

            یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے، کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ۔۔۔یہ دین آزمائشوں والا دین ہے۔۔۔یہ دین قربانیوں والا دین ہے۔۔۔یہ دین آسانیوں سے نہیں، مصیبتوں سے، پریشانیوں سے، قربانیوں سے آگے بڑھا ہے۔۔۔یہ دین ہم سے ہمارا سب کچھ چاہتا ہے۔۔۔ہماری جان چاہتا ہے۔۔۔ہمارا مال چاہتا ہے۔۔۔ہمارا وقت چاہتا ہے۔۔۔ہماری صلاحیت چاہتا ہے۔۔۔مرتے دم تک چاہتا ہے۔۔۔محمد مرسی رحمہ اللہ کی زندگی کا یہی پیغام ہے۔۔۔کہ۔۔۔جیو خدا کے لیے۔۔۔مرو خدا کے لیے۔۔۔چلو خدا کے لیے۔۔۔اٹھو خدا کے لیے۔۔۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں