تیونس میں بورقیبہ اور بن علی کے دور کے شدید ظلم و ستم اور جبر و استبدادکے بعد ۲۰۱۰ کے اواخر میں خوشگوار عوامی انقلاب وجود میں آیا، جس نے پوری عربی و اسلامی دنیا کو عرب بہار سے متعارف کرایا، البتہ مختلف ممالک کو مختلف تجربات کا سامنا ہوا۔ کہیں عوام کی کامیابی پر فوج نے شب خوں مارا ، کہیں فتح چند قدم کے فاصلے پر پہنچ کر خانہ جنگی کے دھندلکوں میں روپوش ہو گئی، اور کہیں انقلاب کی اس عوامی کوشش کو عالمی طاقتوں نے اپنے اسلحوں کی کھپت کا بہترین موقع غنیمت جانا اور ان کے میدانوں اور مجمعوں کو اسلحہ ساز کمپنیوں کے لئے نئے اسلحوں کی تجربہ گاہ بنادیا۔ ان تمام تلخ تجربات اورروح فرسا حالات کے بیچ تیونس ایک امید کی کرن اور انقلاب کی علامت بن کر کھڑا رہا، اور دوسرے استبداد اور ڈکٹیٹرشپ کی آماجگاہ بنے ملکوں کے لئے ایک نمونہ اور آئیڈیل پیش کرتا رہا۔
تیونس میں ۲۰۱۰ کے انقلاب کے فوراََ بعد عوامی انتخابات کے نتیجے میں تیونس کی تحریک اسلامی ’النہضۃ‘ نے دو سیکولر پارٹیوں سے مل کر عارضی حکومت کی تشکیل کی۔ یہ تیونس کی تاریخ میں پہلی عوامی اور جمہوری حکومت تھی، اور جمہوریت کی تاریخ میں پہلی اسلامی اور سیکولر پارٹیوں کی مشترک حکومت coalition Government تھی ۔ النہضہ نے اس دوران غربت ، کرپشن ، بیروزگاری اور دوسرے سماجی مسائل کے حل کی کوشش کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور حکومت کو استحکام دلانے کے لئے کئی اہم بنیادی اقدام کئے، نیا دستور پاس کیا ، حکومت چلانے کے لئے صدارتی سسٹم اور پارلیمانی سسٹم کی مثبت خصوصیات اور خوبیوں کو جمع کرکے semi presidential government system پاس کیا ، ساتھ ہی انتخاب کو صحیح معنی میں جمہوری اور عوامی بنانے کے لئے علاقائی تناسبی سسٹم proportional Representative electoral system پاس کیا جس کے نتیجے میں سماج کے ہر نقطہ نظر اور تصور کے ماننے والوں کو تناسب کے لحاظ سے پوری پوری نمائندگی کا موقعہ ملا، اور کسی ایک پارٹی یا طرز فکر کے ماننے والوں کے لیے مکمل اکثریت حاصل کرنے یا تنہا حکومت بنانے کا امکان بڑی حد تک ختم ہوگیا، اور جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ کا زینہ بنانے کا راستہ بھی بند ہو گیا۔
اس دوران النہضہ نے مختلف افکار وتصورات کے ماننے والوں میں بحث ومباحثہ اور تبادلہ خیالات کے ساتھ خوشگوار جمہوری فضا میں جمہوری اقدار اور مزاج کے ساتھ کس طرح مشترک حکومت چلائی جاتی ہے، اور ملکی مصالح اور جمہوری تقاضوں کی راہ میں تحریک یا پارٹی کے مفاد کو کس طرح قربان کیا جاتا ہے ، اسی طرح بڑے فائدے کے لئے چھوٹے نقصانات کو اٹھالینا کتنا دور رس اثر رکھتا ہے، سیاسی اور سماجی مسائل کو کس طرح فوجی اور عسکری دباؤ سے دور بحث و مباحثہ کی میز پر رکھ کر حل کیا جاتا ہے، ان تمام کا شاندار نمونہ پیش کیا ۔
اس دوران النہضہ نے داخلی سطح پر اپنے طریقہ کار اور حکمت عملی میں بھی بڑی تبدیلیاں قبول کیں ، یہاں تک کہ مودودیؒ اور سید قطبؒ کے نقوش کی پیروی کرنے والا غنوشی اب ایک نئی حکمت عملی اور نئے طرز فکر کی ایک علامت بن گیا، چنانچہ فقہ المقاصد اور فقہ الاولویات وغیرہ کو واقعی حالات پر تطبیق دیتے ہوئے نئی حکمت عملی مرتب کرائی۔ اس سلسلے میں النہضہ کے بانی و قائد اور تحریک اسلامی کے عالمی سیاسی رہنما اور موجودہ دور میں فقہ المقاصد کے امام علامہ راشد الغنوشی کا یہ بیان بہت مشہور ہوا کہ ’’اگر لفظ شریعت کا ذکر ہمارے (مسلم سیاسی پارٹیوں ) درمیان پھوٹ ڈالے اور اس لفظ کو دور کردینے سے ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو ہم اتحاد اور یکجہتی کو ترجیح دیں گے‘‘۔ اسی طرح تحریک کے ایک اہم قائد اور عظیم فقیہ عبد المجید نجار کا بیان کہ فقہ المقاصد کے تحت ابھی ہمارے سامنے دو چیزوں کا حصول سر فہرست ہے ، عوامی انقلاب کو تکمیل تک پہنچانا، اور ایک کامیاب جمہوریت کو تیونس میں مستحکم بنانا، اور اس کے لئے کسی بھی دوسری چیز کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ۔
النہضہ کے قائدین کا ماننا ہے کہ ابھی اہم تر کام مقصد کو حاصل کر لینا اور بالتدریج نتیجے تک پہنچناہے، جیسا کہ ترکی کے رویے سے اس طرز فکرکی تائید ہوتی ہے، نہ کہ ناموں اور اصطلاحوں کو لے کر آپسی جھگڑوں میں الجھے رہنا۔چنانچہ تحریک نے نئے دستور میں شریعت کو قوانین کے مصدر کے طور پر ذکر نہ کرنے پر سمجھوتہ کرلیا ، اور پارٹی نے اپنی امیج سیکولر اور معتدل بنانے کے لئے پارٹی کے کئی پرانے بلکہ بنیادی لیڈرس کو امیدوار اس لئے نہیں بنایا کہ وہ پبلک میں جذباتیت کا اظہار کرتے تھے، جیسے صادق شورو جنہیں تیونس کا منڈیلا بھی کہا جاتا ہے، اسی طرح نجیب مراد یا حبیب علاؤز وغیرہ۔
حالیہ انتخابات: سیناریواور نتائج
نئے دستور کے بننے اور منظور ہونے کے بعد تیونس کی تاریخ میں پہلا پارلیمانی انتخاب ابھی ۲۶؍ ستمبر کو عمل میں آیا، اور آئندہ ماہ صدارتی انتخابات بھی ہونے طے پا چکے ہیں جو نومبر کی ۲۳؍ تاریخ کو ہونے ہیں۔ اس ا نتخاب کو تیونس کی سیاسی تاریخ کے ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، یہ انتخاب دراصل تیونس کے لئے جمہوریت کے عبوری دور سے استحکام اور پائیداری کی طرف منتقلی بھی ہے ، اس کی اہم اور قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں:
۔۔۔ تیونس کی تاریخ میں یہ پہلا آزاد اور جمہوری انتخاب ہے (۲۰۱۱ کے عارضی انتخابات کو چھوڑ کے) جس میں عوام نے آزادی اور خود اختیاری کے ساتھ اپنا ووٹ اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ڈالے ہیں۔
۔۔۔ عرب بہار کے مختلف ممالک میں یہ تنہا ملک ہے جہاں عوام کی امیدیں اور خواب پورے ہو رہے ہیں،عرب ومسلم دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈکٹیٹرشپ شکست سے دوچار ہے اور جمہوریت فتحیاب ہے۔
۔۔۔ اس انتخاب میں تحریک اسلامی کو تین سال کی حکومت کے بعد شکست یا نسبتاََ کم سیٹیں حاصل ہوسکی ہیں،چنانچہ النہضہ تحریک کے لئے یہ ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، جب کہ اس وقت یہ تنہا اسلامی پارٹی ہے جو حکومت کی سطح پر اپنا ایک مضبوط وجود اوربا وزن مقام رکھتی ہے ۔
۔۔۔ انقلاب اور نئے دستور کے بعد یہ پہلا آزاد انتخاب ہے چنانچہ یہ انتخاب تیونس کے مستقبل کے لئے بھی اہم اورفیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں ، اور تیونس اب ان خدشات سے نکلنے کو ہے جس کی لپیٹ میں عرب بہار کے بقیہ تمام ممالک آچکے ہیں ۔
۲۰۱۴ کی مردم شماری کے مطابق تیونس کی کل آبادی ۱۱؍ ملین ہے اور رائے دہندگان کی تعداد ۳.۵ ملین ہے ، جس میں ۴.۳ ملین نوجوان طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں، جن کی عمر ۱۸؍ سے ۴۰؍ سال کے درمیان ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں کل ۲۱۷؍ پارلیمانی سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے ، امیدواران کی تعداد ۱۳۲۷؍ تھی جو ۱۲۷؍ مختلف چھوٹی بڑی اور مختلف نظریات کو ماننے والی پارٹیوں کے نمائندے تھے۔ انتخاب کے لئے ملک کو ۳۳؍ پارلیمانی حلقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ عورتوں کی نمائندگی کے لئے ان کو ریزرویشن دیا گیا۔ یہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا انتخاب تھا جس میں ملک کے تمام طبقوں اور گروپوں میں سے ہزاروں کی تعداد میں امیدواران آئے، اور پہلی بار عورتوں کی اتنی بھاری نمائندگی ہوئی۔ اس انتخاب کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں ۱۲۷؍ پارٹیوں نے شرکت کی، جو سیاسی تجزیہ کاروں کے یہاں مختلف پہلوؤں سے موضوع گفتگو بنا ہوا ہے، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر مسابقت اور سیاسی کشمکش کے اسباب میں قابل ذکر عوام کو پہلی بار سیاسی زندگی میں داخل ہونے کا موقع ملنا ہے۔ دوسری بات کہ جب بھی بڑے سیاسی انقلابات رونما ہوتے ہیں تو نئے نظام کے لئے سماج کے ہر گوشے میں امید کی ایک کرن دوڑتی ہے اور ہر ایک نئے نظام میں اپنے مقاصد و اہداف کو شامل کرنے کی جد و جہد میں لگ جاتا ہے، ساتھ ہی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بن علی کے دور میں جو مختلف انسانی و سماجی حقوق کی تنظیمیں یا پارٹیاں تھیں ان کو بن علی مکمل طور سے ختم نہیں کر سکا تھا، چنانچہ انقلاب کے فورا بعد ان کو نئی زندگی حاصل ہو گئی اور بحیثیت مجموعی ایک بہتر جمہوری نظام کے لئے یہ تمام چیزیں مثبت اور کار آمد مانی جاتی ہیں ۔ان تمام پارٹیوں اور طاقتوں کو فکری و سیاسی رجحان کی بنیاد پر تین گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
الاحزاب الدستوریۃ: یہ وہ گروپ ہے جو کئی دہائیوں سے تیونس کے تختہ حکومت پر قابض تھا، اور انقلاب کے بعد نئے ناموں کے ساتھ سیاست کا حصہ بن گیا، ان کو دستوری اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بورقیبہ کی حزب الاشتراکی الدستوری اور بن علی کی حزب التجمع الدستوری سے تعلق رکھنے والے اور ان کے افکار و نظریات کو ماننے والے ہیں جیسے نداء پارٹی۔
الاحزاب الاسلامیۃ: یہ گروپ وہ ہے جو اپنی عربی اور اسلامی نسبت اور تشخص کی بقا اور تحفظ کی بات کرتا ہے ، اسلامی کاز اور اسلامی نظام کو اپنا مطمح نظر مانتے ہیں ۔
الاحزاب الیساریۃ: اس میں عموماََ بائیں بازو اور قومی اور وطنی بنیادوں پر قائم ہونے والی پارٹیاں ہیں ۔ جیسے ھمامی کی جبھۃ الشعبیۃ اور مصطفی بن جعفر کی حزب التکتل وغیرہ۔
نتائج :
یہ تھا اختصار کے ساتھ وہ سیناریو جس میں تیونس کی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ حکومت کی تشکیل کے لئے عوام نے براہ راست حصہ لیا اور اپنی پسند سے حکومت بنانے کی شروعات کی۔ اس انتخابات میں نداء پارٹی ۲۱۷ میں سے ۸۵ سیٹیں حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آئی ہے،جو مجموعی طور سے یہ ۷۱.۳۸ 222 ہیں، جبکہ حکومت بنانے کے لئے اس کو کم سے کم ۵۱222 سیٹیں حاصل کرنی ہوں گی، حالانکہ یہ پارٹی دراصل سابقہ استبدادی نظام اورڈکٹیٹرشپ کی یاد گار کے طور پر دیکھی جارہی ہے ، اس کے بانی و سربراہ باجی قائد سبسی بورقیبہ اور بن علی کے فکری و روحانی وارث کہے جاتے ہیں، اوردونوں حکومتوں میں کلیدی منصب (اسپیکر ، منسٹر)پر فائز رہے ہیں۔ دوسری طرف موجودہ حاکم پارٹی النہضہ نے ۶۹؍ سیٹیں حاصل کی ہیں جو پہلے کی بہ نسبت بیس کم ہیں اور یہ چیز سیاسی حلقوں میں بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اتحاد الوطنی الحر (UPC)نے ۱۷؍ سیٹیں، اورپاپولر فرنٹ نے ۱۲؍ سیٹیں حاصل کی ہیں،آفاق تیونس نے ۸؍، جبکہ موجودہ صدر منصف مرزوقی کی پارٹی CPR) ( محض ۴؍ سیٹیں حاصل کر سکی۔
نتائج کا تجزیہ:
ان نتائج پر مختلف تجزیہ کاروں اور اداروں کی طرف سے مختلف زاویوں سے تجزیے اور گفتگوئیں سامنے آرہی ہیں۔ بعض لوگ اسے النہضہ کی شکست اور دستوریوں کی جیت کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں، تو وہیں کچھ لوگ اسے جمہوریت کی شکست اور استبداد کی کامیابی تصور کر رہے ہیں، تو وہیں کچھ لوگ اسے النہضہ کے ناکام مستقبل اور نداء کے کامیاب مستقبل کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں، ایک طبقہ ان لوگوں کا بھی ہے جو اس کو النہضہ کی نااہلی اور ناکام حکمت عملی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام کے بیچ یہ انتخاب اس طور سے قابل تعریف اور مقصد میں کامیاب ہے کہ اس میں عوام نے اپنی پسند سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ ہماری کسوٹی پر اس لائق اترتے ہیں یا نہیں ، اور جمہوریت کا اصل مقصود یہی ہے کہ حکومت عوام کی پسند سے تشکیل پائے اور یہ چیز عرب اور مسلم دنیا کے لئے بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا ۔ اور یہ انتخاب تیونس کو جمہوریت کے عبوری دور سے مستقل اور استحکامی دو ر کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب رہا ۔
نتائج اور النھضہ:
عموماََ یہ مانا جارہا ہے کہ یہ انتخابات النہضہ کے لئے ناکامی اور تاریک مستقبل کی علامت یا دیباچہ کے طور پر ہیں، لیکن یہ جلد بازی اور سرسری تجزیے کا نتیجہ ہے۔ ہمہ جہت پہلوؤں اور زاویوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ نتائج النہضہ کے حق میں باعث خیر اور اس کے روشن مستقبل کی نویدہے۔
یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ النہضہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار رہی، چنانچہ یہ تقریباََ اس پورے عرصے میں ایک ممنوعہ جماعت کی فہرست میں رکھی گئی، ساتھ ہی اس کی قیادتیں عموماََ یا تو قید وبند کی آزمائشوں سے دوچار رہے، یا ملک بدر اور جلا وطن رہے۔ چنانچہ زمینی سطح پر یہ تمام تجربات اور عملی تیاریوں سے محروم رہے ، چنانچہ ان کے لئے انقلاب کے بعد عوام میں جوش مارتی امیدوں اور تمناؤوں کو پورا کر سکنا، یا ان کے بنائے ہوئے معیار پر اتر پانا نہایت مشکل بلکہ نا ممکن تھا ، چنانچہ بنیادی اور دستوری طور پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب ان کو سخت ضرورت تھی کہ اب یہ حکومت چلانے اور جہاں بانی کے مطلوبہ کردار تک پہنچنے کے لئے عوام کے پریشر سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو تیار کریں، اور مستقبل میں شاندار اور کامیاب واپسی کریں۔
اس وقتی ناکامی سے النہضہ مختلف متوقع الزامات اور بد نما داغ سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر سکنے میں کامیاب ہوئی ، جیسے عوام کا یہ الزام کہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے انہوں نے انتخاب میں دھاندلی کی ہے اور شفافیت اور ایمانداری کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے ۔ اسی طرح یہ کہ یہ صرف اپنے اقتدار میں آنے کے لئے جمہوریت کی بات کر رہے تھے، اور اب جبکہ یہ اقتدار حاصل کر چکے ہیں، جمہوری اقدار اور جمہوری روایات ان کے یہاں قصہ پارینہ ہو کر رہ گئے ہیں ۔
ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے چند شدت پسند گروپس اور جماعتیں جو ہاتھ دھوکر النہضہ کے پیچھے پڑی تھیں، اور اس کو اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ گمان کرتی تھیں، اور اس کے خاتمے کو اسلام کی عظیم ترین خدمت سمجھ رہی تھیں ،اور وہ النہضہ کی حکومت کو ناکام بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار تھی ، ان کی سازشوں، اور دباؤ سے بھی آزاد ہو گئے ۔
اس انتخاب کا النہضہ کے حق میں ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وہ معتدل اور صحیح سیاسی اسلام کی تصویر پیش کرنے میں بھی کامیاب رہا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش ، تنظیم اسلامی وغیرہ کے ذریعے اسلام کی سیاسی امیج کو نہایت بگاڑ کے اور بد امنی اور انسانیت مخالف شکل میں پیش کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، ایسے میں اسلام کے صحیح سیاسی تصور کو عملی طور سے پیش کرنے کا کام النہضہ نے کیا جس میں جمہوریت کا پورا پاس و لحاظ ہو ، حقوق انسانی کی بنیادی اہمیت اور عوام کی رائے کا پورا پورا ااحترام کیا جائے ، آزادی کو اول درجے کی چیز قرار دیا جائے۔
اس پس منظر میں النہضہ کی ناکامی کے اسباب پر غور کریں تو ان کا سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے ، ایک تو یہ کہ انقلابات کے بعد عوام کی جس سطح کی امیدیں اور خواب بن جاتے ہیں ان کو پورا کرپا نا النہضۃ کیا، عموماََ کسی بھی حکومت کے لئے ناممکن چیز ہوتی ہے ، جبکہ النہضۃ تو عملی طور سے نا تجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ تھی ۔باوجود اس کے کہ النہضہ نے بنیادی اور دستوری طور پر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا اور تیونس میں جمہوریت کو استحکام دلانے کے لئے بہت بڑا کردار ادا کیا، لیکن اس کے باوجود سماج کے روز مرہ کے مسائل، غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روز گاری اور دہشت گردی و بد امنی کے سلسلے میں عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہرے،(حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جیسے مسائل اور مشکلات کا حل کافی وقت طلب ہوتا ہے) چنانچہ سیدی بوزید ، القصرین ، سلیانہ کے باشندوں کا عموما یہی ماننا ہے کہ ترویکا حکومت جس کی قیادت النہضہ کے ہاتھ میں ہے ہماری غربت ، مہنگائی اور کرپشن وغیرہ مسائل کے تعلق سے کسی بھی طرح کا حل پیش کرنے سے ناکام رہی اور دہشت گردی اور تشدد کے خاتمے میں بھی بالکل ناکام اور بے بس رہی ۔
اس کی ناکامی کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ملک کی تمام طاقتیں اور گروپ النہضہ کو ناکام بنانے اور اس کے خلاف پرو پیگنڈہ کرنے میں مشترک اور ایک تھے، اور خارجی طاقتیں بھی النہضہ کی کامیابی سے خائف تھیں، چنانچہ باجی قائد سبسی کو الیکشن سے پہلے باقاعدہ ابوظبی میں خصوصی دعوت پر بلایا گیا، اور ان کی کامیابی کے لئے خصوصی تعاون کیا گیا۔ مختلف شدت پسند اور ریڈیکل ذہنیت کے لوگوں کو ’جمہوریت‘ کے نام پر النہضہ کی مخالفت کرناتھا۔ عرب حکومتوں کو اس بات کا خطرہ تھا کہ اس نئے نظام کی کامیابی سے حوصلہ پاکر ہماری عوام بھی کہیں اس نظام کے قیام کی کوشش میں نہ مصروف ہوجائے ۔ مغرب اور اسلام دشمن طاقتوں کے ذریعے پولیٹکل اسلام کے نام سے عوام کے سامنے النہضہ کو شدت پسند اور خطرناک گروپ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بھی اسی کا ایک اہم جزو تھا ۔
مستقبل کے امکانات :
اس موضوع پر کافی قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ان نتائج کے بعد اب امکانات کیا ہیں ۔ اور اب حکومت کس کی بن سکتی ہے ۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ اس انتخاب کا صحیح فیصلہ اور نتیجہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی آ سکے گا ۔اور یہ بات بھی واضح ہے کہ حکومت کسی ایک پارٹی کی نہیں بن سکتی بلکہ اشتراک سے بنانا پڑے گی۔ کیا نداء کے لئے کسی پارٹی کے اشتراک سے حکومت بنا پانا ممکن ہے یا نہیں، کیونکہ ایک طرف النہضہ ہے جس سے اشتراک کر پانا نداء کے لئے ایک چیلنج ہے ، ایسے میں نداء کے سامنے ایک امکان یہ ہے کہ پاپولر فرنٹ اور کچھ آزاد لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کرے، لیکن یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ دونوں نظریاتی اور فکری طور سے بالکل ہی ایک دوسرے کے مخالف اور معارض گروپ ہیں ۔دونوں کا سیاسی ، معاشی اور سماجی آئیڈیا دو باہم متعارض نظریات سرمایہ داری اور اشتراکیت پر مبنی ہے، ایسے میں اشتراک کی امیدیں کم نظر آرہی ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ نداء حزب التحالف الوطنی اور بعض دوسری چھوٹی پارٹیوں کو لے کر حکومت بنائے ، لیکن یہاں بھی کئی رکاوٹیں ہیں، سب سے اہم یہ کہ دونوں پارٹیوں کے سربراہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں ، ایسے میں کیا دونوں کے درمیان اشتراک کا پایا جانا ممکن ہے ؟ دوسری طرف التحالف الوطنی کے سربراہ کے تعلق سے عوام میں عام رائے یہ ہے کہ وہ مالی معاملات میں نہایت مشکوک اور کرپشن میں بری طرح لت پت ہیں اور باہر کی طاقتوں سے بھی ان کو مالی امداد حاصل ہے،چنانچہ اس کے ساتھ نداء کا اشتراک نداء کے لئے صدارتی انتخابات میں عوام کی ناراضگی اور مقبو لیت میں کمی کا باعث ہو سکتا ہے ۔ دوسری طرف النہضہ کے سامنے بھی صدارتی انتخاب اور حکومت سازی کے تعلق سے کافی چیلنجز ہیں ۔ جیسے کیا وہ نداء کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی ہے ، اور اس تعلق سے پارٹی کے اندر مختلف رائیں پائی جاتی ہیں ۔ اور پارٹی کے ایک طبقے کا یہ ماننا ہے کہ اتحاد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ ایک دوسرا طبقہ سخت اس کے مخالف ہے۔ دوسری طرف صدارتی انتخابات میں اب جبکہ النہضہ نے اپنا کوئی امیدوار اتارنے سے منع کردیا ہے ، ایسے میں اس کا دوسرے امیدواروں کے تعلق سے کیا موقف رہے گا ۔ اس انتخاب میں کل امیدواروں کی تعداد ۲۷؍ ہے ۔ اس سلسلے میں بھی تحریک کے اندر کئی موقف پائے جا رہے ہیں ، ایک تو یہ کہ موجودہ صدر منصف مرزوقی کی تائید کریں ، دوسری طرف ایک گروہ کا ماننا یہ ہے کہ نداء کے ساتھ یہ معاملہ طے کریں کہ پارلیمنٹ کی صدارت (وزیر اعظم) النہضہ کو دے دیں اور صدارت میں النہضہ ان کی تائید کرے، لیکن اس پر النہضہ کے اوپر بہت بڑا الزام لگنے کے آثار ہیں کہ یہ جمہوریت مخالف طاقتوں سے مل کر اپنی کرسی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تیسرا اور نسبتا زیادہ مقبول رجحان یہ ہے کہ النہضہ اس سلسلے میں لوگوں کو اختیار کی آزادی دے دے اور رسمی طور سے کوئی تائید یا مخالفت نہ کرے، اور اسی کو النہضہ نے تسلیم بھی کیا ہے ۔ بہرحال معاملہ کافی پیچیدہ اور غیر واضح ہے، یقین کے ساتھ کوئی بات کہہ پانا شائدجلد بازی ہوگی ۔
ذوالقرنین حیدر سبحانی، الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم۔ کیرلا