خود کشی ۔ اللہ سے خیانت

ایڈمن

اسلام نے انسانی جان کو بے انتہا معزز گردانا ہے۔ اسی لئے کسی ایک شخص کی جان کے ناحق قتل کرنے کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی عطاکی ہے اور وہ ہی اسے ختم…

اسلام نے انسانی جان کو بے انتہا معزز گردانا ہے۔ اسی لئے کسی ایک شخص کی جان کے ناحق قتل کرنے کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی عطاکی ہے اور وہ ہی اسے ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زندگی کو ختم کرکے اسی کی دی ہوئی امانت میں خیانت کا مرتکب ہو۔ کیونکہ قرآن کی رو سے مومنین کے جان ومال اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض خریدلئے ہیں ۔ پھر ایک مسلمان کے نزدیک صرف دنیا وی زندگی ہی نہیں بلکہ آخرت کی دائمی زندگی مقصود ہوتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہر مصیبت و پریشانی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی اسے ختم کرسکتا ہے ۔ اسی لئے اسلام میں خودکشی حرام قراردی گئی ہے جبکہ دوسری طرف موجودہ دنیا میں مادی ترقیات ،اور ہر قسم کی آرام وآسائش کے باوجود خودکشی کا تناسب بڑھ رہا ہے ۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ خودکشی کا یہ تناسب نوجوان نسل میں زیادہ ہے ۔ ۱۵، سے ۲۹، سال کے نوجوانوں میں خودکشی، اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے ۔ پہلے صرف غریب عوام ہی خودکشی کرتے تھے پر آج کی دنیا میں مصنّفین ، وکلاء،امراء، شرفاء ،مشہور ومعروف ہستیاں اور بڑے کاروباریوں تک سبھی افراد اقدام خودکشی کے مرتکب نظرآتے ہیں ۔

خوکشی کے لاتعداد محرکات ہیں ۔جس میں غریبی ،بھوک مری، خاندانی اور معاشرتی عدم استحکام ، عدم تحفظ ، احساس کمتر ی ، ذہنی خلجان، سماجی عدم مساوات ، ناکامی ، مایوسی اورناامیدی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ لیکن خودکشی کی اہم وجہ اور اس کی پہلی سیڑھی ذہنی تنائو یعنی ڈپریشن (Depression) ہے ۔ آرام وآسائش اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دومیں آج کا انسان ذہنی تنائو کا مریض بن گیا ہے ۔ لیکن یہ ذہنی تنائو جب آگے بڑھ کر زیادہ مایوسی و ناامیدی کو جنم دیتا ہے تو خودکشی کے خیالات ذہن میں پیداہوتے ہیں ۔جو انسان کو اقدام خود کشی تک لے جاتے ہیں ۔ ذہنی تنائو اور خودکشی پر قابو پانے کے لئے بات چیت یعنی گفتگواور کونسلنگ نہایت موثر نسخہ ہے ۔ دنیا کے بہت سے ادارے کونسلنگ کے ذریعہ ہی خودکشی پر قابوپانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ ادارے خودکشی کے خیالات رکھنے والے افراد کو آزادانہ گفتگوکا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ انہیں جج کرنے کی بجائے ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاکہ وہ ذہنی تنائو سے لڑکر باہر نکلیں ۔ عالمی ادارہ صحت (WHO ) صحت سے متعلق کسی سنگین مسئلہ پر ہر سال ایک Theme کے تحت کام کرتی ہے ۔ WHO نے سال ۲۰۱۷ کو ذہنی تنائو پر بیداری پیداکرنے کے لئے مختص کیا تھا۔جس کا تھیم Depression-let’s talk تھا۔دراصل امت وسط ہونے کے ناطے امت مسلمہ کے صالح نوجوان و طلبہ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ ان اداروں و تنظیموں سے زیادہ انسانیت کے خیر خواہ بن کر ابھریںاور خودکشی کے اس بھنورسے انسانیت کو نجات دلائیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ذہنی تنائو کے حل کے طور پر صبر کو پیش کرتا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے ـ’’ اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر ،فاقہ کشی ، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے ۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں ۔اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کر رب کی طرف بڑی عنایا ت ہوں گی۔(البقرہ:۱۵۶) آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خودکشی کے سدباب کے طور پر پیش کیاگیا ہے ۔ خودکشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال حضرت ایوب ؑ کے اسوہ مبارک میں ہمیں سیکھنے کو ملتی ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خودکشی کے اسباب ووجوہات کو سمجھ کر اس کے حل کرنے کی طرف اقدام کریں تاکہ انسانیت کی اس مسئلہ پر مددکی جاسکے ۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں