تربیت میں تسلسل ناگزیر

ایڈمن

جرار احمد             کائنات کو صانع عالم نے بہت ہی سلیقے اور ترتیب کے ساتھ سجا دیا ہے۔ اس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں کہیں رتی برابر بھی جھول نہیں۔ آج بھی دمادم صدا ئے کن فیکون آرہی ہے اور…

جرار احمد

            کائنات کو صانع عالم نے بہت ہی سلیقے اور ترتیب کے ساتھ سجا دیا ہے۔ اس کی بناوٹ اور سجاوٹ میں کہیں رتی برابر بھی جھول نہیں۔ آج بھی دمادم صدا ئے کن فیکون آرہی ہے اور تمام چیزیں تسلسل کے ساتھ تخلیق ہوتی چلی جا رہی ہیں۔اس تخلیق میں انسان کو اشرفیت کا درجہ ملا مگر افسوس کہ انسان تسلسل سے تساہل اور ترتیب سے تغافل برتتا چلا جارہاہے، جس کے نتیجے میں اس کے کسی کام میں خالق عالم کی خلاقی کا شائبہ نظر نہیں آتاہے۔

             ہمارے معاشرے میں بہت سارے افراداولاد کی تربیت و نگہداشت کو لے کر کافی پریشان رہتے ہیں۔ گلی محلے میں سرپرست حضرات اکثر اس بات کے شاکی ہوتے ہیں کہ”ارے یار کیا کریں؟ لڑکے کوکتنا بھی کو سمجھا رہاہوں، ڈانٹ رہا ہوں،ماررہاہوں، مگر اس پر کچھ اثر نہیں ہو رہا ہے اور وہ پڑھنے لکھنے کی طرف راغب ہی نہیں ہو رہا ہے!کیا کروں؟ میں تو پریشان ہوگیا ہوں۔۔ اس کے مستقبل کے تئیں فکر مند بھی ہوں۔۔!“۔مگرمعلوم کرنے پر پتہ چلتاہے کہ سرپرست ہفتے میں یا مہینہ میں ایک بار خوب پٹائی یا ڈانٹ لگادیتے ہیں پھرہفتہ، مہینہ بھربعد جب کبھی موڈ خراب ہوا تب دوبارہ بچے کی شامت آئے گی۔ اسے تربیت اور نگہداشت نہیں کہتے بلکہ اسے اپنی بھڑاس نکالنے سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔ زبردستی مار پیٹ کر کسی کی عادات و اطوار میں لائی گئی تبدیلی کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوگااور نہ وہ تبدیلی اس کی زندگی اور عادت کا حصہ ہی بنے گی۔ اولاد کی تربیت سمجھا بجھا کر، دانشمندی کے ساتھ آہستہ آہستہ تسلسل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ہر کام کے بہتر نتیجہ کے لیے اس میں تسلسل ضروری ہے۔ یہی معاملہ تربیت کا بھی ہے۔تسلسل سے تغافل کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتا۔ ہر روزبچوں کو سمجھانے کے ساتھ سبق آموز قصے کہانیاں سناتے رہنا چاہئے۔ انہیں اپنے اور گھر کے حالات کے ساتھ معاشرے کے مسائل اور پریشانیوں سے بھی  آگاہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ ان تمام چیزوں کے تئیں حساس ہوں۔جب ہم کسی کے اندر کسی چیز کے تئیں احساس کو بیدار کردیتے ہیں تو اس چیز کے تئیں اس شخص کا رویہ بدل جائے گا اور جب خود سے کسی چیز کے تئیں کسی شخص کا رویہ بدلتاہے تو وہ چیز اس کی عادت میں شامل ہوجاتی ہے اور جو چیز خود سے عادت کا حصہ بن جاتی ہے اس کو دوام حاصل ہوجاتاہے۔اس طرح سے کی گئی تربیت کو بھی دوام حاصل ہوگا۔

            کسی بھی عمل میں میانہ روی بہت ضروری ہے۔اسی لیے دین مصطفوی میں افراط وتفریط دونوں سے منع کیا گیا ہے۔ بھوکے رہنا جتنا نقصاندہ ہے اس سے کئی درجہ زیادہ نقصان بھوک سے زیادہ کھانا کھالینے میں ہے۔اسلام ایک مکمل ضابط حیات ہے، اس ضابطے کے تحریری دستاویز قرآن مجیدکو رب العالمین نے یک بارگی نازل نہیں فرمایا بلکہ وقت، ضرورت اور موقع و محل کی مناسبت سے تسلسل اور تواتر کے ساتھ نازل فرمایا۔تاکہ لوگ اسے سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کے بھی عادی ہوتے چلے جائیں۔ایک دن کی ڈانٹ سے سدھرنے سے زیادہ بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اگرکوئی فی الواقع اپنے اہل وعیال کی تربیت کاخواستگار ہے تواسے سنت مصطفوی کے مطابق میانہ روی اختیار کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ سنت خداوندی کی پیروی کرتے ہوئے اوالاد کی بتدریج تربیت کے لیے وقت نکالا جائے تویہ عمل پیہم رائیگاں نہیں جائے گا۔

JARAR AHMED,

Senior research scholar,

Dept Education, MANUU

[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں