شمس الضحیٰ، نئی دہلی
انسانوں کے خود ساختہ قوانین و دساتیر میں حق راز داری کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ اس لیے اکثر الفاظ کی شعبدہ بازی سے کام لیا جاتا ہے۔ عدالتیں بھی مبہم سا فیصلہ دے دیتی ہیں۔ جیسے چیف جسٹس J.S.Kheharنے سپریم کورٹ کے ججوں کے بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے 24اگست 2017کو کہا کہ حق راز داری بنیادی حق ہے۔ اس کے لیے انھوںنے دستورِ ہند کے دفعہ21کا حوالہ تو دیا مگر اس بنیادی حق کی نہ تو وضاحت کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ حق راز داری کی تفصیلات کیا ہیں.
۔حق رازداری کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ’’حق رازداری اپنے گرد حفاظتی حصار قائم کرنے کا حق ہے جس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو ہمارا حصہ ہیں : جسم، گھر، جائیداد، خیالات، احساسات، راز، شناخت۔ حق رازداری ہمیں انتخاب کا حق دیتا ہے۔ ہم اپنے اختیارات میں سے کن کن چیزوں سے کس حد تک، کس طریقے سے، کتنے وقت کے لیے، کسی حصے کا استعمال کا موقع دیں۔ یہ فرد کے حق رازداری کے تحت آتا ہے کہ وہ اپنے کسی راز کو کس حد تک افشاں کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کا حق کس کو کتنے وقت کے لیے دیتا ہے۔ یہ ایک فرد خاص کا معاملہ ہے۔‘‘
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور میں کل چھ دفعات ہیں جس میں اب تک ۲۶ ترمیمات ہوئی ہیں۔ ان میں پہلی، تیسری، چوتھی اور پانچویں ترمیم صرف حق رازداری پر ہی ہوئی۔ ان سب کے باوجود قوت نافذہ کے فقدان میں یہ ترمیمات ابھی محض زینتِ اوراق ہیں۔دستور ہند کے باب تین اوراس میں بھی دفعہ ۱۴ ، دفعہ ۱۹ اور دفعہ ۲۱ کے حوالے سے حق رازداری کے حق میں دلائل دیے جاتے ہیں۔ مگر شخصی و انفرادی حقوق اور حق رازداری دو الگ الگ معاملے ہیں۔ عدالتوں نے یہ بات ضرور کہی ہیں کہ حق رازداری بنیادی شرط ہے۔ حقیقی معنی میں ضمانت یافتہ آزادی سے لطف اندوز ہونے کا۔ فرد کو وقا ر اورحریت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے حق رازداری بنیادی ضرورت ہے۔
صاحبِ اقتدار لوگوں کے حقوق رازداری کو تو تحفظ حاصل ہے جیسے 70کی دہائی میں امریکہ میں صدر نکس کے خلافWater Gate Scandalہوا جس میں اپوزیشن لیڈر کے فو ن ٹپنگ کا معاملہ اٹھایا گیا۔ بھارت میں بھی اپوزیشن کے فون ٹپنگ معاملے پر اسی کی دہائی میں واویلہ مچا، اس کے باوجود حق راز داری پر کوئی واضح قانون سازی نہیں ہوپائی۔ حقوق رازداری انسان کے وقار، خود مختاری اور جمہوری اقدار کی روح ہے۔ حق رازداری ایک فطری حق ہے۔ اس سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اسے واضح طور پر بنیادی حق تسلیم کرنا چاہیے۔ حق رازداری کی واضح تعریف متعین کرکے اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ کیونکہ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق سے اور ضمانت حریت سے عملاً مستفیض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شہریوں کو حق رازداری بھی حاصل ہو۔ بغیر حق رازداری کے تمام ضمانتیں بے سود ہیں۔کسی کے راز پر نگرانی رکھنا حقوق انسانی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بنیادی حقوق پر قدغن ہے۔ اس سے انسانیت متاثر ہوتی ہے۔ ذہنی ارتقا نہیں ہوپاتا۔ انسان خوف کے سائے میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
Biometric Data اور Deomgraphic Data جو حکومت جمع کررہی ہے اور آدھار کارڈ بنانے پر لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے۔ بنیادی سہولیات اور مراعات کو آدھار سے جوڑا جارہا ہے۔ یہ سب غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔ کیونکہ یہ حق رازداری کی خلاف ورزی ہے۔ حق رازداری بنیادی حق کی روح ہے۔ اس کی نگرانی حقوق انسانی اور بنیادی حقوق کی روح کے منافی ہے۔Biomateric Dataکا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ یہDataتمام تر دعوؤں کے باوجود محفوظ نہیں ہے۔ اس تک ہیکروں کی رسائی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں Face Bookنے اس کا اعتراف کرلیا تھا کہ اس نے کروڑوں لوگوں کے Dataکو فروخت کیا ہے۔
سب سے پہلے حق رازداری کی تعریف متعین کرکے اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ اور نگرانی راز کی نہیں بلکہ حقوق رازداری کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ہونی چاہیے۔ حقوق رازداری میں (۱) عائلی معاملات کی رازداری (۲) دانشورانہ ملکیت کی رازداری (۳) تجارتی و اقتصادی معاملات کی رازدای (۴) تبادلہ خیال کی رازداری (۵) وکیل یا ڈاکٹر سے مشورہ اور تبادلہ خیال کی رازداری (۶) خلوت کی رازی (۷) معروف پروگرام اور پالیسی کی رازداری (۸) اپنی ملکیت کی رازداری۔ واضح رہے کہ دستور ہند کی دفعہ 31میں حق ملکیت کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا تھا۔ مگر پارلیمنٹ نے اس کو حذف کردیا۔ اب حق ملکیت قانونی حق ہے۔ بنیادی حق نہیں ہے۔ جائداد کے حق کو اب دستورِ ہند کی دفعہ 300Aکے تحت رکھا گیا ہے۔حق رازداری کے تحفظ کے لیے نہ صرف قانون سازی اور اس کے عملاً مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ اس کے لیے ذہن سازی اور عوامی بیداری بھی ضروری ہے۔ یہ حق نہ تو لامحدود ہے اور نہ ہی نظر انداز کرنے کے لائق ہے۔
ایک جمہوری ملک میں اپنے نمائندوں اور رہنماؤں کو منتخب کرنے میں راز داری، ذاتی معاملات میں تبادلہ خیال کی آزادی، ضمیر و وسعت خیال کی آزادی بھی ہونی چاہیے۔ اسی طرح خلوت، بے تکلفی اور ذاتی معاملات کی رازداری کا حق بھی ہر شہری کو ملنا چاہیے۔ایک بات بہت اہم ہے کہ حق راز داری پر نگرانی اور قدغن انسان کی ذہنی ارتقا کو ہی نہیں روک دیتا ہے بلکہ بعض حالات میں ذہنی طور پر مفلوج بھی کردیتا ہے۔حق رازداری کا پاس رکھنا فرد اور ریاست دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ریاست کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فرد یا افراد کے ذاتی معاملات، عائلی معاملات یا خانگی و دیگر معاملات کی نگرانی کرے جسے وہ فرد پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو۔
لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال بھی پہلے Right to Privacy(حق رازداری) کو واضح کردیا تھا۔ قرآن شریف کی سورہ حجرات آیت نمبر۱۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تجسس نہ کرو، یعنی کسی کے حق رازداری پر ڈاکہ نہ ڈالو۔ کسی کے راز نہ ٹٹولو، کسی کی عیب جوئی نہ کرو، کسی کے ان رازوں کوجاننے یا پتہ لگانے کی کوشش نہ کرو، جس کو وہ افشاں کرنا نہیں چاہتا۔ ‘‘ابوداؤد نے روایت کی ہے کہ ایک بارنبی کریم ﷺ نے خطبہ میں تجسس کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: ’’مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج مت کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے پوشیدہ راز تلاش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کے در پے ہوجائے گا۔ ‘‘ابوداؤد ہی میں دوسری جگہ حضرت امیر معاویہؓ کے حوالے سے ایک حدیث نقل کے الفاظ یہ ہیں: ’’تم اگر دوسروں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے در پے ہوگئے تو تم ان کو بگاڑوگے یا کم از کم بگاڑ کے قریب کردوگے۔‘‘اسی طرح اسلام میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہی حق راز داری کا احترام کرنے کی ہی صرف بات نہیں کہی گئی ہے۔ بلکہ ریاست بھی حق رازداری پر دست درازی نہیں کرسکتی۔
احکام القرآن للجصاص میں ایک حد یث نقل کی گئی ہے کہ جب کسی شخص کے متعلق تمہیں برا گمان ہوجائے تو اس کی تحقیق مت کرو۔ الجصاص میں ہی ایک دوسری حدیث ہے کہ جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس کو پوشیدہ رکھا تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچالیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا واقعہ بہت سبق آموز ہے۔ ایک روز رات میں گشت کرتے وقت ایک گھر سے گانے کی آواز سنی یہ دروازہ بند تھا۔ آپ دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا تو ایک شخص بیٹھا ہوا ہے، وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے پکار کر کہا : اے دشمن خدا کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المؤمنین ! جلدی نہ کیجیے۔ اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع فرمایا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا کہ کسی کے گھر میں دروازے سے جاؤ اور آپ دیوار پر چڑھ گئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ دوسروں کے گھروں میں اجازت لے کر جایا کرو اور آپ بغیر اجازت تشریف لے آئے۔ اتنا سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی غلطی مان لی اور اس کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ہاں! اس سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے۔
لیکن اس کے مستثنیات بھی ہیں، جیسے جہاں ریاست کے خلاف تخریبی کارروائی کی سازش ہورہی ہو، منکرات کے اڈے ہوں، عوامی مفادات کے خلاف سازشیں ہورہی ہوں۔ ایسی سازشیں ہوں جس سے ملک کے اتحاد و سالمیت کو خطرہ ہو تب اس کے قد غن کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے۔ کسی کے ساتھ تجارتی شراکت داری سے پہلے اس کے یا اس کے کاروباری معاملات کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہے۔ شادی، بیاہ کے معاملات میں تحقیق بھی اس حق رازداری سے مستثنا ہے۔المختصر نہ تو حق رازداری لامحدود ہے اور نہ ہی اس پر بے جا قدغن لگائی جاسکتی ہے۔