انسان جب اپنی زندگی کی معنویت کا احساس کرنے لگےتب اس کی سوچ میں گہرائی اور پختگی پروان چڑھتی ہے۔ وہ اپنی ذات اور نفسانی خواہشات سے اوپر اٹھ کر سوچنے لگتا ہے۔وہ زمانے بھر میں رائج افکار و نظریات، سماج کی مروجہ روایات اورایسے کئی پہلو جنہیں معاشرہ میں قبول عام حاصل ہوچکا ہو،کو مِن و عن قبول کرلینے کے بجائے فطرت کی روشنی میں ان پر غور و فکر کرتا ہے۔ وحی الٰہی اس فکری سفر کو درست سمت عطا کرتی ہے۔ اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ احسن التقویم(بہترین ساخت) پر پیدا کیاجانا کن امور کا تقاضا کرتا ہے اور فکر،عمل،اخلاق ،کردار غرض ہر معاملے میں کونسی باتیں اس کے مقام سے فروتر حیثیت رکھتی ہیں۔
اخلاق انسانی جبلت کا حصہ ہیں۔ اسی لیے اخلاق کا تصور انسانی ذہن میں فطری طور پر پائے جانے والے ان تصورات میں سے ہے جنہیں ڈیفائن کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ چونکہ انسان کو چند فطری کمزوریوں کے ساتھ امتحان کی غرض سے اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے ،لہذا کئی دفعہ مختلف اسباب کی بناء پر انسان کی اخلاقی حس بھی کمزور ہونے لگتی ہےاور انسان سے اپنے مقام سے فروتر اعمال سرزد ہونے لگتے ہیں۔ خواہشات نفس کی پیروی انسان کی اخلاقی حس کو کمزور کرتی ہےاور یہ عمل مستقل ہونے لگے تو اخلاقی حس بھی ماؤف ہوتی چلی جاتی ہے۔ انسان کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ اگر کوئی گناہ اس سے سرزد ہواور وہ اسے نہ مٹائے(توبہ نہ کرے یا کفارہ ادانہ کرے) تو وہ گناہ صرف وقتی عمل نہیں رہ جاتا بلکہ انسانی شخصیت پر اپنا اثرچھوڑ جاتا ہے۔انسان کا روحانی اور اخلاقی وجود اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی لیے اخلاق ،ایمان کے بغیر ادھورے اور نامکمل رہتے ہیں۔ خدا کی ذات پر ایمان، اس کے اجر کی امید، اس کی سزا کا خوف اخلاق کو پختگی فراہم کرتے ہیں۔ ایمان اور اخلاق کےباہمی تعلق کو بیان کرتے ہوئے امام غزالی اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘کیمیائے سعادت’ میں لکھتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل اس کے دل میں ایک صفت کو پیدا کرتا ہے اور وہ صفت اس کی ساتھی بن جاتی ہے۔ اس صفت کو اخلاق کہتے ہیں۔ جن کاموں سے برے اخلاق پیدا ہوتے ہیں، انہیں گناہ کہتے ہیں اور جن کاموں سے اچھے اخلاق پیدا ہوتے ہیں،انہیں عبادت۔ گویا کہ اخلاق عبادت ہی کا جز ہےاور عبادت کا وہ مقصد جس کے لیے بنی نوع انسان کو پیدا کیا گیا ہے، اخلاق کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔
تحریک اسلامی معاشرہ میں اسلامی بنیادوں پر ہمہ جہت تبدیلی کا داعیہ رکھتی ہے۔ معاشرہ کی تبدیلی کی شروعات لوگوں کے افکار و اخلاق میں تبدیلی سے ہوتی ہے۔ اسلام کے حیات بخش پیغام کی علمبرداری کمزور اخلاق کےحامل افراد کے بس کی بات نہیں۔ افراد کے پاس علم ہو، بہتر سے بہتر صلاحیتیں ہو،لیکن اگر وہ اخلاقی صفات سے آراستہ نہ ہوں توایسے افراد کے ذریعے دنیا کے دوسرے کام تو شاید کیے جاسکتےہوں گے ،لیکن اسلام کی سربلندی کا کام بالکل انجام نہیں دیا جاسکتا۔ عصر حاضر کی غالب تہذیب نے افکار و اذہان کو اس درجہ متاثر کیا ہے کہ کئی معاملات میں اخلاق کا تصور بھی دھندلااور کمزور پڑگیاہے۔مثال کے طور پر حیاءکے تصور کو لیجیے۔ اللہ کے نبی ﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے کہ ‘اگر تم میں حیاء نہیں تو پھر جو چاہے کرتے رہو’۔ حیاء اسلامی اخلاق کا نتہائی اہم جز ہے اوریہ بات ہم جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان تعامل میں بے اعتدالیوں سے بے حیائی کا دروازہ کھلتا ہے۔ جدیدیت کی فکری بنیادوں کے ماتحت تشکیل یافتہ موجوہ سماج مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط سے عبارت ہے۔تعلیمی اداروں سے لے کربازار،کام کرنے کی جگہوں اور عوامی مقامات غرض ہر جگہ آزادانہ اختلاط کے اس ماحول میں کئی نوجوان عملی طور پر اسلامی تعلیمات کو ناممکنات میں سے تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ معیشت نے اسراف اور آسائشوں کو زندگی کا محور بناتے ہوئےافراد کو خودمرکوز بنادیا ہے۔ غرض معاشرت سے لے کر معیشت تک، اخلاق و کردار سے لے کر طرززندگی تک ہر چیز کو جدید تہذیب نےصرف متاثر نہیں بلکہ مسخ کیا ہے۔
مولانا مودودی سمیت کئی اسلامی مفکرین نے یہ بات کہی کہ جدید تہذیب کے زیر اثر تشکیل یافتہ سماج میں اسلامی تعلیمات کی ملمع کاری نہیں کی جاسکتی بلکہ اسلامی تعلیمات اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت رکھتی ہےا ور اس سے حقیقی ثمرات بھی اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب کہ معاشرہ کی تعمیر اسلامی عقائد کی روشنی میں کی جائے۔ اس حوالے سے اسلامی اخلاق کی روشنی میں انفرادی و اجتماعی سیرت کی تعمیر کی کوششیں اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک اس کی فکری اساسیات پر بات نہ کی جائے اور موجودہ تہذیب کی فکری بنیادوں کی بیخ کنی نہ کی جائے۔ اس کے بغیر محض اخلاقی وعظ کسی دوررس سماجی تبدیلی کا باعث نہیں ہوگا۔