کہتے ہیں کہ جمہوریت میں عدلیہ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے، جو نظام قانون کو غیرجانبداری کے ساتھ نافذ کرتی ہے اور بلاتفریق ذات، مذہب، طبقات اور قبائل کے تمام لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بناتی ہے، یہی جمہوریت کی سب سے بڑی خاصیت ہوتی ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو ہندوستان جیسے جمہوریت کے مرکز میں یہ خاصیت خاک آلود ہوتی نظر آتی ہے۔ بے شمار مثالوں کے ذریعے یہ بات واضح کی جاسکتی ہے، لیکن انصاف کے ساتھ کھلواڑ کی چند مثالوں کے نقوش ابھی بھی ہمارے ذہنوں میں بالکل تازہ ہوں گے۔
ہر شب اپنی آغوش میں ایک روشنی پوشیدہ رکھتی ہے، ٹھیک اسی طرح ہر ظلم اپنی سیاہ چادر میں ناانصافی کو پوشیدہ رکھتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ملاپ سے ۲۲؍مئی ۱۹۸۷ ء کی شب نے میرٹھ کے ہاشم پورہ کے لوگوں کے دلوں پر پی اے سی جوانوں کی گولیوں کے ذریعے جس طرح تاریکی کا ننگا ناچ کرتے ہوئے، جس طرح بے قصور مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، ٹھیک اسی طرح ظلم کی ہم نواناانصافی نے ۲۱؍مارچ ۲۰۱۵ ء کو نظام قانون کے ساتھ مل کر عدلیہ کے ذریعہ ایک بار پھر سے ہاشم پورہ کے بچے ہوئے لوگوں پر دن کے اجالے میں تاریکی کا ننگا ناچ دکھایا کہ جب عدالت نے پی اے سی کے ان صریح ملزموں کو بری کردیا۔
ظلم کی اس کالی رات اور پھر اس تاریک دن سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستانی نظام کس طرح تاریک ترین ہوتا جارہا ہے۔
اس کیس کے فیصلے نے ہمیں بتایا کہ ہمارا نظام قانون کتنا غیرسنجیدہ ہے۔ نظام قانون نے ان سارے لوگوں کو چھوڑ دیا جن پر اس قتل عام کو انجام دینے کا الزام تھا۔ عدلیہ نے ان لوگوں کو شک کا فائدہ دیا، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ آخر اس قتل عام کا کوئی ذمہ دار بھی ہے یا پھر ہندوستانی نظام سے جڑے قانونی نظام کے نفاذ کے لیے سرگرم پی اے سی کی بندوقیں اپنے آپ گرجیں، اپنے آپ لوگ مرگئے، اپنے آپ ان کی لاشیں بہہ گئیں اور جو زندہ بچ گئے، وہ جو کہہ رہے ہیں، بکواس ہے، جھوٹ ہے۔
انصاف کو بالائے طاق رکھنے کی یہ واحد مثال نہیں ہے، بلکہ ۷؍اپریل ۲۰۱۵ ء کو قانون کو نافذ کرنے والے ایسے ہی جوانوں نے تلنگانہ میں سات مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ان نوجوانوں کو دہشت گردی کا جو فرضی لیبل لگاکر گرفتار کیا گیا تھا، ایک لمبی مدت تک عدالت میں یہ ثابت نہ ہونے کے بعد کچھ ہی دنوں میں ان لوگوں کی رہائی ہونے والی تھی۔ یہی وہ بات تھی جو فسطائیت کا لبادہ اوڑھے ہوئی پولیس کو ہضم نہیں ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ فرضی انکاؤنٹر کے ذریعے ان نوجوانوں سے جینے کا حق سلب کرلیا گیا۔ جبکہ اسی دن آندھراپولیس نے محض صندل اسمگلنگ کے الزام میں ۲۰؍لوگوں کوگولیوں سے بھون ڈالا۔
نظام کے محافظین کے ذریعہ انصاف کے پرخچے اڑانے والے ان کرتوتوں پر خود کو نام نہاد سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔
فسطائی طاقتیں جس طرح ملک میں اپنے پاؤں پسار رہی ہیں، اور حزب اختلاف جس طرح خاموش تماشائی بنے یہ سب ہوتے دیکھ رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ ہمارے سماجی تانے بانے کو یہ فسطائی طاقتیں توڑ ہی ڈالیں گی۔ کبھی عقیدت کے نام پر کھانے پر پابندی، کبھی جذبات کی رو میں بہہ کر سیروتفریح کے دائروں کو تنگ کیا جاتا ہے، کہیں تاریخ میں نقب زنی کی جاتی ہے تو کہیں اقلیت کا آئینہ دکھا کر کم بچے پیدا کرنے کا فرمان سنایا جاتا ہے، کہیں گرجاگھروں اورمساجد پر حملے ہوتے ہیں، تو کہیں ننوں کی آبروریزی اور لوگوں کو ’’گھر واپسی‘‘ پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر کسی ایک طبقے کو نہیں بلکہ پورے سماج اور سماج میں رہنے والے ہر ایک فرد کو سوچنا چاہئے کہ سماج کی ترقی کا راستہ کسی طبقے، مذہب، اور ذات کے زوال سے نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے سے حاصل ہوتا ہے۔
بہرحال اقتدار کے پجاری بھلے ہی یہ بات نہ سمجھتے ہوں، لیکن تقریباََ ایک سال گزرجانے پر عوام کی سمجھ میں سب کچھ آنے لگا ہے۔
طیب احمد بیگ، ایڈیٹر ہندی ماہنامہ چھاتر ومرش، نئی دہلی