خطبے کی زبان اور زمانے کی پکار

ایڈمن

محی الدین غازی بغیر سمجھے کتنے ہزار سال تک سنا جائے گا جمعہ کا خطبہ؟ اسلامی فقہ اکیڈمی کا ستائیسواں فقہی سیمینار بمبئی میں ہونا طے پایا ہے۔ مسلم طلبہ وطالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں درپیش شرعی مسائل پر…

محی الدین غازی

بغیر سمجھے کتنے ہزار سال تک سنا جائے گا جمعہ کا خطبہ؟

اسلامی فقہ اکیڈمی کا ستائیسواں فقہی سیمینار بمبئی میں ہونا طے پایا ہے۔ مسلم طلبہ وطالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں درپیش شرعی مسائل پر غور وفکر اس سیمینار کا اہم موضوع ہے، غوروفکر کرنے کے لئے جو صورت حال تشخیص کی گئی ہے وہ بہت زیادہ تشویش ناک ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کا نصاب تعلیم مغربی نظریہ حیات سے پوری طرح متاثر ہے، مجموعی طور سے وہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے اور مذہب کا مکمل انکار کردینے پر مبنی ہے، زعفرانی عناصر نے اقتدار میں آنے کے بعد نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں جو کچھ شامل کیا ہے وہ بھی بہت تشویش کا باعث ہے۔ مخلوط تعلیم اور تفریحی ماحول کے دروازوں سے بھی بگاڑ کے در آنے کے بہت زیادہ اندیشے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی ادارے بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں، اور ان میں سے بیشتر اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت کے سلسلے میں بالکل بے پرواہ ہیں۔ گذشتہ صدی میں جن تعلیمی اداروں کو قتل گاہیں کہا گیا تھا، اب وہ اس سے بھی آگے نکل چکے ہیں، اب وہاں نسلوں کا قتل ہی نہیں ہوتا ہے، قاتل نسلیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔ انسانی اقدار کا خون کرنے والی نسلیں، ماضی کی اعلی روایات کا گلا گھونٹنے والی نسلیں، دین وایمان کے خلاف شمشیر برہنہ نسلیں۔ اور اس پر بے بسی کا عالم یہ ہے کہ یہ تعلیم سب کی مجبوری بھی بن چکی ہے۔

تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑے مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل کو رائج الوقت تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ذہنوں میں پھیل جانے والے زہر کا تریاق انہیں کیسے دیا جائے۔ اگر عصری اداروں میں صرف دین بیزار مادیت کی تعلیم دی جارہی ہے تو اپنے نونہالوں کے روح اور قلب کو زندہ وتازہ رکھنے والی اور دین سے محبت پیدا کرنے والی تعلیم کا انتظام کیسے کیا جائے، اگر مسلمان طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں اسلام سے متعلق نت نئے سوالات اور شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں، تو ان کی تشخیص اور ان کا ازالہ کس طرح ہو۔

دینی مدارس اس صورت حال کا علاج نہیں ہیں، ملک بھر کے مسلمان طلبہ وطالبات کے لئے جزوقتی دینی تعلیم کے مدارس کا انتظام بے حد مشکل ہے۔ حافظ جی اور مولوی صاحب کی ٹیوشن لگا کر قرآن مجید کا ناظرہ سکھادینا اپنی جگہ مفید ہے، مگر وہ اس زہر کا توڑ نہیں ہے جو جدید تعلیم کے راستے طلبہ اور طالبات کی رگ رگ میں سرایت کررہا ہے۔

ایسے میں صرف ایک انتظام سامنے رہ جاتا ہے، جو دینی تعلیم وتربیت کا خدائی انتظام ہے، خطبہ جمعہ کا منفرد اور زبردست انتظام۔ اس انتظام کا انفرا اسٹرکچر پورے ملک کے ہر ہر شہر اور ہر ہر قریہ میں موجود ہے، صرف اسے فعال بنانے کی دیر ہے۔ ایسا انتظام دنیا کے کسی گروہ کے پاس نہیں ہے، یہ انتظام امت کے اندر زندگی کی روح پھونک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسے زبردست انتظام کی طرف سے امت غافل ہے، اور اس کی یہ غفلت نہایت افسوس ناک ہے۔ اصلاحی تحریکوں اور دینی جماعتوں نے بھی اس انتظام سے بے نیاز ہوکر ابلاغ وتبلیغ کے مصنوعی ذرائع اختیار کئے، جہاں لوگوں کو جمع کرنے میں توانائی زیادہ صرف ہوتی ہے، اور نتیجہ کم سامنا آتا ہے۔ہمارے ملک میں بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خطبہ جمعہ عربی زبان میں دیا جاتا ہے، اور سننے والے عربی سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے اکثر علماء اور ائمہ مساجد کا اصرار ہے کہ خطبہ جمعہ کی زبان عربی ہی ہونی چاہئے خواہ سننے والوں کی زبان کچھ بھی ہو، ان کا کہنا ہے کہ جس طرح نماز کے لئے عربی زبان ضروری ہے اسی طرح خطبے کے لئے بھی عربی زبان ضروری ہے۔

لیکن غور سے دیکھا جائے تو زبان کے معاملے میں خطبہ کو نماز پر قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے، کیونکہ جس طرح نماز کے متعین اذکار ہیں، خطبہ جمعہ کے متعین اذکار نہیں ہیں، نماز میں کوئی مقام ایسا نہیں ہے جب آپ نماز کے اذکار کے علاوہ اپنے خیالات بھی عربی میں بیان کرسکتے ہوں، جب کہ خطبے میں تو خطیب عربی زبان میں قصے بھی سنا سکتا ہے، اشعار بھی پڑھ سکتا ہے، اور اپنی زندگی کے تجربات اور اپنے دل کے احساسات بھی بیان کرسکتا ہے۔ بحث صرف اتنی رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے دماغ میں تیار کی ہوئی جو باتیں عربی میں بیان کرسکتا ہے، وہ سامعین کو سمجھ میں آنے والی زبان میں بیان کرسکتا ہے یا نہیں؟

نماز اور خطبے میں ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ نماز میں مخاطب صرف اور صرف اللہ ہوتا ہے، جو اظہار بندگی بھی دیکھتا ہے اور احساس بندگی بھی جانتا ہے۔ جب کہ خطبے میں مخاطب سامعین ہوتے ہیں، وہ اگر کچھ نہ سمجھیں تو خطبہ کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ خطبے میں تو اتنی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ حالت وضو کے بنا بھی دیا جاسکتا ہے، خطبہ کے دوران ضرورت پڑنے پر بات بھی کی جاسکتی ہے، پھر خطبے کی زبان کو لے کر آخر اتنی سختی کہاں سے آگئی ہے، کہ خطبہ لوگوں کی طرف رخ کرکے اور انہیں مخاطب کر کے تو دیا جائے مگر ان کے سمجھنے کی بالکل پرواہ نہ کی جائے۔
اگر خطبہ عربی میں ہونا ضروری ہے، تو پھر یہ بھی ضروری ہونا چاہئے کہ سارے سامعین کو عربی زبان آئے، اسے یقینی بنانے کے لئے منصوبے بننے چاہئیں اور اسے فرض قرار دینے والے فتوے جاری ہونے چاہئیں، لیکن یہ کہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک کروڑہا کروڑ لوگ بغیر سمجھے خطبہ سنتے رہیں، اور خطبہ کے مشمولات سے ان کے دل ودماغ بالکل ناآشنا اور محروم رہیں، یہ بات خدائے حکیم کی حکمت سے لبریز شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔

غرض یا تو سامعین خطیب کی زبان سیکھیں، یا خطیب سامعین کی زبان میں بات کرے، ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم،، کا سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا، کوئی تو حد طے ہونی چاہئے۔ مجھے ذاتی طور پر اس مسئلے کی نزاکت کا اندازہ گذشتہ دو سال سے زیادہ ہورہا ہے، اب تک یا تو عربی میں خطبے سنے تھے یا اردو میں، میرے لئے یہ سبھی خطبے قابل فہم ہوا کرتے تھے، اور میں ان لوگوں کے درد کو نہیں محسوس کرپاتا تھا جو عربی میں خطبہ نہیں سمجھ سکتے تھے، گذشتہ دو سال سے ملیالم کے خطبے سن رہا ہوں، اور اچھی طرح محسوس کررہا ہوں کہ خطبے کا ایک بھی لفظ سمجھے بغیر خطبہ سننا کتنی بڑی آزمائش کا کام ہے۔ البتہ یہاں تسلی یہ رہتی ہے کہ میں نہیں تو باقی لوگ تو مستفید ہورہے ہیں۔

تیزی سے بگڑتے حالات اور مسلسل کم ہوتے مواقع پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جمعہ کے خطبے کی زبان سے متعلق فیصلہ کرنے کا صحیح وقت آج ہی ہے، اس وقت شدید ضرورت بھی ہے اور ضرورت کی تکمیل کا موقع بھی حاصل ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود آج کی نئی نسل جمعہ کا خطبہ سننے اہتمام کے ساتھ آرہی ہے، یہ بہت زبردست موقعہ ہے، یہ موقعہ ہمیشہ باقی رہے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ جدید تعلیم اور جدید رجحانوں کے راستے سے بگاڑ کا جو سیلاب بڑھتا چلا آ رہا ہے، وہ جمعہ کے خطبے کے اس انتظام کو باقی رہنے دے یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔

آج جمعہ کی مسجدوں کو بھردینے والے جمعہ کے نمازی اگر خدانخواستہ کل نہیں آئے، اور جمعہ کی نماز میں بھی فجر کی نماز والا حال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا۔ جمعہ کے انتظام کو مفید اور موثر بنانے سے بہت ممکن ہے کہ فجر کی نماز میں بھی نماز جمعہ والی کیفیت پیدا ہوجائے۔
اس تحریر کا مقصد جمعہ کے خطبے کی زبان کو لے کر کوئی فقہی بحث چھیڑنا نہیں ہے، یہ فقہی بحث میں الجھنے اور الجھانے کا وقت بھی نہیں ہے، یہ تو فقہی بحث سے نکل کر امت کی حفاظت کے سلسلے میں فیصلے لینے کا وقت ہے، سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کے اس عظیم خدائی انتظام سے فائدہ نہیں اٹھانے کا آخر کیا جواز ہے۔

اگر عام حالات میں اس کی تھوڑی سی بھی گنجائش نکل سکتی ہے کہ غیر عربی زبان میں خطبہ دیا جائے، تو موجودہ سنگین حالات میں جب کہ پوری نسل بے دینی کے خطرے سے دوچار ہے، دین وملت کی حفاظت جیسے عظیم اور بڑے مقصد کی خاطر سننے والوں کو سمجھ میں آنے والی زبان میں خطبہ دینا جائز ہی نہیں ضروری قرار دینا چاہئے۔

یہ بھی یاد رہے کہ جمعہ کے خطبوں کی زبان بدل دینا مسئلہ کا مکمل حل نہیں ہے، یہ تو محض پہلی رکاوٹ کو دور کرنا ہے، ورنہ عرب ممالک میں تو لوگوں کی مادری زبان میں خطبے ہوتے ہیں، مگر ان عربوں کی دینی صورت حال ہم ہندوستانیوں سے مختلف نہیں ہے۔ مقامی زبان میں خطبہ دینے کا فیصلہ کرنے کے بعد خطبہ کو نئی نسل کی تعلیمی وتربیتی ضرورت پورا کرنے والا بنانا اصل مقصد ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بہت ساری مسجدیں جہاں مقامی زبان میں خطبہ ہوتا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہیں۔

دینی علوم اور جدید علوم کے ماہرین کو مل کر اس پر کام کرنا ہے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم وتربیت کی حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے خطبات جمعہ کے مشتملات کیا ہونے چاہئیں، اس سلسلے میں ایک پورے کورس کی تیاری درکار ہے، جو حسب ضرورت کئی سالوں پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

دینی مدارس کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے فارغین کو اس لائق بنائیں کہ وہ نئی نسل کے افراد کی دینی ضرورتوں کو سمجھیں، ان کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دے سکیں، اور انہیں دل پر نقش ہونے والی اور دماغ میں اچھی طرح سمجھ میں آنے والی تعلیم دے سکیں۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ دینی مدارس سے سماجی علوم اور حیاتیاتی علوم کے ماہرین نکلیں، لیکن نصاب کی ایسی جدید کاری ضرور مطلوب ہے کہ دینی مدارس کے فارغین جدید زمانے میں دین کی صحیح اور طاقت ور ترجمانی کرسکیں، وہ خطبہ جمعہ کے ذریعہ سامعین کے ذہنوں سے شکوک وشبہات سے صاف کرسکیں اور انہیں ایمان ویقین سے آراستہ کرسکیں۔

دینی جماعتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ سب مل کر اس کے لئے کوشش کریں کہ ملک بھر میں جمعہ کے خطبات کو دین کی تعلیم کے لئے بہتر طور سے استعمال کیا جائے، جمعہ کا منبر آپسی رسہ کشی اور دھینگا مشتی کے لئے استعمال نہیں ہو، سب مل کر جمعہ کے منبر سے وہ دینی تعلیم فراہم کریں جس پر سب کا اتفاق ہے، اور جس کی نئی نسل کو فوری اور شدید ضرورت ہے (ویسے بھی اب سبھی جماعتیں اپنی پرانی تقریروں کو چھوڑ کر ایک جیسی تقریریں کرنے لگی ہیں)۔ یہ کام اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لئے جماعتوں کی متحدہ مجلس عمل کو وجود میں آنا چاہئے۔
لیکن سب سے پہلے ہمارے مفتیان کرام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جمعہ کا خطبہ سامعین کی زبان میں دیا جانا چاہئے۔ اطمینان قلب کے لئے خطبے کا کچھ حصہ عربی اذکار پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے۔

اس عظیم منصوبے کے نتیجے میں دینی مدارس کی افادیت کا ایک نیا باب کھل سکے گا، دینی مدارس کے تربیت یافتہ فارغین ایک ایک مسجد میں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گے اور پوری امت کو فیض پہونچائیں گے۔ اس وقت بہت بڑا سوال دینی مدارس کے فارغین کی افادیت کا بھی کھڑا ہوا ہے۔
جمعہ کے خطبات کی زبان، اہداف اور انداز کے سلسلے میں انقلابی تبدیلیاں لانے سے چند سالوں میں پوری نسل کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے گا، اس کے بعد ہماری آنے والی نسلیں اطمینان کے ساتھ عصری اداروں میں جدید تعلیم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرسکیں گی۔

یہ یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں مسلم لڑکے ہی نہیں مسلم لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں، جن خطروں سے لڑکے دوچار ہیں ان کا لڑکیوں کو بھی سامنا ہے، جمعہ کے خطبوں کا انتظام جس قدر مسلمان لڑکوں کے لئے ضروری ہے، اسی قدر مسلمان لڑکیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ دین وایمان کو بچانے والے اور سیرت وکردار کی بہترین تعمیر کرنے والے جمعہ کے خطبوں میں مسلمان لڑکیوں کی شرکت کا بھی انتظام ضرور کیا جائے، اور ان کی شرکت کو ضروری قرار دیا جائے۔ جن مفاسد کے اندیشے سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا گیا تھا، ان سے ہزار گنا بڑے مفاسد سے بچانے کے لئے جمعہ کے خطبوں میں خواتین کی شرکت کو مطلوب قرار دیا جائے۔ بے حد ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے فتوی گھروں سے جاری ہونے والے فتوے امت کے حال کو بہتر اور مستقبل کو روشن بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔

بلاشبہ اس طرح کے فیصلے جذبات میں آکر نہیں لئے جاتے ہیں، ان کے علمی اور تحقیقی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، اس طرح کے فیصلے اجتماعی اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں، ضروری ہے کہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اہل علم اس مسئلے پر علمی وفقہی سیمینار کریں، اہل تحقیق واجتہاد اس پر گہری تحقیق کریں، اور علمی دلائل کی روشنی میں ایسی قرارداد تک پہونچیں جس میں دین وملت کی بہتری اور بھلائی نظر آتی ہو، دین وشریعت کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو۔

بلاشبہ لوگ آسانی سے اصلاح حال کے اس منصوبے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، پھر بھی نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ حاجت وضرورت کے تقاضوں کے تحت اگر ہمارے علماء کرام کار اور کاروبار کے انشورنس کی اجازت دے دیتے ہیں، اور لوگ اس اجازت پر عمل بھی کرلیتے ہیں، تو ہمارے علماء بہت بڑی ضرورت کے تقاضے کو محسوس کرکے سامعین کی زبان میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت بھی مرحمت فرما سکتے ہیں۔ ان کی اس نوازش پر قیامت تک آنے والی تمام نسلیں ان کی احسان مند رہیں گی۔

پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جمعہ کے خطبے کی زبان بدلنے سے امت کی تقدیر بدلنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ عربی زبان میں خطبے سے جمعہ کا فرض ادا ہوجائے گا، لیکن مقامی زبان میں خطبے سے اس فرض کے ساتھ ساتھ امت کی صحیح تعلیم وتربیت اور دین وایمان کی حفاظت کا بہت بڑا اور بے حد مشکل فرض بھی ادا ہوسکے گا۔ اور یہ فرض پوری ملت کو آخری پکار آخری پکار کہہ کر آواز دے رہا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں