کوئی دعوت بھی اگر صرف لفظی دعوت ہو
اور اس کے ساتھ
اخلاقی زور موجود نہ ہو
تو وہ کیسی ہی زریں کیوں نہ ہو، اور تھوڑی دیر کے لیے دلوں پر کتنا ہی سحر کیوں نہ طاری کرلے،
آخرکار دھویں کے مرغولوں کی طرح فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے،
تاریخ پر محض الفاظ سے کوئی اثر نہیں ڈالا جاسکا ہے،
اور اکیلی زبان کبھی کوئی انقلاب نہیں اٹھاسکی ہے،
الفاظ بھی جبھی مؤثر ہوتے ہیں، جبکہ عمل کی لغت کی رو سے ان کے کوئی معنی ہوں،
زبان کا جادو ،
صابن کے سے خوشنما جھاگ اور بلبلے تو پیدا کرسکتا ہے،
مگر
یہ بلبلے کسی ایک ذرۂ خاک کو اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتے،
اور ساتھ کے ساتھ مٹتے چلے جاتے ہیں،
دلیل جب کردار کے بغیر آئے،
اپیل جب اخلاص سے خالی ہو،
اور
تنقید جب اخلاقی لحاظ سے کھوکھلی ہو تو
انسانیت اس سے متأثر نہیں ہواکرتی۔
کردار کی اخلاقی طاقت ہی کسی دعوت میں اثر بھرتی ہے۔
عمل کی شہادت کے بغیر زبان کی شہادت بے کار ہوتی ہے۔
نعیم صدیقی، محسن انسانیت
زندگی کا سب سے بڑا سبق
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبہ کی نظریں کبھی استاذ کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاذ کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاذ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبہ کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:
’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے؟‘‘
’’یہ ناممکن ہے‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے آخرکار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹاکرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا، اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں‘‘!
باقی طلبہ نے بھی گردن ہلاکر اس کی تائید کردی۔ استاذ نے گہری نظروں سے طلبہ کو دیکھا، اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاذ نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردیاتھا۔
طلبہ نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھاتھا، ’’دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر، ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔ (ماخوذ)
رسی پر چلنے والے
دو ستونوں کے درمیان رسی پر چلنا بڑی مہارت کا کام ہے، لیکن چلنے والا کتنی ہی مہارت سے کیوں نہ چلے پہنچے گا کہیں نہیں۔ ۔۔ حقیقی زندگی نہ آسان ہے، نہ مشکل، بس زندگی ہے۔
رسی پر چلنے والا دراصل کہیں پہنچنے کے لیے نہیں چلتا، صرف فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور زندگی کوئی مظاہرہ نہیں جو تماشائیوں کی خوشامد کے لیے کیا جاتا رہے۔ ہر معاشرے میں کچھ اصول طے پاجاتے ہیں، جو اس کی رسی پر چلنے والے ہی کو سندِ شرافت عطاکرتے ہیں، جبکہ حقیقی زندگی کے لیے دین حق کی ضرورت تو ہے ہی لیکن ’دین داری‘ سے کہیں زیادہ ’سمجھ داری‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب سمجھ داری سے کیا مراد لیا جائے، معاشرے کے طے کردہ اصول یا بروقت کیے جانے والے فیصلے۔ طے کردہ اصولوں پر چلنے کے لیے کسی بروقت نئے فیصلے کی ضرورت پیش نہیں آتی، جبکہ مناسب اور بروقت فیصلے کے لیے آپ کو طے کردہ اصولوں میں سے کچھ کو نظرانداز بھی کرنا پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ طے کردہ اصول دین نے طے کیے ہیں، یا معاشرے کے شریف افراد نے۔ یہ فرق جان لینے کا نام ہی سمجھ داری ہے اور دین یہی سکھانے کے لیے آیا ہے اور اس سمجھ داری کا نام ’رشد‘ رکھا ہے۔
(مرزا خالد بیگ، حیدرآباد)
دعوت اور داعیانہ کردار
کوئی دعوت بھی اگر صرف لفظی دعوت ہو اور اس کے ساتھ اخلاقی زور موجود نہ ہو تو وہ کیسی ہی زریں کیوں نہ ہو، اور تھوڑی دیر کے لیے دلوں پر کتنا ہی سحر کیوں نہ طاری کرلے، آخرکار…