حجاب: عقیدہ اور قانون

ایڈمن

آخر ایچ ایل دتو جحاب کو لے کر عقیدے اور قانون دونوں میں غلط کیوں ہیں؟ چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ احساس ظاہر کیا کہ اگر کچھ گھنٹوں کے لئے اسکارف نہیں پہنا جائے گا تو عقیدہ غائب نہیں…

آخر ایچ ایل دتو جحاب کو لے کر عقیدے اور قانون دونوں میں غلط کیوں ہیں؟
چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ احساس ظاہر کیا کہ اگر کچھ گھنٹوں کے لئے اسکارف نہیں پہنا جائے گا تو عقیدہ غائب نہیں ہوجائے ۔
راجیو دھون، سینئر ایڈووکیٹ ، سپریم کورٹ آف انڈیا

اگر چیف جسٹس دتو حق پر ہیں تو مذہب سے گہری عقیدت رکھنے والے پیروکار اس عقیدے کو بلا کسی خوف و جھجھک کچھ گھنٹوں کے لئے بالائے طاق رکھ سکتے ہیں۔ دراصل یہ زیادہ سنگین اور خطرناک ہے بالمقابل اس لاپرواہی کے جس کے چلتے یہ تبصرے کئے گئے۔ایشویہ تھا کہ کیا ایک مسلم لڑکی ایک انٹرنس اگزام کے دوران حجاب پہن سکتی ہے جس امتحان میں یہ شرط لگادی گئی ہو کہ کسی کو بھی اسکارف لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ یہ معمولی مسئلہ ہے اور اگر کچھ گھنٹوں کے لئے اسکارف نہیں لگایاگیا تو عقیدے کا کوئی نقصان نہیں ہوجائے گا۔
لازمی جزء (Essentials)
جیسا کہ واقعہ ہوا، چیف جسٹس قانون و دستور نیز احساسات و جذبات دونوں ہی کے تناظر میں غلطی کر گئے، وہ قانونی نقطہ نظر سے غلط تھے کیونکہ یہ پوری طرح سے ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آرٹیکل ۲۵ (آزادئ مذہب) کا اطلاق عقائد اور اعمال (مذہبی طریقہ کار) دونوں کو ہی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
حجاب کا پہننا عقیدہ اور عمل دونوں کا حصہ ہے، اس آرٹیکل کے تحت وہ اعمال آئیں گے جوکہ مذہب سے متعلق لوگوں کے لئے سمجھے جائیں۔ اس اصول نے ۱۹۵۴ء کے سوامیار کیس کے بعد سے قانون کا درجہ حاصل کیا ہوا ہے۔ ’’او ہو چلو ۔۔۔۔۔۔ پلیز، ہم اس قسم کے چھوٹے چھوٹے معاملوں میں دخل اندازی نہیں کرتے‘‘، اور آگے بڑھ کر انھوں نے مزید کہا کہ ’’ یہ مسئلہ کچھ نہیں سوائے آپ کی انانیت کے‘‘، پھر آگے یہ کہ ’’ اگر تم بغیر اسکارف کے امتحان میں شریک ہوگئے تو تمہارا عقیدہ غائب نہیں ہوجائے گا‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں ذرا ایک نظر پگڑی (سکھوں کی) کے معاملے پر ڈالتے ہیں۔ انگلینڈ میں ایک مشتعل و جذباتی سکھ نوجوان ۴۲؍ دفعہ گرفتار ہوا کیونکہ وہ اسکوٹر چلانے کے دوران ہیلمیٹ نہیں لگاتا تھا، آخرکار انگلینڈ (برطانیہ) نے اپنا قانون تبدیل کردیا۔ اور ہمارے پولیس اور فوجی دستوں میں بھی سکھوں کو پگڑی باندھنے کی اجازت حاصل ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمام سکھوں سے کہا جائے کہ وہ امتحان کے لئے پگڑی نہیں باندھ سکتے ہیں؟! ساری قابلیت ختم ہوجائے گی۔ سکھ قوم سماجی و سیاسی لحاظ سے بہت طاقتور ہے۔ آپ ان سے نہیں ٹکرائیں گے۔ آپ تو صرف مسلم اقلیات سے الجھنا پسند کریں گے کیونکہ ان کی مخالفت کو آپ آسانی سے خاموش کرسکتے ہیں جبکہ ایک عام تعصب یہ بھی ہے کہ اسلام کو اصلاح کی ضرورت ہے۔
آپ کسی بھی طرح سے ہندوذات پات کے نظام سے نہیں ٹکرانا چاہیں گے بلکہ آپ صرف شیڈولڈ کاسٹ اور دیگر پسماندہ طبقات کا استعمال کرتے ہیں۔ سکھ مذہب کا ایک بہت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دستور کا آرٹیکل ۲۵؍ کہتا ہے کہ ’’ کرپان لگانے اور لے کر چلنے کو لازمی طور پر سکھ مذہب کے پروفیشن میں شامل سمجھا جائے گا‘‘۔ یہ پگڑی کو خارج نہیں کرتا ہے لیکن اس بات کو تقویت بخشتا ہے کہ اعمال (Practices) عقیدے کا لازمی حصہ ہیں۔
جن لوگوں کا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ یہ عمل ان کے لئے لازمی اہمیت کا حامل ہے، وہ اس پر عمل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ افسوس کچھ ہندوستانی ہندوؤں نے یہ یقین کر رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہلکے میں لے سکتے ہیں۔ ہندو تعصب پسندوں کے ذریعے بابری مسجد کا انہدام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کو کوئی افسوس نہیں ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کی شناخت دہشت گردی اور پاکستان سے ہوتی ہے۔ یہ خطرناک سوچ اب نظام عدلیہ میں بھی اپنی حساسیت کے باجود داخل ہوچکی ہے۔
پروفیسر عذرا رزاق یقینی طور پر اپنے اس دعوے میں برحق تھیں کہ اسکارف اتروانا ویسے ہی ذلت آمیز ہوتا ہے جیسا کہ کپڑے اتروانا ہوتا ہے۔ قرآن وسنت اس معاملے میں واضح ہیں۔ سورہ نمبر ۲۴؍ کی آیت ۳۰۔۳۱؍ اور سورہ نمبر ۳۸؍ کی آیات ۵۸ اور ۵۹؍ دونوں ہی حجاب (جلابیب) کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ جلابیب کی بہت سی شکلیں ہیں تاہم اسلام کے تمام ہی مکاتب فکر (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) اسکارف کو بہت ہی تاکید کے ساتھ لازمی قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ کیرلا ہائی کورٹ نے جولائی ۲۰۱۵ء کو دو مسلم لڑکیوں کو اسکارف پہننے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی کہ اگر ضروری ہوگا تو ممتحن invigilators تلاشی لے لیں گے۔ کیا کیرلا ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک اچھا قانون تھا؟ جواب ہے’’ہاں‘‘ ۔ چیف جسٹس دتو نے کورٹ میں جو کہا وہ ایک تبصرہ تھا۔ اس طرح کے تبصرے قانونی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے، اور ان کی پیروی نہیں کی جاسکتی، بہرحال پٹیشن کو واپس لے لیا گیا تاکہ کوئی غلط قانونی نظیر یا مثال قائم نہ ہوجائے۔
کوئی ریلیف یا مدد نہیں:
صرف یہ کہ دولڑکیوں کو ریلیف نہیں دی گئی، اس کے مقابلے میں ہندو قوم ہر اس فحش پنڈت کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہے جس کے پاس اپنا آشرم ہو۔ تازہ ترین مثال چھوٹی اسکرٹ میں سامنے آنے والی رادھے ماں کی ہے، جس کے سلسلے میں مجھے کوئی اعتراض اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ کوئی مجرم نہ ہو۔
Abercrombie and Fitch (ANF) کیس میں امریکہ کی سپریم کورٹ کا فیصلہ اس تناظر میں ایک سبق آموز مثال ہے۔ اے این ایف نے سمانتھا آلوف (Samantha Alauf) کی خدمات حاصل کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کردیاتھا کیونکہ وہ حجاب پہنتی تھی جو کہ اے این ایف کی پالیسی (Look Policy) کے خلاف تھا۔ نو میں سے آٹھ ججوں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا کہ ’’پالیسی نظر‘‘ سول رائٹس ایکٹ ۱۹۶۴ کے ٹائٹل VII کے خلاف ہے۔ جس کے مطابق مالکان (Employees) پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے لئے “Reasonable accommodation with-out undue hardship” کی پالیسی کا مظاہرہ کریں۔ لبرل اور کنزرویٹیو دونوں ہی طبقات نے Ebullian Justice Scalia کے اس اکثریتی فیصلے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
کثیر ثقافتی Multicultural
اختلاف رائے رکھنے والے جج کلیرنس تھامس کا خیال تھا کہ ’’پالیسی نظر‘‘ غیرجانبدارانہ ہے۔ ہندوستانی قوانین کے لئے یہ فیصلہ دو وجوہات سے بہت اہمیت کا حامل ہے:
(۱) حجاب کے مذہبی عمل ہونے کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔(۲) معقولیت اور تناسب کے نقطہ نظر سے اس کو آزمایا گیا، سیکورٹی اور دھوکہ دہی (Cheating) کے مسائل کو دوسرے طریقوں سے بھی نبٹایا جاسکتاہے۔
مسلم لڑکیاں دو گھنٹے پہلے ہی آنے کو تیار تھیں تاکہ (خاتون) سیکورٹی ان کی تلاشی لے سکیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایئرپورٹ پر ہوتا ہے حتی کہ خود سپریم کورٹ میں عورتیں حجاب میں آتی ہیں نیز پردے کے پیچھے ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔ جو سپریم کورٹ کے لئے ٹھیک ہے یقیناًوہ ملک کے دیگر مقامات کے لئے بھی ٹھیک ہی ہوگا۔
چیف جسٹس اس کیس میں جسٹس ارون مشرا اور رائے کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مشرا عام طور سے نیگیٹیو ہی رہتے ہیں۔ رائے نے نارتھ ایسٹ کی کامکھیہ مندر کے معاملے میں ایک زبردست اور فاضلانہ فیصلہ لکھاتھا۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
پہلا ، چیف جسٹس اس بنچ سے کوئی بھی ایسا تبصرہ نہ کریں، جو کسی بھی کمیونٹی کے لئے توہین آمیز ہو۔
دوسرا یہ کہ ہندوستان پوری دنیا میں کثیرثقافتی سماج کی سب سے بڑی مثال ہے ،جدید دور میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کو برباد نہ کریں۔
(مضمون نگار دستوری قوانین کے سب سے ماہر اور مشہور ہیومن رائٹس کارکن ہیں، اس مضمون میں بیان تمام ہی خیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری مضمون نگار کے حق میں جاتی ہے، میگزین کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے، یہ مضمون اصل انگلش میں شائع ہوا جس کا لنک ہے:
http://www.dailyo.in/politics/chief-justice-supreme-court-hl-dattu-muslim-hijab-article-25-freedom-of-religion-radhe-maa-tolerance-diversity/story/1/5747.html

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں