مسلم انفرادیت کی تشکیل
ان اقدار سے جو بنیادی اصول تشکیل پاتا ہے اسے ان الفاظ میں سمیٹاجاسکتا ہے: ’’اگرچہ نوعِ انسانی کے ساتھ عدل و احسان کے مکمل قیام کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے خالق ، معبود اور مالک کی رضا کاپابند ہوجائے، تاہم ان کی تنفیذ کے لیے اس شرط کے مکمل اور مستحسن طورپر پورا ہونے کا انتظار نہیں کیاجائے گا۔‘‘ قرآن و سنت نے مذکورہ بالا اقدار کی تنفیذ کو اسلامی ، سیاسی اور معاشرتی نظام کے قیام کے ساتھ مشروط نہیں کیا ہے۔ یہ اقدار انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسلامی تصور میں مستحکم ہیں۔ مخلوط معاشرے میں ان اقدار پر عمل آوری اور تنفیذ کی جتنی بھی ممکن صورت ہو، مسلمانوں پر اس کے حصول کی جدوجہد واجب ہے۔
غربت اور فاقہ کشی کے حل کے لیے ، جبرو ظلم کے سدباب کے لیے، کمزوروں اور محروموں کی اعانت کے لیے، یتیموں اور بیواؤں کی دستگیری کے لیے آئیڈیل اسلامی نظام کے نفاذ کا انتظار نہیں کیاجاسکتا۔۔کیونکہ اسلامی نظریہ میں یہ ’ کام دوست بنانے اور لوگوں کو مرعوب کرنے‘کے حربے کے طورپر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ غریبوں اور مظلوموں کو موجودہ سماجی نظام کی خردبرد اور چیرہ دستیوں کے درمیان، اپنے آئیڈیل کے حصول کی جدوجہد میں یوں ہی چھوڑدینا گناہِ عظیم ہے۔
مزید برآں، ایمان کے ساتھ ساتھ، یہ اقدار و اصول مسلمانوں کی انفرادیت کے لاینفک اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں انھیں سے تو مسلمان کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان سے پہلو تہی کے نتیجے میں ایک ناقص اسلامی کردار ہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ان اقدار کے تئیں، انفرادی حیثیت میں، ہم سب کو اللہ کے سامنے حساب دینا ہوگا۔ یہی حال ایمانیات کے دیگر شعبوں پر عمل آوری کا بھی ہے۔ بیرونی معاشرتی وسیاسی حالات خواہ کچھ ہوں، ان اقدار پر عمل آوری ناگزیر ہے اور ہر مسلمان پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کی خاطر جدوجہد ضروری ہے کیونکہ اللہ کسی فردپر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ’’اللہ کسی متنفس پر اْس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ‘‘ (قرآن: البقرہ : ۲۸۶)
قرآن کی یہ آیت نہ صرف اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام اپنی مجموعی حیثیت میں فرد پر ذمہ داری عائد نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ انفرادی ذمہ داریوں کے حدود کیا ہیں۔ قرآنی بیان کہ’’ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔( النحل: ۶۴) اسلامی اقدار اور اصولوں کی آفاقیت اور فرد کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ایک روشن مینارہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات واقدار کا بڑا حصہ صرف اسلامی نظام حکومت میں ہی ممکنہ طورپر قابل عمل ہے لیکن ان کا تعلق عمومی طورپر اسلامی تعلیمات کے اجتماعی پہلو سے ہے۔ ان امکانات پر عمل آوری اسلامی نظام معاشرت و سیاست کے قیام تک مؤخر کی جاسکتی ہے جس کی خاطر ایک مسلمان کو پیہم جدوجہد کرتے رہنا ہے۔ لیکن اسلام بنیادی اسلامی اقدار کے جو دراصل انسانی اقدار ہیں، مؤخر کرنے کی کبھی وکالت نہیں کرتا۔ اسی حقیقت کا اشارہ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث میں اسلامی نظام کے قیام تک یوں ملتا ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام یعنی تم میں دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ دورِاسلام کے بھی بہترین لوگ ہیں۔
ایسا اس لیے ہے کہ برائی سے نفرت اور بھلائی کی طرف رغبت انسانی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ بیرونی فضا، عناد و موافقت انسانی رویوں کی مطلوبیت کو نہیں بدل سکتی گوکہ ان سے وہ متاثر ضرور ہوسکتے ہیں۔
جہدِ مشترک:
اسلامی تعلیمات کے سیاسی پہلو سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اسلام انسانی زندگی کو ایک وحدت مانتاہے جس میں سیاست کو روحانیت سے الگ نہیں رکھا گیا۔ لیکن یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ سیاسی پہلو اس کے اخلاقی اور روحانی اقدار کی نفی وتخفیف نہیں کرتا اور نہ ہی اس بات کی وکالت کرتاہے کہ اس کو انسانی اقدار پر عمل آوری اس کے سیاسی منتہائے مقصود کے حصول کے ساتھ مشروط کیا جائے۔
اس کے برعکس اسلام اپنے پیروؤں کو ان اقدار پر عمل آوری تمام حالات میں اور تمام لوگوں کے ساتھ روا رکھنے حکم دیتا ہے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اسلام اسلامی اقدار کی عمل آوری پر اس لیے یقین رکھتاہے کیونکہ اللہ ایک عدل پرور اور انسانیت نواز سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے۔
یہی وہ مطمح نظر ہے جس کے پیش نظر قرآن ایمان والوں کو حکم دیتاہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کریں اور برائی اور ظلم کی بیخ کنی کریں۔ قرآن کہتاہے: ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ (المائدہ: ۲)
تکثیری معاشرے میں جو بھی انسانی مساوات اور عدل کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور انسانوں کے استحصال اور حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، وہ مسلمانوں کے غیرمشروط، اور بلاجھجک تعاون کا حق دار ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم مساوات اور ظلم اس قدر مستحکم ہوچکاہے کہ اس کا سدباب تبھی ممکن ہے جب تمام لوگ اس کے خاتمے کے لیے بلاتفریق مذہب و ملت اس کاوش میں حصہ لیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ اس طرح کی کاوش میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور عدل و مساوات کے حصول،فاقہ کشی، بیماری، ظلم، بدعنوانی اور برائیوں کے سدباب کی جدوجہد میں سب سے آگے ہوں۔ ان کاوشوں کو صرف اپنی قوم کی ترقی اور تنگ نظر و متعصب حلقوں میں محدود کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہواہے یہ مقاصد تمام انسانوں کے لیے آفاقیت کے حامل ہیں۔
جو لوگ ناانصافی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے صرف اس بنا پر کہ اس سے ان کی قوم متأثر نہیں ہورہی ہے اور جب راست ان پر کوئی آنچ آتی ہے تو واویلا مچانے لگتے ہیں دراصل اللہ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو تمام انسانیت کے ساتھ یکساں ہمدردی کا حکم دیتا ہے۔ مظلوم کا مذہب اس کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانے کے لیے مانع نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔ حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ جس میں اللہ کے رسولؐ نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے ہی کے اندر رہ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں مشرکین، ملحدین اور موحدین تمام نے ایک جٹ ہو کر برائی اور ناانصافی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد باندھاتھا۔ اللہ کے رسولؐ عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح کا معاہدہ پھر کوئی ہو تو اس عنوان کی دعوت میں آپؐ اب بھی شریک ہونا چاہیں گے۔
اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرناکہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کے انسداد کی کوشش کرے، صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرمؐ کی حیات طیبہ سے ہمیں ہدایت ملتی ہے کہ بہت معمولی اور چھوٹے درجے کی ایسی کاوشیں بھی مسلمانوں کے بھرپور تعاون اور فعال اشتراک کی حق دار ہیں۔ ابوجہل کاایک بدّو کو اس کے اونٹ کی قیمت دینے سے انکار کرنے کاایک چھوٹا سا واقعہ رسول عربیؐ کو اس کی حمایت و نصرت سے نہیں روک سکا۔ وہ حدیث جو مسلمانوں کو چھوٹی برائیوں کو غیراہم سمجھ کر ان سے چشم پوشی سے روکتی ہے دراصل ہماری روزمرہ کی زندگی کے لیے بڑی حکمتوں کی حامل ہے۔ بیہقی میں ابن مسعودؓ کے حوالے سے حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ فرمایا کرتے تھے ’’اے عائشہؓ ، اْن گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ اکھٹے ہوکر انسان کو ڈبو دیتے ہیں۔‘‘
چھوٹی برائیاں یا ناانصافی کے معمولی واقعات کا مجموعی اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ غیرمحسوس انداز میں بتدریج وہ برائی کے پہاڑ کی شکل لے لیتے ہیں۔ اسی طرح نیکی اور احسان کے معمولی واقعات کا مجموعی اثر بھی معاشرے پر پڑتا ہے جو ایک رحم دل اور انصاف پرور معاشرے کی تشکیل میں ممد ہوتے ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو بے انصاف اور بے رحم محض ان خصائل کے مظہر ہی میں نہیں ہیں۔ ہمارا رویہ بے رحم ہوتاہے جب ایک سڑک حادثہ میں کوئی زخمی خون میں لت پت تڑپ رہا ہوتا ہے۔ جب ایک عام پولیس والا ایک غریب پٹری والے دکان دار سے پیسے اینٹھتا ہے۔ جب ننگ دھڑنگ بچے کوڑے کے ڈھیر سے کھانے کی چیز تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ جب فسادی بلوائی برہنہ خواتین کو سڑک پر پریڈ کرواتے ہیں۔ جب غریب ہمسائے عالی شان محلوں کے پیچھے فاقوں سے مررہے ہوتے ہیں۔ ہم ایک نفس پرست معاشرہ ہیں کیونکہ ہمارے پاس بیماروں اور ضرورت مندوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ہم رفتہ رفتہ ایک ایسے متعفن سماج میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جہاں مادی حصولیابیوں اور نام و نمود کی ہوس میں ہر چھوٹا بڑا گرفتار ہے۔ ہماری زندگی سے خلوص، محبت اور ہمدردی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم اپنی بیویوں کو کم جہیز لانے کی بنا پر قتل کردیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچی کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔
ایسے معاشرے میں حالات کی تبدیلی کی طرف معمولی کاوش بھی ہمارے اقدام،توجہ اور تعاون کی مستحق ہے۔ مسلمانوں کو ان کاوشوں میں خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہوں اور کتنی ہی غیراہم کیوں نہ محسوس ہوں، ضرور حصہ لینا چاہئے۔ اللہ کے رسولؐ محروم، غریب عورتوں کے معمولی شکوے پر دل برداشتہ ہوجایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے فرمایا: دولوگوں کے درمیان صلح کروا دینا صدقہ ہے۔ اسی طرح کسی کو اونٹ پر سوار ہونے میں مدد کردینا یا اس کا سامان اٹھانے میں ہاتھ بٹا دینا، یا بھلی بات کہنا یہ سب صدقہ ہیں، اور ہر وہ قدم جو تم نماز کی طرف بڑھاتے ہو صدقہ ہے اور لوگوں کے راستے سے ایذا پہنچانے والی چیزوں کو ہٹا دینا(مثلا پتھر وغیرہ) بھی صدقہ ہے۔ (مسلم)
کتنے تعجب کی بات ہے کہ پرہیزگاری کے ایک موہوم تصور کے تحت مسلمانوں کاایک طبقہ انسانی تکالیف کے سدباب کی چھوٹی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کردیاجائے تو تمام انسانی مصائب خود بخود دور ہوجائیں گے۔ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے۔
خاص طورپر یہ طرزِفکر وقت کے اہم مسئلہ کو نظرانداز کردیتا ہے۔ مسلمانوں کوغیراسلامی اقدار پر مبنی سیاسی نظام میں کافی عرصے تک رہنا ہے۔ اگر ہم اِسے کسی سیاسی نظام کی مکمل اسلامیت کے حصول کے لیے عبوری دور تصور کر بھی لیں تب بھی مسئلہ برقراررہتا ہے۔ کیا اسلامی شریعت مسلمانوں کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ محض معاشرے کی تبدیلی کا انتظار کرتے رہیں اور انسانی مصائب کو خاموشی سے دیکھتے رہیں؟ بالکل نہیں۔
فلسفہ حکومت تعاون کے لیے مانع نہیں ہے
اس سلسلے میں سرکاری اور نجی کاوشوں میں امتیاز کرنا غیرضروری ہے۔ حکومت کے ذریعے غریبی اور فاقہ کشی کے انسداد، استحصال کے خاتمے، ظلم کی بیخ کنی، بیماری کے سدباب، غذائی قلت اورناخواندگی پر قابو پانا وہ آئیڈیل ہیں جو اسلام کے بھی منتہائے مقصود ہیں۔حکومت کی نوعیت اور اس کا فلسفہ خواہ کچھ ہو، مسلمانوں کا ان مساعی میں پوری طرح لگن کے ساتھ تعاون کرنا اخلاقی فریضہ ہے۔ انسانی مصائب کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ نظری اختلافات کے حل تک اسے مؤخر نہیں کیاجاسکتا۔ غریبی اور استحصال کو سرخ انقلاب کا پیش خیمہ قرار دینے کے مارکسی نقطہ نظر کے برعکس، اسلام اس بات پر یقین رکھتاہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا اور محروموں، کمزوروں اور مظلوموں کی حمایت و نصرت ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ گزشتہ صفحات میں پیش کردہ احادیث و روایات اس بات پر دال ہیں۔ متعدد علمائے اسلام اس کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔ ابن تیمیہؓ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ظلم اور جبر کے خاتمے کااگر غالب احتمال ہوتو مسلمانوں کو جابر حکومت کا ساتھ دینے میں بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ جمہوری حکومت تو پھر بھی یقینی طورپر مسلمانوں کو خدمتِ خلق کے انسانی فریضے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے۔
تاہم یہاں اس امر کاتذکرہ ضروری ہے کہ یہ تعاون و اشتراک مذکورہ بالا مقاصد کے راست مضمرات تک محدود رکھنا ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طورپر ہندوستانی سیاق میں حکومت کے صحت مند اور خوش حال معاشرے کی تشکیل کی مساعی میں تعاون کرنا ہی چاہئے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں، اولاً معاشی استحکام کی بہتر شرح اور عوامی رفاہی خدمات مثلاً بہتر سڑکیں، ذرائع ترسیل و ابلاغ اور بہتر اسپتال وغیرہ اپنی افادیت میں بلاامتیاز سب کی شرکت یقینی بناتے ہیں۔ مسلمان بھی کم و بیش ان رفاہی اداروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دوئم، غریبی، فاقہ کشی اور بیماری کی انسداد بہتر خام قومی پیداوار(جی این پی) اور بہتر رفاہی اور انفرااسٹرکچر ل سہولیات کا تفاعل (function) ہے۔
سوئم، معاشی بہتری اور جدید تعلیم کی فراہمی کی خاطر نجی اور انفرادی مساعی ان مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح اہل نہیں ہیں۔
چہارم، مسلمانوں کی آبادی حجم کے لحاظ سے اتنی بڑی ہے کہ ان کی ترقی میں رکاوٹ مجموعی قومی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔
اور آخری لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان غالباً ہندوستان کے تمام غریب اور محروم طبقات سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ اور اس صورتِ حال کو حکومت کی فعال مساعی کے بغیر بدلا نہیں جاسکتا۔
حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی فلاح کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے گئے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی بے حسی و بے اعتنائی اور خود ملت اسلامیہ کی اپنی غفلت اور سستی کی بدولت یہ منصوبے خاطر خواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے ہیں۔ یہ عوامل ہندوستانی مسلمانوں سے حکومتی اقدامات کے سلسلے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے سلسلے میں متقاضی ہیں۔
اقدارپر مبنی تعاون:
اصولِ اسلامی، البتہ اس اشتراک کے سلسلے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر چند واضح حدود مقرر کرتاہے۔ یہ شرائط روزمرہ کی اخلاقیات کے اسلامی نظریہ سے اخذ ہوتے ہیں۔ ریاستوں/حکومتوں کے سیکولر نقطہ نظر کی بدولت، بیشتر حکومتی منصوبے یا تو بلاواسطہ عدم مساوات اور جبر کے مسئلہ کے حل کے طورپر یا پھر بالواسطہ مجموعی ترقی و معاشی ترقی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں جو اخلاقیات کے سلسلے میں غیرجانب دارانہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو اسلامی تعلیمات سے یکسر متناقض ہیں۔ جدید معاشی منظرنامہ کا ایک سب سے اہم وصف سود کا ہرسو غلبہ ہے۔ حتی ٰکہ فلاحی قرضے اور مراعات بھی سود پر مبنی ہیں۔ حکومت کی فنڈنگ کو بھی بعض اوقات جوئے اور غرر کے ذریعے فروغ دیاجاتا ہے۔ پسماندہ طبقات کی پسماندگی دور کرنے کے لیے مسلمان ممکنہ حد تک ان منصوبوں میں شریک نہیں ہوسکتے اور نہ ہی سود پر مبنی قرضوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ نجی منصوبے مثلاً غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے چلائی جانے والی اسکیمیں بھی سود پر مبنی لین دین سے اپنے وسائل پیدا کرتی ہیں اور اپنے مالی معاملات کو مستحکم کرتی ہیں۔ اسی طرح ٹیکس بھی ایک ایسا آلہ ہے جو اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے مغائر ہے۔ اسی طرح کی دوسری مثالیں بھی موجودہ صورت حال کے حل کی غیراخلاقی اور بے اقدار نقطہ نظر کو ثابت کرسکتی ہیں۔ لیکن اس سیاق میں ان کا ذکر بے محل ہوگا۔
یہ کہنا بہت سہل ہے کہ مسلمانوں کو غیراسلامی اسکیموں اور ان کے اجزاء سے احتراز کرنا چاہیے۔ لیکن پھر ایک مزید مشکل صورتِ حال یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں میں مطلوبہ حصہ داری دو باہم لازم و ملزوم پہلوؤں کی حامل ہے۔
پہلا، اْن منصوبوں کو شناخت کرنا جو مکمل طورپر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں اور ایسے پہلوؤں کی نشان دہی کرنا جو اسلامی اقدار سے یکسر متناقض ہیں۔ اس شناخت کی بنیاد پر بنیادی اسلامی اقدار کے تناظر میں اپنی ترجیحات کی فہرست تیارکی جا سکتی ہے۔ ہمارا تعاون ان ہی ترجیحات کی بنیاد پر طے ہوگا۔
اس چیلنج کا دوسرا پہلو غریبوں اور محروموں کے لیے بنائے گئے فلاحی منصوبوں میں سے سود کے عنصر کو حتی الامکان دور کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے، تاکہ ان منصوبوں کے فوائد اصلی وواقعی ہوں نہ کہ فرضی (nominal)۔
البتہ اس سے سرکاری فنڈنگ سے سے اعانت یافتہ تعمیری سرمایہ کاری کا اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں زراعت، دیہی صنعتیں اور چھوٹی صنعتیں اس طرح کی مالی اعانتوں کی خاص مثالیں ہیں۔مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ سرکار کے ان نیم فلاحی منصوبوں سے گریز کریں اور اپنی تمام تر توانائی ان کے متبادلات کی جستجو میں لگائیں۔ خوش قسمتی سے روایتی مالیاتی شعبہ رفتہ رفتہ چند بنیادی میدانوں میں غیرسودی متبادلات کی طرف قدم بڑھارہا ہے۔ ہر چند کہ یہ مکمل طورپر اسلامی نہیں لیکن اس منتہا ئے نظرکے بے حد قریب ضرور ہیں۔ مسلمانوں کی نجی مساعی بھی،خصوصاً اگر ہم غور کریں کہ جس طرح کے معاندانہ ماحول میں انہیں کام کرنا پڑرہاہے، اس سمت میں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔ اس طرح رائے عامہ کی ہمواری کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کوشش ہونی چاہئے کہ ایک غیرسودی مالی نظام جو اسلامی اخلاقی اصولوں کے تحت کام کرے جس میں مسلمانوں کو غیر سودی نظام چلانے کی قانونی آزادی ہو۔مونیٹری اتھارٹیوں کے دائرہ اختیار سے غیر سودی نظام ضروری نہیں کہ پوری طرح سے خارج ہو بلکہ کریڈٹ کنٹرول کے مناسب غیرسودی آلات کے ذریعے اس کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ (جاری)
ان اقدار سے جو بنیادی اصول تشکیل پاتا ہے اسے ان الفاظ میں سمیٹاجاسکتا ہے: ’’اگرچہ نوعِ انسانی کے ساتھ عدل و احسان کے مکمل قیام کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے خالق ، معبود اور مالک کی رضا کاپابند ہوجائے، تاہم ان کی تنفیذ کے لیے اس شرط کے مکمل اور مستحسن طورپر پورا ہونے کا انتظار نہیں کیاجائے گا۔‘‘ قرآن و سنت نے مذکورہ بالا اقدار کی تنفیذ کو اسلامی ، سیاسی اور معاشرتی نظام کے قیام کے ساتھ مشروط نہیں کیا ہے۔ یہ اقدار انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسلامی تصور میں مستحکم ہیں۔ مخلوط معاشرے میں ان اقدار پر عمل آوری اور تنفیذ کی جتنی بھی ممکن صورت ہو، مسلمانوں پر اس کے حصول کی جدوجہد واجب ہے۔
غربت اور فاقہ کشی کے حل کے لیے ، جبرو ظلم کے سدباب کے لیے، کمزوروں اور محروموں کی اعانت کے لیے، یتیموں اور بیواؤں کی دستگیری کے لیے آئیڈیل اسلامی نظام کے نفاذ کا انتظار نہیں کیاجاسکتا۔۔کیونکہ اسلامی نظریہ میں یہ ’ کام دوست بنانے اور لوگوں کو مرعوب کرنے‘کے حربے کے طورپر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ غریبوں اور مظلوموں کو موجودہ سماجی نظام کی خردبرد اور چیرہ دستیوں کے درمیان، اپنے آئیڈیل کے حصول کی جدوجہد میں یوں ہی چھوڑدینا گناہِ عظیم ہے۔
مزید برآں، ایمان کے ساتھ ساتھ، یہ اقدار و اصول مسلمانوں کی انفرادیت کے لاینفک اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں انھیں سے تو مسلمان کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان سے پہلو تہی کے نتیجے میں ایک ناقص اسلامی کردار ہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ان اقدار کے تئیں، انفرادی حیثیت میں، ہم سب کو اللہ کے سامنے حساب دینا ہوگا۔ یہی حال ایمانیات کے دیگر شعبوں پر عمل آوری کا بھی ہے۔ بیرونی معاشرتی وسیاسی حالات خواہ کچھ ہوں، ان اقدار پر عمل آوری ناگزیر ہے اور ہر مسلمان پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کی خاطر جدوجہد ضروری ہے کیونکہ اللہ کسی فردپر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ’’اللہ کسی متنفس پر اْس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ‘‘ (قرآن: البقرہ : ۲۸۶)
قرآن کی یہ آیت نہ صرف اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام اپنی مجموعی حیثیت میں فرد پر ذمہ داری عائد نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ انفرادی ذمہ داریوں کے حدود کیا ہیں۔ قرآنی بیان کہ’’ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔( النحل: ۶۴) اسلامی اقدار اور اصولوں کی آفاقیت اور فرد کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ایک روشن مینارہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات واقدار کا بڑا حصہ صرف اسلامی نظام حکومت میں ہی ممکنہ طورپر قابل عمل ہے لیکن ان کا تعلق عمومی طورپر اسلامی تعلیمات کے اجتماعی پہلو سے ہے۔ ان امکانات پر عمل آوری اسلامی نظام معاشرت و سیاست کے قیام تک مؤخر کی جاسکتی ہے جس کی خاطر ایک مسلمان کو پیہم جدوجہد کرتے رہنا ہے۔ لیکن اسلام بنیادی اسلامی اقدار کے جو دراصل انسانی اقدار ہیں، مؤخر کرنے کی کبھی وکالت نہیں کرتا۔ اسی حقیقت کا اشارہ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث میں اسلامی نظام کے قیام تک یوں ملتا ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام یعنی تم میں دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ دورِاسلام کے بھی بہترین لوگ ہیں۔
ایسا اس لیے ہے کہ برائی سے نفرت اور بھلائی کی طرف رغبت انسانی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ بیرونی فضا، عناد و موافقت انسانی رویوں کی مطلوبیت کو نہیں بدل سکتی گوکہ ان سے وہ متاثر ضرور ہوسکتے ہیں۔
جہدِ مشترک:
اسلامی تعلیمات کے سیاسی پہلو سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اسلام انسانی زندگی کو ایک وحدت مانتاہے جس میں سیاست کو روحانیت سے الگ نہیں رکھا گیا۔ لیکن یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ سیاسی پہلو اس کے اخلاقی اور روحانی اقدار کی نفی وتخفیف نہیں کرتا اور نہ ہی اس بات کی وکالت کرتاہے کہ اس کو انسانی اقدار پر عمل آوری اس کے سیاسی منتہائے مقصود کے حصول کے ساتھ مشروط کیا جائے۔
اس کے برعکس اسلام اپنے پیروؤں کو ان اقدار پر عمل آوری تمام حالات میں اور تمام لوگوں کے ساتھ روا رکھنے حکم دیتا ہے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اسلام اسلامی اقدار کی عمل آوری پر اس لیے یقین رکھتاہے کیونکہ اللہ ایک عدل پرور اور انسانیت نواز سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے۔
یہی وہ مطمح نظر ہے جس کے پیش نظر قرآن ایمان والوں کو حکم دیتاہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کریں اور برائی اور ظلم کی بیخ کنی کریں۔ قرآن کہتاہے: ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ (المائدہ: ۲)
تکثیری معاشرے میں جو بھی انسانی مساوات اور عدل کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور انسانوں کے استحصال اور حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، وہ مسلمانوں کے غیرمشروط، اور بلاجھجک تعاون کا حق دار ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم مساوات اور ظلم اس قدر مستحکم ہوچکاہے کہ اس کا سدباب تبھی ممکن ہے جب تمام لوگ اس کے خاتمے کے لیے بلاتفریق مذہب و ملت اس کاوش میں حصہ لیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ اس طرح کی کاوش میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور عدل و مساوات کے حصول،فاقہ کشی، بیماری، ظلم، بدعنوانی اور برائیوں کے سدباب کی جدوجہد میں سب سے آگے ہوں۔ ان کاوشوں کو صرف اپنی قوم کی ترقی اور تنگ نظر و متعصب حلقوں میں محدود کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہواہے یہ مقاصد تمام انسانوں کے لیے آفاقیت کے حامل ہیں۔
جو لوگ ناانصافی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے صرف اس بنا پر کہ اس سے ان کی قوم متأثر نہیں ہورہی ہے اور جب راست ان پر کوئی آنچ آتی ہے تو واویلا مچانے لگتے ہیں دراصل اللہ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو تمام انسانیت کے ساتھ یکساں ہمدردی کا حکم دیتا ہے۔ مظلوم کا مذہب اس کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھانے کے لیے مانع نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔ حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ جس میں اللہ کے رسولؐ نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے ہی کے اندر رہ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں مشرکین، ملحدین اور موحدین تمام نے ایک جٹ ہو کر برائی اور ناانصافی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد باندھاتھا۔ اللہ کے رسولؐ عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح کا معاہدہ پھر کوئی ہو تو اس عنوان کی دعوت میں آپؐ اب بھی شریک ہونا چاہیں گے۔
اس قسم کی کاوشوں میں تعاون مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ اپنے تعاون کو اس شرط پر مشروط کرناکہ اس طرح کی کوشش جامع اور ہمہ جہت ہو اور معاشرے کی بنیادی برائیوں کے انسداد کی کوشش کرے، صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرمؐ کی حیات طیبہ سے ہمیں ہدایت ملتی ہے کہ بہت معمولی اور چھوٹے درجے کی ایسی کاوشیں بھی مسلمانوں کے بھرپور تعاون اور فعال اشتراک کی حق دار ہیں۔ ابوجہل کاایک بدّو کو اس کے اونٹ کی قیمت دینے سے انکار کرنے کاایک چھوٹا سا واقعہ رسول عربیؐ کو اس کی حمایت و نصرت سے نہیں روک سکا۔ وہ حدیث جو مسلمانوں کو چھوٹی برائیوں کو غیراہم سمجھ کر ان سے چشم پوشی سے روکتی ہے دراصل ہماری روزمرہ کی زندگی کے لیے بڑی حکمتوں کی حامل ہے۔ بیہقی میں ابن مسعودؓ کے حوالے سے حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ فرمایا کرتے تھے ’’اے عائشہؓ ، اْن گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ اکھٹے ہوکر انسان کو ڈبو دیتے ہیں۔‘‘
چھوٹی برائیاں یا ناانصافی کے معمولی واقعات کا مجموعی اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ غیرمحسوس انداز میں بتدریج وہ برائی کے پہاڑ کی شکل لے لیتے ہیں۔ اسی طرح نیکی اور احسان کے معمولی واقعات کا مجموعی اثر بھی معاشرے پر پڑتا ہے جو ایک رحم دل اور انصاف پرور معاشرے کی تشکیل میں ممد ہوتے ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو بے انصاف اور بے رحم محض ان خصائل کے مظہر ہی میں نہیں ہیں۔ ہمارا رویہ بے رحم ہوتاہے جب ایک سڑک حادثہ میں کوئی زخمی خون میں لت پت تڑپ رہا ہوتا ہے۔ جب ایک عام پولیس والا ایک غریب پٹری والے دکان دار سے پیسے اینٹھتا ہے۔ جب ننگ دھڑنگ بچے کوڑے کے ڈھیر سے کھانے کی چیز تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ جب فسادی بلوائی برہنہ خواتین کو سڑک پر پریڈ کرواتے ہیں۔ جب غریب ہمسائے عالی شان محلوں کے پیچھے فاقوں سے مررہے ہوتے ہیں۔ ہم ایک نفس پرست معاشرہ ہیں کیونکہ ہمارے پاس بیماروں اور ضرورت مندوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ہم رفتہ رفتہ ایک ایسے متعفن سماج میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جہاں مادی حصولیابیوں اور نام و نمود کی ہوس میں ہر چھوٹا بڑا گرفتار ہے۔ ہماری زندگی سے خلوص، محبت اور ہمدردی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم اپنی بیویوں کو کم جہیز لانے کی بنا پر قتل کردیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچی کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔
ایسے معاشرے میں حالات کی تبدیلی کی طرف معمولی کاوش بھی ہمارے اقدام،توجہ اور تعاون کی مستحق ہے۔ مسلمانوں کو ان کاوشوں میں خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہوں اور کتنی ہی غیراہم کیوں نہ محسوس ہوں، ضرور حصہ لینا چاہئے۔ اللہ کے رسولؐ محروم، غریب عورتوں کے معمولی شکوے پر دل برداشتہ ہوجایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے فرمایا: دولوگوں کے درمیان صلح کروا دینا صدقہ ہے۔ اسی طرح کسی کو اونٹ پر سوار ہونے میں مدد کردینا یا اس کا سامان اٹھانے میں ہاتھ بٹا دینا، یا بھلی بات کہنا یہ سب صدقہ ہیں، اور ہر وہ قدم جو تم نماز کی طرف بڑھاتے ہو صدقہ ہے اور لوگوں کے راستے سے ایذا پہنچانے والی چیزوں کو ہٹا دینا(مثلا پتھر وغیرہ) بھی صدقہ ہے۔ (مسلم)
کتنے تعجب کی بات ہے کہ پرہیزگاری کے ایک موہوم تصور کے تحت مسلمانوں کاایک طبقہ انسانی تکالیف کے سدباب کی چھوٹی چھوٹی کوششوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر اللہ پر ایمان نہ لانے کی بنیادی برائی کو ختم کردیاجائے تو تمام انسانی مصائب خود بخود دور ہوجائیں گے۔ شریعت کی یہ تعبیر یکسر غیر مطلوب اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔ یہ سوچ انفرادی و اجتماعی معاشرتی تبدیلی کے محرکات کے عدم فہم کی بھی چغلی کھاتی ہے۔
خاص طورپر یہ طرزِفکر وقت کے اہم مسئلہ کو نظرانداز کردیتا ہے۔ مسلمانوں کوغیراسلامی اقدار پر مبنی سیاسی نظام میں کافی عرصے تک رہنا ہے۔ اگر ہم اِسے کسی سیاسی نظام کی مکمل اسلامیت کے حصول کے لیے عبوری دور تصور کر بھی لیں تب بھی مسئلہ برقراررہتا ہے۔ کیا اسلامی شریعت مسلمانوں کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ محض معاشرے کی تبدیلی کا انتظار کرتے رہیں اور انسانی مصائب کو خاموشی سے دیکھتے رہیں؟ بالکل نہیں۔
فلسفہ حکومت تعاون کے لیے مانع نہیں ہے
اس سلسلے میں سرکاری اور نجی کاوشوں میں امتیاز کرنا غیرضروری ہے۔ حکومت کے ذریعے غریبی اور فاقہ کشی کے انسداد، استحصال کے خاتمے، ظلم کی بیخ کنی، بیماری کے سدباب، غذائی قلت اورناخواندگی پر قابو پانا وہ آئیڈیل ہیں جو اسلام کے بھی منتہائے مقصود ہیں۔حکومت کی نوعیت اور اس کا فلسفہ خواہ کچھ ہو، مسلمانوں کا ان مساعی میں پوری طرح لگن کے ساتھ تعاون کرنا اخلاقی فریضہ ہے۔ انسانی مصائب کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ نظری اختلافات کے حل تک اسے مؤخر نہیں کیاجاسکتا۔ غریبی اور استحصال کو سرخ انقلاب کا پیش خیمہ قرار دینے کے مارکسی نقطہ نظر کے برعکس، اسلام اس بات پر یقین رکھتاہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا اور محروموں، کمزوروں اور مظلوموں کی حمایت و نصرت ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ گزشتہ صفحات میں پیش کردہ احادیث و روایات اس بات پر دال ہیں۔ متعدد علمائے اسلام اس کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔ ابن تیمیہؓ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ظلم اور جبر کے خاتمے کااگر غالب احتمال ہوتو مسلمانوں کو جابر حکومت کا ساتھ دینے میں بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ جمہوری حکومت تو پھر بھی یقینی طورپر مسلمانوں کو خدمتِ خلق کے انسانی فریضے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے۔
تاہم یہاں اس امر کاتذکرہ ضروری ہے کہ یہ تعاون و اشتراک مذکورہ بالا مقاصد کے راست مضمرات تک محدود رکھنا ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طورپر ہندوستانی سیاق میں حکومت کے صحت مند اور خوش حال معاشرے کی تشکیل کی مساعی میں تعاون کرنا ہی چاہئے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں، اولاً معاشی استحکام کی بہتر شرح اور عوامی رفاہی خدمات مثلاً بہتر سڑکیں، ذرائع ترسیل و ابلاغ اور بہتر اسپتال وغیرہ اپنی افادیت میں بلاامتیاز سب کی شرکت یقینی بناتے ہیں۔ مسلمان بھی کم و بیش ان رفاہی اداروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دوئم، غریبی، فاقہ کشی اور بیماری کی انسداد بہتر خام قومی پیداوار(جی این پی) اور بہتر رفاہی اور انفرااسٹرکچر ل سہولیات کا تفاعل (function) ہے۔
سوئم، معاشی بہتری اور جدید تعلیم کی فراہمی کی خاطر نجی اور انفرادی مساعی ان مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح اہل نہیں ہیں۔
چہارم، مسلمانوں کی آبادی حجم کے لحاظ سے اتنی بڑی ہے کہ ان کی ترقی میں رکاوٹ مجموعی قومی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔
اور آخری لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان غالباً ہندوستان کے تمام غریب اور محروم طبقات سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ اور اس صورتِ حال کو حکومت کی فعال مساعی کے بغیر بدلا نہیں جاسکتا۔
حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی فلاح کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے گئے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی بے حسی و بے اعتنائی اور خود ملت اسلامیہ کی اپنی غفلت اور سستی کی بدولت یہ منصوبے خاطر خواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے ہیں۔ یہ عوامل ہندوستانی مسلمانوں سے حکومتی اقدامات کے سلسلے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے سلسلے میں متقاضی ہیں۔
اقدارپر مبنی تعاون:
اصولِ اسلامی، البتہ اس اشتراک کے سلسلے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر چند واضح حدود مقرر کرتاہے۔ یہ شرائط روزمرہ کی اخلاقیات کے اسلامی نظریہ سے اخذ ہوتے ہیں۔ ریاستوں/حکومتوں کے سیکولر نقطہ نظر کی بدولت، بیشتر حکومتی منصوبے یا تو بلاواسطہ عدم مساوات اور جبر کے مسئلہ کے حل کے طورپر یا پھر بالواسطہ مجموعی ترقی و معاشی ترقی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں جو اخلاقیات کے سلسلے میں غیرجانب دارانہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو اسلامی تعلیمات سے یکسر متناقض ہیں۔ جدید معاشی منظرنامہ کا ایک سب سے اہم وصف سود کا ہرسو غلبہ ہے۔ حتی ٰکہ فلاحی قرضے اور مراعات بھی سود پر مبنی ہیں۔ حکومت کی فنڈنگ کو بھی بعض اوقات جوئے اور غرر کے ذریعے فروغ دیاجاتا ہے۔ پسماندہ طبقات کی پسماندگی دور کرنے کے لیے مسلمان ممکنہ حد تک ان منصوبوں میں شریک نہیں ہوسکتے اور نہ ہی سود پر مبنی قرضوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ نجی منصوبے مثلاً غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے چلائی جانے والی اسکیمیں بھی سود پر مبنی لین دین سے اپنے وسائل پیدا کرتی ہیں اور اپنے مالی معاملات کو مستحکم کرتی ہیں۔ اسی طرح ٹیکس بھی ایک ایسا آلہ ہے جو اسلام کے عدل و انصاف کے اصولوں کے مغائر ہے۔ اسی طرح کی دوسری مثالیں بھی موجودہ صورت حال کے حل کی غیراخلاقی اور بے اقدار نقطہ نظر کو ثابت کرسکتی ہیں۔ لیکن اس سیاق میں ان کا ذکر بے محل ہوگا۔
یہ کہنا بہت سہل ہے کہ مسلمانوں کو غیراسلامی اسکیموں اور ان کے اجزاء سے احتراز کرنا چاہیے۔ لیکن پھر ایک مزید مشکل صورتِ حال یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں میں مطلوبہ حصہ داری دو باہم لازم و ملزوم پہلوؤں کی حامل ہے۔
پہلا، اْن منصوبوں کو شناخت کرنا جو مکمل طورپر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں اور ایسے پہلوؤں کی نشان دہی کرنا جو اسلامی اقدار سے یکسر متناقض ہیں۔ اس شناخت کی بنیاد پر بنیادی اسلامی اقدار کے تناظر میں اپنی ترجیحات کی فہرست تیارکی جا سکتی ہے۔ ہمارا تعاون ان ہی ترجیحات کی بنیاد پر طے ہوگا۔
اس چیلنج کا دوسرا پہلو غریبوں اور محروموں کے لیے بنائے گئے فلاحی منصوبوں میں سے سود کے عنصر کو حتی الامکان دور کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے، تاکہ ان منصوبوں کے فوائد اصلی وواقعی ہوں نہ کہ فرضی (nominal)۔
البتہ اس سے سرکاری فنڈنگ سے سے اعانت یافتہ تعمیری سرمایہ کاری کا اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں زراعت، دیہی صنعتیں اور چھوٹی صنعتیں اس طرح کی مالی اعانتوں کی خاص مثالیں ہیں۔مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ سرکار کے ان نیم فلاحی منصوبوں سے گریز کریں اور اپنی تمام تر توانائی ان کے متبادلات کی جستجو میں لگائیں۔ خوش قسمتی سے روایتی مالیاتی شعبہ رفتہ رفتہ چند بنیادی میدانوں میں غیرسودی متبادلات کی طرف قدم بڑھارہا ہے۔ ہر چند کہ یہ مکمل طورپر اسلامی نہیں لیکن اس منتہا ئے نظرکے بے حد قریب ضرور ہیں۔ مسلمانوں کی نجی مساعی بھی،خصوصاً اگر ہم غور کریں کہ جس طرح کے معاندانہ ماحول میں انہیں کام کرنا پڑرہاہے، اس سمت میں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔ اس طرح رائے عامہ کی ہمواری کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کوشش ہونی چاہئے کہ ایک غیرسودی مالی نظام جو اسلامی اخلاقی اصولوں کے تحت کام کرے جس میں مسلمانوں کو غیر سودی نظام چلانے کی قانونی آزادی ہو۔مونیٹری اتھارٹیوں کے دائرہ اختیار سے غیر سودی نظام ضروری نہیں کہ پوری طرح سے خارج ہو بلکہ کریڈٹ کنٹرول کے مناسب غیرسودی آلات کے ذریعے اس کی سرگرمیوں کو کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ (جاری)
تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید
ترجمانی: عرفان وحید