اکیسوی صدی میں جس طرح ہندوستانیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی لگن جاگ اٹھی ہے شاید اس سے قبل اتنی دلچسپی کبھی نہیں دیکھی گئی ۔آج بھی جب اعلی تعلیم کی باتیں کریں تو اس میں وہی عام ہندوستانی نظر آتا ہے جو سماج میں معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے۔ابھی حال ہی میں آئی اے ایس کے نتائج کا اعلان ہوا ہے جس میں کوئی چائے والے کا بیٹا ہے توکوئی سبزی والے تو کوئی چوڑی فروخت کرنے والی بیوہ کا بیٹا ہے ۔ان سب نے سماج میں تاریخ رقم کی ہے ۔وسائل کی کمی کے باوجود انہوں نے تعلیم کی انتہا کو چھونے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔آزادی سے قبل اگر کوئی نوجوان بی اے یا ایم اے کرنے کا ارادہ کرتا تھا تو سماج کے بااثر افراد اس پر پھبتیاںکستے تھے ۔یہاں تک کہ با اثر طبقہ اس کی تعلیم کو رکوانے کی بھی کوشش کرتے تھے کہ اس کی کیا مجال کے وہ اعلی تعلیم حاصل کرے۔لیکن جب ملک آزاد ہوا تو انہوں نے تعلیم کی طرف بھی توجہ دی اور ملک میں ہی ایسے تعلیمی ادارے کھل گئے کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے ولایت اور لندن جانے کی ضرورت نہیں رہی ۔ ایکسویں صدی آتے آتے ملک میںتعلیم حاصل کرنے کا اس قدر رجحان پیدا ہوا کہ کیا امیر اور کیا غریب سب نے یہ سو چ لیا کہ اپنی زندگی اور بچوں کی زندگی بنانی ہے تو اس کا واحد حل تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے ۔اس طرح مزدور طبقہ نے محنت و مزدوری کر کے اپنے اپنے بچوں کی تعلیم کا نظم کیا اور اس کے پیچھے اس طرح لگے کہ مانو ان کے زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ بس کسی طرح بچے اعلی تعلیم حاصل کر لیں اور وہ اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب ہیں ۔لیکن اس کے باوجود ہم ملک کے مسلمانوں کی تعلیمی ماحول پر گفتگو کریں گے ۔بد قسمتی سے ہندوستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواندگی کا تناسب تشویشناک حد تک کچھ کم ہے اور لازمی پرائمری تعلیم بدستور خواب بنی ہوئی ہے‘ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سڑکوں پر پھر رہے ہیں۔ ایک جانب اسکول جانے والے بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے تو دوسری جانب تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ لازمی پرائمری تعلیم کے مقاصد آج تک حاصل نہیں ہو سکے حالانکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ریاست تعلیم کو فروغ دینے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنا رہی ہے جس میں وہ ایک حد تک کامیاب ہیں لیکن کچھ خامیاں بھی ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
فروری ،مارچ کا مہینہ کم و بیش پورے ملک میں سکنڈری اور ہائر سکنڈری کے بورڈامتحانات کا زمانہ ہوتا ہے،اس زمانے میں طلبہ اپنے کورس کی کتابوں کے مطالعہ میں غرق رہتے ہیں جس کا ثبوت ہم برادران وطن کے محلوں میں جاکر آسانی سے پاسکتے ہیں کہ جہاں سرشام ہی گویاسناٹا چھا جاتا ہے اور اس سناٹے میں بس گھروں سے بچوں کے پڑھنے کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیںلیکن جب آپ مسلم محلّوں کا رْخ کریں تو یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہوتی ہے،ہر طرف صرف شور شرابہ اور ڈیگ پر بجنے والے گانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،حد تو یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں بھی یہ شور جاری رہتا ہے،بچے اپنے دوستوں کے ساتھ مٹر گشتیاں کررہے ہوتے ہیں اور جو بچے ان اوقات میں پڑھنا چاہتے ہیں وہ مطالعہ پر اپناذہن برقرار نہیں رکھ پاتے اور تھک ہار کر اپنی کتابوں کو پٹخ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ انہیں امتحان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے اور لازمی بات ہے کہ اس کا اثران مسلم طلبہ کے کیر ئر،گھر،خاندان اور معاشرہ پر منفی ا نداز میںپڑتا ہے۔ مسلم کمیونٹی میں تعلیمی ماحول کا نہ صرف فقدان پایاجاتا ہے بلکہ تعلیم وتدریس سے عدم دلچسپی بھی پائی جاتی ہے۔ہاں کچھ ایسے محلے اور علاقے بھی ہیں جو تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہاں پڑھنے والے بچے اکھٹے ہوتے ہیں کوئی ہاسٹل میں رہتا ہے تو کوئی کرایا پر کمرے لیکر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ لیکن ایسے تعلیمی محلے اور کالونیاں صرف یونیورسٹی کے ارد گرد ہوتے ہیں جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاقے کو ہم جامعہ نگر کے نام سے جانتے ہیں یہاں ملک کے کونے کونے سے طلبہ آتے ہیں اور اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے اقامت پذیر ہوتے ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے مسلم فیملی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی علاقے میں اپنا آشیانہ صرف بچوں کی تعلیم کے لئے بنا لیتے ہیں ۔اس طرح کا ماحول ہر یونیورسٹی کے آس پاس علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔چاہے وہ مسلم محلے ہوں یا پھر غیر مسلم ،وہاں صرف پڑھنے پڑھانے والے ہی زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔
بھلا ہوسچر کمیٹی رپورٹ کا جس نے اس حقیقت کو برسر عام آشکارا کر کے رکھ دیا کہ مسلمانوں کے صرف 4فیصد بچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،بقیہ 66 فیصد سرکاری اسکولوں میں جب کہ 30فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔اس رپورٹ کی توضیحات کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں کی ناخواندگی کے اسباب کے بارے میںباتیں کرتے پھرتے ہیں،ان کے بارے میںیہی سمجھناچاہئے کہ ایسے لوگ صرف ملت کی پسماندگی کا ماتم کرنا ہی جانتے ہیں،یہ پسماندگی کس طرح دور کیا جائے اس سے وہ نابلد ہوتے ہیں۔جہاں تک مدارس کی بات ہے وہ ہندوستان میں غیر حکومتی سطح پر سب سے بڑاتعلیمی نیٹ ورک ہیں ،جہاںجدید تعلیم گاہوں کے برعکس تعلیم کا ماحول اپنی آب و تاب کے ساتھ پایاجاتاہے۔یہ حقیقت ہے کہ مدارس مسلمانوں میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں،پورے ملک میں تیس ہزار سے زائد مدارس ہیں جو کہ معاشی طور پر کمزور افراد کی امداد سے تعلیم وتدریس کے فروغ کے لئے چلائے جاتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔بیشتر مدارس غریب طلبہ کے قیام ،طعام،کتابیں اور ان کے گھر واپس جانے کے خرچ بھی برداشت کرتے ہیں‘‘۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے ان ہی مدارس کے تربیت یافتہ افراد نے سب سے زیادہ رول ادا کیا ہے ،چاہے وہ سرسید احمد خان ہوں یاحکیم اجمل خان ،مولانا محمود الحسن ہوں یا حکیم عبدالحمید ،جن کی لامتناہی جدوجہد اور مشقت کے نتیجے میں مسلمانان ہند کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے ادارے مل سکے۔ماضی میں جہاںملک کے دیگر خطوںمیں علماء نے جدید تعلیم گاہیں قائم کیں ،وہیں آج بھی یہ لوگ تعلیم کے فروغ کے لئے دیوانہ وار کام کررہے ہیں ،چاہے وہ تکنیکی و انجینئرنگ ادارے ہوں یا پھررحمانی۔ہو یا تامل ناڈو کی مسجد میں قائم سول سروس کی تیاری کرانے والا کوچنگ سنٹر،یا پھر زکوۃْ فائونڈیشن کے ذریعے چلائے جانے والے کوچنگ سینٹر۔ مسلمانوں میں تعلیمی ماحول کے فقدان کے سبب طلبہ کا دھیان تعلیمی سرگرمیوں کی طرف سے کم ہوجاتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ گھروں میں تعلیمی مزاج کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا ماحول پروان نہیں چڑھ پاتا ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے محلوں میںلائبریری یادارالمطالعہ کا وجود ہی نہیں ہے جہاں وہ چند گھنٹے سکون سے مطالعہ کرسکیں ،اورکیرئر گائڈنس کا کوئی مرکز نہیں ہے جہاں سے وہ معلومات حاصل کرکے اپنے مستقبل کو روشن کر سکیں۔جس کی وجہ سے مسلم طلبہ مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت سے گھبراتے ہیں۔ تعلیم میں پیچھے رہ جانے کے سبب آج مسلمان اقلیت سرکاری نوکریوں میں برائے نام ہی رہ گئی ہیں،سول سروسز میں حاشیہ پر مسلم آبادی ہے۔۳۳یا ۳۴مسلم کے کامیاب ہونے پر جہاں ایک طرف خوشیوں کے شایادنے بجائے جاتے ہیں اور مضامین پر مضامین لکھے جاتے ہیں وہیں ان کامیابی کے با وجود ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا فیصد آبادی کے اعتبار سے کافی بڑھا ہے لیکن اس مقابلہ میں وہ بری طرح ناکام ہیں بلکہ اس امتحان میں شرکت ہی انتہائی قلیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا تناسب چایس پچاس سال سے یہی ہے ۔اس طرف ملک کے بہی خواں کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔اس میں جہاں سرکاری پالیسیوں کا عمل دخل ہے وہاںاہالیان ِ مسلم بستی بھی ذمہ دار ہیں جنہیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی فکر نہیں ،وہ خطیب حضرات بھی ذمہ دار ہیں جو مسجد کے منبرسے فروعی اختلا فات پر تو بڑی لمبی چوڑی بات کرتے ہیں لیکن تعلیم کے موضوع پر چند لمحے بھی گفتگو کرنا گوار ا نہیں کرتے ،وہ سیاسی لیڈران بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے نوجوانوں کا جذباتی استحصال تو کرتے ہیں مگر ان کے بہتر مستقبل کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے،وہ علماء بھی ذمہ دار ہیں جو اصلاح معاشرہ کی باتیں کرتے ہیں ،اصلاح ِ احوال کے لئے تعلیم وتعلم کو ضروری خیال کرتے ہیں مگر تعلیمی ماحول کیسے پیدا ہو اور پروان چڑھے اس پر کوئی بھی مہم نہیں چلاتے ، وہ لوگ بھی اس بابت ذمہ دار ہیں جو ملت کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے مسلمانوں کے مالی تعاون سے مسلم اکثریتی آبادیوں میں قائم اسلامیہ،مسلم یاملّت کالج کے منتظم ہیں مگر وہاں موزوں تعلیمی وتدریسی فضاپیدا نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر طالب علم جو کہ مسلم آبادیوں سے ہی آتے ہیں کسی بھی قسم کے تعلیمی ماحول کا احساس نہیں کرپاتے اوروہ ترقی و کامیابی کی دوڑ میں برادران وطن سے کافی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ایسے ماحول میںملّی تعلیمی اداروںکے ذمہ داران کو اپنی مالی منفعت کو بالائے طاق رکھ کرصرف اور صرف طلبہ کے بہتر مستقبل کے لئے فکر مند ہونا ہوگا ،کیونکہ بہتر کاردگی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ایسے تعلیمی ماحول کا ہونا ناگزیر ہے جو کالج سے شروع ہو کر محلے تک پہنچتا ہو۔
تعلیم کے فروغ کے لئے میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے بعد پیغامات کی ترسیل تیز تر ہوگئی ہے۔معیار تعلیم میں بہتری اور فروغ کے لئے جی ڈی پی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے ساتھ تحقیقی کاموں پر توجہ دینا ہوگی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان بنیادی فرق تعلیم کا ہے اور جن ممالک نے انسانی ترقی کو نصب العین بنایا ہے وہ دوسروں سے آگے نکل گئے ہیں……معیاری تعلیم کے فروغ میں ہندوستانی میڈیا اپنا کردار ادا کر کے معاشرے کے پسماندہ طبقات میں موجود معاشی تفریق کو کم کر سکتا ہے۔معیاری تعلیم طلباء کی سوچ اور زندگی میں کامیابی کے امکانات کو روشن کرتی ہے۔ صحافت کے میدان میں نئے آنے والے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کو عوام میں اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ تعلیم ہی ترقی و کامیابی کی کنجی ہے۔ تعلیمی پالیسی وضع کرنے میں میڈیاکا کردار انتہائی کلیدی ہے۔ تعلیمی شعبہ میں پالیسی سازوں کی سستی اور پرائمری سطح پر بہت سے ایسے گمبھیرمسائل ہیں جہاں پالیسی سازوں کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
از: فلاح الدین فلاحی