دینی مدارس اور ہماری ذمہ داریاں

ایڈمن

مولانا نسیم غازی فلاحی (11ستمبر 2001میں جو واقعات پیش آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد مسلسل اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں رچی جاتی رہیں۔ عالمی میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گرد، مسلم…

مولانا نسیم غازی فلاحی
(11ستمبر 2001میں جو واقعات پیش آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد مسلسل اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں رچی جاتی رہیں۔ عالمی میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گرد، مسلم اداروں کو دہشت گردی کے اڈے اور اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش صرف کرڈالی۔ اس وقت ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار تھی، جس کا مسلمانوں کے تئیں رویہ کبھی پردۂ خفا میں نہیں رہا، اس نے ہندوستان میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جو گروپ آف منسٹرس پر مشتمل تھی، اور اس کمیٹی کے کنوینر لال کرشن اڈوانی تھے۔ اس کمیٹی نے حکومت کو جو رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں مدارس ملک کے مستقبل اور سلامتی کے لیے زبردست خطرے کے طور پر پیش کیے گئے تھے۔ اس میں مدارس کو دہشت گردی کی نرسری اور دہشت گردوں کا اڈہ کہا گیا تھا۔ذیل کا مضمون اسی تناظر میں لکھا گیا تھا، موضوع اور مضمون کی حددرجہ اہمیت کے پیش نظراسے دوبارہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔مدیر)

وزارتی گروپ کی مسلمانوں کے سلسلے میں جو رپورٹ آئی ہے اس میں مسلمانوں اور مسلمانوں کے دینی مدارس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ یا نقصاندہ بتایا گیا ہے۔ اس تناظر میں مسلمانانِ ہند عوام اور خواص سے چند گذارشات ہیں۔
اس رپورٹ اور اس طرح کی دیگر باتوں سے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ایک خاص گروپ کے کیا عزائم ہیں۔ عقلمندی اور دانش مندی اس میں ہے کہ واضح اشاروں کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچ جایا جائے۔
جن عناصرنے یہ رپورٹ مرتب کی ہے اور جن لوگوں نے اسے مرتب کرایا ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ماحول بنانا ان کی ایک بڑی مجبوری ہے۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ ہندو سماج میں نسلی تفریق، اونچ نیچ، عورتوں پر مظالم اور دیگر بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں جس کی وجہ سے سماج میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ دلت اور اچھوت طبقہ اعلیٰ ذات کے خلاف کسی بھی وقت بغاوت کرسکتا ہے، اس کا خوف بھی ان لوگوں پر طاری ہے۔ معاشی طور پر ملک بد حالی کی طرف گامزن ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کینسر کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پر سکون اور سنجیدہ ماحول میسر آتے ہی یہ سماج بکھر سکتا ہے، اس کا اندیشہ ان فرقہ پرستوں کو لاحق ہے، جو چاہتے ہیں کہ ہندو سماج پر ان کا اپنا غلبہ قائم رہے۔ یہ ان کی ایک ضرورت ہے کہ حالات کو پرسکون نہ رہنے دیا جائے۔ اس کے لیے وہ کوئی بھی تدبیر اختیار کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر برابر منفی انداز کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ایسے فرضی مسائل عوام کے سامنے لاتے رہتے ہیں تاکہ اصل مسئلہ سے ان کی توجہ ہٹائی جائے اور لوگ موہوم اور فرضی مسائل اور فرضی دشمنوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی فکر میں اس طرح مشغول ہوجائیں کہ دوسرے حقیقی اور زندہ مسائل بالکل فراموش ہی ہوجائیں۔
دوسری اہم وجہ اس طرح کی صورت حال پیدا کرنے کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے پریشان ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام دین حق ہونے کے سبب اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے۔ اور دیگر ممالک کی طرح خود ہندوستان کی سعید اور حق کی پیاسی روحوں کو اپنے دامن رحمت میں کھینچ رہا ہے۔ اس سے تو ہندو دھرم کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باربار تبدیل�ئمذہب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کیا جائے تاکہ جب بھی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں تو کوئی ان کی غم خواری کرنے والا نہ ہو۔ ان حالات کے پیشِ نظر تجاویز اور مشورے پیش خدمت ہیں:
۱) ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلامی بنیادوں پر ہمارا اتحاد ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہر مکتب فکرو ہر مسلک کے لوگوں کو اس بات کا پابند ہونا چاہئے کہ وہ اپنے فکری ومسلکی اختلافات کو ان کے جائز حدود میں رکھیں اور عملاً اس بات کا ثبوت دیں کہ سارے مسلمان ایک امت ہیں۔ کسی مسلمان کو گمراہ، ضال، مضل اور کافر کہنے سے نہ صرف یہ کہ دنیا میں ہم بے وزن ہو کر رہیں گے بلکہ آخرت میں بھی اس کی سخت باز پرس ہوگی۔
ماضی میں بھی اور آج بھی مسلم امت کو سب سے زیادہ نقصان اس کے باہمی نزاعات اور نظری وفقہی اختلافات میں حدود سے تجاوز کرنے سے پہنچاہے۔ دشمن حق اس سے فائدہ اٹھاتا اور حق کو زک پہنچانے کی پوری کوشش کرتاہے۔ اور اس صورت میں وہ تمام تر ذمہ داری سے بری بھی رہتاہے۔
۲) ہم کو اپنے دینی مدارس اور تعلیمی اداروں کو اندرونی طور پر ہر پہلو سے منظم اور مستحکم کرنا چاہئے۔ منتظمین،اساتذہ اور کارکنان کو اپنے باہمی اختلافات ونزاعات یکسر ختم کردینے چاہئیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے ان اداروں کا تعلق مسلم وغیرمسلم عوام دونوں ہی سے مضبوط ہو۔ اس طرف اگر کماحقہ توجہ کی گئی تو ان شاء اللہ فتنہ پرور اپنے ناپاک عزائم میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اور ہندومسلم عوام آگے بڑھ کر ان کے منصوبوں کو ناکام کردیں گے۔
ہمارے سامنے ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ جب فتنہ پرور ولوگوں نے بعض شخصیات یا اداروں پر اپنے ناپاک ہاتھ دراز کرنے کا ارادہ کیا تونہ صرف مسلمانوں نے بلکہ غیر مسلم سرکردہ شخصیات نے بھی ان کے ارادوں کو ناکام کردیا۔
اس سلسلہ میں ہمیں کچھ عملی اقدام بھی فوری کرنے ہوں گے۔ مثلاً غیر مسلم سرکردہ شخصیات کو مناسب مواقع پر مدعو کرنا۔ ان کے اہل علم اور دانشوروں کو وقتاً فوقتاً کسی مناسب موضوع پر لکچر دینے کے لیے بلانا، سمپوزیم وسمینار منعقد کرنا، اور ان میں قرب وجوار کے غیر مسلموں کو مدعو کرنا،قرب وجوار کے اسکولوں اور کالجوں کے ذمہ داروں کو خاص طور سے دعوت دینا، بعض عنوانات پر تحریری مقابلے کرانا، ان میں غیر مسلم طلبہ کو بھی شرکت پر آمادہ کرنا، مناسب انعام دینے کا اہتمام کرنا، طبّی اور میڈیکل کیمپ کا نظم کرنا جن میں غیر مسلموں کو بھی استفادہ کا پورا موقع فراہم ہو۔ کبھی کبھار کھیل کود کے مقابلے منعقد کرنا جن میں غیر مسلم بچوں کو شرکت کی دعوت دینا۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے کام حسب حال کیے جاسکتے ہیں۔ جن کے نتائج ان شاء اللہ بہت اچھے برآمد ہوں گے۔ اس طرح کے کام ہمیں بہت پہلے کرنے چاہئے تھے مگر اب اس سلسلہ میں کوتاہی ہمارے لیے بے حد مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔
پھر ہمیں اپنے اداروں میں طلبہ وطالبات کی ایسی تعلیم وتربیت کا نظم کرنا ہوگا کہ وہ ملک وملت کی اصلاح اور تعمیر میں نمایاں رول اداکرسکیں۔ ان کی زندگیاں لوگوں کے لیے نمونہ ثابت ہوں اور ان کی ذات عوام کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ اور یہ نتائج اس وقت تک ہرگز سامنے نہیں آسکتے جب تک کہ ہمارے اداروں میں اندرونی استحکام اور اتحاد نہیں پایا جاتا۔
۳) حکومت کی جانب سے دی جانے والی رجسٹریشن اور انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہونے کی سہولیات اور بعض دیگر سہولیات سے ہمارے مدارس کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۴) مسلم عوام اور مسلم خواص کو اور علماء ودانشوروں کو اپنی ساری توجہ اپنے سماج کی اصلاح اور تعمیر پر دینی چاہیے۔ اور اپنے سماج کی تعمیر اور اصلاح اسلام کے اصولوں پر اس طرح کرنی چاہیے کہ اسلام کی برکات اور اس کے ثمرات دیکھ کر ہرکوئی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ اصل سکون اسلام ہی کے سائے میں ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی اسلام ہی میں ہے۔ یقیناًہماری کتابوں میں ماضی کے مثالی سماج کے مناظر پیش کیے گئے ہیں،لیکن آج کا انسان عملی حقائق سے ہی متأثر ہوسکتا ہے۔
اگر ہم نے اور ہمارے دینی مدارس نے اس سلسلہ میں پوری توجہ کی تونہ صرف یہ کہ آخرت میں ہماری سرخ روئی کا سبب ہوگا، بلکہ نہ جانے کتنی روحوں کو جہنم کی آگ سے بچانے میں بھی ہم کامیاب ہوسکیں گے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں