حقیقی دین اسلام کی طرف واپسی

ایڈمن

اس لڑکے کی کہانی ایس آئی او نے جس کی زندگی بدل دی  اس لڑکے کی کہانی جس کے والدین نے بھی اس کے لیے بڑے خواب دیکھے تھے جس طرح تمام ہی والدین اپنے بچوں کے لیے کچھ خواب…

اس لڑکے کی کہانی ایس آئی او نے جس کی زندگی بدل دی 

اس لڑکے کی کہانی جس کے والدین نے بھی اس کے لیے بڑے خواب دیکھے تھے جس طرح تمام ہی والدین اپنے بچوں کے لیے کچھ خواب دیکھتے ہیں ۔ اس کے والد چاہتے تھے کہ وہ خوب پڑھ لکھ کر ایک بڑا آدمی بنے۔ اس لیے انہوں نے اسے بنگلور کے سب سے اچھے اسکول میں داخلہ دلوایا ۔ لیکن وہ لڑکا والدین کی امیدوں میں پرپورا نہیں اتررہاتھا۔ آٹھویں کے امتحان میں وہ فیل ہوگیا۔ مجبوراً اسے دوسرے اسکول میں بھیج دیاگیا جہاں کی تعلیم ICSE نصاب کے مطابق تھی۔ یہاں پر بھی پھر ایک بار وہ بارہویں کے امتحان میں فیل ہوگیا ۔ وہ پڑھائی میں کمزور تھا۔ پورے اسکول میں اس کی بدنامی کے چرچے تھے ۔ آخرکار بارہویں کے بعد اسے روزگار پرلگادیاگیا۔
وہ صرف جمعہ کا نمازی تھا۔ نمازوں سے غفلت برتتا ، موسیقی، فلمیں اور عیش وبے فکری میں زندگی گزر رہی تھی ۔ والدین سے بدکلامی کرنا اور چھوٹے بھائیوں سے لڑنا اس کی خصلت بن چکی تھی ۔ اسراف کا عادی تھا۔ بیک وقت اس کے پاس ۵؍ گھڑیاں رہتیں۔ اور نوجوانوں کی طرح عامرخان میں وہ اپنا آئیڈیل (ہیرو) ڈھونڈتا۔ بد اعتمادی اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ لوگوں سے بات کرتے ڈرتا اور اسٹیج اور تقریر کے نام سے ہی کانپنے لگتا۔
ایک دن اس کی ملاقات اپنے دوست حمزہ سے ہوئی ۔ جو اسے ہمیشہ اجتماعی مطالعہ قرآن کی نشست کی دعوت دیاکرتاتھا۔ اس دن کسی طرح حمزہ نے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے اسے راضی کرلیا ۔ اس نے زندگی میں پہلی بار ایس آئی او کے اجتماع میں شرکت کی ۔ پھر اس نے پلٹ کرکبھی نہیں دیکھا اور اپنی زندگی تحریک کے حوالے کردی ۔ اورپھر وہ ایس آئی او کا ممبر بن گیا۔ تحریک سے وابستگی نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ۔وہ قرآن پر غور وفکر کرنے لگا۔ قرآن سے اس کا گہرا تعلق استوار ہونے لگا، اور اس نے قرآن کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنالیا۔ وہ نمازی اور پرہیزگار اور اطاعت گزاربن چکاتھا۔ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد وہ لکچرر بن گیا۔ وہ نوجوان جو کبھی بات کرتے ڈرتا تھا،اس نے مینجمنٹ کے موضوع پر ۵؍ کتابیں تصنیف کیں ۔ اسلام پر ۲؍کتابیں شائع ہوئیں، اور سیکڑوں مضامین معیشت ، سیاست ، سماجیات وغیرہ عنوانات پر شائع ہوئے ۔ تقریباً ۲۵؍ مقالات مختلف ملکی اور بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے ۔ کبھی وہ عامر خان کا شائق ہواکرتاتھا، آج اس نے عامرخان کے نام کھلا خط لکھا۔ آج وہ مارکٹنگ کے موضوع پر تحقیق (Phd)کررہاہے ۔ایس آئی اوسے وابستگی کے بعد اس کی شخصیت ہی بدل گئی یہ نوجوان کوئی اورنہیں ہمارے تحریکی بھائی اور عزیز دوست سید کا ظم ہیں ۔
ذیل میں کچھ چیزیں پیش ہیں جو جو وہ ہم سے کہنا چاہتے ہیں :
مقصد:(نیت)
ابتدا میں میں بہت الجھاہوا تھا۔ نہیں جانتاتھا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتاہے ۔ میں نے مختلف دینی جماعتوں کو دیکھا، ان کے نظریات اور طریقہ کار کو جاننے کی کوشش کرتا، اور پھرپریشان ہو جاتا کہ آخر کس جماعت سے وابستگی اختیار کروں، اور کس طریقے سے اللہ کے دین کا کام کروں ۔ اس الجھن میں میں اللہ سے گڑگڑاتا، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاکہ اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا، مجھے دین کا صحیح فہم عطا فرما،اور مجھے تیرے دین کی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق عطافرما۔ میں سچے دل سے حق کی تلاش میں نکلا اوراللہ تعالیٰ نے مجھے حق کی راہ دکھا دی ۔
محرک عمل :
تنظیم سے وابستگی کا سب سے پہلا محرک قرآن سے گہرا ربط وتعلق ہے ۔ جس نے مجھے اللہ کے دین کی راہ میں ثابت قدم رہنے میں مدد کی، اور دوسرا محرک مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی وہ کتابیں ہیں جنھوں نے مجھے بے انتہا متأثر کیا ۔ جنھوں نے میرے ذہن کو اپیل کی ۔ آج مولانا کے لٹریچر ہی کی بدولت میں جان پایا ہوں کہ وہ سیدھا راستہ کیاہے اور اللہ کا دین ہم سے کیا چاہتاہے ۔ اور تیسرا محرک میرے استاد ہیں جناب ایس امین الحسن صاحب جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا، جنھوں نے تلاش حق میں میری رہنمائی کی۔
تحریکی رفقاء (ابتدائی ٹیم )
ایس آئی او کے ساتھ اقامت دین کے اس سفر میں مجھے بہت سے ذہین، باصلاحیت اور صالح رفقاء کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔ یہ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ مجھے حمزہ ، عزیراور طارق کی صحبت نصیب ہوئی ۔ یہ لوگ عمر میں مجھ سے چھوٹے ضرور تھے لیکن انہوں نے بہت سی چیزیں مجھے سکھائیں، اور تحریک میں میرے ارتقاء میں ان کابہت ہی اہم کرداررہاہے ۔
سہارا رشتہ داروں اور عزیزوں کا
الحمد اللہ مجھے بالواسطہ اپنے اعزۃ واقارب کی تائید اور حمایت حاصل رہی جو میرے لیے انعام ثابت ہوئی۔ والدین نے مجھے کبھی ایس آئی او کے اجتماع اورکاموں سے نہیں روکا۔ راہ حق میں میری تائید میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ میرے والد گھرکے کام احسن طریقہ سے کرتے رہے تاکہ مجھے تحریک کے کام کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے والدین کو بہترین اجر عطا فرمائے گا کہ وہ راہ حق میں گرمجوشی سے میرا سہارا بنے ۔
مواقع
ایس آئی او نے میرے تزکیہ وتربیت کے لیے مواقع فراہم کیے ۔ایس آئی او ہی نے مجھے لذت خودی بخشی اور میں خود کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان سکا۔ تحریری ، تقریری ، تنظیمی ، قیادتی اور تنقیدی صلاحیتوں کو ابھارنے کے کئی مواقع حاصل ہوئے ۔ یہ مواقع میرے تزکیہ اور ڈیولپمنٹ کے لیے ناگزیر ثابت ہوئے۔
والدین کی یقین دہانی:
میری شادی میرے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوئی، ہم نے دیکھاہے ان لوگوں کو جو تقریروں میں تو سادہ نکاح (شادی) کی حمایت کرتے اور اس کی ترغیب دیتے نہیں تھکتے، لیکن ان کا عمل ان کے قول کے مطابق نہیں ہوتا۔ جو اللہ کوسخت ناپسند ہے ۔ میں نے اپنے نکاح کو آسان بنایا اور جہیز نہ لے کر مثال پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اور آسان نکاح کی والدین کو یقین دہانی میں کامیاب رہا۔ ٹی وی کے نقصانات سے میں نے والدین کو آگاہ کیا اور ٹی وی اپنے گھر سے نکالنے پر انہیں مطمئن کرنے میں کامیاب رہا۔
تعلیم :
ایس آئی اونے مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پرابھارا جس کی وجہ سے میں نے بھارتیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا شروع کی۔ ان شاء اللہ میں بہت ہی جلد اپنی تحقیق مکمل کرلوں گا ۔ اپنے ملک کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کروں گا۔
کمزوریوں کا ازالہ :
ہرانسان کی طرح مجھ میں بھی کچھ کمزوریاں تھیں۔ میں غصہ میں آپے سے باہر ہوجایا کرتاتھا۔ لیکن ایس آئی او میں کام کرنے کے بعد غصہ پر قابو پانا سیکھ چکاہوں ۔
یادگار لمحات (ذمہ داری)
مجھے مرکزی سطح کی اور زونل سطح کی کئی ذمہ داریاں سونپی گئیں، لیکن میری دلی خواہش تھی کہ میں یونٹ کی سطح پر کام کروں ۔ یونٹ کی سطح پر کام کرنا میرے لیے سکون قلب کا باعث بنتا تھا۔ آخر کا ر اللہ نے میری تسکین کے لیے یونٹ کی سطح پر کام کرنے کا پھرایک بار موقع فراہم کیا ۔ اور میں نے ۲۰۱۳ ؁ء میں صدرمقامی بنگلور ایسٹ کی ذمہ داری نبھائی ۔
میں چاہتاہوں تنظیم کے لیے ….
میں چاہتاہوں کہ افرادتنظیم قرآن سے مضبوط تعلق قائم کریں کیونکہ قرآنی تعلیمات کو ہم اس زمین پر نافذ کر چاہتے ہیں، اگر ہم قرآن سے تعلق مضبوط نہیں کرتے تو ہم اللہ کی کتاب کا حق ادا نہیں کرسکتے ۔ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ پر ہماری خاص توجہ ہونی چاہیے ۔ ہمیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے منظم اور مربوط جدوجہد کرنی چاہیے ۔
میں نے اپنے بہت سے رفقاء کو ممبرس کیمپ میں اپنی آخری جذباتی تقریر کرتے ہوئے دیکھا ہے جس میں وہ رو پڑتے ہیں، لیکن میں رونے کے بجائے ہنستا رہوں گا ، اور آخری وقت تک ایس آئی او کا حصہ رہوں گا، اور تحریک کے مقصد (اقامت دین) کے لیے پوری جدوجہد کرتارہوں گا۔

سید کاظم ، بنگلور،کرناٹک۔۔۔ انگریزی سے ترجمہ: مجیدالدین فاروقی، ناندیڑ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں