نئی دہلی: ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جو اپنے شہریوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ منتخبہ نمائندگان کے ذریعے، جو کہ قانون ساز اداروں میں شہریوں کی نمائیندگی کرتے ہیں، اپنے مسائل حل کرسکیں. انتخابی منشور صاحب اقتدار نمائندگان تک عوام کی امیدوں اور تمناؤں کے ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے. ہندوستان کے طلبہ اور نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس موقع پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) اس موقع پر ایک “طلبائی منشور” شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں اس منشور میں ذکر کیے گئے مطالبات و تجاویز کو اپنے اپنے انتخابی منشور اور ایجنڈے میں شامل کریں.
اس منشور میں ذکر کیے گئے مطالبات و تجاویز تین محاذوں تعلیم، نوجوان اور حقوق انسانی کی پامالی پر محیط ہیں.
تعلیم: طلبائی منشور کا یہ حصہ قانون حق تعلیم کے نفاذ میں ناکامی پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی سخت مذمت کرتا ہے، اور اس قانون کی نافعیت اور شفافیت میں بہتر تبدیلی کے لئے کئی تجاویز پیش کرتا ہے. اس منشور میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ اور راجیو گاندھی فیلوشپ کے وظیفہ میں خاطر خواہ اضافہ کا مطالبہ بھی شامل ہے. اسی طرح اس اسیکم سے فائدہ اٹھانے کے لیے NET کی شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے. سچر کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق تعلیمی اداروں میں رزرویشن کا نفاذ بھی مطالبے میں شامل ہے. ان مطالبات کے علاوہ اسکالرشپ اسکیم میں بہتری اور طلبہ کے کئے حفظان صحت کا انتظام کرنے کج تجاویز بھی اس منشور میں شامل ہیں.
مطالبات: روہت ایکٹ وضع کیا جائے.
اقلیتی اکثریت رکھنے والے اضلاع میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آف کیمپس مراکز قائم کیے جائیں.
خصوصی توجہ کے مستحق بچوں پر حکومت زیادہ سے زیادہ توجہ دے.
تمام سرکاری جامعات میں عربی اور اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم کیے جائیں. تمام جامعات بی اے عربی اور بی اے اسلامک اسٹڈیز کے کورس شروع کریں.
حق تعلیم قانون (2009) کا مکمل نفاذ کیا جائے. حکومت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اقلیتی شناخت کی حفاظت کا تیقن دے.
نوجوان: طلبائی منشور کا یہ حصہ ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اہم مسائل بطور خاص بے روزگاری کے مسئلہ کا ذکر کرتا ہے اور حکومت کے سامنے ہمہ گیر آنترپرینیورشپ اسکیم اور اِسکِل ڈیولپمنٹ پروگرامس کی تجویز پیش کرتا ہے. یہ حصہ سرکاری اسامیوں کے پُر کرنے میں ہونے والی بدعنوانی کی بھی مذمت کرتا ہے اور ‘محدود وقت میں’ اور شفاف انتخاب کے نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے.
مطالبات: سرکاری اور عوامی سیکٹر ملازمت کی تمام اسامیوں کو جلد از جلد پُر کیا جائے.
سرکاری ملازمت کے لئے انتخاب کے عمل کو شفاف اور بہتر بنایا جائے.
رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹ کے مطابق پبلک سروس میں رزرویشن لازما دیا جانا چاہیے.
انسانی حقوق: طلبائی منشور حقوق انسانی کی پامالی سے متعلق متعدد مسائل کو بھی موضوع بحث بناتا ہے اور مذہبی لحاظ سے اقیلیتی طبقات اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع قانون وضع کرنے کا مطالبہ کرتا ہے. یہ منشور ان نوجوانوں کی بازآبادکاری کا مطالبہ بھی کرتا ہے جنہیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے.
مطالبات: آسام میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس (NRC) کا عمل صاف اور شفاف طریقے سے چلایا جائے.
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں لائے گئے اداروں کو مضبوط کیا جائے.
انڈین پینل کورٹ کے سیکشن 197 کو ختم کیا جائے.
تمام میدانوں میں مذہبی لحاظ سے اقلیتی طبقات کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے مناسب قانون وضع کیا جائے.
طلبائی منشور کے جاری کرنے کے اس موقع پر ایس آئی او آف انڈیا کے قومی صدر لبید شافی نے کہا کہ طلبہ اور نوجوان اس جمہوریت کا سب سے بڑا ‘ حلقہ امیدواری’ ہے اور سیاسی جماعتوں کو ان سے ووٹ مانگنے کے وقت ان کے مطالبات کا خصوصی لحاظ کرنا چاہیے. انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی او نے ایک ایسا طلبائی منشور پیش کیا ہے جو سیاسی جماعتوں سے ملک کے بہتر مستقبل کے لئے کام کرنے کا مطالبہ کرتا ہے. انہوں نے کہا کہ ملک کے طلبہ اور نوجوانوں کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے نعروں اور بحثوں سے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا.
یہ طلبائی منشور درج ذیل ذمہ داران کی موجودگی میں جاری کیا گیا:
- لبید شافی ( قومی صدر، ایس آئی او آف انڈیا)
- سید اظہر الدین ( جنرل سکریٹری، ایس آئی او آف انڈیا)
- فردوس احمد ( رکن کیبینیٹ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین)
- رمیس ای کے ( جامعہ ملیہ اسلامیہ)
- صفوی (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی)
- انیس ( دہلی یونیورسٹی)
- ابوالکلام (جامعہ ملیہ اسلامیہ)
منجانب:
شعبہ میڈیا، ایس آئی او آف انڈیا
سید احمد علی (قومی سکریٹری، ایس آئی او آف انڈیا)
فون: 8143622370
ای میل: [email protected]
ویب سائٹ: sio-india.org