محی الدین غازی
وہ کوئی بڑے عالم نہیں تھے، کسی خانقاہ کے مسند نشیں بزرگ نہیں تھے، جاہ وجلال والی شخصیت نہیں پائی تھی، شعلہ بیان مقرر نہیں تھے۔ پھر بھی وہ اس قدر مقبول کیوں تھے؟! سب ان سے محبت کرتے اور کوئی ان میں عیب نہیں نکالتا۔ جب کہ قائدین میں عیب نکالنا اکثر لوگوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔
ایک دبلا پتلا ظاہری وجاہت سے بالکل خالی ، عام انسانوں سے بھی زیادہ عام نظر آنے والا انسان، کیا ایسی سحر انگیز شخصیت کا مالک ہوسکتا تھا، کہ بڑے بڑے اہل ثروت اس کے اشارے پر بہت کچھ پیش کردینے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں۔
صدیق حسن صاحب مرحوم کے اندر وہ بات تھی جو کسی اور کے اندر نہیں تھی۔ وہ بات کیا تھی، اسے آنکھوں سے دیکھنا آسان مگر لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
وہ جب نائب امیر جماعت اسلامی ہند بن کر مرکز جماعت آئے، تو مرکز جماعت میں رونق آگئی۔ اور مرکز جماعت کی رونق صدیق حسن صاحب کے کمرے میں سمٹ گئی۔
مرکز جماعت میں مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے متعدد ذمے داران تھے، ان میں صدیق حسن صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا آفس دلی میں مقیم کیرلا والوں کی زیارت گاہ بنا ہواتھا۔کیرلا کے عوام کے درمیان ان کی مقبولیت کا اندازہ دلی میں رہتے ہوئے بھی کیا جاسکتا تھا۔میں نے ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایسا مقبول عوام شخص نہیں دیکھا۔
کیرلا کے احباب صدیق حسن صاحب کی ایک خوبی یہ بتاتے ہیں کہ وہ بڑا منصوبہ انجام دینے کے لیے ان افراد پر بھروسہ کرلیا کرتے، جن کے اہل ہونے کی ان کا دل گواہی دیتا ۔ اس میں وہ کبھی دھوکہ بھی کھاتے ، لیکن اس کے باوجود ان کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ افراد پر اعتماد کا دروازہ وسیع کیے بغیر بڑے منصوبے انجام نہیں دیے جاسکتے۔ تحریک اسلامی میں ایک بڑی خامی یہ در آئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی افراد پر بھروسہ نہیں کیا جاتا ہے، جب تک کہ انھیں خوب اچھی طرح پرکھ نہ لیا جائے۔طویل جانچ پرکھ میں اچھا خاصا وقت نکل جاتا ہے اور منصوبہ دھرا رہ جاتا ہے۔
میں ایس آئی اوکی ذمے داری سے فراغت کے بعددلی سے اپنے وطن بلریاگنج چلا آیا۔ ایک دن صبح صبح مرکز جماعت سے فون آیا، صدیق حسن صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ سلام دعا کے بعد انھوں نے کہا کیا کل مرکز جماعت آسکتے ہو؟ سوال میں ایسی تاثیر تھی کہ میں نے کہا ضرور ان شاء اللہ، اور میں روانہ ہوگیا۔ اگلی صبح دلی پہنچا۔ خدمت میں حاضر ہوا، مرحوم غلام اکبر صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ کہنے لگے جماعت کے لیے عربی کاسہ ماہی خبرنامہ نکالنا چاہتے ہیں، اور یہ کام تمھیں تفویض کرنا چاہتے ہیں۔ صدیق حسن صاحب کچھ تفویض کریں تو کون انکار کرسکتا تھا۔میں نے عرض کیا کہ قطر میں مرزا خالد بیگ رہتے ہیں، عربی صحافت پر سند یافتہ ماہر ہیں، انھیں بھی شامل کرلیتے ہیں ، فورا ہی یہ مشورہ قبول کرلیا گیا۔ ہم دونوں نے مل کر النشرہ کا پہلا شمارہ نکالا، ڈیزائنر کی غلطی سے عربی کا (ه) اردو کا (ہ) بن گیا۔ایک غلطی سے تین سو غلطیاں وجود میں آگئیں، خیرخواہوں نے ان سب الفاظ کوسرخ کرکے اور مزید کچھ الفاظ پر سرخ نشانات لگاکر صدیق حسن صاحب کے یہاں النشرہ کی لالہ زار کاپیاں جمع کردیں۔ میں سفر پر تھا، واپس لوٹا تو صدیق حسن صاحب نے وہ سب کاپیاں میرے سامنے رکھ دیں۔ میں نے اپنی صفائی میں جو کچھ کہنا تھا عرض کردیا۔میں سوچ رہا تھا کہ اتنے بڑے بڑے لوگوں نے میرے پہلے ہی کام کو عیب دار بتادیا ہے، یقینًا اب میری چھٹی کردی جائے گی۔ لیکن صدیق صاحب نے شفقت بھری نظر سے مجھے دیکھا اور کہا ان نکتہ چینیوں کی فکر نہ کرو، اور اب اگلے شمارے کی تیاری کرو۔اعتماد گزاری اور حوصلہ افزائی کا یہ میری زندگی کا پہلا اور نہایت خوش گوار تجربہ تھا۔ اس کے بعد پھر میں پوری لگن اور محنت سے النشرہ تیار کرتا رہا۔اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔
یاد آتا ہے کہ ایک دن مرکز جماعت میں عصر کی نماز کے بعد میں نے تذکیر کی اور سعودی عرب کے ایک عربی مجلے میں شائع ہونے والا واقعہ سنایا جس میں ایک بے نمازی کا جلا ہوا جسم قبر سے برآمد ہوا تھا۔اس وقت میری دانست میں یہ بہت موثر تذکیری بات تھی۔ نماز بعد صدیق حسن صاحب ملے اور کہا اس طرح کے واقعات عا م طور سے غیر معتبر ہوتے ہیں، اور توہم پرستی کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس مختصر تبصرے نے ا ب تک کی ساری زندگی میری رہنمائی کی۔
دبئی میں قیام کے دوران صدیق حسن صاحب آئے۔ ملاقات کے لیے طلب کیا ، میں حاضر ہوا تو کہنے لگے شمالی ہندوستان کے لیے ایک اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ ہریانہ میں کئی ایکڑ جگہ لے لی ہے۔ کیا تم اپنی زندگی اس کے لیے وقف کرسکتے ہو۔ صدیق حسن صاحب کی شخصیت میں ایسا سحر تھا کہ ان کے اشارے پر دل وجان نثار ہونے کے لیے آمادہ ہوجاتے ۔ میں نے صدق دل کے ساتھ کہا آپ جب حکم دیں گے میں دبئی کی ملازمت چھوڑ کر چلا آؤں گا۔
اس سلسلے میں ہماری ایک میٹنگ علی گڑھ میں ہوئی۔ ان کے حکم پر میں دبئی سے حاضر ہوا۔ میٹنگ میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب بھی تھے۔ ایک صاحب شارجہ سے آئے تھے، نام ابوبکر اور وطن کیرلا۔ شارجہ میں بڑا بزنس تھا۔ ہریانہ کی کئی ایکڑ کی زمین ان کا عطیہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے تشویش کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی صرف زمین مہیا ہونے سے قائم نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لیے بہت سی عمارات اور بہت سے مصارف درکار ہوتے ہیں۔ صدیق حسن صاحب کے چہرے پر ذرا بھی تشویش نہیں تھی۔ انھوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا یہ ابوبکر صاحب ہیں، میرے پاس ایسے دو سو اہل ثروت ہیں جو میرے ایک اشارے پر کروڑہا کروڑ کا انتظام کرسکتے ہیں۔ ابوبکر صاحب نے ذرا برا نہیں مانا، سعادت مندی سے اثبات میں سر ہلایا اور نظر جھکالی۔ یہ بہت بڑا منصوبہ تھا۔ صدیق حسن صاحب اس کے لیے کافی پرجوش تھے۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ صدیق حسن صاحب بیمار اور صاحب فراش ہوگئے اور یونیورسٹی کا منصوبہ اسکول تک محدود رہ گیا۔
جب میں نے دبئی چھوڑ کر کیرلا میں سکونت اختیار کی اور الجامعہ الاسلامیہ شانتاپورم سے وابستہ ہوا، تو صدیق حسن صاحب کی زیارت کے لیے ان کے گھر پہنچا۔ دیکھ کر مسکرائے، میں نے بتایا کہ میں شانتاپورم سے منسلک ہوگیا ہوں ، چلتے ہوئے میں نے کہا نصیحت کردیجیے، کہنے لگے: تم دبئی سے آگئے ،میں تمھارے فیصلے سے خوش ہوں، تم نے اپنے لیے جو راستہ چنا ہے اس پر آگے بڑھتے رہو۔ چند سال بعد مجھے مرکز جماعت میں طلب کیا گیا۔ اور زندگی نو نیز تصنیفی اکیڈمی کی ذمے داری تفویض کی گئی۔ مرکز جماعت پہنچ کر مجھے صدیق حسن صاحب کی شدت سے یاد آئی۔ جلد ہی موقع نکل آیا ، کیرلا کا سفر ہوا، میں ان کے گھر پر حاضر ہوا، نئی ذمے داریوں کی خبر دی، خوشی سے مجھے دیکھا، اور پھر بہت دیر تک وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتے رہے اور میں مسکراتا انھیں دیکھتا رہا۔ ان کی نگاہیں مجھ سے وعدے لیتی رہیں، اور میں انھیں وعدے دیتا رہا۔
صدیق حسن صاحب کا مجھ پر احسان عظیم یہ ہے کہ میں جب بھی ان سے ملا، انھوں نے مجھ سے وعدے لیے، میرے اندر کے سوئے ہوئے انسان کو جگایا، جذبات کی بجھی ہوئی انگیٹھی کو دہکایا، اور اسلامی تحریک کے لیے بہت زیادہ کرنے پر اکسایا۔ اب تک کی زندگی میں ایسے چندہی لوگ مجھے ملے، بس چند لوگ۔
صدیق حسن صاحب بولتے کم تھے، سنتے بہت زیادہ تھے۔ اور جب بولتے تھے تو کوئی بڑی بات کہتے تھے۔ اتنی بڑی بات کہ اپنی بہت سی باتیں سنانے والا شرمندہ ہوجاتا۔مجھے اس کا کئی بار تجربہ ہوا۔
صدیق حسن صاحب کی وفات سے تحریک اسلامی کوکیا نقصان پہنچا؟ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ لیکن ان کی بیماری نے تحریک اسلامی کے بڑے بڑے بہت سے منصوبوں کو پیوند خاک کردیا تھا۔اپنے سامنے اپنی جان سے عزیز منصوبوں کو بیمار اور پھر دفن ہوتے دیکھ کر انھیں کتنا دکھ ہوتا رہاہوگا اس کا اندازہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ دل میں کسک اٹھتی ہے کہ کاش ہمارے جذبے اورکندھے اتنے توانا ہوتے کہ ان کے منصوبوں کو سہارا دینے کے کام آجاتے۔بہرحال صدیق حسن صاحب نے اپنی مختصرصحت مند زندگی میں اسلامی تحریک کے نوجوانوں کو بہت سے مشکل راستے دکھادیے ۔