صبح سویرے اٹھ کر جیسے ہی اخبار کھولیے تو آپ کو عصمت دری، چھیڑ خوانی اور جنسی استحصال کی کئی خبریں نظر آئیں گی۔ ایسا لگتا ہے گویا صنفِ نازک کی عزت ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گلی میں تار تار کی جارہی ہے۔ اخبارات میں ان واقعات کو پڑھ کر پہلے کبھی لوگوں کی پیشانی پر بل پڑتے ہوں گے لیکن اب وہ اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گزرجاتے ہیں۔ گویا اس معاملے میں وہ اب بے حس ہوگئے ہیں۔ بلکہ اخبارات اور نیوز چینلس کی زینت بننے والے خواتین کے خلاف جنسی جرائم نے عورت کے استحصال کو دوگنا کردیا ہے۔ کیونکہ برائی کی تشہیر کرنے سے برائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جنسی جرائم کی تشہیر کی وجہ سے مجرم اور زیادہ جری اور بے فکر ہوگئے ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۲ء میں راجدھانی دہلی میں چلتی بس میں ہوئے اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے بعد لوگوں کا غصہ احتجاج کی شکل میں ابل پڑا، لیکن خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں آئی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ دہلی کی نربھیا اجتماعی عصمت دری ہو، یا ممبئی کی شکتی مل عصمت دری او راب بدایوں میں دلت بہنوں کے ساتھ ہوئی زیادتی اور خون کے واقعے۔ ان تمام واقعات سے انسان اور انسانیت شرمسار ہوئی ہے۔ جنسی جرائم کی اس دوڑ میں کبھی غنڈے، بدمعاش اور ان پڑھ لوگ رہا کرتے تھے، لیکن اب اس میں دھرم گروؤں اور مذہبی باباؤں نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ نتیانند ہو یا پریمانند، بھیما نند ہو یا پھر آسا رام باپو ان تمام ڈھونگی باباؤں نے مذہب اور روحانیت کو شرمسار کیا ہے۔ میڈیا سے ترون تیج پال نے خواتین کے خلاف زیادتی میں ایک باب رقم کیا، تو پھر عدلیہ بھلا کیوں پیچھے رہتی، کرناٹک کے ۲؍ جج بھی اس زیادتی کے دلدل میں خم ٹھونک کر آگئے۔ کارپوریٹ تو ان جنسی جرائم کے محرک تھے اور سیاسی رہنما تو پہلے ہی اس معاملے میں بدنام چلے آرہے تھے، اسمبلی میں بلیو فلم تک دیکھنے کے واقعات پیش آئے۔ خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم نے گویا ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ National Crime Records Bureau (NCRB) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۲۰۱۲ء میں ۲۴۹۲۳؍ زنا بالجبر کے واقعات رونما ہوئے جبکہ ۲۰۱۳ء میں ان واقعات میں ۲۷؍ گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے، گویا
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ملک میں ہر ۲۰؍ منٹ میں زنا بالجبر کے ایک واقعے کا اندراج ہوتا ہے۔ جبکہ جنسی زیادتی کے ۶۹؍ کیسوں میں صرف ایک ہی کیس کا اندراج ہوپاتا ہے۔ دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ پھر اس کے پیچھے پیچھے ممبئی ہے۔ NCRBکی تازہ رپورٹ میں تو دہلی کو Rape Capital of Indiaکہا گیا ہے۔ ریاسی سطح کی بات کی جائے تو مدھیہ پردیش جنسی جرائم میں سب سے آگے ہے، اور پھراترپردیش اور مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔
دسمبر۲۰۱۲ء کے بعد نابالغ سے زنا کے بھی کئی واقعات اخبارات کی زینت بنے۔ فروری ۲۰۱۳ء میں BBCنے اپنی ایک رپورٹ میں چشم کشا حقائق کا انکشاف کیا کہ ہندوستان میں ہر سال ۷۲۰۰؍ بچے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔
دہلی اجتماعی عصمت دری کے بعد پورے ملک میں جنسی زیادتیوں پر احتجاج کی کیفیت پیدا ہوئی۔ عوام اور خواص کے ہر گوشے سے اس پر تیکھا ردِ عمل سامنے آیا۔ اس سماجی ناسور پر مختلف مشورے اور علاج سامنے آئے۔ اور کئی حل پیش کیے گئے۔ سماج کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے جو آواز بلند ہوئی وہ یہ تھی کہ زانی کو سزائے موت دی جائے۔ یہ بات موضوع بحث بنی کہ کیا سخت سزا ہی اس کا واحد حل ہے؟ کیا ہر اہم مسئلہ پر قانون سازی کردینا ہی کافی ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ قوانین تو پہلے ہی سے موجود تھے، اس میں ترمیم بھی کردی گئی(Criminal Law Amendment Act 2013)اور نربھیا کے قصور واروں کو سزا کا اعلان بھی ہوگیا، لیکن مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔ کچھ اور لوگوں کی طرف سے زانی کو سرِ عام پھانسی دینے، تڑپا کرمارنے ، خواتین کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے، انہیں مارشل آرٹ سکھانے اور حکومتی حفاظتی انتظامات کو مضبوط کرنے جیسے مشورے بھی سامنے آئے، بہرحال سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان جنسی جرائم کی وجوہات کیا ہیں۔ جب تک ان وجوہات کو قابو میں نہیں کیا جائے گا معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اگر کسی بیماری کا علاج کرنا ہے تو اس کی وجوہات اور عوامل کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے، اور پھر اسے ختم کرکے ہی اس بیماری کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ بیماریوں سے آیورویدک طریقۂ علاج کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ صحت مند آدمی کی صحت کی حفاظت یعنی اس کی بیماریوں سے روک تھام، تاہم اگر حفاظت کے باوجود بیماری ہوجائے تو اس کا علاج کرنا۔ ٹھیک اسی طرح خواتین پر ہونے والے استحصال کا مسئلہ ہے، اس بیماری کو ہمارے سماج میں پنپنے ہی نہ دینا سماج کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اور اگر اس بیماری کی وجوہات پر قابو پاکر اور سبھی روک تھام کرکے بھی صنفِ نازک پر زیادتی ہوتی ہے تو پھر اس کے لیے سخت قانون کی ضرورت ہے۔ اس لیے جنسی جرائم کو ہمارے سماج سے ختم کرنے کے لیے اس کی وجوہات پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین پر بڑھتی زیادتی کے اسباب
(۱) مساوات مردو زن کا گمراہ کن نظریہ:
خواتین کو قدیم روایتی دور سے مرد استحصال کا شکار بناتا آرہا ہے۔ ہر دور میں عورت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی صورت میں مرد کی خدمت کرتی آرہی ہے۔ لیکن اس کی جسمانی کمزوری کی بنا پر مرد نے ہمیشہ اسے اپنی خدمت گار اور جنسی تسکین کا سامان سمجھا ہے۔ قدیم بابل اور مصر کی تہذیب ہو یا پھر آنحضرت ؐ سے قبل عرب کا معاشرہ، عورت انسانی حقوق سے محروم تھی۔ اس سے ہر طرح سے بُرا برتاؤ ہوتا تھا۔ اسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ مرد جب چاہتا اسے ماں کہہ کر اپنے سے جدا کردیا کرتا تھا۔ ہندوستانی تہذیب میں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا گیا۔ صدیوں تک عورت مرد پرسَتی ہوتی رہی۔ ان تمام استحصال سے تنگ آئی ہوئی عورت کے لیے جب مغربی سرمایہ داروں نے اپنے مفاد کے پیش نظر مساوات مرد و زن کا نعرہ دیا تو وہ اس پر پھولے نہیں سمائی، اور اسے اپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر سرمایہ داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئی اور پھر عورت کا روایتی استحصال ختم اور جدید ترقی یافتہ استحصال شروع ہوا۔
جدید سرمایہ داروں کو اپنی خدمت کے لیے کم قیمت ملازمین کی بڑی تعداد کی ضرورت تھی۔ اس لیے اس نے مساوات مرد و زن کے نام سے Career Womenکی اصطلاح عام کی۔ چونکہ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ یکسوئی کے ساتھ، کم قیمت پر، زیادہ اطاعت شعاری کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اس لیے کمپنیوں میں بھی اسے زیادہ سے زیادہ ملازمت کے مواقع مہیا کرائے گئے۔ ٹائمز آف انڈیا نے کارپوریٹ میں خواتین ملازمت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنیاں ان سے توقع کرتی ہیں کہ وہ ’’بیک وقت نسوانی حسن کی پیکر بنی رہیں، معزز خاتون کا رویہ اختیار کریں، مرد کی طرح سوچیں اور کتے کی طرح کام کریں۔‘‘
ان کمپنیوں میں خواتین کو اکثر جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے، اور نہ صرف کمپنیوں میں بلکہ کام کی جگہوں پر اکثر خواتین جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ ارونا شان باغ سے لے کر اب نربھیا تک اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ اسوچام کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھر کے باہر کام کرنے والی خواتین میں Life Style Disordersاور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی شرح۷۵؍ فیصد سے زائد ہے۔ ان نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے وہ خود کشی کی طر ف راغب ہوجاتی ہیں۔ گھر کے باہر کام کرنے والی خواتین پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے سارے کام بھی کرے، بچوں کی پیدائش و نشوونما بھی کرے، کمپنی میں جاکر وقت پر کام اور پروجیکٹ بھی ختم کرے، اور تاخیر کی صورت میں باس کی ڈانٹ بھی سنے، جس کی وجہ سے شہری خواتین نفسیاتی امراض کا شکار ہورہی ہیں۔ دراصل انسانوں کے درمیان عدمِ مساوات شرف انسانیت کی توہین ہے۔ لیکن عورت و مرد کی جسمانی ساخت، نفسیاتی رجحانات، چال ڈھال، نشست وبرخاست، پسند و ناپسند، ترجیحات، آواز، رکھ رکھاؤ، جذبات اور خواہشات تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور اس میں کوئی مساوات نہیں۔ البتہ مرد و زن میں مساوات ہے تو صرف انسانی حقوق کے معاملے میں، مگر فرائض کے معاملے میں یقیناًدونوں میں فرق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کام کی مساوات عورت پر ظلم ہے، مگر آسائش حیات اس کا حق، لیکن مرد چونکہ آسائشِ حیات اس کو دینا نہیں چاہتا اس لیے کام کی مساوات اس پر تھوپ دیتا ہے، اور عورت کا استحصال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی روزی کاانتظام بھی صنفِ نازک کو خود کرنا پڑتا ہے۔ یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔ مگر پروپیگنڈہ کے سحر اور فلسفیانہ دلائل کے فریب سے اس ظلم کو بھی مساوات تسلیم کرالیا جاتا ہے۔ اور تو اور، عورت کے استحصال میں خود مردمساوات مرد و زن سے دست بردار ہوجاتا ہے۔ فلموں، سیریلس اور اشتہارات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مرد تو شرٹ پینٹ، کوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتا ہے، جبکہ عورت کو نہایت کم کپڑے پہننے کے لیے دئیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کے جسم کی نمائش ہوتی ہے اور وہ مردوں کی آنکھوں کو جنسی تسکین فراہم کرتی ہے۔ اگر ہمارا سماج مرد اور عورت کو برابر اور مساوی مانتا ہے تو اپنے جسم کوڈھاکنے کا جو حق مرد کو حاصل ہے، وہ عورت کو کیوں نہیں؟ عورت بے چاری مرد کی جنسی تسکین کے لیے اپنی عزت کی قربانی دیتی ہے، اگر عورت امریکہ کی سکریٹری آف اسٹیٹ بھی بن جائے، تو اس جنس زدہ معاشرہ کے لیے وہ صرف مرد کی جنسی تسکین کے ایک ذریعہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ پچھلے دنوں ہیلری کلنٹن، مسز اوبامہ، حنا ربانی کھر کے لباس، حسن، اور اسٹائل جس طرح دنیا بھر کے میڈیا میں موضوع بحث بنے، یہ اس کی واضح مثال ہے۔
موجودہ دور میں سرمایہ داروں نے عورت کو جنسِ بازار(Commodity) بناڈالا ہے۔ وہ گھروں میں محفوظ تھی، اسے راستوں اور بازاروں میں لاکر برہنہ کردیا ہے۔ اور افسوس! صد افسوس! بنت حوا بھی مساوات کے ان جھوٹے دعوؤں میں آکر اپنی عزت خود ہی تارتار کررہی ہے۔ وہ مغرب کے سحر میں آکر وہ کام کررہی ہے جو مغرب کے سرمایہ دار اس سے کرانا چاہتے ہیں۔ اور پھر اس کے اثرات کے طور پر جب زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس پر ہائے توبہ بھی خود ہی مچاتی ہے۔ یقیناًاس کا حل یہ ہے کہ عورتیں اپنی عزت خود کرنا سیکھیں۔ مساوات مرد و زن کی وجہ سے مردوں میں عورتوں کو لے کر نفرت بڑھی ہے۔ اور جب عورت ننگی ہوکر بازار کی زینت بنی تو اس کے عزت و احترام میں کمی آئی ہے۔ یہ دو وجوہات بھی خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو بڑھانے میں مددگار ہوئے ہیں۔
(۲) شراب اور نشہ خوری:
شراب نوشی اورنشہ خوری خواتین پر ہونے والے جنسی زیادتی کے خاصے اہم عوامل ہیں۔ نشے کے استعمال ہی سے زانی حوصلہ پاکر یہ بدبختی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ شراب اور نشہ آور اشیاء پر پابندی کی ضرورت ہے، لیکن سرکار کو شراب اور نشہ آور ادویات سے بڑی مقدار میں GDP (Gross Domestic Product)یعنی ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس پر پابندی لگانے کو تیار نہیں۔ دراصل زنا بالجبر جیسی بہت سی سماجی برائیوں کی اہم وجہ شراب نوشی ہے۔ دہلی اجتماعی عصمت دری سمیت گزشتہ دنوں ہوئے زنا بالجبر کے بیشترواقعات میں زانی نشہ کی حالت میں پایا گیا، اور وہی نشہ ا س حرکت کی وجہ بنا۔
(۳) ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عریانیت کا سیلاب:
بڑھتے جنسی جرائم کی ایک اہم وجہ عریاں اور فحش فلمیں ہیں۔ موجودہ دور میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں اس طرح کی فلمیں بن رہی ہیں، جنہیں خاندان کے سبھی افراد ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔ فلم سنسر بورڈ فلم کاروں سے موٹی رقم لے کراپنی آنکھیں بند کررہا ہے اور بے حد فحش، عریاں اور بے تکی فلموں کو اجازت نامہ مل رہا ہے۔ مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھی فحش فلموں کو جنسی جرائم کا قصور وار ٹھہرایا۔ Aسرٹیفکٹ والی اور بلیو فلموں نے تو سماج کو جنس زدہ بنانے کا کام کیا ہے۔ ٹی وی سیریلس اور ریلٹی شوز وغیرہ نے ان جنسی جرائم کو بڑھانے کے لیے آگ میں گھی کا کام کیا۔ ٹی وی سیریلس کے ذریعے افیئر کلچر، شراب نوشی اور عریانیت کو خوب خوب بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ سونی پر نشر ہونے والا پروگرام کرائم پیٹرول اور اس جیسے آدھا درجن پروگراموں نے جنسی جرائم کرنے کے نئے نئے طریقے و حربے مجرموں کو سکھائے ہیں، اور پولیس سے بچنے کی تدابیر بھی ان کو سکھائی ہیں۔ دوسری طرف پچھلے کچھ سالوں میں ریلٹی شوز نے عریانیت اور فحاشی کے طوفان بدتمیزی میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ سچ کا سامنا اور Emotional Atyacharجیسے ریلٹی شوز نے لوگوں کی جنسی زندگی کو سڑک پر لے آنے کا کام کیا ہے۔
سرمایہ داروں نے اپنے اشتہارات کے ذریعہ بنت حوا کو بازار کی چیز (جنس بازار) بنادیا ہے۔ کسی بھی چیز کا اشتہار ہو، اس میں عورت کا ہونا ضروری ہے۔ بلیڈ ہو یا جینس، کھانے کی اشیاء ہوں یا کار وغیرہ، ہر اشتہار میں عورت ناگزیر ہے۔ غرض اس طرح سے سرمایہ داروں نے عورت کے حسن اور اس کے جسم کو اپنے سامان بیچنے کے لیے استعمال کیا۔ میڈیا نے بھی فحاشی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ سماج کے لیے ضروری چیزوں کو سامنے لائے مگر اس کے بجائے وہ دکھاتا ہے کہ پونم پانڈے برہنہ ہوں گی، سی لیون اپنی خوبصورتی کے لیے کیا کررہی ہے، میڈیا گھنٹوں لوگوں کی خانگی زندگی پر پروگرام نشر کرتا ہے، جس کی وجہ سے جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں۔
(۴)خاندانی نظام کی ناکامی:
انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل جائز طریقے پر نہ ہوپائے تو وہ اس کے لیے ناجائز اور غیر فطری طریقہ اختیار کرنا ہے۔ انسان کے لیے جنسی ضروریات کی تکمیل کا جائز ذریعہ نکاح ہے۔ لیکن موجودہ دور میں مختلف وجوہات کی بنا پر نکاح مشکل ترین کام ہوگیا ہے اور زنا جنسی تسکین کا ایک آسان طریقہ ہوگیا ہے۔ شادی کے پہلے اور بعد میں ناجائز جنسی تعلقات جیسے مسائل کی وجہ سے علیحدگی اور طلاق کے معاملات میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اور اب تو دہلی ہائی کورٹ نے Live in Relationship کو بھی صحیح ٹھہرادیا ہے، اور حکومت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے، اور اس فرسودہ خاندانی نظام کی ناکامی کی وجہ سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔
(۵) اختلاط مرد وزن اور خواتین کا طرزِ عمل:
تعلیم گاہوں اور کام کی جگہوں پر مرد و زن کا کھلا اور آزادانہ اختلاط بھی جنسی زیادتی کو فروغ دینے کا سبب بنا ہے۔ مغربی و امریکی تعلیم گاہوں میں اسی اختلاط کی وجہ سے اسقاطِ حمل کے سینٹرس بنانے پڑے ہیں، اور یہ کلچر اب ہندوستانی تعلیم گاہوں میں بھی در آرہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین اکثر اپنے سینئرس کی جانب سے ہراسانی کاشکار ہوتی ہیں۔
دوسری طرف جنسی ہراسانی کی ذمہ دار خود صنفِ نازک بھی ہے۔ خواتین کے لباس، ان کی چال ڈھال اور طرزِ عمل بھی مردوں کو جنسی زیادتی پر اکساتا ہے۔ دہلی اجتماعی گینگ ریپ میں بھی وہ لڑکی جس پر جنسی زیادتی ہوئی تھی، وہ دیر رات اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ فیشن ایبل کپڑوں میں سنیما گھر سے آرہی تھی۔ اس طرح کا طرزِ عمل مردوں کو جنسی طور پر مشتعل کردیتا ہے۔ اور اس معاملے میں یہی ہوا۔
جب کچھ سماجی مفکرین نے لباس کی بات کہی تو بنت حوا اس پر بھڑک اٹھی، اور ان کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ یہ ہمارا نجی معاملہ ہے کہ ہم کیا پہنیں اور کیا نہیں؟ ہم کیا کریں اور کیا نہیں؟ اور خواتین نے اُلٹا مردوں کو اپنی نظریں نیچے رکھنے کی صلاح دے ڈالی، اور Play Cardsکے ذریعہ کہا کہ Dont tells me how to dressلیکن حقیقت یہ ہے کہ جنسی زیادتی کے ۶۰۔۷۰ فیصد واقعات میں لباس ایک اہم وجہ ہوتی ہے۔ یہ بات بنت حوا کو سمجھنی ہوگی۔ مندرجہ بالا واقعہ نے افیئر کلچر کو بھی جنسی زیادتی کی ایک وجہ تسلیم کروایا ہے۔
افیئر کے چکر میں آکر نوجوان زنا بالرضا کرتے ہیں جو کہ قانون کی رو سے صحیح ہے، لیکن کچھ عرصے بعد جب یہی افیئر ٹوٹ جاتا ہے، تو لڑکی اپنے پرانے بوائے فرینڈ کے خلاف زنا بالجبر کا الزام لگاتی ہے۔
(۶) پورنوگرافی:
موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی پورنوگرافی نے بھی جنسی زیادتی کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ پورنوگرافی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے لیے بہت بڑا منافع کا ذریعہ ہے۔ صرف امریکہ، جاپان اور ساؤتھ کوریا مل کر ۶۰ ملین ڈالر سے زائد منافع اس بزنس سے کماتے ہیں۔ پورنوگرافی پر فی سیکنڈ ۳؍ لاکھ ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں اور تقریباً ۴۲؍ لاکھ ویب سائٹس اور ان کے ۴۲؍ کروڑ صفحات اس مقصد کے لیے وقف ہیں۔ پورنو گرافی کے لیے انٹرنیٹ کے علاوہ فحش لٹریچر، تصاویر، ویڈیوز، فلمز، اور میگزین جیسے ذرائع کا بھی بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔ فحاشی پھیلانے کے لیے کارپوریٹ نے مقابلہ حسن، فیشن، کاسمیٹکس انڈسٹری وغیرہ کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ ایک مغربی مفکر Robin Morjinاپنی کتاب میں کہتا ہے: Pornography is the theory and rape is the practice.
اس طرح پورنوگرافی مردوں کے دلوں سے خواتین پر زیادتیوں کے متعلق حساسیت ختم کردیتی ہے۔ اس لیے پورنو گرافی کو ختم کیے بنا زنا بالجبر کے واقعات پر بند باندھنا بہت مشکل ہے۔
(۷)سیکس ایجوکیشن یا جنسی تعلیم:
ممبئی کے کمشنر آف پولیس اور موجودہ MPستیہ پال سنگھ نے بڑھتی جنسی زیادتی کی وجہ جنسی تعلیم کو بتایا ہے۔ نوعمر طلبہ کو جنسی تعلیم دینا اور وہ بھی بہت ہی بھدے طریقے سے، گویا ایسا ہے کہ آپ نے ایک کم عمر کے ہاتھ ہتھیار تھما دیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس کی مختلف وجوہات ہیں جن کا ازالہ کرکے ہی مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
جنسی زیادتی کا اسلامی حل:
۱۶؍دسمبر ۲۰۱۲ء کو ہوئے اجتماعی آبروریزی کے بعد سماج کے کچھ معزز حضرات کی جانب سے اسلامی سزائے زنا کا مطالبہ کیا گیا۔ لالو پرساد یادو نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بات کہی۔ دوسری طرف اسی دوران ایک نیوز چینل پر پینل ڈسکشن کے دوران بات کرتے ہوئے Delhi Commission for Womenکی صدر محترمہ برکھا سنگھ نے سوال اٹھایا کہ عرب میں خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کے واقعات کیوں رونما نہیں ہوتے؟ اور اس کے لیے وہاں کے ماحول اور سزاؤں کو زیادتی کی روک تھام کا ذریعہ بتایا۔ اس طرح کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ قوانین فطرت یعنی قوانینِ اسلام کی طرف واپس آرہے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ اسلام جرائم پر سزا کے نفاذ سے قبل تعلیم و تربیت کے ذریعے سے ایک صالح معاشرہ کو تشکیل دیتا ہے۔ سب سے پہلے معاشرہ کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر کرتا ہے۔ وہ تمام راستوں کوبندکردیتا ہے، جن سے جنسی جرائم پنپ سکتے ہوں۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ہی سزا کا مطالبہ کچھ ادھورا اور غیر معقول سا ہے۔ مطالبہ کرنے والوں کو اسلام کو ایک حل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلام کے احکامات کا استعمال کرتے ہوئے مرحلہ وار اس لعنت پر قابو پانا ہوگا۔ ذیل میں اس کا ایک ہلکا سا تعارف پیش ہے:
پردہ کا حکم:
اسلام آزادانہ اختلاط مرد وزن کو پسند نہیں کرتا اور اس کے سارے راستوں کو بند کردینے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ مردوں کو جہاں حکم دیتا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں وہیں عورتوں کو بھی اپنے بناؤ سنگھار کو صرف محرم مردوں کے سامنے ہی ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے:
’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں،یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔‘‘ (النور: ۳۰)
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرمادیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں۔ سوائے (اس حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ (النور: ۳۱)
اسی طرح سورہ احزاب میں فرمایا گیا:
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحب زادیوں اور مسلمانوں کی عورتو ں سے فرمادیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔ یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچانی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انھیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذا نہ دی جائے۔‘‘
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے جنسی زیادتی کے لیے لباس ایک اہم وجہ ہے، اگر خواتین سورہ احزاب کی مندرجہ بالا آیات پر عمل کریں تو وہ اس قسم کے جنسی جرائم اور استحصال سے محفوظ رہیں گی۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کوباریک اور عریاں کپڑے پہننے پر تنبیہ کی، اور کہا کہ وہ عورتیں بھی جہنمی ہیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں۔دوسروں کو رجھاتی ہیں اور خود دوسروں پر رجھتی ہیں۔ان کے پرناز سے بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ٹیڑھے ہیں۔یہ عورتیں نہ جنت میں جائیں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی۔ (ریاض الصالحین)اختلاطِ مرد وزن کو ٹالنے کے لیے امت کی ماؤں کے حوالے سے قرآن نے پوری امت کی خواتین کو مردوں سے بات کرنے میں نرم لہجہ اور لچکداررویہ کے ساتھ بات کرنے سے منع کیا ہے۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ ’’کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ اکیلے میں اس کے محرم کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘ (بخاری) کیونکہ یہیں سے بدکاری کی شروعات ہوتی ہے۔ عورتوں کو راستے کے کنارے چلنے اور خوشبو کا استعمال نہ کرنے کی تاکید اسی لیے کی گئی ہے تاکہ مرد اُن کی جانب متوجہ نہ ہوں۔ اس طرح اسلام نے اُن تمام راستوں کو بند کر رکھ دیا ہے جن کے ذریعے بدکاری اور زنا کا معمولی سا بھی امکان ہو۔ اور ولا تقربوا الزنا کی تلقین کی۔ گھر میں رہنے اور گھر کے باہر کسی کو آواز دینے کے آداب بھی بتادئیے۔ محرم اور غیرمحرم کی فہرست بھی بتادی گئی، اور اس طرح سے زنا کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی۔ قریبی رشتہ داروں کے ذریعے سے زنا بالجبر کے واقعات NCRB\’sکی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق ۹۸؍ فیصد ہیں۔ اگر گھروں میں محرم اور غیر محرم کا آزادانہ اختلاط ختم کردیا جائے تو یہ فیصد صفر تک آسکتا ہے۔
نکاح کو آسان بنائیں:
خواتین کے خلاف جرائم کے اسباب اور وجوہات کی بنا پر نوجوانوں میں ایک طرح کا جنسی ہیجان اور جنون پیدا ہوتا ہے۔ ان کی جنسی حس مشتعل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اسلام میں جنسی خواہشات کی تکمیل کا ایک بہترین ذریعہ نکاح کی صورت میں دیا گیا ہے۔ حضرت محمدؐ نے ارشادفرمایا: ’’نکاح کو اتنا آسان بنادو کہ زنا مشکل ہوجائے۔‘‘ دورِ نبویؐ میں اس طرح کا معاشرہ بنادیا گیا تھا کہ زنا کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور اگر کوئی غلطی سے اس جرم کا ارتکاب کرلیتا تو اسے خدا یاد آجاتا اور آپؐ کے پاس آکر حد جاری کرنے کی سفارش کرتا تھا، اور ایسی توبہ کرتا یا کرتی کہ وہ توبہ نصوح ہوتی تھی۔ اگر نکاح کے ذریعہ خاندانی نظام کو مستحکم کیا جائے تو جنسی بے راہ روی پیدا ہی نہیں ہوگی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ دور میں جہیز ،حسن کی کمی ،وغیرہ وجوہات کی بنا پر نکاح ایک مشکل امر بن گیا ہے۔اسلام نے جہیز کو لعنت قراردیا اورآپؐ نے مومن مردوں کو حسب نسب،دولت اورحسن کے بجائے دیندار لڑکی سے شادی کرنے کی تلقین کی۔جس سے نکاح آسان ہوجاتاہے۔ آپؐ نے نکاح کے دوران رسم ورواج کی بیڑیوں کو توڑ کر رکھ دیا۔
شراب و نشہ آور ادویات پر پابندی:
شراب اور تمام نشہ آور ادویات کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ قرآن میں بھی شراب کی حرمت کا بیان آیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اسے حرام قرار دیا گیاہے۔ یہاں تک کہ جس چیز کی بڑی مقدار نشہ پیدا کرتی ہے، اس کی چھوٹی مقدار بھی حرام کردی گئی ہے۔ قرآن نے شراب کو ام الخبائث کہا ہے۔ یعنی برائیوں کی ماں اور جنسی جرائم سمیت تمام سماجی برائیوں کی ایک اہم وجہ نشہ خوری ہے۔ تفسیر ابن کثیر نے اس سلسلے میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو پابند کیا گیا کہ وہ تین برائیوں میں سے ایک برائی کا ارتکاب لازما کرے، وہ یا تو قتل کرے، زنا کرے یا پھر شراب نوشی۔ چونکہ وہ شخص نیک تھا، اس لیے اس نے سوچا کہ کیوں نہ سب سے چھوٹی برائی یعنی شراب نوشی کی جائے اور پھر اس نے شراب کے نشے میں زنا بھی کیا اور قتل بھی۔ اسی لیے اسلام نے اس پر سختی سے قدغن لگائی ہے۔
عورت کا سماجی کردار مگر کس حد تک:
اسلام نے عورت کو اپنی تعلیم اور صلاحیت کے مطابق سماج اور تمدن کی خدمات انجام دینے کی اجازت دی ہے۔ رسول ؐ کے زمانے میں خواتین مختلف معاشی سرگرمیاں انجام دیتی رہی ہیں۔ مگر عورت پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ گھر کی معیشت مرد کی ذمہ داری ہے اور اس پر یہ فرض بھی ہے کہ وہ بیوی کے اخراجات پورے کرے۔ معاشی وسماجی سرگرمیوں کی آزادی الگ چیز ہے اور معاشی ذمہ داریوں کا پابند بنادینا الگ چیز ہے، فرمایا: ’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں، اس لیے اللہ نے ان سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ مرد (ان) پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (النساء:۳۴) ’’ماؤں کا کھانا اور پہننا دستو رکے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۳۳) نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم معروف طریقے سے انھیں کھلاؤ، پلاؤ اور کپڑے پہناؤ۔‘‘ (مسلم جابر بن عبداللہؓ) لیکن اگر بیوی کماتی ہے تو اس پر شوہر یا سسرالی رشتے داروں کا کوئی حق نہیں ہے۔ عورت کی اصل ذمہ داری جس کے لیے وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، اس کا گھر ہے، اس سلسلے میں رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تم میں ہر ایک راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے۔‘‘ (بخاری)اسلام نے مرد وعورت کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے ان کی ذمہ داریاں طے کیں اور ان کا کام کا میدان مختلف رکھا ہے، اس لیے کہ عورت کی اصل ذمہ داری اس کا گھر ہے۔
فحاشی و عریانیت پر قدغن:
ولا تقربوا الفواحش کے حکم کے ساتھ اسلام نے تمام بے حیائیوں اور فحاشی کے کاموں سے دور رہنے کی تاکیدکی ہے۔ نہ صرف زنا بلکہ گندی تصویریں، گندہ لٹریچر، گندی گفتگو، گندی فلمیں، فحش اشتہارات، حتی کہ گندے خیالات، ہر طرح کے فواحش اسلام میں سخت منع ہیں۔ سورہ اعراف میں بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا۔ حضرت محمدؐ نے اس ضمن میں فرمایا:
’’آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، اور زبان کا زنا بولنا، اوردل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش کرتا ہے، شرمگاہ اس کی تکمیل کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘ (بخاری)
مومنین کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کو کہا ہے۔ بلکہ مومنین کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ (المومنون : ۵) آپؐ نے اس شخص کو جنت کی ضمانت دی جو دو چیزوں کی ضمانت دے، ایک زبان اور دوسری شرم گاہ۔ قرآن نے مومن مردوں کے لیے حضرت یوسفؑ اور مومن عورتوں کے لیے حضرت مریمؑ ، اور حضرت عائشہؓ جیسے بہترین اور پاکدامن رول ماڈل سامنے رکھے، اور مومنین کو اس سے تحریک اور حوصلہ دیا۔ اس طرح جنت کی حوروں کا تذکرہ بھی شرم گاہ کی حفاظت اور پاکدامنی کا محرک ہے۔ اور سب سے اہم چیز خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے کہ جس کے بغیر انسان کسی برائی سے نہیں بچ سکتا۔
اگر تمام اسبابِ زنا پر قابو پالیا جاتا ہے اور پھر بھی اس صالح معاشرہ میں کوئی اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی اور حالات کے مطابق اسے سنگسار (رجم) کیاجائے گا یا ۱۰۰ ؍کوڑے مارے جائیں گے۔ اتنی سخت سزاؤں کے بعد یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ برائیاں معاشرہ میں بڑھیں گی۔ مذکورہ بالا احکامات خداوندی کو دنیا میں عام کیا جائے تبھی بنت حوا امن و سکون سے رہ سکتی ہے اور ایک باعزت زندگی گزار سکتی ہے۔
ڈاکٹر عدنان الحق، کیمپس سکریٹری ایس آئی او مہاراشٹر نارتھ