مطلب مرزا
ہر سال ایام حج میں جس خوبصورت منظر کا نظارہ چشم فلک کرتی ہے, پروانے جو بے قرار و دیوانہ وار لبیک اللہم لبیک کی صداء لگاتے ہوئے سرزمین حرم کی طرف دوڑتے ہیں، اور میدان عرافات میں ابراہیم علیہ السلام کی روحانی ذریت کا انبوہ عظیم در اصل اس پکار و دعا کا نتیجہ ہے جو تقریباََ پانچ ہزار سال پہلے ابو الانبیاء اور ساری انسانیت کے امام سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے اور تعمیر کے بعد مانگی تھی۔
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور یاد کرو جب کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل بیت اللہ کی بنادیں اٹھا رہے تھے۔ انہوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب ہماری جانب سے یہ دعا قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا جاننے والا ہے–
جب یہ گھر تعمیر ہو گیا تو حضرت ابراھیم اور حضرت اسمعیل علیہم الصلاۃ و السلام نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔ اے ہمارے رب ہم دونوں کو تو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت میں سے تو اپنی ایک فرمانبردار امت اٹھا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو توبہ قبول کرنےوالا، رحم فرمانے والا ہے۔
انہیں دعاؤں کا ثمرہ امت مسلمہ ہے اور یہ انبوہ عظیم ہے جو ہر سال ایک لباس ایک وضع اور زبان پر ایک ہی پکار لئے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے نظر آتا ہے, صفا و مروہ پر دیوانہ وار دوڑ رہا ہوتا ہے اور میدان عرافات میں کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۔ میں نے تو اپنا رخ بالکل یکسو ہو کر اس کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اجتماع حج جو ہر سال ایک انبوہ عظیم کا گواہ بنتا ہے اس کی غرض و غایت کیا ہے ؟
حج کی اصل معنویت اور انفرادیت اصلاََ “حنیفیت” اور یکسوئیت ہی ہے, اور یہی پورے دین کی بنیادی تھیم بھی ہے کہ اسی سے عبادت و بندگی, اطاعت و محبت اور قربانی و سپردگی کے جذبات انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ حج کا اجتماع اس مشن کی آبیاری اور یاد دہانی کے لئے بھی ہے جو خدا نے اپنے جلیل القدر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کو دیا تھا, وہ مشن جس کے حصول کے لئے اللہ نے ابراہیم و اسمعیل علیہم السلام کے ذریعے خانہ کعبہ کی تعمیر کروائی–
وہ مشن کیا تھا ؟ “نوع انسانی کو امت واحدہ کے قالب میں ڈھالنا“۔ امت واحدہ کی تشکیل کے لئے ضروری تھا کہ کوئی ایک مرکز پوری نوع انسانی کا ہو, وہ مرکز کعبہ ہے- اس مرکز کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام کے دست مبارک سے کروائی جو ان کے منصب “امامتِ نوع انسان” کی اولین ذمہ داری تھی۔ کعبہ کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا “جعلنا البیت مثابة اللناس و امنا” یعنی اس گھر کو انسانیت کا مرکز اور امن کا گہوارہ بنایا۔
حج کا اجتماع اصلاً اسی مشن کے حصول کا ذریعہ ہے۔ زائرین کعبہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے سفر کے دوران روح حج اور غایت حج کو اپنی نگاہ سے اوجھل نہ ہونے دیں, ہر اٹھتا ہوا قدم ان کے ذہن و قلوب میں اس مشن کی یاد کو تازہ کر دے جس کے حصول کے لئے ابراہیم علیہ السلام نے نسل آدم کو طواف کعبہ اور حج بیت اللہ کی دعوت دی۔
اپنے بدن پر احرام باندھتے ہوئے دل اس جذبہ سے سرشار ہو کہ میں نے اپنے ظاہر و باطن سے ہر رنگ کو نکال پھینکا ہے اور “صبغةاللہ” سے خود کو رنگ لیا ہے, نوع انسانی کو امت واحدہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم کر لیا ہے۔طواف کرتے ہوئے یہ احساس کہ میں نے اپنا مرکز, اپنا کعبہ اپنا مشن نہیں بدلا ہے, طواف کرتے ہوئے یہ احتساب کہ میں “شہداء علی الناس” اور “خیر امت” کی ذمہ داریوں سے غفلت تو نہیں برت رہا۔ صفا و مروہ کے درمیان دوڑتے ہوئے یہ عہد کہ میں “دین حنیف” اور اسوۂ براہیمی سے انحراف نہیں کروں گا, ابراہیم کا راستہ ہی میرا راستہ ہے, ابراہیم کا مشن ہی میرا مشن ہے۔ یہی جذبات جب اپنے پورے کمال کے ساتھ کسی انسان میں جمع ہو جاتے ہیں تو دربار خدا وندی سے یہ بشارت ملتی ہے “إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا” یعنی دنیا میں امامت و قیادت کی سعادت، اور اگر انسان کے قلب و روح ان جذبات سے خالی ہو تو وہ مایوسیوں اور درماندگیوں سے گھر کر “لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ” کے گڑھے میں جا گرتا ہے، یعنی پستی و ذلت اور غلامی و محکومی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ در اصل روح حج اور پیغام حج ہے اور اسی روح کو زندہ کرنے کے لئے حج کا لباس ایک مقام ایک نعرہ ایک اور صدا ایک ہے…اگر یہ روح زندہ ہو جائے تو یقیناً
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے