اِنَّ اللہَ اْوحِی اِلَیَّ اَن تَوَاضَعْوا حَتّیٰ لَا یَفخَرَ اَحَدعَلیَ اَحَدْ، وَلَا یَبغِی اَحَد عَلَی اَحَدْ
’’ اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تواضع اختیار کرو۔ یہاں تک کہ کوئی کسی شخص کے مقابلے میں فخر نہ کرے اور نہ کوئی شخص کسی پر ظلم و زیادتی کرے‘‘۔
آنحضرت ؐکی اس حدیث میں تواضع اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک شخص تفاخر یعنی دوسرے شخص کے مقابلے میں فخر جتانے سے بچ جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے اشخاص پر زیادتی کرنے سے انسان بچ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تواضع اختیار نہ کیا جائے تو فخر جتانے اور ظلم وزیادتی میں ملوث ہوجانے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔
آنحضرت ؐ کا یہ فرمانا کہ ’’اللہ نے میری طرف وحی کی ہے ‘‘ ملت کی اہمیت اجاگر کرنے اور زور دینے کے لئے ہے۔ یہ دراصل حدیث قدسی کی طرح ہے کہ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کا وہ قول بتایاجاتا ہے جو وحی متلو یعنی قرآن کریم میں موجود نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمام احادیث مبارکہ اس معنی میں وحی ہیں کہ ان کے پیچھے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعلیم ، اس کا حکم ، ارادہ ، منشاء اور اِذن ہوتا ہے۔ ہمیں ہمارے آقا ؐ نے کوئی بات مالک کو ن ومکاں اور رب العالمین کی مرضی کے بغیر نہیں بنائی ہے۔
تواضع دراصل اپنی حیثیت کے صحیح ادراک کی وجہ سے بندگانِ خدا سے درست رویہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک انسان کی صحیح حیثیت یہ ہے کہ وہ دیگر انسانوں کی طرح مخلوق ہے جسے پیدائش، رنگ، نسل، زبان یا علاقے کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ خالقِ کائنات کی مرضی کے سبب اسے اگر کوئی حیثیت ، مقام یا پہچان حاصل ہے تو دیگرافراد کو بھی اسی سبب سے دوسری حیثیت، مقام یا پہچان حاصل ہے۔ یہ چیزیں امتیاز کا سبب نہیں ہیں۔ تواضع کی ضد تکبر ہے جس کے سلسلے میں ایک دوسری حدیث میں آنحضرت ؐ نے بتایا کہ یہ زندگی کی اصل حقیقت کا انکار (بطرالحق ) اور دیگر بندگانِ خدا کو حقیر جاننا (غمط الناس) ہے۔ اس طرح ایک انسان اپنے رویوں کی وجہ سے تواضح اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو خداوند قدوس سے فروتر (یعنی اس کا بندہ) سمجھ کر کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں فخر نہیں جتاتا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا فرد ہے جو اپنے اور اپنے خالق کے درمیان حقیقی رشتہ ، عبدومعبود کو بھول جانا ہے اور ان چیزوں کی بنا پر غرور وتکبر اختیار کرتا ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پہلے رویے کے نتیجے میں تمام مخلوقات اللہ کا کنبہ (الخلق عیال اللہ) بن جاتی ہے اور ظلم وزیادتی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اورد وسرے رویے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی زمین بندوں کے ذریعے ظلم وستم سے بھر جاتی ہے اور انسانیت کراہ اٹھتی ہے اور خدا کا غضب نازل ہوجاتا ہے۔ درج بالا حدیث میں پہلے رویے کی تعلیم دی گئی ہے۔
موجودہ دنیا میں جس عدم مساوات کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اس کا واحد سبب یہ ہے کہ انسانوں نے ان بنیادوں پر تفریق کو روا رکھا ہے جو بے حقیقت ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے ان تمام غیر حقیقی بنیادوں سے منع کردیا اور بتایا کہ انسانوں کے درمیان فضیلت کی واحد جائز بنیاد تقویٰ ، یعنی معرفت الٰہی ہے۔ (ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم)
تکریم انسانیت کی حقیقی بنیاد اور تفریق بین الناس کی وضاحت اتنی اہم بات ہے کہ اسے آنحضرت ؐنے اپنے آخری حج کے خطبے میں جو حقیقی معنوں میں انسانیت کے لئے منشور ربانی ہے۔ صاف صاف بیان کردیا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر کسی عربی کو کسی عجمی (غیر عرب) پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
حضور اکرم ؐ نے ان تعلیمات میں جو اصول بیان کئے ان پر ایک ایسے سماج کی تعمیر بھی کردی جو تمام سابقہ عدم مساوات سے پاک تھی۔ حالانکہ سابقہ دور جسے جاہلی دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے درمیان بے حقیقت تفریق کی بنیاد پر بنا ہوا تھا اور پورا سماج ظلم اور بربریت کی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ آج کی دنیا بھی اگر ان زریں اصولوں کو اپنالے تو یہ زمین ظلم سے پاک اور جنت نشاں بن سکتی ہے اور ساتھ ہی مالک کائنات کی رضا وخوشنودی حاصل ہوسکتی ہے۔
از: ڈاکٹر وقار انور